تیرہویں سالگرہ آوازِ دوست کا انٹرویو

آوازِ دوست

محفلین
آوازِ دوست میں یہ سوچ کر آیا تھا کہ انٹرویو ہے۔ مگر مقالے دیکھ کر واپس جا رہا ہوں۔ پھر پڑھوں گا اور ان شاء اللہ اپنے سوالات بھی پیش کروں گا۔ :redheart:
بہت خوب !!! جناب آپ ان مقالہ نماؤں سے پریشان نہ ہوں۔ آپ آئیے ہم آپ کے لیے شاپرو شاپری ہو جائیں گے۔:redheart::redheart:
 

آوازِ دوست

محفلین
بس جی ہمہ یاراں دوزخ ہمہ یاراں جنت ۔ اب شاپر کم ہوں یا زیادہ ذوالقرنین بھائی کو راضی تو رکھنا ہے۔ ویسے بھی آج کل دائیں بائیں ہر جگہ سے بارش کی خبریں آ رہی ہیں جبکہ ہمارا گزارا ٹھنڈی ہواؤں اور لان میں اکٹھے ہونے والے شاپر صاف کرنے پر ہی ہے۔
 

آوازِ دوست

محفلین
5) اردو محفل پر اور حقیقی زندگی میں آپ کے نام کے علاوہ کیا کیا چیزیں فرق ہیں؟
نام تو فرق نہیں ہے۔ یہاں جو بتایا ہوا ہے حقیقی زندگی میں بھی وہی ہے۔ حقیقی زندگی کُل ہے اور اُردو ویب اسی کُل کا ایک جزو ہے۔ یہاں جو دوست احباب ہیں ان سے محفل میں ملاقات گو کہ ہوتی رہتی ہے مگر اس کا تکنیکی رابطہ کاری پر براہ راست انحصار ہے۔ اس وجہ سے پیدا ہونے والا فاصلاتی تاثر ایک جامد پس منظر کی طرح ہر سرگرمی میں محسوس کیا جا سکتا ہے باقی اُردو ویب کا زاہد حسین حقیقی زندگی کے زاہد حسین سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
دنیا گلوبل ویلج کہلاتی ہے مگر اربوں نفوس پر مشتمل یہ گاؤں اتنا بڑا ہے کہ یہاں اور بھی کئی لوگ ایسے مل جاتے ہیں جو آپ جیسا سوچتے ہیں یا آپ جیسی سوچ میں آپ سے بہت آگے پہنچ چکے ہوتے ہیں۔روح سے جسم کا تعلق اگرکافی مضبوط نہ ہوتا تو جسم کی آلودگی روح پر اثر انداز نہ ہو سکتی۔ میری کسی بات کا مقصد اس تعلق کو کمزور ثابت کرنا نہیں تھا بلکہ میں نے صرف یہ بیان کرنے کی کوشش کی تھی کہ اس تعلق کی تمام تر مضبوطی کے باوجود جسم کی حیثیت کمتر ہے ۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ غزالی اسے سوار کی سواری قرار دیتے ہیں۔ آپ کو بات سمجھانے بیٹھا تو مجھ پر لفظ سوار کے حوالے سے غزالی کے بات کے کچھ نئے معنی کھُلے۔ آپ جانتی ہیں کہ اپنی ممکنہ حالت کے حوالےسے: سواری کبھی۔۔۔۔۔۔ سوار سے خالی ۔۔۔۔۔۔بھی ہو سکتی ہے اور کبھی اُس پر ۔۔۔۔۔۔سوار موجود۔۔۔۔۔۔ بھی ہو سکتا ہے اور سواری پر بیک وقت۔۔۔۔۔۔ ایک سے زیادہ سوار۔۔۔۔۔ بھی موجود ہو سکتے ہیں۔ سوار سے خالی سواری والی کہانی تو اپنی کیفیت کے حوالے سے میں نے سُنا دی اور سواری پر موجود سوار کی مثال ہم سب کی نارمل زندگی ہےجس میں روح اور جسم باہم مربوط ہوتے ہیں تو یہ سواری پر ایک سے زیادہ سواروں کی کیا منطق ہے؟ اس بات کی وضاحت کے لیے آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں۔ کوئی لگ بھگ آٹھ دس سال پہلے کی بات ہے کہ ملتان میں پاک عرب فرٹیلائزر سے ملحق نئی تعمیر شدہ آبادی کی ایک مسجد کے امام قاری غلام مستقیم صاحب کے پاس جانا ہوا ۔ معلوم ہوا تھاکہ قاری صاحب جنات کے ستائے ہوئے لوگوں کا علاج کرتے تھے۔ اُن کی مسجد میں چند لوگ اور بھی بیٹھے تھے کہ اتنے میں باہرایک گاڑی آکر رُکی۔ گاڑی سے چند مرد و خواتین اور ایک لڑکی پر مشتمل فیملی مسجد میں داخل ہوئی۔ لڑکی کی عمر قریبا" پندرہ ، بیس سال ہو گی۔ اُنہوں بتایا کہ قاری صاحب سے ٹائم لیا ہوا ہے لڑکی کو جنات کی تکلیف ہے اور وہ کافی دور سے آئے ہیں۔ اتنے میں قاری صاحب ملحق رہائش گاہ سے مسجد میں آئے اور اُن لوگوں سے حال احوال پوچھا۔ پھرقاری صاحب نے کہا کہ تشریف رکھیں جنات کی کارستانی ابھی سامنے آجائے گی۔ ہم سب ایک دری پر بیٹھے بغور لڑکی کی کیفیت کا مشاہدہ کر رہے تھے اُنہوں نے لڑکی سے کچھ سوالات پوچھے اور کچھ آیات تلاوت کرنا شروع کر دیں پھر لڑکی پر یہ کہتے ہوئے دم کیا کہ جو بھی جن اس پر موجود ہو حاضر ہو جائے ۔لڑکی کے جسم کو ایک جھٹکا سا لگا اور اُس کی حالت میں ایک واضح تبدیلی نظر آئی۔ قاری صاحب نے بتایا کہ جن حاضر ہو چکا ہے ۔ اُنہوں نے لڑکی سے پوچھا کہ تمہارا کیا نام ہے؟ تم مسلمان ہو؟ اس کو کیوں پریشان کرتے ہو؟ لڑکی کے حلق سے ایک اجنبی اور کھردری آواز برآمد ہوئی جو ہرگز اُس کی اپنی آواز کے جیسی نہیں تھی۔ اُس نے قاری صاحب کے سوالوں کے جواب دینا شروع کیے ۔ آخر میں اُس سے لڑکی کی جان بخشی کے قول و قرار لیے۔ اُسے لڑکی کو مزید پریشان کرنے کی صورت میں جلا دینے کی دھمکی دی اور اُس سے حضرت سلیمان علیہ السلام کی قسم اُٹھوا کر رخصت کر دیا ۔ لڑکی واپس اپنے حواس میں آئی تو اُسے کچھ یاد نہ تھا کہ اُس کے ذریعے کیا مکالمہ ہوا تھا۔ اس سے قدرے مختلف لیکن اس طرز کا ایک واقعہ اس سے پہلے شجاعباد میں وہاں رہنے والے ایک دوست کی مدد سے مشاہدے میں آیا تھا۔ اس سے ثابت یہ ہوا کہ ہمارا جسم نہ صرف یہ کہ ایک انٹرفیس یا رابطہ کار کے طور پر ہمارے لیے کام کرتا ہے بلکہ مخصوص حالات میں اس انٹرفیس کو کوئی اور بھی استعمال کر سکتا ہے اور ہم اس "ادر یوزر سیشن "سے لا علم رہ سکتے ہیں۔ اس سے بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں اور کوئی اس کا آسانی سے یقین نہیں کرتا۔ میں اس واقعے کا ہرگز ذکر نہ کرتا اگر مجھے چند دن پہلے یو ٹیوب پر ایک وڈیو دیکھنے کا اتفاق نہ ہوتا۔یہ بالکل اُسی واقعے کی ری انٹیکٹمنٹ لگتی ہے جو برسوں قبل میری آنکھوں کے سامنے ظہور پذیر ہوا تھا۔ یہ پتریاٹہ کے پیر عظمت نواز صاحب ہیں ۔ یو ٹیوب پر ان سے متعلق کافی وڈیوز ہیں میں نے جو دیکھی وہ مسلم اوزیفہ جن بعمر 700 سال والی تھی۔آپ اپنی سہولت کے مطابق اسے صحیح یا غلط سمجھ لیں، سچ یا جھوٹ جو چاہیں مان لیں کیوں کہ فی الحال ہمارا اس سے لینا دینا صرف اتنا ہے کہ یہ معاملہ ہمارے سواری کے تصور کی ایک سے زیادہ سواروں والی حالت کی بخوبی وضاحت کرتا ہےبلکہ ایک دلچسپ پہلو سامنے لاتا ہے کہ ہمارا یہ انٹرفیس ہیک بھی ہو سکتا ہے۔ واللہ عالم الغیب۔
وہ بات عجیب لگتی ہے جس کی حقیقت کا آپ کا علم نہ ہو ... سواری والی بات تب تک فسانہ ہے جب تک اسکا تجربہ نہ ہو مگر سواری کے تصور کی سمجھ آگئی ہے. اپنے تجربات یہی کہتے ہیں تمام عالم کا گزر درون سے ہوتا ہے جہاں کا تصور بذات خود نئی دنیا کو روشناس کراتا ہے .

