درست کہا راحیل !۔آپ کے اشارہ کرنے پر اندازہ ہوا کہ آپ نے رہے ہو میں ہو کا واؤ اور راحیل کا الف بھی ساقط کر کے باندھا ہے ۔ اس طرح تقطیع (میرےعروضی فہم یا بدفہمی کے مطابق ) بحر کی حد میں آجاتی ہے۔لیکن بادی النظر میں میرا شعری و عروضی ذوق اس کا متحمل نہ ہوسکا ۔بجا۔ اس بحر کی تقطیع دراصل نسبتاً پیچیدہ واقع ہوئی ہے۔ لہٰذا دو باتیں ممکن ہیں۔ یا تو میں آپ کا اعتراض نہیں سمجھ پایا۔ یا آپ پر معاملہ واضح نہیں ہو سکا۔
میں اس معرکۃالآرا بحر کی تقطیع کے لیے ایک طبع زاد قاعدے سے کام لیتا آیا ہوں جو میرؔ سے لے کر میرا جی تک بلااستثنا کام آتا ہے۔ میں یہ قاعدہ بھی مناسب موقع پر بیان کروں گا لیکن فی الحال صورتِ حال اس بات کی متقاضی ہے کہ کچھ اور لوگوں سے رائے لے لی جائے۔ میری خواہش ہو گی کہ محمد وارث بھائی، الف عین صاحب اور مزمل شیخ بسمل بھائی اس معاملے میں کچھ ارشاد فرمائیں۔
میں مشکور ہوں آپکا۔۔۔آپ سب کے اتنے پیار کا بہت بہت شکریہ۔ اللہ آپ کی محبتیں قائم دائم رکھے۔
میں سمجھا نہیں۔ اگر اصلاح مقصود ہے تو ارشاد فرمائیے۔
آپ کو ڈائری میں 'اصل' کرنے کی بھی اجازت ہے، سرکار۔ بصد شوق!
درست کہا راحیل !۔آپ کے اشارہ کرنے پر اندازہ ہوا کہ آپ نے رہے ہو میں ہو کا واؤ اور راحیل کا الف بھی ساقط کر کے باندھا ہے ۔ اس طرح تقطیع (میرےعروضی فہم یا بدفہمی کے مطابق ) بحر کی حد میں آجاتی ہے۔لیکن بادی النظر میں میرا شعری و عروضی ذوق اس کا متحمل نہ ہوسکا ۔
غالبا اس اشکال کی وجہ یہ ہوئی کہ میرا ذہن واؤ کے بعد فوراً ہی ا کے سقوط کو قبول نہ کرپایا۔
مجھ کو بھی بعد میں محسوس ہوا۔ عاطف کی بات سے متفق ہوں
مجھے افسوس ہے کہ میں آپ احباب کا نکتۂِ نظر بالکل نہیں سمجھ سکا۔ میں ذیل میں تقطیع کرنے کی کوشش کرتا ہوں تاکہ میری رائے واضح ہو جائے۔ شاید اس کے بعد آپ اپنا اعتراض واضح طور پر مجھے سمجھا سکیں گے۔مقطع کے مصرعِ اول کو واقعی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ یا تو "جھوم رہے ہو" کو "جھوم اٹھے" کرلیں یا پھر راحیل میں الف حذف کرکے لکھیں۔ تاکہ بادی النظر میں غلطی کا امکان نہ رہے۔
شعر سمجھ کر جھوم رہے ہو، راحیلؔ میاں یہ دستک تھی
سننے والوں نے سن بھی لی، تم رہے آہا آہا کرتے!
