فرقان احمد
محفلین
شاید ہی کوئی بچہ ایسا ہو گا جو بچپن میں آنکھ مچولی کے کھیل سے لطف اندوز نہ ہوا ہو۔ ہے تو یہ روایتی کھیل، تاہم اسے ایک عالم گیر کھیل کہہ سکتے ہیں کیوں کہ ہر تہذیب و ثقافت میں آنکھ مچولی سے مماثل کھیل موجود رہے ہیں۔ یہ روایتی کھیل کب وجود میں آیا او ر اس نے ارتقائی عمل کیسے طے کیا؛ اس حوالے سے تاریخ ہمیں کسی حتمی صداقت کی طرف لے کر نہیں جاتی مگر عام قیاس یہی ہے کہ یہ کھیل ہائیڈ اینڈ سیک Hide and Seek کے نام سے یورپ کے کچھ علاقوں سے شروع ہوا۔ خیال رہے کہ یورپ کے بعض علاقوں میں یہ روایت ہوا کرتی تھی کہ موسم بہار کی آمد پر لوگ قریبی جنگلوں میں چلے جاتے اور درختوں کے جھنڈ میں گھس جاتے اور ان پھولوں اور پرندوں کی تلاش میں لگ جاتے جو بہار کی آمد کی علامت سمجھے جاتے تھے اور ان کا نظارہ صرف موسم بہار ہی ہی ممکن ہوتا تھا۔ جب یہ افراد ڈھیر سارے پھولوں اور پرندوں کو جمع کر لیتے تو انہیں رہائشی علاقوں میں واپس لے جاتے تاکہ سب کو آمدِ بہار کا یقین ہو جائے۔ان پھولوں اور پرندوں کو درختوں کے جھنڈ میں کھوجنا ہی آنکھ مچولی کہلاتا تھا۔
یہ تو تھی آنکھ مچولی کے کھیل کی روایت کی بات۔اب کچھ تفصیلات اس کھیل کے بارے! یہ کھیل بہت سادہ اور آسان ہے۔ بچے تو گھر کے اندر رہ کر بھی اسے کھیل سکتے ہیں۔ چاہے تو بڑے بھی اس میں شامل ہو جائیں۔ اس گیم کو کھیلنے کی کئی صورتیں مروج ہیں۔ ہوتا یوں ہے کہ کسی ایک کھلاڑی کو چھوتی یا کھوجی قرار دیا جاتاہےیعنی چھونے والا، تلاش کرنے والا۔ اگر گھر میں یہ کھیل کھیلا جائے تو ڈھونڈنے والا کھلاڑی گھر سے باہر چلا جاتاہے اور اس دوران تمام کھلاڑی کسی نہ کسی جگہ چھپ جاتے ہیں۔ ایک مختصر وقفے کے بعد کھوجی ان کھلاڑیوں کو تلاش کرتا ہے۔ جو کھلاڑی اس کو نظر آجائے وہ کھلاڑی لامحالہ اگلی باری میں کھوجی کے فرائض سرانجام دیتا ہے۔ سب سے آخر میں چھوا جانے والا کھلاڑی کھیل کے اس راؤنڈ کا فاتح ٹھہرتاہے؛ یوں یہ کھیل مسلسل جاری رہتاہے۔ یہ کھیل اگر اندھیرے یا کم روشنی میں کھیلا جائے تو زیادہ لطف رہتا ہے کیوں کہ اس طرح کھلاڑیوں کو خود کو چھپانے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آتی۔ اگر گھر کے باہر کھلے میدان میں رات کے وقت اندھیرے میں کھوجی نام کے ساتھ باقی کھلاڑی کو ڈھونڈے تو مزہ دوبالا ہو جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر چھونے والا کھلاڑی چھوئے جانے والے کوغلط نام کے ساتھ پکارتا ہے تو اسے ہلکی سی چپت بھی کھانا پڑ سکتی ہے۔
