دنیا گلوبل ویلج کہلاتی ہے مگر اربوں نفوس پر مشتمل یہ گاؤں اتنا بڑا ہے کہ یہاں اور بھی کئی لوگ ایسے مل جاتے ہیں جو آپ جیسا سوچتے ہیں یا آپ جیسی سوچ میں آپ سے بہت آگے پہنچ چکے ہوتے ہیں۔روح سے جسم کا تعلق اگرکافی مضبوط نہ ہوتا تو جسم کی آلودگی روح پر اثر انداز نہ ہو سکتی۔ میری کسی بات کا مقصد اس تعلق کو کمزور ثابت کرنا نہیں تھا بلکہ میں نے صرف یہ بیان کرنے کی کوشش کی تھی کہ اس تعلق کی تمام تر مضبوطی کے باوجود جسم کی حیثیت کمتر ہے ۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ غزالی اسے سوار کی سواری قرار دیتے ہیں۔ آپ کو بات سمجھانے بیٹھا تو مجھ پر لفظ سوار کے حوالے سے غزالی کے بات کے کچھ نئے معنی کھُلے۔ آپ جانتی ہیں کہ اپنی ممکنہ حالت کے حوالےسے: سواری کبھی۔۔۔۔۔۔ سوار سے خالی ۔۔۔۔۔۔بھی ہو سکتی ہے اور کبھی اُس پر ۔۔۔۔۔۔سوار موجود۔۔۔۔۔۔ بھی ہو سکتا ہے اور سواری پر بیک وقت۔۔۔۔۔۔ ایک سے زیادہ سوار۔۔۔۔۔ بھی موجود ہو سکتے ہیں۔ سوار سے خالی سواری والی کہانی تو اپنی کیفیت کے حوالے سے میں نے سُنا دی اور سواری پر موجود سوار کی مثال ہم سب کی نارمل زندگی ہےجس میں روح اور جسم باہم مربوط ہوتے ہیں تو یہ سواری پر ایک سے زیادہ سواروں کی کیا منطق ہے؟ اس بات کی وضاحت کے لیے آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں۔ کوئی لگ بھگ آٹھ دس سال پہلے کی بات ہے کہ ملتان میں پاک عرب فرٹیلائزر سے ملحق نئی تعمیر شدہ آبادی کی ایک مسجد کے امام قاری غلام مستقیم صاحب کے پاس جانا ہوا ۔ معلوم ہوا تھاکہ قاری صاحب جنات کے ستائے ہوئے لوگوں کا علاج کرتے تھے۔ اُن کی مسجد میں چند لوگ اور بھی بیٹھے تھے کہ اتنے میں باہرایک گاڑی آکر رُکی۔ گاڑی سے چند مرد و خواتین اور ایک لڑکی پر مشتمل فیملی مسجد میں داخل ہوئی۔ لڑکی کی عمر قریبا" پندرہ ، بیس سال ہو گی۔ اُنہوں بتایا کہ قاری صاحب سے ٹائم لیا ہوا ہے لڑکی کو جنات کی تکلیف ہے اور وہ کافی دور سے آئے ہیں۔ اتنے میں قاری صاحب ملحق رہائش گاہ سے مسجد میں آئے اور اُن لوگوں سے حال احوال پوچھا۔ پھرقاری صاحب نے کہا کہ تشریف رکھیں جنات کی کارستانی ابھی سامنے آجائے گی۔ ہم سب ایک دری پر بیٹھے بغور لڑکی کی کیفیت کا مشاہدہ کر رہے تھے اُنہوں نے لڑکی سے کچھ سوالات پوچھے اور کچھ آیات تلاوت کرنا شروع کر دیں پھر لڑکی پر یہ کہتے ہوئے دم کیا کہ جو بھی جن اس پر موجود ہو حاضر ہو جائے ۔لڑکی کے جسم کو ایک جھٹکا سا لگا اور اُس کی حالت میں ایک واضح تبدیلی نظر آئی۔ قاری صاحب نے بتایا کہ جن حاضر ہو چکا ہے ۔ اُنہوں نے لڑکی سے پوچھا کہ تمہارا کیا نام ہے؟ تم مسلمان ہو؟ اس کو کیوں پریشان کرتے ہو؟ لڑکی کے حلق سے ایک اجنبی اور کھردری آواز برآمد ہوئی جو ہرگز اُس کی اپنی آواز کے جیسی نہیں تھی۔ اُس نے قاری صاحب کے سوالوں کے جواب دینا شروع کیے ۔ آخر میں اُس سے لڑکی کی جان بخشی کے قول و قرار لیے۔ اُسے لڑکی کو مزید پریشان کرنے کی صورت میں جلا دینے کی دھمکی دی اور اُس سے حضرت سلیمان علیہ السلام کی قسم اُٹھوا کر رخصت کر دیا ۔ لڑکی واپس اپنے حواس میں آئی تو اُسے کچھ یاد نہ تھا کہ اُس کے ذریعے کیا مکالمہ ہوا تھا۔ اس سے قدرے مختلف لیکن اس طرز کا ایک واقعہ اس سے پہلے شجاعباد میں وہاں رہنے والے ایک دوست کی مدد سے مشاہدے میں آیا تھا۔ اس سے ثابت یہ ہوا کہ ہمارا جسم نہ صرف یہ کہ ایک انٹرفیس یا رابطہ کار کے طور پر ہمارے لیے کام کرتا ہے بلکہ مخصوص حالات میں اس انٹرفیس کو کوئی اور بھی استعمال کر سکتا ہے اور ہم اس "ادر یوزر سیشن "سے لا علم رہ سکتے ہیں۔ اس سے بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں اور کوئی اس کا آسانی سے یقین نہیں کرتا۔ میں اس واقعے کا ہرگز ذکر نہ کرتا اگر مجھے چند دن پہلے یو ٹیوب پر ایک وڈیو دیکھنے کا اتفاق نہ ہوتا۔یہ بالکل اُسی واقعے کی ری انٹیکٹمنٹ لگتی ہے جو برسوں قبل میری آنکھوں کے سامنے ظہور پذیر ہوا تھا۔ یہ پتریاٹہ کے پیر عظمت نواز صاحب ہیں ۔ یو ٹیوب پر ان سے متعلق کافی وڈیوز ہیں میں نے جو دیکھی وہ مسلم اوزیفہ جن بعمر 700 سال والی تھی۔آپ اپنی سہولت کے مطابق اسے صحیح یا غلط سمجھ لیں، سچ یا جھوٹ جو چاہیں مان لیں کیوں کہ فی الحال ہمارا اس سے لینا دینا صرف اتنا ہے کہ یہ معاملہ ہمارے سواری کے تصور کی ایک سے زیادہ سواروں والی حالت کی بخوبی وضاحت کرتا ہےبلکہ ایک دلچسپ پہلو سامنے لاتا ہے کہ ہمارا یہ انٹرفیس ہیک بھی ہو سکتا ہے۔ واللہ عالم الغیب۔
وہ بات عجیب لگتی ہے جس کی حقیقت کا آپ کا علم نہ ہو ... سواری والی بات تب تک فسانہ ہے جب تک اسکا تجربہ نہ ہو مگر سواری کے تصور کی سمجھ آگئی ہے. اپنے تجربات یہی کہتے ہیں تمام عالم کا گزر درون سے ہوتا ہے جہاں کا تصور بذات خود نئی دنیا کو روشناس کراتا ہے .
. آپ خود کو دس سال بعد کہاں دیکھتے ہیں؟
آپ.کی زندگی کا.سب سے بڑا مقصد کیا.ہے؟
آپ اگر امام غزالی سے ملتے تو کیا حاصل کرتے؟
آپ ملتان کی کون کون سی جگہیں پسند کرتے ہیں؟
ایسی کون سی مووی ہے جس کو بار بار دیکھنا چاہیں گے؟
آپ کے ارادے ٹوٹ جاتے ہیں تو کیا ردعمل ہوتا ہے؟
آپ مصلحتا جھوٹ بولتے ہیں اور کیا یہ درست عمل ہے؟
اگر آپ ملتان کے کمشنر ہوتے تو پہلا کام کیا کرتے؟