تیرہویں سالگرہ آوازِ دوست کا انٹرویو

آوازِ دوست

محفلین
آپ مصلحتا جھوٹ بولتے ہیں اور کیا یہ درست عمل ہے؟
آپ کے اس سوال میں دو سوالیہ نشان نہ ہونے سے جو یقینی کیفیت پیدا ہوگئی ہے اُس کے پیشِ نظر لفظ "مصلحتا" "اضافی محسوس ہوتا ہے :) خیر
جھوٹ بولنا کمزوری کی نشانی ہے۔ اگرمادی ضرورتیں آپ کو کمزور کر رہی ہوں تو یہ کوئی اچھی صورتِ حال نہیں ہے اور اگر محبتیں آپ سے اس بات کی متقاضی ہو جائیں کہ آپ کی راست گوئی کسی کی دل شکنی یا فساد کا باعث نہ بنے تو یہ الگ بات ہے۔میں کمزور سا انسان ہوں لیکن مؤخر الذکر کو ہی مصلحت سمجھتا ہوں اور کسی کی دل شکنی سے بچنے کے لیے اس مصلحت کےتحت معقول حد میں راست گوئی سے پرہیز کوجائز سمجھتا ہوں۔
 

نور وجدان

لائبریرین
اُمید کی جا سکتی ہے کہ اگر زندگی نے وفا کی تو علمی سطح پر جو تشنگیاں باقی ہیں کسی نہ کسی حد تک اُنہیں مٹا پاؤں گا۔میرا ایک خواب یہ بھی ہے کہ انسان کی روحانی زندگی کو نہ صرف یہ کہ خود بطریقِ احسن سمجھ سکوں بلکہ اس کو غیر مبہم ، سائینٹیفک اور قابلِ تصدیق طریقے سے واضح کر سکوں تاکہ ہر طلب رکھنے والا انسان نئے سرے سے پہیہ ایجاد کرنے کے آزار سے بچ سکے اور کم وقت میں زیادہ اچھے نتائج حاصل کرنے کے قابل ہو۔اس میں بھی ہر دور کی علمی سرحدیں واضح ہوں اور آنے والی نسلوں کو با آسانی پتاہو کہ اُن کی نئی منازل کا سفر کہاں سے شروع ہوگااور وہ بخوبی جان سکیں کہ اُنہوں نے پہلے سے معلوم علم میں کیا نیا اضافہ کیا ہے۔
فردِ واحد کی داستانِ جستجو معاشرے کی بن جاتا ہے. ہر منفرد ایسے ہی راستے بناتا ہے ... بقول خلیل جبران

تم ہی راہی ہو ...

آپ کی سائینٹیفک ٹرم سے کیا مراد ہے؟ اس سے مراد ذاتی تجربہ یا کچھ اور ہے؟
 

نور وجدان

لائبریرین
بچپن میں ریلوے ٹریک پر میلوں پیدل چلنے کی عادت تھی توچلتے چلتے نوبہار نہر کے کنارے بیٹھ کر کچھ دیر بہتے ہوئے پانی کی اچھل کود کا نظارہ کرتا تھا،مزاروں سے شناسائی ہوئی تووہاں بھی کبھی کبھار جانے کا سلسلہ بنا۔قدیم طرزِ تعمیر اور اُس کا شاہانہ پن صاحبِ مزار کی نورانی ہیبت میں جس طرح شامل ہوتا اُسے محسوس کرتا،نگارخانے کے فن پاروں میں مقید آرائش و جمال کی انسانی کاوشوں سے لطف اندوز ہونا کبھی کبھی وہاں لے جاتا ۔دمدمے کی بلندی سے دور دور تک بسی بستیوں کا منظر دیکھنا۔سرسبز کھیت، درخت خواہ سر سبز ہوں خواہ ٹنڈ منڈ، نہروں، نالوں میں بہتا صاف پانی، نیلگوں آسماں، صاف اور سبک رو ہوا، فضا میں تیرتےچہچہاتےپرندے یہ سب الگ الگ ہوں یا کسی بھی کمبی نیشن میں ہوں جہاں بھی ہوں وہ جگہ اچھی لگتی ہے۔
واہ واہ ...کیا منظر کشی کردی ہے ..مزہ ہی آگیا ہے

