عمران شناور
محفلین
قارئینِ سخن کے لیے منیر سیفی صاحب کی غزل ارسال کر رہا ہوں۔ ملاحظہ ہو:
آواز دے کے خود کو بلانا پڑا مجھے
اپنی مدد کو آپ ہی آنا پڑا مجھے
مجھ سے تمہارے عکس کو کرتا تھا بدگماں
آئینہ درمیاں سے ہٹانا پڑا مجھے
پھر اس کے بعد جرآتِ گریہ نہیںہوئی
اک اشک خاک سے جو اٹھایا پڑا مجھے
پھر یوں ہوا کہ جھوٹ کی عادت سی ہو گئی
پھر یوں ہوا کہ سچ کو چھپانا پڑا مجھے
پانی قبول ہی نہیںکرتا تھا میری لاش
دریا کو اپنا نام بتانا پڑا مجھے
مہمان آگیا تھا‘ سو کھانے کی میز پر
جلتا ہوا چراغ بجھانا پڑا مجھے
دھرتی کے ظرف کا ہوا اندازہ جب منیر
کچھ روز اپنا بوجھ اٹھانا پڑا مجھے
(منیر سیفی)
آواز دے کے خود کو بلانا پڑا مجھے
اپنی مدد کو آپ ہی آنا پڑا مجھے
مجھ سے تمہارے عکس کو کرتا تھا بدگماں
آئینہ درمیاں سے ہٹانا پڑا مجھے
پھر اس کے بعد جرآتِ گریہ نہیںہوئی
اک اشک خاک سے جو اٹھایا پڑا مجھے
پھر یوں ہوا کہ جھوٹ کی عادت سی ہو گئی
پھر یوں ہوا کہ سچ کو چھپانا پڑا مجھے
پانی قبول ہی نہیںکرتا تھا میری لاش
دریا کو اپنا نام بتانا پڑا مجھے
مہمان آگیا تھا‘ سو کھانے کی میز پر
جلتا ہوا چراغ بجھانا پڑا مجھے
دھرتی کے ظرف کا ہوا اندازہ جب منیر
کچھ روز اپنا بوجھ اٹھانا پڑا مجھے
(منیر سیفی)