ہم نے آپ کو کب روکا تھا؟ آپ نے روکا، ظلم کمایا
آپ بھی اللہ اللہ کرتے، ہم بھی لیلیٰ لیلیٰ کرتے
شعر + سمج کر + جوم + رہے ہو + را + حیل + میا یہ + دستک + تی
فعل + فعولن + فعل + فعولن + فع + فعل + فعولن + فعلن + فع
بجا۔ کم از کم یہ تو طے ہو گیا کہ وزن کا مسئلہ نہیں ہے لیکن بحر کو نبھانے میں شاید مجھ سے کوئی خطا ہوئی ہے۔راحیل بھائی مسئلہ یہیں آرہا ہے۔
آپ نے ارکان کی الٹ پھیر سے وزن بے شک پورا کردیا ہو، لیکن یہ اس طرح روا نہیں ہے۔
یہ ارشادات واضح نہیں ہوئے۔ کوئی توضیح مع اسناد عطا ہو تو عنایت۔اسی طرح آپ بحر میں فعلُ فعولن کے ساتھ ساتھ فعِلُن کبھی نہیں لا سکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا کرنے سے بحر تبدیل ہو جاتی ہے۔ چنانچہ آپ بحر کے تمام دو حرفی اسباب (خفیف یا ثقیل) کو اگر جمع کریں تو ایک پابندی عائد ہوتی۔ یعنی آپ پوری بحر میں کسی بھی طاق سبب کو متحرک نہیں کر سکتے۔ اس سے بحر کا خلط ہوجاتا ہے۔ یہاں آپ نے اپنے مقطعے میں گیارھویں سبب کو متحرک کردیا ہے اور گیارہ طاق ہے جس کی وجہ سے مصرع ساقط الوزن معلوم ہو رہا ہے۔
میں نے اوپر ایک طبع زاد قاعدے کا ذکر کیا ہے۔ وہ قاعدہ دراصل متوالی الحرکات ٹکڑوں کے دوسرے حرف کو ساکن کرنے ہی سے متعلق ہے۔ اس سے وہی تقطیع صورت پذیر ہوتی ہے جس کا آپ نے ذکر فرمایا ہے۔یہاں آپ نے اپنے مقطعے میں گیارھویں سبب کو متحرک کردیا ہے اور گیارہ طاق ہے جس کی وجہ سے مصرع ساقط الوزن معلوم ہو رہا ہے۔ اسی کو اگر ساکن کرلیں تو مصرع وزن میں آجائے گا۔ مثلاً اگر "حیل میاں یہ" کو "حی لم یاں یہ" (لام کو میم کے ساتھ ملا کر) پڑھا جائے تو مجھے یا کسی کو بھی کوئی اعتراض نہ ہوگا۔
یہ ارشادات واضح نہیں ہوئے۔ کوئی توضیح مع اسناد عطا ہو تو عنایت۔
بجا، مزمل بھائی۔ مگر سند اور توضیح کسی اور جگہ مطلوب ہے۔دو حرفی ہجا عروض میں سبب کہلاتا ہے۔
سبب کی دو اقسام ہیں۔
1۔ سببِ خفیف (پہلا حرف متحرک اور دوسرا ساکن) جیسے، اب، تب، کب، جب وغیرہ۔ ان میں پہلا حرف متحرک اور دوسرا ساکن ہے۔
2۔ سببِ ثقیل (دونوں حروف متحرک)۔ اس کی اردو میں مجرد مثال کوئی نہیں۔ لیکن فعِلُن میں دیکھیں تو فَعِ سبب ثقیل ہے۔ اور لُن خفیف۔
اب بحر کے ارکان کی طرف آئیں تو یہ بحر اپنی بنیاد میں 16 اسباب رکھتی ہے۔ جسے آپ اوپر "آٹھ فعلن" کہہ رہے ہیں۔ گویا صورتحال یوں ہوگی:
فع - فع - فع - فع - فع - فع - فع - فع - فع - فع - فع - فع - فع - فع - فع - فع
اب قاعدہ یہ ہے کہ مذکورہ بحر میں ہر طاق سبب (فع) بطورِ سبب خفیف ہی آئے گا۔ یعنی یہ کہ ہر طاق فع کے عین کو ساکن رکھنا لازم ہے۔ اور جفت میں اختیار ہے کہ متحرک برتیں یا ساکن۔
اس کے برعکس آپ نے مذکورہ مصرع میں گیارھواں (طاق) سبب متحرک عین کے ساتھ باندھ دیا ہے جس کی وجہ سے مصرع بحر سے ساقط ہوگیا ہے۔ اوپر میں نے اس سبب کو سرخ کردیا ہے جسے آپ نے متحرک باندھا ہے۔اسے اگر آپ عین ساکن کے ساتھ لے آئیں تو وزن کا مسئلہ حل ہو جائے۔
