آنکھ،آنکھیں

شمشاد

لائبریرین
آنکھ برسی ہے ترے نام پہ ساون کی طرح
جسم سلگا ہے تری یاد میں ایندھن کی طرح
(مرتضٰی برلاس)
 

شمشاد

لائبریرین
رہتا ہے وہ نظر میں چاہے کہیں بھی جائے
آنکھوں میں ایک چہرہ مرقوم ہو چکا ہے
(عتیق الرحمن صفی)
 

شمشاد

لائبریرین
رخصت کے دن بھیگی آنکھوں اس کا وہ کہنا ہائے قتیل
تم کو لوٹ ہی جانا تھا تو اس نگری کیوں آئے تھے
(قتیل شفائی)
 

شمشاد

لائبریرین
کتنے دھندلے ہیں یہ چہرے جنہیں اپنایا ہے
کتنی اُجلی تھیں وہ آنکھیں جنہیں چھوڑ آیا ہوں
(محسن نقوی)
 

شمشاد

لائبریرین
باتیں بس اتنی کہ لمحے انہیں آکر گِن جائیں
آنکھ اٹھائے کوئی اُمید تو آنکھیں چھن جائیں
(مصطفٰے زیدی)
 

راجہ صاحب

محفلین
یہ میری کتابِ حیات ہے، اسے دل کی آنکھ سے پڑھ ذرا
میں ورق ورق تیرے سامنے، تیرے روبرو تیرے پاس ہوں
 

شمشاد

لائبریرین
کارِ فرہاد سے یہ کم تو نہیں‌جو ہم نے
آنکھ سے دل کی طرف موڑ دیا پانی کو
(سعد اللہ شاہ)
 

راجہ صاحب

محفلین
وہی چراغ بجھا جس کی لو قیامت تھی
اُسی پہ ضرب پڑی جو شجر پرانا تھا
متاعِ جاں کا بدل ایک پل کی سرشاری
سلوک خواب کا آنکھوں سے تاجرانہ تھا
 

شمشاد

لائبریرین
آج کیا دیکھ کے بھر آئی ہیں تیری آنکھیں
ہم پہ اے دوست یہ ساعت تو ہمیشہ گزری
(احمد فراز)
 

شمشاد

لائبریرین
ہونٹوں سے نہ بولے گا پر آنکھوں کی زبانی
افسانے جدائی کے سنائے گا بہت وہ
(شاعر اعتبار ساجد)
 

شمشاد

لائبریرین
تجھ پہ کھل جاتی مری روح کی تنہائی بھی
میری آنکھوں میں کبھی جھانک کے دیکھا ہوتا
(ن م راشد)
 
Top