آواز دے کے خود کو بلانا پڑا مجھے (منیر سیفی)

قارئینِ سخن کے لیے منیر سیفی صاحب کی غزل ارسال کر رہا ہوں۔ ملاحظہ ہو:

آواز دے کے خود کو بلانا پڑا مجھے
اپنی مدد کو آپ ہی آنا پڑا مجھے

مجھ سے تمہارے عکس کو کرتا تھا بدگماں
آئینہ درمیاں سے ہٹانا پڑا مجھے

پھر اس کے بعد جرآتِ گریہ نہیں‌ہوئی
اک اشک خاک سے جو اٹھایا پڑا مجھے

پھر یوں ہوا کہ جھوٹ کی عادت سی ہو گئی
پھر یوں ہوا کہ سچ کو چھپانا پڑا مجھے

پانی قبول ہی نہیں‌کرتا تھا میری لاش
دریا کو اپنا نام بتانا پڑا مجھے

مہمان آگیا تھا‘ سو کھانے کی میز پر
جلتا ہوا چراغ بجھانا پڑا مجھے

دھرتی کے ظرف کا ہوا اندازہ جب منیر
کچھ روز اپنا بوجھ اٹھانا پڑا مجھے

(منیر سیفی)
 

الف عین

لائبریرین
مطلع تو واقعی زبردست ہے، شکریہ عمران، منیر سیفی سے تعلقات ہوں تو داد پہنچا دیں۔
 
بہت شکریہ الف عین جی! آج کل سیفی صاحب علیل ہیں۔ اس لیے ملاقات کم ہی ہو پاتی ہے۔ اگر ہوئی تو آپ ضرور یاد رہیں گے۔ انشاء اللہ
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت عمدہ غزل ہے۔ عمران بھائی بہت شکریہ اس خوبصورت پیشکش کا۔

اللہ رب العزت منیر سیفی صاحب کو صحتِ کامل عطا فرمائے (آمین)
 

آصف شفیع

محفلین
بہت شکریہ الف عین جی! آج کل سیفی صاحب علیل ہیں۔ اس لیے ملاقات کم ہی ہو پاتی ہے۔ اگر ہوئی تو آپ ضرور یاد رہیں گے۔ انشاء اللہ

عمران! اگر سیفی صاحب سے ملاقات ہو تو میرے بھی سلام عرض کیجیے گا۔ ہم ان کی صحت کیلیے دعا گو ہیں۔ غزل پیش کرنے کا بے حد شکریہ۔
 

جیا راؤ

محفلین
پھر اس کے بعد جرآتِ گریہ نہیں‌ہوئی
اک اشک خاک سے جو اٹھایا پڑا مجھے

مہمان آگیا تھا‘ سو کھانے کی میز پر
جلتا ہوا چراغ بجھانا پڑا مجھے



واہ۔۔۔ بہت ہی خوبصورت انتخاب ہے۔۔۔!
بہت شکریہ شیئر کرنے کا۔۔۔ :)
 
Top