آنکھیں - سارا شگفتہ

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

شیلی بیٹی



تُجھے جب بھی کوئی دُکھ دے
اُس دُکھ کا نام بیٹی رکھنا
جب میرے سفید بال
تیرے گالوں پہ آن ہنسیں ، رو لینا
میرے خواب کے دُکھ پہ سو لینا
جن کھیتوں کو ابھی اُگنا ہے
اُن کھیتوں میں
میں دیکھتی ہوں تیری انگیا بھی
بس پہلی بار ڈری بیٹی
مَیں کتنی بار ڈری بیٹی
ابھی پیڑوں میں چُھپے تیرے کماں ہیں بیٹی
میرا جنم تُو ہے بیٹی
اور تیرا جنم تیری بیٹی
تُجھے نہلانے کی خواہش میں
میری پوریں خُون تُھوکتی ہیں




-
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


رنگ چور​

لو شام ہو رہی ہے
اور اُس نے ہمارے چہرے چوری کرنے شروع کر دئے ہیں
تم چھوٹے چور ہو
میں چھوٹا چور نہیں
سمندر میں اُترا
تو سمندر نے میرے کپڑوں کا کوئی رنگ نہ چُرایا
ہاں تھوڑے سے میرے سانس ضرور
اُس نے چوری کر لئے تھے
معلوم ہوتا ہے یہ بھی چور ہے
تم نے کبھی مٹی میں غوطہ لگایا ہے
مٹی چوری کرنا بڑا مشکل کام ہے
افر میں نے مٹی میں غوطہ لگایا
تو وہ میرے سارے سانس چوری کر لے گا
تو پھر یہ بندہ چور چور نہیں رہے گا
راستے میں تو کئی راہیں رنگی ہوں گی
اور اَن دیکھے نے بعض جگہ
ایک ہی رنگ رنگا ہوا ہے
تم غاروں کے رنگ چوری کر سکتے ہو
سچ پُوچھو تو سب سے بڑا رنگ چور سُورج ہے
رنگ تک پہنچتے پہنچتے یہ تمہیں کئی رنگ دکھا جائے گا
دیکھنا آئینے میں ہماری آنکھیں ایک سی تو نہیں لگ رہیں !
کبھی ہوا کو بھی شیشہ کہتے ہیں
دیکھ !
ہوا تیرے کپڑے بھی پکڑ رہی ہے اور میرے بھی
کہیں یہ بھی تو چور نہیں

تم چوری کرنے نکلے ہو کہ رنگ ہونے
دیکھو !
سمندر جب سطح پر آتا ہے
تو سفید ہو جاتا ہے
اور ہوا جب پیڑوں پر چڑھ
ناچتی ہے تو ہری ہو جاتی ہے
آدمی جب روتا ہے اپنے آنسو ؤں میں ڈوب جاتا ہے
اُس وقت تم آدمی کا کوئی رنگ چوری نہیں کر سکتے
بتاؤ
آسمان کا رنگ زمین پر کیسے اُترا
تمہیں اتنی باریکیاں بت دوں
تو خود ہی چوری ہو جاؤں
چوری کرو پہلے اس پتھر کا رنگ بھی
اِس کو جتنا توڑتا ہوں
ایک ہی رنگ کی آواز دیتے ہیں یہ پتھر
اور رنگ چُورہ چُورہ ہو جاتے ہیں
پانی بھی اپنا رنگ نہیں نکال رہا
کہیں یہ بھی روتا ہوا آدمی تو نہیں
ٹُوٹے پُھول کی گفتگو بھی خنجر ہو گئی ہے
جو پُھول شام میں توڑے تھے
اُنہیں رات کے اندھیروں نے کالا کر دیا ہے

