آپ بھی اللہ اللہ کرتے، ہم بھی لیلیٰ لیلیٰ کرتے

باباجی

محفلین
واہ واہ بہت ہی خوب کلام راحیل بھائی
ٹوپی، ڈاڑھی، سجدہ، روزہ، یہ سب کیا ہے اے مولانا؟
اتنا سہل اگر ہوتا تو ہم بھی خدا سے دھوکا کرتے
.........
میری اس شعر کی پسندیدگی کو مولاناؤں کی مخالفت نہ سمجھا جائے ۔..
ویسے اگر سمجھ بھی لیا جائے تو بھی کوئی مسئلہ نہیں..
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بجا۔ اس بحر کی تقطیع دراصل نسبتاً پیچیدہ واقع ہوئی ہے۔ لہٰذا دو باتیں ممکن ہیں۔ یا تو میں آپ کا اعتراض نہیں سمجھ پایا۔ یا آپ پر معاملہ واضح نہیں ہو سکا۔
میں اس معرکۃالآرا بحر کی تقطیع کے لیے ایک طبع زاد قاعدے سے کام لیتا آیا ہوں جو میرؔ سے لے کر میرا جی تک بلااستثنا کام آتا ہے۔ میں یہ قاعدہ بھی مناسب موقع پر بیان کروں گا لیکن فی الحال صورتِ حال اس بات کی متقاضی ہے کہ کچھ اور لوگوں سے رائے لے لی جائے۔ میری خواہش ہو گی کہ محمد وارث بھائی، الف عین صاحب اور مزمل شیخ بسمل بھائی اس معاملے میں کچھ ارشاد فرمائیں۔
درست کہا راحیل !۔آپ کے اشارہ کرنے پر اندازہ ہوا کہ آپ نے رہے ہو میں ہو کا واؤ اور راحیل کا الف بھی ساقط کر کے باندھا ہے ۔ اس طرح تقطیع (میرےعروضی فہم یا بدفہمی کے مطابق ) بحر کی حد میں آجاتی ہے۔لیکن بادی النظر میں میرا شعری و عروضی ذوق اس کا متحمل نہ ہوسکا ۔
غالبا اس اشکال کی وجہ یہ ہوئی کہ میرا ذہن واؤ کے بعد فوراً ہی ا کے سقوط کو قبول نہ کرپایا۔
آداب۔
 
آخری تدوین:
آپ سب کے اتنے پیار کا بہت بہت شکریہ۔ اللہ آپ کی محبتیں قائم دائم رکھے۔

میں سمجھا نہیں۔ اگر اصلاح مقصود ہے تو ارشاد فرمائیے۔

آپ کو ڈائری میں 'اصل' کرنے کی بھی اجازت ہے، سرکار۔ بصد شوق!
میں مشکور ہوں آپکا۔۔۔
 
کمال غزل ہے۔ ڈھیروں داد راحیل بھائی کے لیے۔
۔
مقطع کے مصرعِ اول کو واقعی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ یا تو "جھوم رہے ہو" کو "جھوم اٹھے" کرلیں یا پھر راحیل میں الف حذف کرکے لکھیں۔ تاکہ بادی النظر میں غلطی کا امکان نہ رہے۔
بہت آداب۔ :)
 
آخری تدوین:
درست کہا راحیل !۔آپ کے اشارہ کرنے پر اندازہ ہوا کہ آپ نے رہے ہو میں ہو کا واؤ اور راحیل کا الف بھی ساقط کر کے باندھا ہے ۔ اس طرح تقطیع (میرےعروضی فہم یا بدفہمی کے مطابق ) بحر کی حد میں آجاتی ہے۔لیکن بادی النظر میں میرا شعری و عروضی ذوق اس کا متحمل نہ ہوسکا ۔
غالبا اس اشکال کی وجہ یہ ہوئی کہ میرا ذہن واؤ کے بعد فوراً ہی ا کے سقوط کو قبول نہ کرپایا۔
مجھ کو بھی بعد میں محسوس ہوا۔ عاطف کی بات سے متفق ہوں
مقطع کے مصرعِ اول کو واقعی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ یا تو "جھوم رہے ہو" کو "جھوم اٹھے" کرلیں یا پھر راحیل میں الف حذف کرکے لکھیں۔ تاکہ بادی النظر میں غلطی کا امکان نہ رہے۔
مجھے افسوس ہے کہ میں آپ احباب کا نکتۂِ نظر بالکل نہیں سمجھ سکا۔ میں ذیل میں تقطیع کرنے کی کوشش کرتا ہوں تاکہ میری رائے واضح ہو جائے۔ شاید اس کے بعد آپ اپنا اعتراض واضح طور پر مجھے سمجھا سکیں گے۔
شعر سمجھ کر جھوم رہے ہو، راحیلؔ میاں یہ دستک تھی
سننے والوں نے سن بھی لی، تم رہے آہا آہا کرتے!