. آپ خود کو دس سال بعد کہاں دیکھتے ہیں؟
آپ.کی زندگی کا.سب سے بڑا مقصد کیا.ہے؟
آپ اگر امام غزالی سے ملتے تو کیا حاصل کرتے؟
آپ ملتان کی کون کون سی جگہیں پسند کرتے ہیں؟
ایسی کون سی مووی ہے جس کو بار بار دیکھنا چاہیں گے؟
آپ کے ارادے ٹوٹ جاتے ہیں تو کیا ردعمل ہوتا ہے؟
آپ مصلحتا جھوٹ بولتے ہیں اور کیا یہ درست عمل ہے؟
اگر آپ ملتان کے کمشنر ہوتے تو پہلا کام کیا کرتے؟
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
۔حال ہی میں مکان کی تعمیر کے سلسلے میں درجنوں افراد سے واسطہ رہا اور یہ جان کر تعجب اور افسوس ہوا کہ شائد ہی ان میں سے کوئی پیشہ ورانہ یا کاروباری دیانتداری کے تقاضوں پر پورا اُترتا ہوگا۔
مکان کی تعمیر مبارک ہو۔ جلد ہی نئے مکان میں دعوت کھانے کے لیے حاضر ہوں گے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
9۔ آپ کا نک آوازِ دوست ہے ، اس کے رکھنے کی کیا وجہ ہے ؟ آپ کا یہ نک نیم آپ کی زندگی پر کیسے اثر انداز ہوا ؟
نک نیم ہمارا ابتدائی تعارف ہوتا ہے تو آوازِدوست کا نِک ، تعارف کے ابتدائی مرحلے میں اجنبیت کے روکھے پن کو دوستانہ خلوص میں تبدیل کرنے کی ایک خودکار سی کوشش کرتا ہےسو اس لیے اسے منتخب کیا۔ زندگی کے مشکل مراحل میں ہمیں اکثر یوں لگتا ہے کہ اگر کوئی مخلص دوست پکار کر کہہ دے کہ فکر مت کرو میں تمہارے ساتھ ہوں تو آدھی مشکل تو ویسے ہی ختم ہو جاتی ہے۔ سو یہ نک بڑی حد تک اسی اُمید افزااحساس کی ترجمانی کرتا ہے کہ مشکلات میں مخلص دوست آپ کے بن کہے بھی آپ کو حوصلہ دینے اور آپ کی مدد کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔
میں سمجھا مختار مسعود سے متاثر ہوکر رکھا۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
14۔ آپ کا فیورٹ کھانا کون سا ہے ؟ کیا آپ کھانا خود بھی بناتے ہیں ؟
خوش ذائقہ بنی ہوئی کوئی بھی دال، سبزی یا گوشت خوشدلی سےکھا لیتا ہوں۔ شوربے والا سالن ہو تو اس میں روٹی بھگو کر کھانا زیادہ اچھا لگتا ہے۔ نمکین روسٹ، سجی اورباربی کیو آئیٹمز بھی پسند ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ مجھے اچھا کھانا بنانا آجائےتو اس کے لیے آنے والی سردیوں میں کوشش کا ارادہ ہے۔باقی گھر کی کوکنگ میں جہاں میری ضرورت محسوس ہو میں مدد کے لیے دستیاب رہتا ہوں۔
میں اس سوال کا جواب اتنا سادہ توقع نہیں کر رہا تھا۔۔۔ میرا خیال تھا کہ آپ کا جواب کچھ اس طرح ہوگا کہ