آہستہ آہستہ چلو
ہماری آہٹ پا کر کوئی رنگ چُھپ نہ جائے
یہ آگ بُجھ نہیں سکتی
آگ بُجھ گئی تو تم چور نہیں رہو گے
اندھیرے روشنیاں چوری کرتے ہیں
یہ خود چور ہوتے ہیں ۔۔۔
میں نے چوری نہ کی تو میرا گھر بے انگارہ رہ جائے گا
میری روٹی کا رنگ سفید پڑ جائے گا
میری بُھوک رنگ رنگ پُکارے گی
مجھے ٹُوٹے پُھولوں کے پاس لے جائے گی
اور پُھول جانتے ہیں کہ میں چور ہوں
جب آنکھوں کی کینچلی چوری ہو جاتی ہے
انسان ایسے ہی رنگ چوریاں کرنے نکل کھڑا ہوتا ہے

میں نے سمندر کا رنگ چُرایا تھا تو فرش بنایا تھا
آنکھوں کے رنگ چُرائے تھے تو دیواریں بنائی تھیں
سُورج کا رنگ چُرایا تھا تو چُولہا بنایا تھا
چُغلی کا رنگ چُرایا تھا تو کپڑے سِلوائے تھے
اور جب آگ کا رنگ چوری کیا
تو میری روٹی کچی رہ گئی
پتھر خاموش ہو جاتے ہیں
اور دیئے کی لَو

خلا کو پھر سے جلانا شروع کر دیتی ہے


-
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


اے میرے سر سبز خُدا



بین کرنے والوں نے
مجھے اَدھ کُھلے ہاتھ سے قبول کیا
انسان کے دو جنم ہیں
پھر شام کا مقصد کیا ہے
میں اپنی نگرانی میں رہی اور کم ہوتی چلی گئی
کتوں نے جب چاند دیکھا
اپنی پوشاک بُھول گئے
مَیں ثابت قدم ہی ٹُوٹی تھی
اب تیرے بوجھ سے دھنس رہی ہوں
تنہائی مجھے شکار کر رہی ہے
اے میرے سرسبز خُدا
خزاں کے موسم میں بھی مَیں نے تجھے یاد کیا
قاتل کی سزا مقتول نہیں
غیب کی جنگلی بیل کو گھر تک کیسے لاؤں
پھر آنکھوں کے ٹاٹ پہ مَیں نے لکھا
میں آنکھوں سے مرتی
تو قدموں سے زندہ ہو جاتی

۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


آنکھیں دو جُڑواں بہنیں



جب ہمارے گُناہوں پہ وقت اُترے گا
بندے کھرے ہو جائیں گے
پھر ہم توبہ کے ٹانکوں سے
خُدا کا لباس سیئیں گے
تُم نے سمندر رہن رکھ چھوڑا
اور گھونسلوں سے چُرایا ہوا سونا
بچے کے پہلے دن پہ مَل دیا گیا

تُم دُکھ کو پیوند کرنا
میرے پاس اُدھار زیادہ ہے اور دوکان کم
آنکھیں دو جُڑواں بہنیں
ایک میرے گھر بیاہی گئی دُوسری تیرے گھر
ہاتھ دو سوتیلے بھائی
جنھوں نے آگ میں پڑاؤ ڈال رکھا ہے



۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


سنگِ میل پہروں چلتا ہے

آسمان کے سینے میں غم چرخا کات رہا ہے
سنگِ میل
پہروں چلتا ہے اور ساکت ہے
رات مُجھ سے پہلے جاگ گئی ہے
لباس پر پڑے ہوئے دھبے
میرے بچوں کے دُکھ تھے
میرے لہو کو تنہائیاں چاٹ رہی ہیں
شہر کی منڈیر سے تنکے چُرائے تھے
سُورج نے دُکھ بنا دئے
میرے سپنوں کا داغ آنکھیں ہیں
میری قبر مُجھے چُھپ کر دیکھ رہی ہے


۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


پرندے کی آنکھ کُھل جاتی ہے

کسی پرندے کی رات پیڑ پر پَھڑپھڑاتی ہے
رات ، پیڑ اور پرندہ
اندھیرے کے یہ تینوں راہی
ایک سیدھ میں آ کھڑے ہوتے ہیں
رات اندھیرے میں پھنس جاتی ہے
رات تُو نے میری چھاؤں کیا کی !
جنگل چھوٹا ہے
اِس لئے تمہیں گہری لگ رہی ہوں
گہرا تو میں پرندے کے سو جانے سے ہوا تھا
میں روز پرندے کو دلاسہ دینے کے بعد
اپنی کمان کی طرف لوٹ جاتی ہوں
تیری کمان کیا صبح ہے
میں جب مری تو میرا نام رات رکھ دیا گیا
اب میرا نام فاصلہ ہے
تیرا دوسرا جنم کب ہوگا
جب یہ پرندہ بیدار ہو گا
پرندے کا چہچہانا ہی میرا جنم ہے
فاصلہ اور پیڑ ہاتھ ملاتے ہیں
اور پرندے کی آنکھ کُھل جاتی ہے



۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


چراغ جب میرا کمرہ ناپتا ہے

چراغ نے پُھول کو جنم دینا شروع کر دیا ہے
دُور ، بہت دُور میرا جنم دن رہتا ہے
آنگن میں دُھوپ نہ آئے تو سجھو
تم کسی غیر آباد علاقے میں رہتے ہو
مٹی میں میرے بدن کی ٹوٹ پُھوٹ پڑی ہے
ہمارے خوابوں میں چاپ کون چھوڑ جاتا ہے
رات کے سناٹے میں ٹوٹتے ہوئے چراغ
رات کی چادر پہ پھیلتی ہوئی صبح
میں بکھری پتیاں اُٹھاتی ہوں
تم سمندر کے دامن میں
کسی بھی لہر کو اُتر جانے دو
اور پھر جب انسانوں کا سناٹا ہوتا ہے
ہمیں مرنے کی مہلت نہیں دی جاتی
کیا خواہش کی میان میں
ہمارے حوصلے رکھے ہوئے ہوتے ہیں
ہر وفادار لمحہ ہمیں چُرا لے جاتا ہے
رات کا پہلا قدم ہے
اور میں پیدل ہوں
بیساکھیوں کا چاند بنانے والے
میرے آنگن کی چھاؤں لُٹ چکی
میری آنکھیں مَرے ہوئے بچے ہیں
اور پھر میری ٹوٹ پُھوٹ
سمندر کی ٹوٹ پُھوٹ ہو جاتی ہے
میں قریب سے نکل جاؤں
کوئی سمت سفر کی پہچان نہیں کر سکتی
شام کی ٹوٹی منڈیر سے
ہمارے تلاطم پہ
آج رات کی ترتیب ہو رہی ہے
مسافر اپنے سنگِ میل کی حفاظت کرتا ہے
چراغ کمرہ ناپتا ہے
اور غم میرے دل سے جنم لیتا ہی ہے
زمین حیرت کرتی ہے
اور ایک پیڑ اُگا دیتی ہے



۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

چاند کا قرض
ہمارے آنسوؤں کی آنکھیں بنائی گئیں
ہم نے اپنے اپنے تلاطم سے رسہ کشی کی
اور اپنا اپنا بین ہوئے
ستاروں کی پُکار آسمان سے زیادہ زمین سُنتی ہے
میں نے موت کے بال کھولے
اور جُھوٹ پہ دراز ہوئی
نیند آنکھوں کے کنچے کھیلتی رہی
شام دوغلے رنگ سہتی رہی
آسمانوں پہ میرا چاند قرض ہے
میں موت کے ہاتھوں میں ایک چراغ ہوں
جنم کے پہیے پر موت کی رتھ دیکھ رہی ہوں
زمینوں میں میرا انسان دفن ہے
سجدوں سے سر اُٹھا لو
موت میری گود میں ایک بچہ چھوڑ گئی ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


نثری نظم


شاعری جھنکار نہیں جو تال پر ناچتی رہے
گیا وقت
جب خواجہ سرا ٹُوٹی کمان ہوتے تھے
اور موت پر تالیاں پیٹا کرتے تھے
پازیب پہن کر میدان میں نہیں بھاگ سکتے
یہ کہیں بھی ساتھ چھوڑ سکتی ہے
غار میں چُنی چُنائی جگہ ہے
دار ہے ، بامشقت قیدی ہے

