آنکھیں - سارا شگفتہ

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


آتش دان



آتش دانوں سے
اپنے دہکتے ہوئے سینے نکالو
ورنہ آخرِ دن
آگ اور لکڑی کو اشرف المخلوقات
بنا دیا جائے گا



۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


آنکھوں کے دھاگے



میں جو چوراہے پہ کھڑی
اپنی کمان کی طرف لوٹنا چاہتی ہوں
وہ جو لہو میں پھنسا
کچھ اور جینا چاہتا ہے
سایہ جیسے کسی دیوار کے ساتھ شامل ہو گیا ہو
پانیوں میں جیسے الم ٹھنڈے ہو رہے ہوں
تم کہ شام کے سُورج سے دُھوپ چُراتے ہو
میں کہ صُبح کی رات بھی چُرا لیتی ہوں
اور تھکا ماندہ صبح کا تارہ
جب سارے آسمان پہ اکیلا ہوتا ہے
اُسی وقت کی قدر کرتی ہوں
تو دھرتی کا ایک دن
میری عمر کا ایک حصہ کاٹ ڈالتا ہے

۔



۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


باہر آدھی بارش ہو رہی ہے


آئینے کو شُمار مت کرو
وہ ایک قدم چل نہیں سکتا
قدم اور آئینے کا تعلق
جھانکنا ہے تو آنکھ سے جھانکتے
کمرے کے باہر دن کیا ہے
باہر سر سبز پہاڑیوں کا طعنہ ہے
باہر آدھی بارش ہو رہی ہے
بالوں میں کوئی گرہ نہیں رہتی
وقت رہتا ہے
کمرے کے اندر دن کیا ہیں
آواز مِلا کر کوئی صدا مت دینا
دیواروں پر چوری ہونے لگے
تو اس کا مطلب ہے
ہم دونوں محفوظ نہیں
ہوائیں زمین کی کنگھی کر رہی ہیں
۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


مجھے پتھر کی آنکھ مت دینا




دو صدائیں
ایک زمین چُرا رہی ہے اور ایک انسان
مجھے میری آنکھ چُرا رہی ہے
میں مر رہی ہوں
سرگوشی میں بند انسان
اپنا لمحہ زنجیر کرتا ہے
اور اپنے دل کی گرہ کو چادر کرتا ہے
ساری منڈیریں
اُدھاری آنکھیں ہیں
سارے موسم مجھ سے شروع ہوتے ہیں
دیکھنے والو
مجھے پتھر کی آنکھ مت دینا


۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


رات چُٹکی بجاتی ہے دن کی پور سے



پیڑوں کی پائل ہوا پہنے
دریا کو ساکت کئے دیتی ہے
اور پھر سمندر نے کہا
کناروں کی گود میں مَیں ایک سفر ہوں
رسی کا جہاز ڈُوب چکا
اور لہریں جالوں کا
اعتبار قائم کئے ہوئے ہیں
پھر یہ پتھروں کو دیکھتی لہریں
گم ہو جاتی ہیں گہرے ساکت ہجوم میں
رات چُٹکی بجاتی ہے دن کی پور سے
وقت لے کر آنے لگے
جن کے پاؤں چُرا لئے گئے
اور بِین دریاؤں پر بجائے جانے لگی
ہم اپنی شرمگاہوں میں چُھپے بیٹھے تھے
کہ دُوسروں کی آنکھیں اُلٹ پلٹ کر دیکھنے لگے
بازوؤں اور ٹانگوں میں پیروں کا فاصلہ ہے
میں نے ایک پاؤں کاٹا
اور ایک سنگِ میل بنا دیا


۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


میں اپنی دیوار کی آخری اینٹ تھی




اُس نے آخری برتن گنا
اور میری پیاس بتا دی
کبھی میں اُسے کھوتی کبھی وہ مجھے ڈھونڈ لیتا
زمینی بازگشت سے دُکھوں کو زبان مل گئی
میرا مکان خالی پڑا تھا
اور میں پڑوس میں رہ رہی تھی
کہ سمندر کے کچے راستوں کی مجھے خبر ہو گئی
میں اپنے مکان کی آخری اینٹ تھی
وہ مجھ سے ٹوٹ گرے تھے
جن کے لباس میرے برابر ہو گئے تھے
وہ مجھےمہنگی آنکھ سے دیکھ رہے تھے
اور کرن کا درد شدید تھا