نشان زد مقامات وہ ہیں جن کی تشریح بھی درکار ہے اور اور سند بھی۔ اسباب، اوتاد اور فواصل و فواضل کی بحثیں تو مبتدیانہ ہیں۔اسی طرح آپ بحر میں فعلُ فعولن کے ساتھ ساتھ فعِلُن کبھی نہیں لا سکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا کرنے سے بحر تبدیل ہو جاتی ہے۔ چنانچہ آپ بحر کے تمام دو حرفی اسباب (خفیف یا ثقیل) کو اگر جمع کریں تو ایک پابندی عائد ہوتی۔ یعنی آپ پوری بحر میں کسی بھی طاق سبب کو متحرک نہیں کر سکتے۔ اس سے بحر کا خلط ہوجاتا ہے۔ یہاں آپ نے اپنے مقطعے میں گیارھویں سبب کو متحرک کردیا ہے اور گیارہ طاق ہے جس کی وجہ سے مصرع ساقط الوزن معلوم ہو رہا ہے۔
بجا، مزمل بھائی۔ مگر سند اور توضیح کسی اور جگہ مطلوب ہے۔
نشان زد مقامات وہ ہیں جن کی تشریح بھی درکار ہے اور اور سند بھی۔ اسباب، اوتاد اور فواصل و فواضل کی بحثیں تو مبتدیانہ ہیں۔
گویا اگر اس مصرع کو کچھ بھی حذف کیے بغیر یوں کر دیا جائے:اب قاعدہ یہ ہے کہ مذکورہ بحر میں ہر طاق سبب (فع) بطورِ سبب خفیف ہی آئے گا۔ یعنی یہ کہ ہر طاق فع کے عین کو ساکن رکھنا لازم ہے۔ اور جفت میں اختیار ہے کہ متحرک برتیں یا ساکن۔
اس کے برعکس آپ نے مذکورہ مصرع میں گیارھواں (طاق) سبب متحرک عین کے ساتھ باندھ دیا ہے جس کی وجہ سے مصرع بحر سے ساقط ہوگیا ہے۔ اوپر میں نے اس سبب کو سرخ کردیا ہے جسے آپ نے متحرک باندھا ہے۔اسے اگر آپ عین ساکن کے ساتھ لے آئیں تو وزن کا مسئلہ حل ہو جائے۔
میرے لیے یہ بات خاصی دلچسپ ہے کہ ادبا و شعرا کا ایک قابلِ قدر گروہ ایک معاملے پر متفقہ طور پر معترض ہے لیکن لطیفہ یہ ہے کہ ایک کو راضی کرنے سے دوسرے کا اعتراض قوی تر ہو جاتا ہے۔ یہ امر بھی میرے لیے عین فخر اور مسرت کا باعث ہے کہ اس قضیے کا مورد مجھ جیسے ہیچ مدان کا شوقیہ کلام ہے!واہ صاحبان ۔ مجھ جیسے مبتدیوں کیلیے بڑی مفید علمی گفتگو ہو رہی ہے۔ میرے عزیز دوست راحیل فاروق صاحب کا مقدمہ کمزور ہے۔میں نےاپنے استاد گرامی سے رائے لی تو انہوں نے بھی بسمل صاحب کے دلائل اور موقف کی تائید کی ہے۔ مجھ جیسے بچونگڑے کا خیال ہے کہ اب سرا کسی طرف سے بھی پکڑ لیا جائے، عروضی اور علمی اعتبار سے آخری نتیجہ یہی نکلے گا کہ مصرع میں "ہو" یعنی ایک رکن اضافی ہے۔اور اگر اس مصرع کو نہ بدلا جائے تو پھر صرف ایک صورت بچتی ہے کہ " ہو" کو حذف کر کے " ہوئے " کی جگہ" اٹھے" کر لیا جائے۔
گویا اگر اس مصرع کو کچھ بھی حذف کیے بغیر یوں کر دیا جائے:
شعر سمجھ کر جھوم رہے ہو، یہ راحیلؔ میاں دستک تھیفعل + فعولن + فعل + فعولن + فعلن + فعل + فعولن + فعلن
تو اس صورت میں اعتراض رفع ہو جانا چاہیے۔ کیونکہ کوئی طاق سبب ایسا نہیں رہ جاتا جو ثقیل ہو۔
لیکن اس صورت میں سلمان بھائی اور ان کے استادِ گرامی بھی کیا راضی ہو جائیں گے جو ایک رکن کو اضافی قرار دے رہے ہیں؟