کھانا انسان کی بنیادی ضرورت ہے سو کھائے بنا چارہ نہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ آدم سے لیکر دور جدید کے انسان تک سبھی لوگ کچھ نہ کچھ کھا کر ہی زندہ رہے ہیں سو اسی تناظر میں میں بھی کھا کر ہی زندہ ہوں۔ اور بقیہ تمام انسانوں کی طرح مجھے بھی کچھ نہ کچھ کھانے میں پسند ہے۔ اور میرا خیال ہے کہ آپ نے اسی بابت پوچھا ہے۔ تو قصہ یوں ہے ہمنشیں کہ
خوش ذائقہ بنی ہوئی کوئی بھی دال، سبزی یا گوشت خوشدلی سےکھا لیتا ہوں۔ شوربے والا سالن ہو تو اس میں روٹی بھگو کر کھانا زیادہ اچھا لگتا ہے۔ نمکین روسٹ، سجی اورباربی کیو آئیٹمز بھی پسند ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ مجھے اچھا کھانا بنانا آجائےتو اس کے لیے آنے والی سردیوں میں کوشش کا ارادہ ہے۔باقی گھر کی کوکنگ میں جہاں میری ضرورت محسوس ہو میں مدد کے لیے دستیاب رہتا ہوں۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
15۔انسان کو معاشرتی دباؤ نے کیا تحفہ دیا ہے؟
احساسِ عدم تحفظ اور مشینی زندگی کی مسابقانہ دوڑ نے انسانی سوچ کے چشمےخشک کر دیے ہیں۔ ہم پیٹ سے سوچنے والے عہدمیں جی رہے ہیں۔زندگی کی اعلیٰ اقدار کے مقابلے میں مادہ پرستی کی پیروی کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی ہے۔معاشرتی عدم مساوات اور لاقانونیت کے دباؤ نے لوگوں کی اکثریت کو اخلاقی سطح پر بونوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ہر شعبہء زندگی میں عوامی خدمت کی ہر اہم سیٹ پر چھوٹے چھوٹے فرعون بیٹھے ہیں جو عوام کو اپنے ہوسِ زر کی بھٹی کا ایندھن بنائے ہوئے ہیں۔اس صورتِ حال کا تحفہ یہی ہو سکتا ہے کہ آج جو بندہ تھوڑی سی نیکی اور بھلائی بھی کرتا ہے تو یہ بڑی بات سمجھی جاتی ہے اور یہ واقعی بڑی بات ہے کیونکہ ایسا کرنا آسان نہیں رہا سو اُمید ہے کہ خُدا کے ہاں بھی تھوڑے کیے کا زیادہ اجر ملے گا۔
واہ۔۔۔ اتی سندر
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
17۔غصے کا اظہار کس طرح کرتے ہیں؟
الحمدللہ میں ایک صلح جوانسان ہوں ۔ غصہ ایک منفی جذبہ ہےسوچاہتا ہوں کہ غصہ بالکل نہ آئے مگر اس میں شائد کافی محنت کی ضرورت ہے کیوں کہ کبھی کبھار ہی سہی پر میں اس کے ہاتھوں خود کو زیر ہوتا دیکھ ہی لیتا ہوں۔میرے چہرے کے تاثرات اور لہجے کی تندی ہی اس کے اظہار کا ذریعہ ہیں۔
وہ بھی کوئی انسان ہے جو گالی نہیں دیتا۔ آپ کی کیا رائے ہے؟
 