وہ میرے تھے اور ہاں کہہ گئے تھے
ہمارے درمیان زمین سو گئی تھی
وہ نیند میں گُنگنا رہے تھے
اُس نے مجھے سُورج کے دو رنگ گنوائے
تو میں اُس کا چاند بُوجھ گئی
رات دیواروں میں رہنے لگی
پھر سُورج کبھی نہ لوٹا
میں اپنی آنکھیں سینک رہی تھی
کہ پتھر چٹخ گئے
اور دروازوں کی طرف دیواریں بڑھ گئیں
میں لہُو میں گُھل مل گئی تو آنکھ بول اُٹھی
پُھول چُن لیتی تو مٹی کا دیدار کیسے کرتی
پگڈنڈی پُکاری
سنگِ میل جُھوٹا ہے
آنکھ کے پاس ہے سیدھی راہ
وہ میری آنکھوں کے ہمبستر تھے
من سا مَنکا کہاں رکھتی
میری رات انسان خرید لائی ہے ، چُپ مت رہنا
منڈیروں پر دوپٹے سُکھانے والیاں کیا گھر میں ہیں
سُورج کسی کی کیاری ہے
چاند دو گھونٹ پیاس اور
ہاتھ جھٹک کر میں تو پیدل چل نکلی
جنگل رکھتی ہوں ، مجھے اپنی اپنی بولیاں تو دو


۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین



چاند کتنا تنہا ہے


پنجرے کا سایہ بھی قید ہے
لباس کا سایہ میں ہوتی جا رہی ہوں
میرے ہاتھ دوسروں میں بس رہتے ہیں
مٹی اکیلی ہو گئی ہے
اکیلا دریا سمندر کیوں گیا
فیصلہ کتنا تنہا ہے
رُوٹھ رُوٹھ جاتی ہوں مرنے والوں سے
اور جاگ اُٹھتی ہوں آگ میں
گونج رہی ہوں پتھر میں
ڈُوب چلی ہوں مٹی میں کون سا پیڑ اُگے گا
میرے دُکھوں کا نام بچہ ہے
میرے ہاتھوں میں ٹُوٹے کھلونے
اور آنکھون میں انسان ہے
بے شُمار جسم مجھ میں آنکھیں مانگ رہے ہیں
میں کہاں سے اپنی ابتدا کروں
آسمانوں کی عُمر میری عُمر سے چھوٹی ہے
پرواز زمین نہیں رکھتی
ہاتھ کس کی آواز ہیں
میرے جُھوٹ سہہ لینا
جب جنگل سے پرندوں کو آزاد کر دو

چراغ کو آگ چکھتی ہے
میں ذات کی منڈیر پر کپڑے سُکھاتی ہوں
میرے فاصلے میں آنکھ ہے
میرے لباس میرے دُکھ ہیں
میں آگ کا لباس پہننے والی
اپنی چھاؤں کا نام بتاؤں
میں تمام راتوں کے چاند تمہیں دیتی ہوں


۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


بیساکھیاں



بیساکھیوں میں لگی آگ
کون جانے زندہ کون ہے
گھڑی یا وقت
ہڈیوں کی بیساکھیوں پر جذبے اُترے
اور ایک بیساکھیِ دل جو جلتی رہتی ہے
دُکھ کی تلاشی رہتی ہے
کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پہ جو جذبے جل رہے ہیں
اپنی بیساکھیاں بُھول گئے ہیں
اور تم جو مجھے گن رہے ہو
اپنی بیساکھی بھُول رہے ہو
رُوح کی تن آسانی سے بیساکھیوں کا پیمان باندھا
اور مجھے کہا ۔۔۔
تو ساری بیساکھیاں میری طرف دیکھنے لگیں
دیپ کے من میں جو بیساکھی جل رہی ہے
وہ میرا دل تھا
بیساکھی جو مُردہ پیڑ سے بنائی گئی ہے
کتنے سچے موسم رکھتی ہے ۔۔۔


۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


میرے تینوں پُھول پیاسے ہیں


ماں کے آنسو اب زمیں پہ گرنے لگے ہیں
اور لوگ ہنسنے لگے ہیں
میرے پاس اور بھی موت کے سات روز ہیں
الوداع کیا ایسی ہوتی ہے !
کہ میرا ہاتھ تھمنے والا ہے
میری قمیض کے دھاگوں سے داستانیں لکھی جائیں گی
رونا مت ، میرا لہُو بہت اُداس تھا
میرے کتبے پہ پُھولوں کو دُہرانا مت
اُڑ جانے والی آنکھیں کہیں نہ کہیں تو بس رہی ہوتی ہیں
پگلی میں نہیں اُس کا قدم تھا
جو میرے لہُو میں داخل ہو گیا تھا

کاش میں آنکھیں تمیں باندھ کر دے سکتی
سب سے زیادہ فضول خرچ آنکھ ہوتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے تو بہت ہنسی بانٹی تھی
یہ میرے ہونٹوں سے کیسے گِر گئے ۔۔۔۔۔
کون میرے نام کی روٹی دے کر بُھوکا رہتا ہے
کون مجھے کاندھا دے کر گذر جاتا ہے
میرے گجرے کے تین پُھول پیاسے ہیں ۔۔۔

