انسانی گارے
مُسکراہٹ کتنے چہرے رکھتی ہے
لگنوں میں تو خالی مٹی ہے
میرے نمک کا اندازہ کیسے ہوگا
دیکھنے سے کچی پکی ہو جاتی ہوں
گھر ناپتی ہوں تو اینٹ ہاتھ آتی ہے
یہ کُتا تنہائی کُتیا کی زبان رکھتی ہے
اِن ڈھیروں کو ناخن سے نکال پھینکتی
آخر فیشن بھی کوئی چیز ہے
انسانی گارے کو ترتیب دیتے دیتے
حرامزادی ہو گئی ہوں
لفظ ماری کو کہیں نہ کہیں تو پہنچنا ہی ہوتا ہے
کیا دوپٹے کے پاتال میں مَیں موجود نہیں
میں تو جنم کے دن بھی ننگی تھی
زندگی بار بار بچے نہیں جنتی
جو سلوک کے پتھر چباتی رہتی
بس جس کروٹ جتنی چادر آگئی
نیند کے یہ دو موتی
کالے بھی تو پڑ سکتے ہیں
پھر شام ڈُوبے سُورج سے کیا کہنا
کیا قید خانوں میں
سورج کی تلاشی ختم ہو جاتی ہے
یہ دن میں گھومنے والے
میری رات کیسے بن بیٹھے
بکھری ہوئی آنکھوں والے
لیکن ان کی آنکھوں کے گودام میں
میرے جیسے بے شُمار گندم ہیں
بُھوک کی نیت ذخیرہ کرنے سے تو رہے
آگ کے ہاتھ پر
کوئی نہ کوئی چیز تو ضرور ہوتی ہے
تو پھر ثواب توبہ کے حوالے کر دوں
میرے عشق میرے بُت
صرف دُعاؤں کے لئے تو نہ تھے
میں نے کچھ اور مانگا اور پھر کچھ اور
آنکھ ہو کر رہ گئی ہوں
انسانوں کی نظر ایسے ہی لگتی ہے
اپنی آنکھ کے پاس رہنے سے
کیا عورت آوارہ ہوتی ہے
کیا مندروں کی آوازوں پر جاگا نہیں کرتے
کیا مسجد کی اینٹ چُرائی نہیں جا سکتی
اتنی تو دیانتی ہے مجھ میں
کوئی نظر آئے تو سجدہ کرتی ہوں
بھلا آنچل کا سجدے سے کیا تعلق
کہتے ہیں آنکھوں کے شور میں کیا لکھتی ہے
لکھ کیا رہی ہوں میں تو چل رہی ہوں
یہ گدلے لوگ کنول رکھنا نہیں جانتے
بس مورت سی ہنسی میں دفن ہیں
پانیوں کے مقدر میں بھنور ہوتا ہے
عورت کے مقدر میں ایک کے بعد دوسری چادر
زمین کا ساحل نہیں ہوتا
میں تو چلتے چلتے مٹی کو حاملہ کر دوں گی
پھر بھی کوری رہ جاؤں گی
کاش مجھے کوئی لکھتا
یہ ٹھاٹھیں مارتے بندے
سمندر سے زیادہ ہو سکتے تھے
لہو کی سات پُشتیں تو کوئی چہرہ نہیں رکھتیں
میں نے خاموش چاند کبھی نہیں دیکھا
نہ انسان کے ساحل پر نہ زمین کے ساحل پر
کسی روز اِس جسم کی بارگاہ سے نکل جاؤں گی
کون مانگے توبہ سے انصاف
ہم سب رحم کے سیلاب میں مارے گئے
اور جسم کی صلیب پر چڑھائے گئے
دو آنکھیں دو قدم ایک زبان کیسے رکھتے
سمجھتے ہیں بہا دیں گے مجھے یہ
کنکروں میں جیسے میں نے انہیں سہا نہ ہو
یہ سارا کا قید خانہ ہے