آوازِ دوست

محفلین
6) آپ کے خیال میں کن تین شخصیات نے دنیا پر سب سےزیادہ اثرات مرتب کیے؟
اس سوال کے کئی رُخ ہو سکتے ہیں۔ مذہبی، اخلاقی، معاشرتی، سائنسی، فلسفیانہ،۔۔۔۔۔۔۔مگر اختصار کے دائرے میں جو تین نام ذہن میں آ رہے ہیں وہ آقائے نامدار حضرت محمّد صلی اللّہ و علیہ وسلم، ارسطو اور بِل گیٹس ہیں۔
 

نایاب

لائبریرین
شعور یا آگہی انسانی شخصیت کا ہمہ جہت مظہر ہے۔ اس کے حصول کا انحصار میری ناقص رائے کے مطابق زندگی کے محض جذباتی رُخ پر ہی منحصر نہیں ہے بلکہ ہماری تربیت، ماحول، فطری رحجانات اور لاسٹ بٹ ناٹ لیسٹ ہمارے تجربات اس کے حصول میں کافی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔جذبات کو ہماری زندگی میں زیادہ اہمیت تب حاصل ہوتی ہے جب ہم خود کو بہت کمزور یا بہت طاقتور محسوس کرنے لگتے ہیں۔ ٹھیس پہنچنے کا تعلق اُمید اور توقعات سے ہے جو لوگ دوسروں سے زیادہ اُمیدیں اور توقعات نہیں باندھتےانہیں کسی جذباتی دھچکے کا امکان اتنا ہی کم ہو جاتا ہے لیکن عمومی انسانی فطرت ہےکہ دوسروں کے ساتھ نیکی اور بھلائی کا معاملہ کرکے آپ شعوری یا لاشعوری طور پر جواب میں بھلے کی توقع ہی رکھتے ہیں۔ ہم بحثیت ایک نارمل انسان جذبات سے کٹ کر نہیں رہ سکتے کیوں کہ زندگی کی اعلیٰ اقدار انسانوں کے جذباتِ خیر سگالی اور باہمی احترام کی مرہونِ منت ہیں۔ لطیف جذبات کا سرگم اپنے متنوع رنگوں کی رم جھم سے دنیا بھر کے فنونِ لطیفہ کی آبیاری کرتا ہے تاہم جیسا کہ عملی زندگی میں سب اچھا نہیں ہوتا تو سمجھدارانہ اور متوازن طرزِ عمل اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم اپنی داخلی دنیا کو عملی زندگی کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے دیں اور جہاں جہاں ضروری ہو اس مسابقت بھری دوڑ کی دنیا میں اپنا مناسب مقام بنانے کی جدوجہد کریں۔
ماشاء اللہ
کیا خوب انٹرویو چل رہا ہے ۔
اردو محفل کے چمن میں جیسے کوئی علم کا چراغ روشن ہو ۔ سوال بھی خوب اور جواب بھی
علم کے موتی لٹائے جا رہے ہیں ۔ آرام سے پڑھتے کچھ حاصل کرنے والی باتیں ہیں ۔
اگر وقت و نیٹ نے اجازت دی تو کچھ پوچھ میں بھی علم پانے کی کوشش کروں گا ۔
بہت دعائیں
 