اس سے پہلے کہ میں مٹی میں رچ جاؤں
میرے ساتھ انصاف کرنا ۔۔۔۔۔۔
میرے راستوں کی بُھول مجھے معاف کرنا
کہ کنویں میں ڈولتی رسی جل تو سکتی ہے
پیاس نہیں بُجھا سکتی
کِس کِس کے ہاتھ پہ آنکھیں رکھ دُوں
اور کِس کِس کو الوداع نہ کہوں


۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


قید خانہ شروع ہوتا ہے


انسان وہ ہے جو بدی کو بھی ایمانداری سے خرچ کرے
ہمارا آدھا دھڑ نیکی ہے اور آدھا دھڑ بدی ہے ۔۔۔
لفظ بڑا آدم خور ہوتا ہے
تم سے ایک قید خانہ شروع ہوتا ہے ۔۔۔
میرے لب ہلتے تو لوگ ہنستے
مگر میری کٹھ پُتلی مجھ سے خوش تھی ۔۔۔۔
میں پلو سے پیسے چُراتی رہی
میں نے یہ پیسے کبھی خرچ نہیں کئے ، خیرات کر دئے
میں نے مول صراحیاں بھریں
پیاس مجھے مہنگی پڑی ۔۔۔۔
بتانے والوں نے بتایا
تیری کوکھ سے پیدا ہونے والے تیرے صبر سے مر گئے
اور سخی لونڈی مُلک بدر کر دی گئی
جب سے سمندر قریب رہنے لگا ہے
محلے کے بچے دُور تک نہیں جاتے ۔۔۔
ان کی مائیں انہیں بتاتی ہیں
کہ کھیل سے زیادہ گیند مہنگی ہوتی ہے
بتانے والوں نے بتایا
تمہاری ماں کھانس رہی ہے
اور دوا سے خالی شیشی تک چار آنے میں آتی ہے
اُس کا دُکھ یا تو میں ہُوں
یا کسی بھی علاقے کی کوئی ایک قبر
ناگ منی کا بھی ایک تہوار ہوتا ہے
لیکن میں اتنی زہریلی ہو چکی ہوں
کہ اپنے من کے گرد نہیں ناچ سکتی ۔۔۔
مور اپنے پاؤں دیکھ کر روتا ہے
میں اپنے انسان دیکھ کر روتی ہوں۔۔۔
اِن کھیتوں کی اُجرت ہی ہماری بُھوک ہے
جوتی کے ٹُوٹنے پہ ایک کیل ٹھونک دی جاتی ہے
اور ایک سفر ایجاد کر دیا جاتا ہے ۔۔۔۔
کسی بچے کو سوچ کے فن پارے ادا کرنے ہوں گے
اور کوئی ٹکسال بہہ جائے گا ۔۔۔۔
سورج نکلنے سے پہلے
اس محلے کا نام تبدیل ہو جائے گا
اور سنگِ میل پہ بچوں کی عمر لکھ دی جائے گی

میں بھی پہلے پیڑوں کی طرح سوچا کرتی تھی
جانے والے کو مبارکباد دیتی تھی
اور آنے والے کو الوداع ۔۔۔
سلاخ تراشو کہ قید کا نیا مفہوم سامنے آئے


۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


گھڑی جو دیوار ہو چکی تھی


تمہارا دوسرا سراپا !
میری ماں فوت ہوچکی ہے ۔۔۔۔
میرے دوست سمندر !
میرے بٹن تیرے سینے میں کہیں دفن ہو گئے
میرے آنگن کے پودے کی قمیض میں
کسی نے بٹن ٹانک دیئے
پودا بڑھ گیا میری دیوار چھوٹی پڑ گئی
جیسے میرے سراپے کو نئی اور پُرانی گھڑیوں کی
سُوئیوں سے سی دیا گیا ہو
پُرانی گھڑی کی سُوئی
اور چادر کے تار سے بٹن لگاتی ہوں
تمہاری چادر کے دو تار کم ہو گئے
یہ چادر بھی لے لو اور پُرانی گھڑی کی سُوئیاں بھی ۔۔۔
اور گھڑی جو دیوار ہو چکی


۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


پانیوں کے دھاگے


میں جو چوراہے پہ کھڑی
اپنی کمان کی طرف لوٹنا چاہتی ہوں
وہ جو لہُو میں پھنسا
کچھ اور جینا چاہتا ہے ۔۔۔۔
میرا سایہ جیسے کسی دیوار کے ساتھ شامل ہوگیا ہو
آنکھوں کے دھاگے پانیوں میں بہا دئے گئے ہوں
تم کہ شام کے سُورج سے دُھوپ چُراتے ہو
میں کہ صبح کی رات بھی چُرا لیتی ہوں ۔۔۔
تھکا ماندہ صبح کا تارہ
جب سارے آسمان پر اکیلا ہوتا ہے
اُسی وقت کی قدر کرتی ہوں ۔۔۔۔


۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


دُوسرا پہاڑ


یہ دُوسرا پہاڑ تھا
جہاں چیزوں میں میری عمر کے کچھ حصے پڑے تھے
میں یہاں سے کتنی بے ترتیب گئی تھی
اور میں اپنا دن گرد کر کے آرہی تھی
ساری چیزوں نے مجھے گلے لگایا
میں نے چھوٹے جُوتے چھابڑی والے کو فروخت کر دئے
اور سکے ہینگر میں پڑے چھوٹے کپڑوں میں ڈال دئے
میں آئینے کے سامنے کھڑی ہوئی
اور اپنی آنکھوں کی جُھریاں گننے لگی
آگ پرندے سینکنے لگی
تو بُھوک میری ایڑی سے ڈر نکلی


۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


چیونٹی بھر آٹا


ہم کس دُکھ سے اپنے مکان فرخت کرتے ہیں
اور بُھوک کے لئے چیونٹی بھر آٹا خریدتے ہیں
ہمیں بند کمروں میں کیوں پرو دیا گیا ہے
ایک دن کی عمر والے تو ابھی دروازہ تاک رہے ہیں ۔۔۔
چال لہو کی بوند بوند مانگ رہی ہے
کسی کو چُرانا ہو تو سب سے پہلے اُس کے قدم چُراؤ۔۔۔۔
تم چیتھڑے پر بیٹھے زبان پہ پھول ہو
اور آواز کو رسی کور

انسان کا پیالہ سمندر کے پیالے سے مٹی نکالتا ہے
مٹی کے سانپ بناتا ہے اور بُھوک پالتا ہے
تنکے جب شعاعوں کی پیاس نہ بُجھا سکے تو آگ لگی
میں نے آگ کو دھویا اور دُھوپ کو سُکھایا
سورج جو دن کا سینہ جلا رہا تھا
آسمانی رنگ سے بھر دیا
اب آسمان کی جگہ کورا کاغذ بچھا دیا گیا
لوگ موسم سے دھوکا کھانے لگے
پھر ایک آدمی کو توڑ کر میں نے سُورج بنایا

لوگوں کی پوریں کنویں میں بھر دیں
اور آسمان کو دھاگہ کیا
کائنات کو نئی کروٹ نصیب ہوئی
لوگوں نے اینٹوں کے مکان بنانا چھوڑ دئے
آنکھوں کی زبان درازی رنگ لائی
اب ایک قدم پہ دن اور ایک قدم پہ رات ہوتی
حال جراتِ گذشتہ ہے
آ تیرے بالوں سے شعاعوں کے الزام اُٹھا لوں

تم اپنی صورت پہاڑ کی کھوہ میں اشارہ کر آئے
کُند ہواؤں کا اعتراف ہے
سفر ایڑی پہ کھڑا ہوا
سمندر اور مٹی نے رونا شروع کر دیا ہے
بیلچے اور بازو کو دو بازو تصور کرنا
سورج آسمان کے کونے کے ساتھ لٹکا ہوا تھا
اور اپنی شعاعیں اپنے جسم کے گرد لپیٹ رکھی تھیں
میں نے خالی کمرے میں معافی رکھی
اور میرا سینہ دوسروں کے دروازے پر دھڑک رہا تھا


۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


یہ روز کون مر جاتا ہے


میں ٹُوٹے چاند کو صبح تک گنوا بیٹھی ہوں
اِس رات کوئی کالا پُھول کِھلے گا
میں اَن گنت آنکھوں سے ٹُوٹ گری ہوں‘میرا لہُو کنکر کنکر ہوا
میرے پہلے قدم کی خواہش دوسرا قدم نہیں
میرے خاک ہونے کی خواہش مٹی نہیں
اے میرے پالنے والے خُدا ؟
مِرا دُکھ نیند نہیں ترا جاگ جانا ہے

کون میری خاموشی پہ بین کرتا ہے
کون میرے سُکھ کے کنکر چُنتا ہے
یہ روز ، یہ روز کون مر جاتا ہے
جاگ اپاہج بچوں کے رب
کہ میری آنکھیں جوان ہوئیں
نیت کی آستین پر رات پھنکارتی ہے
وقت کی سلاخوں پر
انسانوں کے چراغ جلائے جاتے ہیں

میں اپنے لہُو سے ، اپنے جذبے چُنتی
تو میرے ہاتھ جل جاتے
اِس بُھوک کا میرے بچوں کے ساتھ
انکار دیکھ


۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


بے وطن بدن کو موت نہیں آتی



ٹُوٹے ہو !
ذرا اور لہُو انگا کرو
گُناہ کی چادر انسان کی چادر سے چھوٹی ہوتی ہے
حیرت ہے تمہاری آواز خاموش ہو رہی ہے
دُکھ کے کنویں سے آواز لوٹ آتی ہے
شام کا لباس پہننے والے
تیرے پاس سُورج کا آخری سانس بھی تو ہے
بھلا کہاں آواز کی بولی لگتی ہے
گلیوں کو تنہا چھوڑنے والے
گُناہ کی دہلیز پر قدم رکھ کے چل
کہ توبہ کرنے والے تیرے ساتھ ہیں ۔۔۔۔
یہ تیسری بات ہے کہ کون کہاں سے ٹوٹا