شعر + سمج کر
+ جوم + رہے ہو + را + حیل + میا یہ + دستک + تی
فعل + فعولن + فعل + فعولن + فع + فعل + فعولن + فعلن + فع

سننے + والو + نے سن + بی لی + تم ر + ہِ آ ہا + آہا + کرتے
فعلن + فعلن + فعلن + فعلن +
فعل + فعولن + فعلن + فعلن

اب قیاس کیا جا سکتا ہے کہ
فعل + فعولن = فعلن + فعلن
فع + فع = فعلن
پہلے مصرعے میں فعل+ فعولن 3 جگہ آیا ہے۔ جو برابر ہے 6 مرتبہ فعلن کے۔ 2 مرتبہ فع آیا ہے جو برابر ہے ایک مرتبہ فعلن کے۔ 7 ہو گئے۔ ایک مرتبہ فعلن خود موجود ہے۔ کل ملا کر فعلن 8 مرتبہ پہلے مصرعے میں وارد ہوا۔
اب دوسرے مصرعے کو دیکھیے۔ 1 مرتبہ فعل + فعولن جو برابر ہے 2 مرتبہ فعلن کے۔ 6 مرتبہ فعلن خود۔ یعنی کل 8 مرتبہ فعلن کے برابر یہ مصرعہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔
ایک اور شعر کی تقطیع بطور نمونہ پیش ہے:
ہم نے آپ کو کب روکا تھا؟ آپ نے روکا، ظلم کمایا
آپ بھی اللہ اللہ کرتے، ہم بھی لیلیٰ لیلیٰ کرتے

ہم نے
+ آپ + ککب رو + کا تا + آپ + نروکا + ظلم + کمایا
فعلن + فعل + فعولن + فعلن + فعل + فعولن + فعل + فعولن

آپ + بِ ال لا
+ ال لا + کرتے + ہم بی + لیلا + لیلا + کرتے
فعل + فعولن + فعلن + فعلن + فعلن + فعلن + فعلن + فعلن

یعنی مصرعِ اولیٰ میں 3 مرتبہ فعل+ فعولن جو برابر ہے 6 مرتبہ فعلن کے۔ اور 2 مرتبہ فعلن خود۔ کل 8 مرتبہ فعلن۔
مصرعِ ثانی میں 1 مرتبہ فعل + فعولن اور 6 مرتبہ فعلن خود۔ کل 8 مرتبہ فعلن۔
اگر آپ میں سے کوئی صاحب تقطیع کر کے اپنا خیال واضح کر سکیں تو بہت ممنون ہوں گا۔ مجھ کوڑھ مغز کو ابھی تک معلوم نہیں ہوا کہ اصل میں کون سا رکن کہاں پر زائد ہو گیا ہے۔
 
آخری تدوین:
شعر + سمج کر + جوم + رہے ہو + را + حیل + میا یہ + دستک + تی
فعل + فعولن + فعل + فعولن + فع + فعل + فعولن + فعلن + فع

راحیل بھائی مسئلہ یہیں آرہا ہے۔
آپ نے ارکان کی الٹ پھیر سے وزن بے شک پورا کردیا ہو، لیکن یہ اس طرح روا نہیں ہے۔
اسی طرح آپ بحر میں فعلُ فعولن کے ساتھ ساتھ فعِلُن کبھی نہیں لا سکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا کرنے سے بحر تبدیل ہو جاتی ہے۔ چنانچہ آپ بحر کے تمام دو حرفی اسباب (خفیف یا ثقیل) کو اگر جمع کریں تو ایک پابندی عائد ہوتی۔ یعنی آپ پوری بحر میں کسی بھی طاق سبب کو متحرک نہیں کر سکتے۔ اس سے بحر کا خلط ہوجاتا ہے۔ یہاں آپ نے اپنے مقطعے میں گیارھویں سبب کو متحرک کردیا ہے اور گیارہ طاق ہے جس کی وجہ سے مصرع ساقط الوزن معلوم ہو رہا ہے۔ اسی کو اگر ساکن کرلیں تو مصرع وزن میں آجائے گا۔ مثلاً اگر "حیل میاں یہ" کو "حی لم یاں یہ" (لام کو میم کے ساتھ ملا کر) پڑھا جائے تو مجھے یا کسی کو بھی کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ :)
امید ہے کہ میں اپنی بات پہنچا سکا ہوں۔ :rolleyes::rolleyes:
 