راحیل صاحب. علم کے حصول کی بحث میں راضی ہونے یا بلا جواز معترض ہونے کی بات ہی نہیں. عمومی طور پر ہر بحر اور خصوصی طور پر اس بحر میں الفاظ کی نشست و برخاست سے اوزان بدلتے اور ارکان کم زیادہ ہوتے رہتے ہیں. جس کی تازہ مثال آپ کا یہ ری ارینج کیا ہوا مصرح ہے، جو پہلے ایک رکن کی زیادتی اور ناگوار سی اٹکن کا مریض تھا لیکن اب وزن میں پورا ہو کر رواں ہو گیا ہے. راحیل صاحب یہ الفاظ کی نشست و برخواست ہی کا جادو ہے کہ کسی مصرح میں دو جگہ پر ایسے الفاظ آئیں جن کا آخری حرف اسقاط کے عمل سے گزرے اور اگلے اکہرے لفظ کے ساتھ متصل ہو کر دو رکنی بنائے تو پورے مصرع میں ایک رکن کی اضافی گنجائش نکل آتی ہے.. اور اس کے برعکس صورت حال میں معاملہ الٹ. شاید اسی لیےکبھی الفاظ کی فنکارانہ نشست و برخاست سے اوزان کی درستگی اور اشعار کی روانی میں جادوئی نتائج نکلتے ہیں. میرا کوئی اعتراض ناگوار گزرا ہو تو میں اپنے دوست کا ماتھا چوم کر جپھی پا کر معافی چاہتا ہوں.گویا اگر اس مصرع کو کچھ بھی حذف کیے بغیر یوں کر دیا جائے:
شعر سمجھ کر جھوم رہے ہو، یہ راحیلؔ میاں دستک تھیفعل + فعولن + فعل + فعولن + فعلن + فعل + فعولن + فعلن
تو اس صورت میں اعتراض رفع ہو جانا چاہیے۔ کیونکہ کوئی طاق سبب ایسا نہیں رہ جاتا جو ثقیل ہو۔
لیکن اس صورت میں سلمان بھائی اور ان کے استادِ گرامی بھی کیا راضی ہو جائیں گے جو ایک رکن کو اضافی قرار دے رہے ہیں؟
میرے لیے یہ بات خاصی دلچسپ ہے کہ ادبا و شعرا کا ایک قابلِ قدر گروہ ایک معاملے پر متفقہ طور پر معترض ہے لیکن لطیفہ یہ ہے کہ ایک کو راضی کرنے سے دوسرے کا اعتراض قوی تر ہو جاتا ہے۔ یہ امر بھی میرے لیے عین فخر اور مسرت کا باعث ہے کہ اس قضیے کا مورد مجھ جیسے ہیچ مدان کا شوقیہ کلام ہے!
گویا اگر اس مصرع کو کچھ بھی حذف کیے بغیر یوں کر دیا جائے:
شعر سمجھ کر جھوم رہے ہو، یہ راحیلؔ میاں دستک تھیفعل + فعولن + فعل + فعولن + فعلن + فعل + فعولن + فعلن
تو اس صورت میں اعتراض رفع ہو جانا چاہیے۔ کیونکہ کوئی طاق سبب ایسا نہیں رہ جاتا جو ثقیل ہو۔
لیکن اس صورت میں سلمان بھائی اور ان کے استادِ گرامی بھی کیا راضی ہو جائیں گے جو ایک رکن کو اضافی قرار دے رہے ہیں؟
جی۔ وزن اب درست ہے۔
چلیے، اتفاق کی ایک راہ تو نکلی۔ میں مزمل شیخ بسمل کا بالخصوص شکرگزار ہوں کہ وہ فیس بک پر میری درخواست کے نتیجے میں وقت نکال کر تشریف لائے اور اپنی آرا سے نوازا۔عمومی طور پر ہر بحر اور خصوصی طور پر اس بحر میں الفاظ کی نشست و برخاست سے اوزان بدلتے اور ارکان کم زیادہ ہوتے رہتے ہیں. جس کی تازہ مثال آپ کا یہ ری ارینج کیا ہوا مصرح ہے، جو پہلے ایک رکن کی زیادتی اور ناگوار سی اٹکن کا مریض تھا لیکن اب وزن میں پورا ہو کر رواں ہو گیا ہے. راحیل صاحب یہ الفاظ کی نشست و برخواست ہی کا جادو ہے کہ کسی مصرح میں دو جگہ پر ایسے الفاظ آئیں جن کا آخری حرف اسقاط کے عمل سے گزرے اور اگلے اکہرے لفظ کے ساتھ متصل ہو کر دو رکنی بنائے تو پورے مصرع میں ایک رکن کی اضافی گنجائش نکل آتی ہے..