بُھوک کی بولی لگانے والا چھوٹا آدمی نہیں ہوتا۔۔۔۔
آؤ ہم زمینوں کو نگل کر ایک گھر بنائیں
میں تیرے کفن کی گواہی دیتی ہوں
کہ مٹی ہوں ۔۔۔۔
تیرے ایک آنسو کی موت پہ کتنے گُناہ روتے ہیں
ہمیں پتھر کو دیکھنا ہی ہوتا ہے
جب تک ہمارا لہُو کنکر کنکر نہ ہوجائے ۔۔۔۔

انسان سے ضبط تو ہاں مانگتی ہے انکار کہاں
مجھے اپنے بے وطن بدن کی قسم
روٹی ہمیشہ آگ پر پکتی ہے ۔۔۔۔
مٹی کو بُھوک لگے تو قبر بنتی ہے
بُھوک تو انسان کا وطن ہے ۔۔۔۔
بتاؤ ، قدم نہ ہوں تو آنکھوں کی کون سی حد ہے
موت تمہارا اثاثہ ہے
مٹی کتنے خواب دیکھتی ہے ۔۔۔
تم نے رات میں پنچھی آزاد کر دئے
شام کا انتظار کیا ہوتا
رات دن ہماری عمر کی سر گوشیاں ہیں ، ہماری کہاں

کیسے ٹہلتا ہے چاند آسمان پہ
جیسے ضبط کی پہلی منزل ۔۔۔
آواز کے علاوہ بھی انسان ہے
آنکھوں کو چُھو لینے کی قیمت پہ اُداس مت ہو
قبر کی شرم ابھی باقی ہے
ہنسی ہماری موت کی شہادت ہے
لحد میں پیدا ہونے والے بچے
ہماری ماں آنکھ ہے
قبر تو مٹی کا مکر ہے
پھر پرندے سورج سے پہلے کسی کا ذکر کرتے ہیں !
آواز کے علاوہ بھی انسان ہے
ٹُوٹے ہو !
ذرا اور لہُو انگار کرو
کہ میں ایک بے لباس عورت ہوں
اور جتنی چاہوں آنکھیں رکھتی ہوں
میں نے آواز کو تراشا ہے
ہے کوئی میرا مجسمہ بنانے والا
اپنی قسمت پہ اُداس مت ہو
موت کی شرم ابھی باقی ہے

مجھے چادر دینے والے
تجھے حیا تک دُکھ لگ جائیں
مجھے لفظ دینے والے
کاش عورت بھی جنازے کو کاندھا دے سکتی
ہر قدم زنجیر معلوم ہو رہا ہے اور میرا دل تہہ کر کے رکھ دیا گیا ہے
شور مجھے لہُولہان کر رہا ہے
میں اپنی قید کاٹ رہی ہوں اور اس قید میں
کبھی یاتھ کاٹ کر پھینک دیتی ہوں
کبھی آواز کاٹ کاٹ کر پھینک رہی ہوں
میرا دل دلدل میں رہنے والا کیڑا ہے اور میں قبر سے دُھتکاری ہوئی لاش
سڑاند ہی سڑاند سے میری آنکھوں کا
ذائقہ بد روح ہو رہا ہے
اور میں انسان کی پہلی اور آخری غلطی پر دُم ہلائے
بھونکتی جا رہی ہوں
میں جب انسان تھی تو چور کی آس تک نہ تھی میں
آنکھوں میں صلیب اور دل میں اپنی لاش
لئے پھرتی ہوں
سچائیوں کے زہر سے مری ہوں
لیکن دنیا گورکن کو ڈھونڈنے گئی ہوئی ہے
وہ مجھے آباد کرتا ہے اور آباد کہتا ہے
میں ہری بھری پیاس سے زرخیز ہو جاتی ہوں
اور پُھولوں کو مٹی میں دفنانے لگتی ہوں
درد میرے اژدہے کا نام ہے
اور سانپ کی بُھوک میرا گھر ہے
پناہ گاہوں کی چھاؤں مجھے کاٹ رہی ہے
اور میرے گدلے لہُو میں کاغذ کی ناؤ
چل پِھر رہی ہے
اور میں ناؤ کو آنکھوں میں سُلا دینا چاہتی ہوں
کہ یہ ناؤ
کاغذ کی ناؤ
میرے بچوں کی
ناؤ ہے


۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


زندگی کی کتاب کا آخری صفحہ

(اقتباس)