آوازِ دوست

محفلین
وہ بھی کوئی انسان ہے جو گالی نہیں دیتا۔ آپ کی کیا رائے ہے؟
بدقسمتی سے جب تک تہذیب پیدا نہ ہو آسانی ایسے ہی زبان کو کھلا چھوڑ دینے میں محسوس ہوتی ہے۔اخلاقیات میں نچلے درجے کے لوگ اپنے ہر اچھے برے جذبے کو شاندار طور پر پیش کرنے اور اپنے بازاری لچر پن میں بہتے ہوئے جوش و خروش کا لطف دوبالا کرنے کے لیے ہر دوسرے جملے میں اپنے مرطوب دھانوں سے اُڑتی ہوئی مغلظات کی بے سمت جھاگ شامل کرتے ہیں اور اپنے قرب و جوار کو اپنی موجودگی سے پانی پانی اور دھواں دھواں کر دیتے ہیں۔ انہیں کامل یقین ہوتا ہے کہ زندگی نے ان کے ساتھ جو سلوک کرڈالا ہے اُس کے بعد اب کوئی اور ان کا کیا بگاڑ لے گا۔ ایسے لوگوں کو دیکھ کر بے اختیار ایک ٹی وی سیریل کا تاریخی ڈائیلاگ یاد آ جاتا ہے "ایک تو غریب اوپر سے بدتمیز"۔ (یہاں غربت سےمراد مالی کمزوری نہیں)
درمیانے درجے کی اخلاقیات کے لوگ گالی کو معیوب جانتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس سے بچنے کی ترغیب دیتے ہیں اور نارمل حالات میں بڑے ٹھنڈے میٹھےمزاج کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن جہاں کوئی کمزور یا زیرِ اثر انہیں غصّہ دلا دے یا ان کے مزاج کے خلاف چلا جائے وہاں یہ اخلاقیات کا خوش نما لبادہ اُتار کر ایک سائیڈ پر رکھ دیں گے اور سامعین کو حیران کرکے رکھ دیں گے البتہ اپنے سے طاقتور فریق سے یہ روایتی خوش اخلاقی سے پیش آئیں گے اور اگر کچھ کہیں گے بھی تو اس پیرائے میں کہ بظاہر تعریف ہی محسوس ہو جیسا کہ ”شاہ جی آپ بھی بادشاہ آدمی ہیں ہم جیسے غریبوں کی سنتے ہی نہیں ہیں" وغیرہ وغیرہ لیکن ایسے جملوں میں بادشاہ یا اس قبیل کے جو بظاہر خوش نما الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں اُن کی اصل تشریح کے جملہ حقوق انہی کے پاس ہوتے ہیں۔ یہ دوستوں کے ساتھ گپ شپ میں ہلکی پھلکی بد پرہیزی کو باہمی خلوص اور یکانگت کی نشانی سمجھتے ہیں اور دورانِ گفتکو دلائل یا اعتماد کی کمی کو اضافی بے تکلفی کے وزن سے پورا کر دیتے ہیں تاکہ جوابی دلائل ان کے مؤقف کے پڑخچے اُڑا دیں تو ان کی بات کو مذاق سمجھ کر نظرانداز کر دیا جائے اور اگر احباب ان کے زورِبیاں کے آگے نہ ٹہر پائیں تو فاضل خطابات دوسروں کی کم علمی کا انعام قرار پائیں۔
اعلیٰ اخلاق کے مالک اپنی سوچ کو جذبات کے ہاتھوں ہائی جیک نہیں ہونے دیتے۔ اکیلے میں بڑبڑائی ہوئی اپنی کوئی بات یا سرسری ذہن سے گزرا کوئی پراگندہ خیالی کا جھونکا بھی اُنہیں پریشان کر دیتا ہے کہ افسوس پاکیزہ خیالی کا وضو ٹوٹ گیا۔ یہ خوبی اچھے ماحول، اعلیٰ تربیت نیز طبعیت میں خوش اخلاقی، وسیع القلبی، سعادت مندی اور حیاداری جیسی صفات سے کردار میں جگہ پاتی ہے۔ اگر یہ سارے عوامل نہ ہوں تو بھی فقط حیاداری اور مسلسل خود احتسابی سے کافی اچھے نتائج سمیٹے جاسکتے ہیں۔ لیکن اگر حیا رخصت ہو جائے تو پھر باقی چیزیں بے کار ہو جاتی ہیں۔ کہا گیا ہے کہ بندہ حیا کا دامن چھوڑ دے تو پھر جو چاہے سو کرتا پھرے۔
 
آخری تدوین:
Top