میرے خیال میں" رہے ہو" میں "ہو "زائد ہے بحر کے حساب سے فاضل ہے۔
شعر سمجھ کر جھوم رہے ہو ، راحیلؔ میاں یہ دستک تھی
عاطف صاحب سے متفق ہؤں. معاملہ راحیل پر اٹکتا ہے،
شعر سمجھ کر جھوم اُٹھے، راحیلؔ میاں یہ دستک تھی
آپ نے رہے ہو میں ہو کا واؤ اور راحیل کا الف بھی ساقط کر کے باندھا ہے ۔ اس طرح تقطیع (میرےعروضی فہم یا بدفہمی کے مطابق ) بحر کی حد میں آجاتی ہے۔لیکن بادی النظر میں میرا شعری و عروضی ذوق اس کا متحمل نہ ہوسکا ۔
غالبا اس اشکال کی وجہ یہ ہوئی کہ میرا ذہن واؤ کے بعد فوراً ہی ا کے سقوط کو قبول نہ کرپایا۔
یا تو "جھوم رہے ہو" کو "جھوم اٹھے" کرلیں یا پھر راحیل میں الف حذف کرکے لکھیں۔ تاکہ بادی النظر میں غلطی کا امکان نہ رہے۔
یہ سب ابتدائی اعتراضات مصرعے میں کہیں ایک اضافی رکن کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ لیکن اصلاح شدہ مصرعے میں، جس پر سب نے اتفاق کیا، نہ صرف یہ کہ کوئی رکن حذف نہیں کیا گیا بلکہ ایک حرف تک اور ساقط نہیں ہوا۔ یہ عجیب بات نہیں؟اب سرا کسی طرف سے بھی پکڑ لیا جائے، عروضی اور علمی اعتبار سے آخری نتیجہ یہی نکلے گا کہ مصرع میں "ہو" یعنی ایک رکن اضافی ہے۔
شعر سمجھ کر جھوم رہے ہو، راحیلؔ میاں یہ دستک تھی
پھر مصرعے کی ہئیتِ اولیں کو غیرموزوں قرار دینا چہ معنیٰ دارد؟شعر سمجھ کر جھوم رہے ہو، یہ راحیلؔ میاں دستک تھی
کیا میرے عزیز دوست چوک گئے؟اب بحر کے ارکان کی طرف آئیں تو یہ بحر اپنی بنیاد میں 16 اسباب رکھتی ہے۔
کچھ نظائر 16 اسباب کے ساتھ بھی ملاحظہ ہوں:اب قاعدہ یہ ہے کہ مذکورہ بحر میں ہر طاق سبب (فع) بطورِ سبب خفیف ہی آئے گا۔ یعنی یہ کہ ہر طاق فع کے عین کو ساکن رکھنا لازم ہے۔ اور جفت میں اختیار ہے کہ متحرک برتیں یا ساکن۔
ویسے کیا ہی اچھا ہو کہ آئندہ گفتگو میں ہمیں سند کا تقاضا بار بار نہ کرنا پڑے!آپ نے مذکورہ مصرع میں گیارھواں (طاق) سبب متحرک عین کے ساتھ باندھ دیا ہے جس کی وجہ سے مصرع بحر سے ساقط ہوگیا ہے۔
بارِ ثبوت مدعی کے نازک کاندھوں پر۔سند کے لیے میں یہی کہوں گا کہ علمِ عروض پر کوئی بھی مستند کتاب ملاحظہ فرما لیں۔ چند نام میں ذکر کردیتا ہوں:
قواعد العروض از قدر بلگرامی۔
بحر الفصاحت از نجم الغنی رامپوری
آئینۂ بلاغت از مرزا عسکری
چراغِ سخن از مرزا یاس عظیم آبادی
آہنگ اور عروض از کمال احمد صدیقی
ناگوار گزرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، بھائی۔ مجھے خوشی ہے کہ ایک مفید، خرد افروز اور تعمیری بحث اس بہانے آغاز ہوئی۔ لو یو، ٹو!میرا کوئی اعتراض ناگوار گزرا ہو تو میں اپنے دوست کا ماتھا چوم کر جپھی پا کر معافی چاہتا ہوں.
لو یو راحیل صاحب
سلمان بھائی۔ اپنے استادِ گرامی کا تعارف کروائیے یا کم از کم اسمِ گرامی سے تو ضرور مطلع فرمائیے۔ عین ممکن ہے کہ اس قضیے کے فیصل ہونے تک ہم بھی ان کے مرید ہو جائیں!میں نےاپنے استاد گرامی سے رائے لی تو انہوں نے بھی بسمل صاحب کے دلائل اور موقف کی تائید کی ہے۔