ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
بہت شکریہ بھائی! بڑی نوازش! اللہ آپ کو خوش رکھے۔بہت خوبصورت کلام ہے۔ اللہ آپکو عافیت و سلامتی سے رکھے۔اگر اجازت ہو تو کیا بطور طالب علم ایک سوال کر سکتا ہوں۔ کیا شاعری کو اخبار کی طرح ہونا چاہیے کہ جو دیکھا بیان کیا یا کسی عمدہ محقق کی مسائل حل کرتی ہوئی کتاب کی طرح؟ میں نے یہ اس لیے پوچھا کہ لوگ خبر سے زیادہ امید افزا خبر کے متلاشی ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ اگر میں سوال صحیح طریقے سے نہ پوچھ پایا ہوں تو اسے میری کم علمی پر محمول کیجیے گا۔
میں آپ کے سوال کی تہہ تک پہنچ گیا ۔معاشرے میں شاعر کا کردار کیا ہونا چاہئے؟ یہ سوال بہت ہی قدیم ہے ، تفصیلی بحث کا متقا ضی ہے اور ان گنت تنقیدی مضامین اورکتب کا موضوع رہا ہے ۔ مختصراً عرض کرتا ہوں کہ شاعر معاشرے کی وہ آنکھ ہوتا ہے کہ جو شخصی اور معاشرتی مسائل کو سطح سے نیچے گہرائی میں جاکر دیکھتا ہے اور پھر دوسروں کو دکھاتا بھی ہے ۔ کسی مسئلے کا ادراک اور اس کا عتراف مسئلے کے حل کی طرف پہلا قدم ہوتا ہے ۔ اس ادراک اور اعتراف کے بغیر تو حل کی کوشش بھی نہیں کی جاسکتی۔ چنانچہ کسی شخصی یا معاشرتی مسئلے کا بیان بذاتِ خود اس کے حل کی طرف پہلا قدم ہے اور اس کی اہمیت کسی طور کم نہیں ۔ مسئلے کو اجاگر کرنا بذاتِ خود معاشرے کے مختلف طبقات میں غور و فکر اور مکالمے کو جنم دیتا ہے ۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ شاعر کسی مسئلے کو بیان کرنے کے فوراً بعد ہی اُسی شعر میں اس کا واضح حل بھی بیان کرے۔ اکثر یوں ہوتا ہے کہ مسئلے کا تجزیہ کرکے اس کی تہہ میں کارفرما عوامل کو بیان کردینا ہی کافی ہوتا ہے کہ اس کے بعد حل خود بخود سامنے آجاتا ہے ۔ اسے لفظوں میں بیان کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔ بعض اوقات مسئلہ کسی ایک شعر میں بیان ہوا ہوتا ہے اور اس کا حل کسی دوسرے شعر میں ۔
شاعر خبر رساں نہیں بلکہ وہ تو استعارات اور علامات کی مدد سے ان مسائل کے اسباب تک پہنچتا ہےکہ جنہیں صحافی معروضی اور سطحی طور پر بیان کردیتے ہیں ۔ صحافی واقعے کو اسی طرح بیان کرتا ہے کہ جیسے وقوع ہوا اور سب دیکھنے والوں کو نظر آیا ۔ "پانچ افراد علاج نہ ملنے کی وجہ سے مرگئے" ایک سطحی سی خبر ہے ۔ شاعر اسی خبر کے جذباتی پہلوؤں پر بات کرتا ہے ۔ معاشرے کے ضمیر کو جھنجوڑتا ہے ۔ اس واقعے کی تہہ میں کارفرما ان عوامل کی نشاندہی کرتا ہے کہ جو اس واقعے کے ظہور کا سبب بنے ( مثلاً معاشی ناہمواری ، طبقاتی تقسیم ، مذہبی منافرت ، لاقانونیت ، عدم احساسِ ذمہ داری وغیرہ )۔
باقی رہی یہ بات کہ پڑھنے والے امید افزا باتیں پڑھنا چاہتے ہیں تو جواب اس کا یہ ہے اچھی شاعری اور ادب ہی لوگوں کو حوصلہ فراہم کرتے ہیں ۔ انتخاب شرط ہے ۔ مانا کہ اردو شاعری اور بالخصوص غزل عام طور پر حزن و یاس سے بھرپور ہے لیکن سارے شاعر ایسے نہیں ۔ میرے کلام میں آپ کو رجائیت ہی نظر آئے گی کہ میں اسی نظریے کا قائل ہوں ۔
اس سے زیادہ اب اس موضوع پر کچھ نہیں کہہ سکتا ۔ جیسا کہ عرض کیا اس موضوع پر تو تنقیدی ادب کتابوں سے بھرا پڑا ہے ۔