راحیل بھائی مسئلہ یہیں آرہا ہے۔
آپ نے ارکان کی الٹ پھیر سے وزن بے شک پورا کردیا ہو، لیکن یہ اس طرح روا نہیں ہے۔
بجا۔ کم از کم یہ تو طے ہو گیا کہ وزن کا مسئلہ نہیں ہے لیکن بحر کو نبھانے میں شاید مجھ سے کوئی خطا ہوئی ہے۔
اسی طرح آپ بحر میں فعلُ فعولن کے ساتھ ساتھ فعِلُن کبھی نہیں لا سکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا کرنے سے بحر تبدیل ہو جاتی ہے۔ چنانچہ آپ بحر کے تمام دو حرفی اسباب (خفیف یا ثقیل) کو اگر جمع کریں تو ایک پابندی عائد ہوتی۔ یعنی آپ پوری بحر میں کسی بھی طاق سبب کو متحرک نہیں کر سکتے۔ اس سے بحر کا خلط ہوجاتا ہے۔ یہاں آپ نے اپنے مقطعے میں گیارھویں سبب کو متحرک کردیا ہے اور گیارہ طاق ہے جس کی وجہ سے مصرع ساقط الوزن معلوم ہو رہا ہے۔
یہ ارشادات واضح نہیں ہوئے۔ کوئی توضیح مع اسناد عطا ہو تو عنایت۔
یہاں آپ نے اپنے مقطعے میں گیارھویں سبب کو متحرک کردیا ہے اور گیارہ طاق ہے جس کی وجہ سے مصرع ساقط الوزن معلوم ہو رہا ہے۔ اسی کو اگر ساکن کرلیں تو مصرع وزن میں آجائے گا۔ مثلاً اگر "حیل میاں یہ" کو "حی لم یاں یہ" (لام کو میم کے ساتھ ملا کر) پڑھا جائے تو مجھے یا کسی کو بھی کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ :)
میں نے اوپر ایک طبع زاد قاعدے کا ذکر کیا ہے۔ وہ قاعدہ دراصل متوالی الحرکات ٹکڑوں کے دوسرے حرف کو ساکن کرنے ہی سے متعلق ہے۔ اس سے وہی تقطیع صورت پذیر ہوتی ہے جس کا آپ نے ذکر فرمایا ہے۔
مجھے یوں معلوم ہو رہا ہے کہ یہ کشمکش شاید تقطیع کے مختلف طریقوں ہی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے جیسا کہ اکثر ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں میرے خیال میں بحر اور اس کے قواعد سے صرفِ نظر کر کے وزن پر توجہ کرنا میرے خیال میں مفید ہو سکتا ہے۔ کیونکہ درحقیقت یہی وہ رویہ ہے جس کی بدولت تمام تر زحافات وجود میں آئے ہیں۔ اگر بحور کی پابندی اسی سختی سے کی جاتی جس کا تکلف نوآموز کرتے ہیں تو ہم زحافات کی رنگینیوں اور بوقلمونیوں سے یقیناً محرورم رہ جاتے!
 