آنکھ مچولی کی ایک قسم، 'راجے دی بیٹی' لڑکیوں میں ازحد مقبول رہی ہے جس کے بول بھی کافی حد تک ڈرامائی انداز کے ہیں۔ ان میں سے جو لڑکی چھوتی کے فرائض سرانجام دیتی ہے، وہ باقی کھلاڑیوں کو بآواز بلند پکار تی ہے۔ لُک چھپ جانا، مکئی دا دانا، راجے دی بیٹی، آئی جے! یعنی وہ اپنی ہم جولیوں کو ایک انداز میں یہ پیغام دیتی ہے کہ میرے آنے سے پہلے خبردار ہو جاؤ میں تمہیں ضرور ڈھونڈ نکالوں گی۔ اس پکار کو سنتے ہی باقی کھلاڑیوں کو چھپ چھپا جانے کا موقع مل جاتاہے۔چھپنے کے فوراً بعد یہ لڑکیاں یوں جواب دیتی ہیں۔ آجا ۔۔۔!!!اور یوں کھوجی کھلاڑی آواز کی سمت کا اندازہ کرتے ہوئے چھپنے والیوں کی سمت کا تعین کرتی ہے۔ کھوجی کھلاڑی پوچھتی جاتی ہے۔۔۔آجاؤں۔۔۔اسے جواب ملتاہے۔۔۔آجا۔۔۔پھر وہ پوچھتی ہے ۔۔۔کتنے بجے۔۔۔جواب ملتا ہے ۔۔۔بارہ بجے۔۔۔اگلا سوال ہوتا ہے۔۔۔دن کے یا رات کے۔۔۔جواب آتا ہے ۔۔۔رات کے۔۔۔مکالمہ آگے چلتا ہے اور چھوتی کھلاڑی پوچھتی ہے ۔۔۔کسے چھولوں ۔۔۔جواب آتاہے۔۔۔مجھے چھو لو۔۔۔یوں اس مکالمے کا سلسلہ اس وقت تک چلتا ہے جب تک کہ ڈھونڈنے والی لڑکی کسی ایک لڑکی کا کھوج نہ لگا لے اور یوں اگلی باری میں ڈھونڈنے کی ذمہ داری سب سے پہلے چھوئے جانے والی لڑکی کے سر پر عائد ہو جاتی ہے۔بعض دفعہ یوں بھی ہوتاہے کہ آنکھ مچولی کے کھیل میں ایک کھلاڑی منزل قرار دے دی جاتی ہے۔ منزل سمجھی جانے والی کھلاڑی باری دینے والی لڑکی کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر باقی کھلاڑیوں کو چھپنے کا موقع فراہم کرتی ہے اور چھپنے والی لڑکیاں ڈھونڈنے والی لڑکی کو جَل دے کرمنزل تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی اگر باری دینے والی لڑکی کسی لڑکی کو چھو لے تو یہ چھوئی جانے والی لڑکی اگلی باری میں کھوجی کے فرائض سرانجام دیتی ہے۔
یہ تو تھی آنکھ مچولی کے کھیل کی روایت کی بات۔اب کچھ تفصیلات اس کھیل کے بارے! یہ کھیل بہت سادہ اور آسان ہے۔ بچے تو گھر کے اندر رہ کر بھی اسے کھیل سکتے ہیں۔ چاہے تو بڑے بھی اس میں شامل ہو جائیں۔ اس گیم کو کھیلنے کی کئی صورتیں مروج ہیں۔ ہوتا یوں ہے کہ کسی ایک کھلاڑی کو چھوتی یا کھوجی قرار دیا جاتاہےیعنی چھونے والا، تلاش کرنے والا۔ اگر گھر میں یہ کھیل کھیلا جائے تو ڈھونڈنے والا کھلاڑی گھر سے باہر چلا جاتاہے اور اس دوران تمام کھلاڑی کسی نہ کسی جگہ چھپ جاتے ہیں۔ ایک مختصر وقفے کے بعد کھوجی ان کھلاڑیوں کو تلاش کرتا ہے۔ جو کھلاڑی اس کو نظر آجائے وہ کھلاڑی لامحالہ اگلی باری میں کھوجی کے فرائض سرانجام دیتا ہے۔ سب سے آخر میں چھوا جانے والا کھلاڑی کھیل کے اس راؤنڈ کا فاتح ٹھہرتاہے؛ یوں یہ کھیل مسلسل جاری رہتاہے۔ یہ کھیل اگر اندھیرے یا کم روشنی میں کھیلا جائے تو زیادہ لطف رہتا ہے کیوں کہ اس طرح کھلاڑیوں کو خود کو چھپانے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آتی۔ اگر گھر کے باہر کھلے میدان میں رات کے وقت اندھیرے میں کھوجی نام کے ساتھ باقی کھلاڑی کو ڈھونڈے تو مزہ دوبالا ہو جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر چھونے والا کھلاڑی چھوئے جانے والے کوغلط نام کے ساتھ پکارتا ہے تو اسے ہلکی سی چپت بھی کھانا پڑ سکتی ہے۔