دیکھتے ہی دیکھتے کشتی زمین سے جا ملی
ابھی تو اور سمندر ڈھونڈنا تھا
رات بہت تڑپی زمین پہ میں
ماں خاموشی سے بیٹھی بُجھ رہی تھی
زندگی کے ہاتھ پیلے کر ہی دُوں ، کیا بھروسہ اِس کُڑی کا
میں بھی تو رنگ رنگ اُڑتی پھروں خلاؤں میں
آنکھ گُھٹ کے رہ گئی ہے
موت قہقہہ لگانا چاہتی ہے
لیکن میرے پاس وقت اور ہنسی کم ہے
بدن سے دل اُکھڑ گیا ہے
بے خبری ٹھنڈے قدم چلنے لگی ہے
اور وہ بال کھولے مجھے بُلا رہی ہے


۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


آنکھیں سانس لے رہی ہیں


اگر اُنگلی کاٹ کے سوال پُوچھا جائے گا
تو جواب بے پور ہوگا
گھر آؤ ! دیکھو انسان اور لہو آمنے سامنے کھڑے ہیں
کیا جواب دیں تمہیں یہ نچڑی دیواریں
جن کی اینٹیں زمین کے اندر دفن ہو چکی ہیں
تنہائیوں کی نوکیں میرے اعضاء میں پیوست کر دی گئی ہیں
پھر بھی کہتے ہو، آؤ باغ کو چلیں
میں اپنی آنکھوں پہ زندہ ہوں
میرے لب پتھر ہو چکے ہیں
اور کسی سنگ تراش نے ان کا مجسمہ
کسی پہاڑ کی چوٹی پر نصب کر دیا ہے
میں لہُو سے بیگانی ہوں
میرے جذبے اپاہج کر دیئے گئے ہیں
میں مکمل گفتگو نہیں کر سکتی
میں مکمل اُدھار ہوں
میری قبر کے چراغوں سے ہاتھ تاپنے والو
ٹھٹھرے وقت پر ایک دن میں بھی کانپی تھی

کاش آنکھیں آواز ہوتیں
زنگ کی دھار میرے لہُو میں رچ رہی ہے
بتاؤ ! تھوڑے پُھول دو گے
تیور زنگ آلود ہو چکے ہیں
میں نے کسی سے شاید وعدہ کر لیا تھا
مُسکراہٹ ہنسے گی تو آنکھیں ہنسیں گی
یہ تو لفظ کھڑکی کا پردہ ہوئے
لیکن دیوار کا پردہ نہ ہوسکے
رفتہ رفتہ پتھر میری گردن تک آ پہنچے ہیں
ڈر ہے کہیں میری آواز پتھر نہ ہوجائے
یہاں تو روز مجھے میری قبر سے اُکھاڑا جاتا ہے
کہ لوگ میری زندگی کے گُناہ گِن سکیں
یہاں تو میرے لہُو کی بوند بوند کو رنگا جا رہا ہے

لوگوں کی پُوریں انگارہ ہو رہی ہیں
میں کس سے ہاتھ مِلاؤں
کہ میری یاد کے ساتھ ہر ہر دل میں
ایک پتھر نصب کر دیا گیا ہے

میں نے نہیں کہا تھا
سُورج ہمیشہ میرے کپڑوں کا رنگ چُرا لے جاتا ہے
میرے قدم مجھے واپس کر دو
یہ اُدھار مہنگا ہے
میر دوکان چھوٹی ہے
جانے کون سی سڑک پہ ہم دوڑے تھے
میں پُوری مٹی میں چُھپ گئی
اور تم مٹی میں پانی چھڑکا کے
سوندھی سوندھی خوشبو اپنے جذبے میں لئے
اپنی زندگی کے دن بڑھا رہے ہو ۔۔۔۔
دیکھ تیرا چاند پتھر پہ لڑھک آیا ہے
اب کون سے چاند کو دیکھ کر
لوگ دعائیں مانگیں گے
میرا کفن زہریلے دھاگوں سے سیا جا رہا ہے
اورتم کہتے ہو
سفید لباس میں تم کتنی اچھی لگتی ہو ۔۔۔۔
میرے مقبرے پر تُھوکنے والے
جب کورے کاغذ کو آگ رنگتی ہے
مجھے کیوں بھول جاتے ہو ۔۔۔۔
جب انگارے شاخوں کو یاد کرتے ہیں
تو تم اپنے آتش دان روشن کر لیتے ہو ۔۔۔۔
دیکھ ! میں مٹی میں سمٹی جا رہی ہوں
پھر تجھ سے ہاتھ مِلانے کی خواہش آنکھوں تک آ جائے گی