آخری تدوین:
یہ ارشادات واضح نہیں ہوئے۔ کوئی توضیح مع اسناد عطا ہو تو عنایت۔

دو حرفی ہجا عروض میں سبب کہلاتا ہے۔
سبب کی دو اقسام ہیں۔
1۔ سببِ خفیف (پہلا حرف متحرک اور دوسرا ساکن) جیسے، اب، تب، کب، جب وغیرہ۔ ان میں پہلا حرف متحرک اور دوسرا ساکن ہے۔
2۔ سببِ ثقیل (دونوں حروف متحرک)۔ اس کی اردو میں مجرد مثال کوئی نہیں۔ لیکن فعِلُن میں دیکھیں تو فَعِ سبب ثقیل ہے۔ اور لُن خفیف۔
اب بحر کے ارکان کی طرف آئیں تو یہ بحر اپنی بنیاد میں 16 اسباب رکھتی ہے۔ جسے آپ اوپر "آٹھ فعلن" کہہ رہے ہیں۔ گویا صورتحال یوں ہوگی:
فع - فع - فع - فع - فع - فع - فع - فع - فع - فع - فع - فع - فع - فع - فع - فع
اب قاعدہ یہ ہے کہ مذکورہ بحر میں ہر طاق سبب (فع) بطورِ سبب خفیف ہی آئے گا۔ یعنی یہ کہ ہر طاق فع کے عین کو ساکن رکھنا لازم ہے۔ اور جفت میں اختیار ہے کہ متحرک برتیں یا ساکن۔
اس کے برعکس آپ نے مذکورہ مصرع میں گیارھواں (طاق) سبب متحرک عین کے ساتھ باندھ دیا ہے جس کی وجہ سے مصرع بحر سے ساقط ہوگیا ہے۔ اوپر میں نے اس سبب کو سرخ کردیا ہے جسے آپ نے متحرک باندھا ہے۔اسے اگر آپ عین ساکن کے ساتھ لے آئیں تو وزن کا مسئلہ حل ہو جائے۔
 
دو حرفی ہجا عروض میں سبب کہلاتا ہے۔
سبب کی دو اقسام ہیں۔
1۔ سببِ خفیف (پہلا حرف متحرک اور دوسرا ساکن) جیسے، اب، تب، کب، جب وغیرہ۔ ان میں پہلا حرف متحرک اور دوسرا ساکن ہے۔
2۔ سببِ ثقیل (دونوں حروف متحرک)۔ اس کی اردو میں مجرد مثال کوئی نہیں۔ لیکن فعِلُن میں دیکھیں تو فَعِ سبب ثقیل ہے۔ اور لُن خفیف۔
اب بحر کے ارکان کی طرف آئیں تو یہ بحر اپنی بنیاد میں 16 اسباب رکھتی ہے۔ جسے آپ اوپر "آٹھ فعلن" کہہ رہے ہیں۔ گویا صورتحال یوں ہوگی:
فع - فع - فع - فع - فع - فع - فع - فع - فع - فع - فع - فع - فع - فع - فع - فع
اب قاعدہ یہ ہے کہ مذکورہ بحر میں ہر طاق سبب (فع) بطورِ سبب خفیف ہی آئے گا۔ یعنی یہ کہ ہر طاق فع کے عین کو ساکن رکھنا لازم ہے۔ اور جفت میں اختیار ہے کہ متحرک برتیں یا ساکن۔
اس کے برعکس آپ نے مذکورہ مصرع میں گیارھواں (طاق) سبب متحرک عین کے ساتھ باندھ دیا ہے جس کی وجہ سے مصرع بحر سے ساقط ہوگیا ہے۔ اوپر میں نے اس سبب کو سرخ کردیا ہے جسے آپ نے متحرک باندھا ہے۔اسے اگر آپ عین ساکن کے ساتھ لے آئیں تو وزن کا مسئلہ حل ہو جائے۔
بجا، مزمل بھائی۔ مگر سند اور توضیح کسی اور جگہ مطلوب ہے۔
اسی طرح آپ بحر میں فعلُ فعولن کے ساتھ ساتھ فعِلُن کبھی نہیں لا سکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا کرنے سے بحر تبدیل ہو جاتی ہے۔ چنانچہ آپ بحر کے تمام دو حرفی اسباب (خفیف یا ثقیل) کو اگر جمع کریں تو ایک پابندی عائد ہوتی۔ یعنی آپ پوری بحر میں کسی بھی طاق سبب کو متحرک نہیں کر سکتے۔ اس سے بحر کا خلط ہوجاتا ہے۔ یہاں آپ نے اپنے مقطعے میں گیارھویں سبب کو متحرک کردیا ہے اور گیارہ طاق ہے جس کی وجہ سے مصرع ساقط الوزن معلوم ہو رہا ہے۔
نشان زد مقامات وہ ہیں جن کی تشریح بھی درکار ہے اور اور سند بھی۔ اسباب، اوتاد اور فواصل و فواضل کی بحثیں تو مبتدیانہ ہیں۔
 