لیکن نظم میں نہ غار ہے
نہ دار ہے ، نہ مشقت ہے
پھر بھی ایک قید ہے ۔۔۔
جب ہم زمینوں کو پڑھنے نکلتے ہیں
تو چرند پرند کی ضرورت نہیں رہتی
انسان کی پہلی آنول نال اذیت ہے
کھیل تو کھلنڈرا ہی رہتا ہے


۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


ڈال کتنے رنگ بوئے گی

کون جانے ڈال کتنے رنگ بوئے گی
پر ہماری قبر ہمیں بوتی نہیں
ورنہ گدائی کے طور پر
کشکول اور رات میں سمجھوتہ ہو چکا تھا
اجل کی ڈبیا میں خواہش بند ہے
سارے موسم مجھ سے شروع ہوتے ہیں
زمین دریاؤں کا کھوج لگانے کو چلی
میں اپنے رب کا خیال ہوں
اور مری ہوئی ہوں


۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


قرض

میرا باپ ننگا تھا
میں نے اپنے کپڑے اُتار کر اُسے دے دئے
زمین بھی ننگی تھی
میں نے اُسے
اپنے مکان سے داغ دیا
شرم بھی ننگی تھی
میں نے اُسے آنکھیں دیں
پیاس کو لمس دئے
اور ہونٹوں کو کیاری میں
جانے والے کو بو دیا
موسم چاند لئے پھر رہا تھا
میں نے موسم کو داغ دے کر چاند کو آزاد کیا
چتا کے دُھویں سے میں نے انسان بنایا
اور اُس کے سامنے اپنا من رکھا
اُس کا لفظ جو اُس نے اپنی پیدائش پر چُنا
اور بولا !
میں تیری کوکھ میں ایک حیرت دیکھتا ہوں
میرے بدن سے آگ دُور ہوئی
تو میں نے اپنے گناہ تاپ لئے
میں ماں بننے کے بعد بھی کنواری ہوئی
اور میری ماں بھی کنواری ہوئی
اب تم کنواری ماں کی حیرت ہو
میں چتا پہ سارے موسم جلا ڈالوں گی
میں نے تجھ میں رُوح پھونکی
میں تیرے موسموں میں چُٹکیاں بجانے والی ہوں
مٹی کیا سوچے گی
مٹی چھاؤں سوچے گی
اور
ہم مٹی کو سوچیں گے
تیرا انکار مجھے زندگی دیتا ہے
ہم پیڑوں کے عذاب سہیں
یا
دُکھوں کے پھٹے کپڑے پہنیں


۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


ہونٹ میرے گداگر

زمین میری تھکن سے بھی چھوٹی ہے
لگام سفر سے زیادہ ہے
سو بے ارادہ ہے
میں بہت ہنسنا چاہتی ہوں
لیکن پھر شاید میرے ہونٹ جھوٹے ہو جائیں
میں تو اُسی وقت ڈر گئی تھی
جب میرا باپ میری ماں کے ساتھ
قہقہہ لگانے میں مصروف تھا
سارے قدم رُخصت ہو چکے تھے
اور ساری آنکھیں بھنبھنا رہی تھیں
میں آواز کا بدن توڑتی ہوں
میں کتنے گاروں سے بنی تھی
کون خوف کے کنویں کھود جاتا ہے
تمہیں دیکھ کر تو مجھے اپنی پستیاں یاد آجاتی ہیں
لہو کی ٹھیکری ہی میرے کھیل بگاڑتی ہے
اور چھاؤں سے سُورج اُڑ جاتا ہے
میرا آخری قیام ہے اور لوگ رازداری میں مصروف ہیں
میں مکمل طور پر ہنس چکی ہوں
بدن کا چاک در نہیں داغ سکتا
وہ چائے کی پیالی آج تک مَیں نہیں اُنڈیل سکی
جو مُردہ دودھ سے بنائی گئی تھی
صبح و شام پرندے بدن سے اُڑتے ہیں
اور رات بھر پرواز میں سوتے ہیں
عالموں نے میری فال نکالی
اور میرا نام سرائے رکھا
دُنیا ہر ایک فرد کے بعد تیسری ہوتی ہے
اور دوسرا فرد غائب ہو جاتا ہے