تمہارے خُدا کی دُعا نہیں
جسے عرش سے گرنے کا ڈر ہو
یہاں سر جُھکانے والے سے
دار کو محفوظ رکھا جاتا ہے
یہاں میری آنکھیں بچے نہیں جنتیں
نہ ہنسی سے گرو نہ آنکھ سے ہٹو
نہ قدم سے ہٹو
اپنے اپنے عذاب مجھے سنا دو
میں آنکھوں کو لاٹھیوں سے نہیں ہانکتی
میری قید چاند سورج پھینک چکی ہے
اور تمہاری آزادی زنجیروں کی صدا ہے
غافل آزاد ہے اور سہل
پتھروں میں ڈوب گئے
میں بٹی ہوئی رسی نہیں
بے لوث جھاڑی سہی
تماشے میری آنکھوں کے میدانوں میں ہوئے
دُھول اور پھر کشکول میں
مانگی جانے والی دُعائیں
گھر سے ڈری ہوئی عورت
کہیں نہ کہیں تو چلتی ہے
خواہ پیڑ کاٹے یا عُمر
یہ کون لوگ ہیں جو آگ کو
مٹی سے چھوٹا سمجھ رہے ہیں
سِکوں کی آوازیں میں نے کیوں گِنی تھیں
موت کا اعتبار نہیں آواز مجھے دیتے ہو
آنکھوں کی پیمائش سنگِ میل سے کرتے ہو
اپنے سوگ میں زبان کھول رہی ہوں
میری منڈیر سے رات اور سورج
اکٹھے اُڑ گئے ہیں
اپنے ہاتھ میں چُن دی گئی ہوں
ہاتھ مِلاتے ہی گر جاتی ہوں
قدم کو مٹی کی پھانسی دوں
آنکھ خاموش ہو نہیں سکتی
جسم کی تنخواہ ملتی نہیں
بُھوک کی لونڈی کو آزاد کر نہیں سکتی
ہاتھ اکیلے پکنک مناتے نہیں
ہنسی مذاق چھوڑتی نہیں
مروت ہاتھوں میں چُٹکی بجاتی رہتی ہے
صبر آگ دھوتا نہیں
انسان تو کنویں سے لوٹ آنے والی آواز ہے
پھر تو دھجیوں میں تروپے لگائے نہیں جا سکتے
میں کوئی سمندر کی سوتیلی بہن تھی
جو میرے لئے لباس رکھا گیا
اور میری چال میں گالی رکھی گئی
دُکھ کی ڈولی اُٹھانے والے
کیا گھونگھٹ میں قید ہو گئے
شام سے وقفے میں ہاتھ جوڑے
پھر رات دن کے ہاتھوں مارا گیا
اور ڈُوبتا سُورج صبح ہوتے ہی
میرے ۔۔۔ سے اُڑ گیا
میں دن بھر روتی اور رات بھر ہنستی
میری آگ کی کئی زبانیں تھیں
اناج کی میں پہلی قسم تھی
سو انسان کی قسم کھا سکتی تھی
میں نے ہاتھ سے وعدے پھینک دیئے
اور آنکھ جنگل میں چُرائی
میری آگ کُوڑے کرکٹ سے دُکھنے لگی ہے
تمہارے پاس دریا ہو تو پیاس کا وعدہ میں کرتی ہوں
رات ایک دُعا
کشکول میں گری تو ریزگاری بکھر گئی
موت کو میرا ذائقہ پڑ جاتا
تو کپڑے کبھی نہ دھوتی
لیکن مجھے گِن لو تو اچھا ہے
تا کہ تمہارا کشکول پُورا ہو جائے
اب تو آنکھ بُری لگتی ہے
میں نے اُسے گود لیا تھا
یہ میری رانوں تک پھسل گئی
آنکھ خوری کے کتنے کنچے کھیلوں
قید میں صرف سلاخوں کی ہنسی گونجتی ہے