تم مٹی اُکھاڑو گے
ایک پرندے کی لاش نکلے گی
جسے کسی بچے نے انتہائی محبت سے دفن کیا ہوگا
تم پِھر مٹی اُکھاڑو گے
میں مٹی میں لیٹی ایک دِن تمہیں مِل جاؤں گی
اور تمہیں اپنی آنکھوں میں دفن کر لوں گی
تم پِھر مٹی اُکھاڑو گے
اور مٹی کی لکیر کبھی بھی نہیں مرتی
شاخوں کو کاندھا دیتے ہوئے لوگ
میرے سفید لباس پہ پُھول رکھنے والے لوگ
میرے اعضاء میں کاندھا بدل رہے ہیں
میرے لہُو میں دوڑنے والے
تیرے قدم پھسل رہے ہیں
شاید زمین دو شاخہ ہو گئی ہے
یا دُکھ اور سُکھ میں ہماری آواز رنگ دی گئی ہے
میں آہستہ دیکھا کروں گی
کہ وقت کی پیشانی کے تیور گن سکوں
میں آہستہ سویا کروں گی
کہ نیند میری زندگی کو بھگا کر نہ لے جائے
میں آہستہ رویا کروں گی
کہ آنسو اور آواز انسان کو مکروہ نہ کر سکیں
میں مٹی پہ آہستہ قدم رکھوں گی
کہ مٹی میں میرے دُکھ پیوست نہ ہو سکیں
کاش انتقال کرنے سے پہلے
میں اپنا دل کہیں بو سکتی
خُدا نے کاش اعضاء بونے کی اجازت دی ہوتی
شاید میں اپنا دل کہیں بو چکی ہوں
سینہ محبت کرنے والوں کی پہلے قبریں تیار کرتا ہے
پھر ایک دُوسرے کے سینے میں
کُھدی ہوئی قبر میں دفن کر دیئے جاتے ہیں
آنکھوں کے اسباب کسی قُلی کو تھما دیئے جاتے ہیں
چوراہے پہ بنائے ہوئے مُجسمے کو نظر انداز کرتے ہوئے لوگ
انہیں کیا خبر
جس کا مجسمہ نصب کر دیا گیا ہے
وہ زندہ ہے یا مُردہ
میں نے دروازے کو نگاہ کیا
دروازے نے مجھے نگاہ کیا
گھر سے مت جانا
آج ہواؤں کو در اصل پاگل کُتے نے کاٹ لیا ہے

مُسافروں سے اپنی ساری زندگی کی باتیں مت کرو
جانے کون سے سنگِ میل پہ پلک جھپک جاؤں
میرے آنگن میں جتنی دُھوپ تھی
اُس سے میں نے تمہارے کپڑے سُکھا دیئے
میرا گھر پانیوں سے بنا دو
کہ روانی میری رُوح ہے
آج میں تم سے ننگی باتیں کروں
کہ میرے بچپن کے لباس چھوٹے ہو گئے ہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


بدن سے پوری آنکھ ہے میری


جاؤ جا نماز سے اپنی پسند کی دُعا اُٹھا لو
ہر رنگ کی دُعا میں مانگ چُکی
باغباں دل کا بِیج تیرے پاس بھی نہ ہو گا
دیکھ دُھوئیں میں آگ کیسے لگتی ہے
میرے پیرہن کی تپش مٹی کیسے جلاتی ہے
بدن سے پوری آنکھ ہے میری
نگاہ جوتنے کی ضرورت ہی کیا پڑی ہے
میری بارشوں کے تین رنگ ہیں
ٹُوٹی کمان پہ ایک نشان خطا کا پڑا ہے
ہم چاہیں تو سُورج ہماری روٹی پکائے
اور ہم سُورج کو تندُور کریں
فیصلہ چُکا دیا خطا اپنی بُھول گئے
نذر کرنے آئے تھے چُٹکی بھر آنکھ
آنکھ تیری گلیوں میں تو بازار ہیں
زمین آنکھ چھوڑ کر سمندر میں سو رہی
جنگل تو صرف تلاش ہے
گھر تو کائنات کے پچھواڑے ہی رہ گیا
شکار کمان میں پھنس پھنس کر مرا
تم کیسے شکاری
آنکھیں تیوروں سے جل رہی ہیں
جسم زندگی کی ملازمت میں ہے
تنہائی کشکول ہے
ہم نے آنکھوں سے شمشیر کھینچی
اور درخت کی تصویر بنائی
رات گود میں سُلائی
اور چاند کا جُوتا بنوایا
ہم نے راہ میں اپنے پیروں کو جنا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