یہ بتائیے شاہ رکن عالم کے علاوہ کہیں اور جان ہُوا؟ آپ جب وہاں احاطے میں بیٹھتے ہیں تو کیا محسوسات ہوتے ہیں؟ کچھ elevation سی محسوس ہوتی ہے؟
 

نور وجدان

لائبریرین
لائف از شارٹ اینڈ آرٹ از لانگ جیسی کہاوتوں کے تناظر میں دیکھی ہوئی فلم کو دوبارہ دیکھنا خاصا دل گردے کا کام محسوس ہوتا ہے اور بار بار دیکھنا تو محال سی بات ہےتاہم دلچسپی کے اعتبار سے انگلش فکشن موویز میں "انٹر سٹیلر"، تاریخ کے حوالے سے ایران کی سیریز "سفیرِحسین"اور انڈین پنجابی فلموں میں دیہی کلچر کے حوالےسے "انگریج" ایسی ہیں جن کا دوبارہ دیکھنا بھی گوارا کیا جا سکتا ہے۔
آپ نے inception دیکھی ہے؟؟ کچھ سفیرِ حسین کے بارے میں مزید بتائیے .. ویسے آپ ہر زبان میں مووی دیکھنا پسند کرتے ہیں ...یہ آپ کا بہت اچھا پہلو سامنے آیا ہے:)
 

نور وجدان

لائبریرین
میرے سوالات کا سلسلہ تو چلتا رہے گا:) بقیہ محفلین سوالات پوچھ سکتے ہیں. یہ لڑی محفلین کے لیے کھول دی گئی ہے:)
 

نایاب

لائبریرین
ماشاء اللہ
بہت خوب سوچ و فکر ہے آپ کی محترم بھائی
بہت کچھ پایا ہے آپ کے موتیوں سے دمکتے الفاظ سے
اللہ سوہنا ہمیشہ مہربان رہے آمین
زندگی سے محبت اور اس کا احترام کرتے ہوئے اس کی حقیقت تک پہنچنا۔
کیا ہوتی ہے یہ زندگی سے محبت ؟ کون سی زندگی بارے اشارہ ہے آپ کا ؟ وہ زندگی جو ہم اپنے لیئے جیتے ہیں یا وہ زندگی جو ہم دوسروں کے لیئے جیتے ہیں ۔ ؟ کون سی زندگی سے محبت اچھی ہوتی ہے ؟ کیسے اس کا احترام کیا جائے کہ ہم بھی پا جائیں حقیقت ۔۔۔
اُن کا علم یا کم ازکم اُس جذبے کی حدت جس نے غزالی کو ایک قابلِ رشک زندگی ٹھکرا کر سچائی کی تلاش میں نگر نگر کی خاک چھاننے پر مجبور کر دیا۔
صاحب علم تو تھے ہی آپ مگر کس جذبے نے جناب غزالی کوسچائی کی تلاش میں نگر نگر پھرایا ۔ اور سچائی کس صورت سامنے آئی ؟
بہت دعائیں
 