آنکھ مچولی کی ایک قسم، 'راجے دی بیٹی' لڑکیوں میں ازحد مقبول رہی ہے جس کے بول بھی کافی حد تک ڈرامائی انداز کے ہیں۔ ان میں سے جو لڑکی چھوتی کے فرائض سرانجام دیتی ہے، وہ باقی کھلاڑیوں کو بآواز بلند پکار تی ہے۔ لُک چھپ جانا، مکئی دا دانا، راجے دی بیٹی، آئی جے! یعنی وہ اپنی ہم جولیوں کو ایک انداز میں یہ پیغام دیتی ہے کہ میرے آنے سے پہلے خبردار ہو جاؤ میں تمہیں ضرور ڈھونڈ نکالوں گی۔ اس پکار کو سنتے ہی باقی کھلاڑیوں کو چھپ چھپا جانے کا موقع مل جاتاہے۔چھپنے کے فوراً بعد یہ لڑکیاں یوں جواب دیتی ہیں۔ آجا ۔۔۔!!!اور یوں کھوجی کھلاڑی آواز کی سمت کا اندازہ کرتے ہوئے چھپنے والیوں کی سمت کا تعین کرتی ہے۔ کھوجی کھلاڑی پوچھتی جاتی ہے۔۔۔آجاؤں۔۔۔اسے جواب ملتاہے۔۔۔آجا۔۔۔پھر وہ پوچھتی ہے ۔۔۔کتنے بجے۔۔۔جواب ملتا ہے ۔۔۔بارہ بجے۔۔۔اگلا سوال ہوتا ہے۔۔۔دن کے یا رات کے۔۔۔جواب آتا ہے ۔۔۔رات کے۔۔۔مکالمہ آگے چلتا ہے اور چھوتی کھلاڑی پوچھتی ہے ۔۔۔کسے چھولوں ۔۔۔جواب آتاہے۔۔۔مجھے چھو لو۔۔۔یوں اس مکالمے کا سلسلہ اس وقت تک چلتا ہے جب تک کہ ڈھونڈنے والی لڑکی کسی ایک لڑکی کا کھوج نہ لگا لے اور یوں اگلی باری میں ڈھونڈنے کی ذمہ داری سب سے پہلے چھوئے جانے والی لڑکی کے سر پر عائد ہو جاتی ہے۔بعض دفعہ یوں بھی ہوتاہے کہ آنکھ مچولی کے کھیل میں ایک کھلاڑی منزل قرار دے دی جاتی ہے۔ منزل سمجھی جانے والی کھلاڑی باری دینے والی لڑکی کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر باقی کھلاڑیوں کو چھپنے کا موقع فراہم کرتی ہے اور چھپنے والی لڑکیاں ڈھونڈنے والی لڑکی کو جَل دے کرمنزل تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی اگر باری دینے والی لڑکی کسی لڑکی کو چھو لے تو یہ چھوئی جانے والی لڑکی اگلی باری میں کھوجی کے فرائض سرانجام دیتی ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ آنکھ مچولی کے کھیل میں تبدیلیاں بھی آتی رہی ہیں۔ آج کل بچے گلی محلوں میں اس کھیل کو جدت آمیز طریقے سے کھیلتے نظر آتے ہیں۔ نہ تو آنکھوں پہ پٹی بندھی ہوتی ہے اور نہ ہی کھلاڑیوں کو نام کے ساتھ تلاش کیا جاتاہے۔ اس میں کچھ تو لوڈشیڈنگ کا کرشمہ ہے اور کچھ اندھیری گلیوں میں سٹریٹ لائٹس کی عدم تنصیب یا ان برقی قمقوں کی خرابی۔ بہرحال جو بھی ہو بچے آج بھی بھرپور انداز میں اس کھیل سے محظوظ ہوتے ہیں اور بچپن اور لڑکپن کی انمول خوشیاں اپنے دامن میں سمیٹتے نظر آتے ہیں جو حسین یادوں کی صورت میں ان کے لاشعور میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جائیں گی۔