بجا، مزمل بھائی۔ مگر سند اور توضیح کسی اور جگہ مطلوب ہے۔

نشان زد مقامات وہ ہیں جن کی تشریح بھی درکار ہے اور اور سند بھی۔ اسباب، اوتاد اور فواصل و فواضل کی بحثیں تو مبتدیانہ ہیں۔

سند کے لیے میں یہی کہوں گا کہ علمِ عروض پر کوئی بھی مستند کتاب ملاحظہ فرما لیں۔ :) چند نام میں ذکر کردیتا ہوں:
قواعد العروض از قدر بلگرامی۔
بحر الفصاحت از نجم الغنی رامپوری
آئینۂ بلاغت از مرزا عسکری
چراغِ سخن از مرزا یاس عظیم آبادی
آہنگ اور عروض از کمال احمد صدیقی
 
واہ صاحبان ۔ مجھ جیسے مبتدیوں کیلیے بڑی مفید علمی گفتگو ہو رہی ہے۔ میرے عزیز دوست راحیل فاروق صاحب کا مقدمہ کمزور ہے۔میں نےاپنے استاد گرامی سے رائے لی تو انہوں نے بھی بسمل صاحب کے دلائل اور موقف کی تائید کی ہے۔ مجھ جیسے بچونگڑے کا خیال ہے کہ اب سرا کسی طرف سے بھی پکڑ لیا جائے، عروضی اور علمی اعتبار سے آخری نتیجہ یہی نکلے گا کہ مصرع میں "ہو" یعنی ایک رکن اضافی ہے۔اور اگر اس مصرع کو نہ بدلا جائے تو پھر صرف ایک صورت بچتی ہے کہ " ہو" کو حذف کر کے " ہوئے " کی جگہ" اٹھے" کر لیا جائے۔
 
اب قاعدہ یہ ہے کہ مذکورہ بحر میں ہر طاق سبب (فع) بطورِ سبب خفیف ہی آئے گا۔ یعنی یہ کہ ہر طاق فع کے عین کو ساکن رکھنا لازم ہے۔ اور جفت میں اختیار ہے کہ متحرک برتیں یا ساکن۔
اس کے برعکس آپ نے مذکورہ مصرع میں گیارھواں (طاق) سبب متحرک عین کے ساتھ باندھ دیا ہے جس کی وجہ سے مصرع بحر سے ساقط ہوگیا ہے۔ اوپر میں نے اس سبب کو سرخ کردیا ہے جسے آپ نے متحرک باندھا ہے۔اسے اگر آپ عین ساکن کے ساتھ لے آئیں تو وزن کا مسئلہ حل ہو جائے۔
گویا اگر اس مصرع کو کچھ بھی حذف کیے بغیر یوں کر دیا جائے:
شعر سمجھ کر جھوم رہے ہو، یہ راحیلؔ میاں دستک تھی​
فعل + فعولن + فعل + فعولن + فعلن + فعل + فعولن + فعلن
تو اس صورت میں اعتراض رفع ہو جانا چاہیے۔ کیونکہ کوئی طاق سبب ایسا نہیں رہ جاتا جو ثقیل ہو۔
لیکن اس صورت میں سلمان بھائی اور ان کے استادِ گرامی بھی کیا راضی ہو جائیں گے جو ایک رکن کو اضافی قرار دے رہے ہیں؟
واہ صاحبان ۔ مجھ جیسے مبتدیوں کیلیے بڑی مفید علمی گفتگو ہو رہی ہے۔ میرے عزیز دوست راحیل فاروق صاحب کا مقدمہ کمزور ہے۔میں نےاپنے استاد گرامی سے رائے لی تو انہوں نے بھی بسمل صاحب کے دلائل اور موقف کی تائید کی ہے۔ مجھ جیسے بچونگڑے کا خیال ہے کہ اب سرا کسی طرف سے بھی پکڑ لیا جائے، عروضی اور علمی اعتبار سے آخری نتیجہ یہی نکلے گا کہ مصرع میں "ہو" یعنی ایک رکن اضافی ہے۔اور اگر اس مصرع کو نہ بدلا جائے تو پھر صرف ایک صورت بچتی ہے کہ " ہو" کو حذف کر کے " ہوئے " کی جگہ" اٹھے" کر لیا جائے۔
میرے لیے یہ بات خاصی دلچسپ ہے کہ ادبا و شعرا کا ایک قابلِ قدر گروہ ایک معاملے پر متفقہ طور پر معترض ہے لیکن لطیفہ یہ ہے کہ ایک کو راضی کرنے سے دوسرے کا اعتراض قوی تر ہو جاتا ہے۔ یہ امر بھی میرے لیے عین فخر اور مسرت کا باعث ہے کہ اس قضیے کا مورد مجھ جیسے ہیچ مدان کا شوقیہ کلام ہے!
 