آوازِ دوست

محفلین
کیا ہوتی ہے یہ زندگی سے محبت ؟ کون سی زندگی بارے اشارہ ہے آپ کا ؟ وہ زندگی جو ہم اپنے لیئے جیتے ہیں یا وہ زندگی جو ہم دوسروں کے لیئے جیتے ہیں ۔ ؟ کون سی زندگی سے محبت اچھی ہوتی ہے ؟ کیسے اس کا احترام کیا جائے کہ ہم بھی پا جائیں حقیقت ۔۔۔
نایاب جی آپ کے تجربات بہت دلچسپ ہیں اور ان سے بہت سی باتیں سوچنے سمجھنے کی آسانی میسر آتی ہے اور مزید آ سکتی ہے۔ مجھے آپ کی بقیہ تحریر کا انتظار رہے گا۔ میں نہیں سمجھتا کہ میرے پاس آپ کے علم میں اضافہ کرنے کے قابل کچھ ہے تاہم اپنی بات کی وضاحت کیے دیتا ہوں کہ زندگی سے محبت کا میرا فلسفہ ایک سے زیادہ رُخ رکھتا ہے۔ بدقسمتی سے وطنِ عزیز میں میں نے قدم قدم پر انسانیت فروشوں کے ہاتھوں انسانی زندگی کو ایک قابلِ سمجھوتہ ،ادنٰی اور بے وقعت چیز بنتے دیکھا ہےجبکہ دوسری طرف مہذب قومیں انسان تو انسان کسی جانور کو بھی مصیبت میں نہیں دیکھ سکتیں۔ اُنہیں اگر کسی وجہ سے کسی جاندار کی جان لینا بھی پڑے تو وہ ایسا طریقہ اختیار کرتے ہیں کہ جس میں کم سے کم تکلیف پہنچے۔ میں نے ڈاکٹروں کی غفلت اور لاپرواہی سے لوگوں کو ساری زندگی کے لیے معذور ہوتے اور مرتے دیکھا ہے۔اس پر مستزاد یہ کہ وہ کسی قسم کی جوابدہی کا سامنا نہیں کرتے۔ وکیلوں کو انسانیت کے دکھ بھرے مسائل سے انتہائی غیر ہمدردانہ انداز سے اپنی جیبیں بھرتے اور قاتلوں ، لُٹیروں اور غاصبوں کو قانون کی فکر سے آزاد کرتے دیکھا ہے۔ جعلی جمہوریت کی اس کھلی فریب نگری میں زندگی بچانے والی دوائیں جعلی ہیں دل میں ڈالنے والے سٹنٹ جعلی ہیں، ڈگریاں جعلی ہیں، جعلی ڈگریاں بیچنے والوں کو بے گناہ قرار دینے والے جج جعلی ہیں۔ یہاں کوئی بھی شخص جس طرح کی اچھی بری چیز چاہے اُٹھا کر کسی بھی سکول کے آگے کھڑا ہو کر بیچ سکتا ہے۔ مزدور یہاں بارہ گھنٹے کام کر کے کم سے کم طے شدہ سرکاری اُجرت سے بھی کم تنخواہ لینے پر مجبور ہیں۔ لیبر انسپکٹر موجود ہیں وہ اس استحصالی نظام کو روانی سے چلتا رکھنے کی پوری قیمت وصول کرتے ہیں۔ یہ اور ایسا ہی بہت اور کچھ انتہائی گھناؤنا ہے اور میرے دیس کے سادہ لوح ان پڑھ اور غریب اور کمزور لوگوں کو اپنا آسان شکار بنائے ہوئے ہے۔ یہاں صرف دو طبقات رہ گئے ہیں شکار اور شکاری، تو رِسپیکٹ آف لائف کا انتہائی بنیادی اور اہم سبق اسی نفسا نفسی کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ ناقص برقی آلات اور تار سالانہ ہزاروں قیمتی جانوں کے ضیاع کا باعث بنتے ہیں۔ ناقص اور خطرناک گزرگاہیں آئے روز حادثات کی آماجگاہ ہیں۔ روڈ سیفٹی کی تعلیم و تربیت دینے اور ڈرائیونگ کی ضروری مہارت اور لائسینس کے بغیر کسی کو سڑک پر آنے سے روکنے جیسے اہم فرائض کو رشوت ستانی یا زیادہ سے زیادہ چالان کر کے امدادِ باہمی کی بنیادوں پر نظراندازکر دیا جاتا ہے۔ بندہ مر جائے یا کُتا مر جائے یہاں سب ایک سا بے معنی ہے۔ ایسےسب کام زندگی سے محبت اور اُس کے احترام کے خلاف ہیں۔ انسان بننے اور انسانیت بچانے کے لیے اس محبت اور احترام کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا تب ہی ہماری آنے والی نسلیں ایک بہتر ملک کی بجائے ایک بہتر کل کا خواب دیکھ سکیں گی۔ دوسروں سے کی جانے والی بے لوث محبت کسی نا کسی شکل میں لوٹ کر واپس آپ تک ضرور پہنچتی ہے۔ زندگی سے محبت اور اس کا احترام خود آپ کو اپنی اور دوسروں کی نظرمیں معتبر بنا دیتا ہے۔
 