سائے زمین کا مذہب تھے
اور پانیوں میں بَل ڈالنے کے بعد
رَسّی زمین پہ رہن رکھ دی جاتی ہے
مجھے دیکھنے سے پہلے یہ سارے لوگ شفاف تھے
پھر میں نے ان کا خمیر گوندھا اور نمک سے کہا چکھ
آگ کی تلاش میں میرے کئی چراغ بچھڑ گئے
وفاداری کی گلیوں میں کُتیا کم
اور کُتا زیادہ مشہور ہے
مالکوں کو میں اپنے فٹ پاتھ کا نمبر لکھ دوں
کہ سرِ شام سورج انکار کرنے لگتا ہے
میرے گھر کی سلاخوں سے
کتنے کتوں کی زنجیریں بنتی ہیں
میں اپنی تلافی میں تمہیں شریک نہیں کروں گی
انسان دوسری غلطی کبھی نہیں کرتا
میں پھر خُدا کو تیسری بار دُہراتی ہوں
کھلونے کا مقدر زیادہ سے زیادہ ٹوٹ جانا ہے



پانیوں کی بدی

پانیوں کی کمانیں
کیا سمندر شکار کرتی ہیں
میں چاند بھر روتی ہوں
اور رنگ ساز کے پاس سوتی ہوں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


دو گُھونٹ پیاس اور

بُھوک کے چُھونے سے وہ بیدار ہوئی
ٹہنیوں کے ٹوٹنے کی صدا پہ
دو گُھونٹ پیاس اور
خُدا بُھوک کے بھی کتنے ذائقے رکھتا ہے
مالی ! وہ پُھول میری گُڑیا کے رنگ کا ہے
اور سُورج مکھی میں تو تُو نے میرے بال بو رکھے ہیں
کالے گُلاب جیسے میرے جُوتے ہیں
اور یہ سُفید پُھول میری روٹی کے رنگ کا ہے

۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


کوئی کپڑے کیسے بدل گیا


میں اپنے لباس پھینکتی جا رہی ہوں
شاید کوئی ٹھٹھر رہا ہو
کل تمہیں بانٹ دے گی
اور مٹی پہ کوئی سیدھی راہ نہیں ہے
چراغ نے چغلی سیکھی
اور قطار میں فاصلہ رکھا
وہ وہیں رہ گیا جہاں سے مجھے چلنا تھا
داغ کس کی چتا پہ جلیں گے
ٹُوٹے کھلونے ہاتھوں سے آزاد ہیں
کھیل میدانوں میں رہنے لگے
بِین رسیوں پہ بجائی جانے لگی
پرندوں کے چہچہانے میں بل پڑ گئے ہیں
میں کفن ہارنے چلی تھی
اور مٹی دریافت کر بیٹھی
دیواروں پہ اینٹیں مرنے لگیں
میں اُتری ہوں
تمہارے قدم کیوں گھٹ رہے ہیں
دار نے رہائی پائی کوئی نئی سزا تقسیم کرو
لہو میں آواز رہ گئی
کوئی کپڑے کیسے بدل گیا

۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


موت کی تلاشی مت لو



بادلوں میں ہی میری تو بارش مرگئی
ابھی ابھی بہت خوش لباس تھا وہ
میری خطا کر بیٹھا
کوئی جائے تو چلی جاؤں
کوئی آئے تو رُخصت ہو جاؤں
میرے ہاتھوں میں کوئی دل مر گیا ہے
موت کی تلاشی مت لو
انسان سے پہلے موت زندہ تھی
ٹوٹنے والے زمین پر رہ گئے
میں پیڑ سے گرا سایہ ہوں
آواز سے پہلے گھٹ نہیں سکتی
میری آنکھوں میں کوئی دل مر گیا ہے
 
Top