شمشاد
لائبریرین
یہ میری شروع سے ہی عادت رہی ہے کہ صبح کو سہیل جب دفتر جانے لگتے ہیں تو میں ان کی تیاری میں ان کو مدد دیتی ہوں۔ ان کو کوٹ پہناتی ہوں، ان کی ٹائی کی گرہ کو ٹھیک کرتی ہوں۔ پھر ان کا بریف کیس ان کے ہاتھ میں تھما کر ان کو دروازے تک رخصت کرنے جاتی ہوں۔ واپسی پر بھی جب وہ گھر آتے ہیں، تو دروازے کی گھنٹی بجاتے ہیں۔ حالانکہ ان کے پاس باہر کے دروازے کی چابی موجود ہے۔ لیکن میں چاہتی ہوں کہ وہ گھنٹی بجائیں اور میں جا کر ان کے لیے دروازہ کھولوں۔ ان کے ہاتھ سے بریف کیس پکڑوں۔ ان کا استقبال کروں۔ وہ بھی میری اس عادت سے بہت خوش ہوتے ہیں۔
اُس دن بھی میں ان کے دفتر جاتے وقت ان کو تیاری میں مدد دے رہی تھی، کہ دفعتاً میری دونوں بیٹیاں کسی بات پر ایک دوسری کے پیچھے بھاگتی ہوئی اپنے کمرے سے نکلیں اور میرے کمرے میں گھس گئیں۔ ہنس بھی رہیں تھیں، اور ہلکی پھلکی ہاتھا پھائی بھی جاری تھی، شاید ثمینہ نے شاہینہ کی کوئی چیز زبردستی لے لی تھی اور وہ واپس لینے کے لیے بے چین تھی۔
سہیل نے ان دونوں کو دیکھا، جبکہ میں ان کی ٹائی کی گرہ ٹھیک کر رہی تھی، اور کہنے لگے۔ یہ میرے گھر کی رونق ہیں۔ ایک دن کوئی الو کا پٹھا شیروانی پہن کا آئے گا اور میرے گھر کو بے رونق کر کے میرے گھر کی رونق لے جائے گا۔
میں نے نجانے کس خیال سے کہہ دیا، "سہیل آپ بھی تو آئے تھے ناں ایکدن ہمارے گھر شیروانی پہن کر۔"
سہیل ایکدم چُپ ہو گئے اور میرا انتظار کیے بغیر خود ہی بریف کیس اٹھا کر دفتر کےلیے روانہ ہو گئے۔ بعد میں مجھے اتنا محسوس ہوا کہ میں نے بلا سوچے سمجھے کیا کہہ دیا۔
اس دن جب وہ واپس گھر آئے تو پھر وہی روٹین سے انہوں نے گھنٹی بجائی، میں نے دروازے پر جا کر ان کا استقبال کیا۔ ان کے ہاتھ سے بریف کیس لیا۔ اور یہ محسوس کر کے کہ صبح کی بات کا اب اثر زائل ہو چکا ہے، اللہ کا شکر ادا کیا۔
اُس دن بھی میں ان کے دفتر جاتے وقت ان کو تیاری میں مدد دے رہی تھی، کہ دفعتاً میری دونوں بیٹیاں کسی بات پر ایک دوسری کے پیچھے بھاگتی ہوئی اپنے کمرے سے نکلیں اور میرے کمرے میں گھس گئیں۔ ہنس بھی رہیں تھیں، اور ہلکی پھلکی ہاتھا پھائی بھی جاری تھی، شاید ثمینہ نے شاہینہ کی کوئی چیز زبردستی لے لی تھی اور وہ واپس لینے کے لیے بے چین تھی۔
سہیل نے ان دونوں کو دیکھا، جبکہ میں ان کی ٹائی کی گرہ ٹھیک کر رہی تھی، اور کہنے لگے۔ یہ میرے گھر کی رونق ہیں۔ ایک دن کوئی الو کا پٹھا شیروانی پہن کا آئے گا اور میرے گھر کو بے رونق کر کے میرے گھر کی رونق لے جائے گا۔
میں نے نجانے کس خیال سے کہہ دیا، "سہیل آپ بھی تو آئے تھے ناں ایکدن ہمارے گھر شیروانی پہن کر۔"
سہیل ایکدم چُپ ہو گئے اور میرا انتظار کیے بغیر خود ہی بریف کیس اٹھا کر دفتر کےلیے روانہ ہو گئے۔ بعد میں مجھے اتنا محسوس ہوا کہ میں نے بلا سوچے سمجھے کیا کہہ دیا۔
اس دن جب وہ واپس گھر آئے تو پھر وہی روٹین سے انہوں نے گھنٹی بجائی، میں نے دروازے پر جا کر ان کا استقبال کیا۔ ان کے ہاتھ سے بریف کیس لیا۔ اور یہ محسوس کر کے کہ صبح کی بات کا اب اثر زائل ہو چکا ہے، اللہ کا شکر ادا کیا۔