آدھا کمرہ
اُس نے اتنی کتابیں چاٹ ڈالیں
کہ اُس کی عورت کے پیر کاغذ کی طرح ہو گئے
وہ روز کاغذ پہ اپنا چہرہ لکھتا اور گندہ ہوتا
اُس کی عورت جو خاموشی کاڑھے بیٹھی تھی
کاغذوں کے بھونکنے پر سارتر کے پاس گئی
تم راں بو اور فرائیڈ سے بھی مِل آئے ہو کیا
سیفو ! میری سیفو ! مِیرا بائی کی طرح مت بولو
میں سمجھ گئی ، اب اُس کی آنکھیں
کیٹس کی آنکھیں ہوئی جاتی ہیں
میں جو سوہنی کا گھڑا اُٹھائے ہوئے تھی
اپنا نام لیلیٰ بتا چکی تھی
مَیں نے کہا
لیلیٰ مجمع کی باتیں میرے سامنے مت دُہرایا کرو
تنہائی بھی کوئی چیز ہوتی ہے
شیکسپیئر کے ڈراموں سے چُن چُن کر اُس نے ٹُھمکے لگائے
مجھے تنہا دیکھ کر
سارتر فرائیڈ کے کمرے میں چلا گیا
وہ اپنی تھیوری سے گِر گِر پڑتا
مَیں سمجھ گئی اُس کی کتاب کتنی ہے
لیکن بہر حال سارتر تھا
اور کل کو مجمع میں بھی ملنا تھا
میں نے بھیڑ کی طرف اشارہ کیا تو بولا !
اتنے سارے سارتروں سے مِل کر تمہیں کیا کرنا ہے
اگر زیادہ ضد کرتی ہو تو اپنے وارث شاہ ،
ہیر سیال کے کمروں میں چلے چلتے ہیں
سارتر سے استعارہ ملتے ہی
میں نے ایک تنقیدی نشست رکھی
میں نے آدھا کمرہ بھی بڑی مشکل سے حاصل کیا تھا
سو پہلے آدھے فرائیڈ کو بُلایا
پھر آدھے راں بو کو بُلایا
آدھی آدھی بات پُوچھنی شروع کی
جان ڈن کیا کر رہا ہے
سیکنڈ ہینڈ شاعروں سے نجات چاہتا ہے
چوروں سے سخت نالاں ہے
دانتے اس وقت کہاں ہے
وہ جہنم سے بھی فرار ہو چکا ہے
اُس کو شُبہ تھا
وہ خوجہ سراؤں سے زیادہ دیر مقابلہ نہیں کر سکتا
اپنے پس منظر میں
ایک کُتا مُسلسل بھونکنے کے لئے چھوڑ گیا ہے
اُس کُتے کی خصلت کیا ہے ؟
بیاترچے کی یاد میں بھونک رہا ہے
تمہارا تصور کیا کہتا ہے ؟
سارتروں کے تصور کے لحاظ سے
اب اُس کا رُخ گوئٹے کے گھر کی طرف ہو گیا ہے

باقی آدھے کمرے میں کیا ہو رہا ہے
لڑکیاں
کیا حرف چُن رہی ہیں
استعارے کے لحاظ سے
حرام کے بچے گِن رہی ہیں
لڑکیوں کے نام قافیے کی وجہ سے
سارتر زیادہ نہیں رکھ پا رہا ہے
اِس لئے اُن کی غزل چھوٹی پڑ رہی ہے
زمین کے لحاظ سے نقاد
اپنے کمروں سے اُکھڑنے کے لئے تیار نہیں
لیکن انھوں نے وعدہ کیا ہے
سارے تھنکر اکٹھے ہوں گے
اور بتائیں گے کہ سُوسائٹی کیا ہے
اور کیوں ہے ۔۔۔۔
ویسے ہواؤں کا کام ہے چلتے پھرتے رہنا
دُور اندیش کی آنکھ کیسی ہے
سگریٹ کے کش سے بڑی ہے
وہ گھڑے سے پتھر نکال کر گِن رہے تھے
اور کہہ رہے تھے مِیں اس گھڑے کا بانی ہوں
چائے کے ساتھ غیبت کے کیک
ضروری ہوتے ہیں
اور چُغلخوری کی کتاب کا دیباچہ
ہر شخص لکھتا ہے
زبانوں میں بُجھے تیروں سے مقتول زندہ ہو رہے ہیں
بڑا ابلاغ ہے
سُوسائٹی کے چہرے پہ وہ زباں چلتی ہے
کہ ایک ایک بندے کے پاس
کتابوں کی ریاست بندے سے زیادہ ہے

ریاست میں !
مہارانیوں کے قصے گھڑنے پر
عِلم کی بڑی ٹپ ملتی ہے
بِل کے سادہ کاغذ پر
عِلم لکھ دیا جاتا ہے
تازہ دریافت پر
ہر فرد کی مٹھی گرم ہوتی ہے

پہلے یہ بتاؤ ، جُھنجھنے کی تاریخِ پیدائش کیا ہے
میں کوئی نقاد ہوں جو تاریخ دُہراتا پِھروں
کسی کا کلام پڑھ لو
تاریخ معلوم ہو جائے گی
تمہاری آنکھوں میں آنسو
میری کتاب کا دیباچہ لکھنا ہے
یہ کس کی پٹی ہے
نقاد بھائی کی
یہ کس کی آنکھ ہے
مجھے تو سیفو بھابھی کی معلوم ہو رہی ہے
اور یہ ہاتھ !
غالب کا لگتا ہے !
بَکتے ہو !
زر کی امان پاؤں تو بتاؤں
جتنے نام یاد تھے بتا دیئے
لیکن تمہارا تصور کیا کہتا !
میں دُم ہلانے کے سِوا کیا کر سکتا ہوں

۔
 
Top