آوازِ دوست

محفلین
زندگی سے محبت اور اس کے احترام کا دوسرا پہلو میری اپنی زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔ زندگی کے مقصد و جواز پر غور کرتے ہوئے آپ طرح طرح کے نظریات سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کائنات کی بے کراں وسعتوں کے کینوس پر آپ کو اپنی ہستی اک ذرہ بے نشاں سے بھی زیادہ حقیر اور بے وقعت نظر آئے۔ آپ کے لیے یہ کم مائیگی اپنی ہستی کی توہین کے طور پر سامنے آسکتی ہے۔آپ سارے حوصلے ہار کر یہ سوچ سکتے ہیں کہ میرے جیسے یا مجھ سے بہتر بھی ہزاروں روز پیدا ہوتے ہیں اور روز ہی مر جاتے ہی تو ایک میرے ہونے نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں زندگی اپنی قدر کھونے لگتی ہے۔ اس سے محبت محض خودفریبی اور قید با مشقت محسوس ہوتی ہے۔ اپنی ہستی کی بے توقیری کے احساس کا جوابی ردعمل زندگی کا احترام بھی حرفِ غلط کی طرح مٹا دیتا ہے۔ ایسے پریشان کن لمحات آپ سے آپ کی زندگی آپ کے ہاتھوں ہی کسی ان چاہے انجام تک پہنچوا سکتے ہیں۔ سو ہمیں زندگی کے مقصد و جواز کی تلاش میں بہت آگے جانے سے پہلے وہ حدود طے کر لینی چاہییں جن کا پاس رکھنا اس تلاش و تحقیق سے کم اہم نہ ہو۔ میں نے ان حدود کو زندگی سے عہدِ محبت اور اس کے احترام کے نام سے معنون کیا ہے۔ یہ عنوان مجھے یاد دلاتا رہے گا کہ میری دریافتوں سے حاصل کردہ کوئی بھی غیر حتمی یا حتمی نتیجہ مجھے اس عہد کے خلاف نہیں جانے دے گا۔
 

آوازِ دوست

محفلین
صاحب علم تو تھے ہی آپ مگر کس جذبے نے جناب غزالی کوسچائی کی تلاش میں نگر نگر پھرایا ۔ اور سچائی کس صورت سامنے آئی ؟
بہت دعائیں
غزالی نے دینی و دنیاوی علوم پر اچھی دسترس سے چیف جسٹس کا عہدہ حاصل کرلیا پھر اچانک غزالی کے ذہن میں یہ خیال نما شک پیدا ہوا کہ جس خدا کی میں بندگی کرتا ہوں وہ حقیقت بھی ہے یا نہیں؟ غزالی کو اس خیال کے ساتھ ہی اپنی ایمانیات کی پر شکوہ عمارت زمین بوس اور اپنی آخرت غارت ہوتی نظر آئی۔ اُنہوں نے اپنے مقام و منصب کو چھوڑ کر خدا کی تلاش شروع کر دی۔ پھر کوئی دس برس در در کی خاک چھاننے کے بعد اُنہیں اپنی تلاش کا پھل ملا۔
 
Top