گویا اگر اس مصرع کو کچھ بھی حذف کیے بغیر یوں کر دیا جائے:
شعر سمجھ کر جھوم رہے ہو، یہ راحیلؔ میاں دستک تھی​
فعل + فعولن + فعل + فعولن + فعلن + فعل + فعولن + فعلن
تو اس صورت میں اعتراض رفع ہو جانا چاہیے۔ کیونکہ کوئی طاق سبب ایسا نہیں رہ جاتا جو ثقیل ہو۔
لیکن اس صورت میں سلمان بھائی اور ان کے استادِ گرامی بھی کیا راضی ہو جائیں گے جو ایک رکن کو اضافی قرار دے رہے ہیں؟

جی۔ وزن اب درست ہے۔
 
گویا اگر اس مصرع کو کچھ بھی حذف کیے بغیر یوں کر دیا جائے:
شعر سمجھ کر جھوم رہے ہو، یہ راحیلؔ میاں دستک تھی​
فعل + فعولن + فعل + فعولن + فعلن + فعل + فعولن + فعلن
تو اس صورت میں اعتراض رفع ہو جانا چاہیے۔ کیونکہ کوئی طاق سبب ایسا نہیں رہ جاتا جو ثقیل ہو۔
لیکن اس صورت میں سلمان بھائی اور ان کے استادِ گرامی بھی کیا راضی ہو جائیں گے جو ایک رکن کو اضافی قرار دے رہے ہیں؟

میرے لیے یہ بات خاصی دلچسپ ہے کہ ادبا و شعرا کا ایک قابلِ قدر گروہ ایک معاملے پر متفقہ طور پر معترض ہے لیکن لطیفہ یہ ہے کہ ایک کو راضی کرنے سے دوسرے کا اعتراض قوی تر ہو جاتا ہے۔ یہ امر بھی میرے لیے عین فخر اور مسرت کا باعث ہے کہ اس قضیے کا مورد مجھ جیسے ہیچ مدان کا شوقیہ کلام ہے!
راحیل صاحب. علم کے حصول کی بحث میں راضی ہونے یا بلا جواز معترض ہونے کی بات ہی نہیں. عمومی طور پر ہر بحر اور خصوصی طور پر اس بحر میں الفاظ کی نشست و برخاست سے اوزان بدلتے اور ارکان کم زیادہ ہوتے رہتے ہیں. جس کی تازہ مثال آپ کا یہ ری ارینج کیا ہوا مصرح ہے، جو پہلے ایک رکن کی زیادتی اور ناگوار سی اٹکن کا مریض تھا لیکن اب وزن میں پورا ہو کر رواں ہو گیا ہے. راحیل صاحب یہ الفاظ کی نشست و برخواست ہی کا جادو ہے کہ کسی مصرح میں دو جگہ پر ایسے الفاظ آئیں جن کا آخری حرف اسقاط کے عمل سے گزرے اور اگلے اکہرے لفظ کے ساتھ متصل ہو کر دو رکنی بنائے تو پورے مصرع میں ایک رکن کی اضافی گنجائش نکل آتی ہے.. اور اس کے برعکس صورت حال میں معاملہ الٹ. شاید اسی لیےکبھی الفاظ کی فنکارانہ نشست و برخاست سے اوزان کی درستگی اور اشعار کی روانی میں جادوئی نتائج نکلتے ہیں. میرا کوئی اعتراض ناگوار گزرا ہو تو میں اپنے دوست کا ماتھا چوم کر جپھی پا کر معافی چاہتا ہوں.
لو یو راحیل صاحب
 
گویا اگر اس مصرع کو کچھ بھی حذف کیے بغیر یوں کر دیا جائے:
شعر سمجھ کر جھوم رہے ہو، یہ راحیلؔ میاں دستک تھی​
فعل + فعولن + فعل + فعولن + فعلن + فعل + فعولن + فعلن
تو اس صورت میں اعتراض رفع ہو جانا چاہیے۔ کیونکہ کوئی طاق سبب ایسا نہیں رہ جاتا جو ثقیل ہو۔
لیکن اس صورت میں سلمان بھائی اور ان کے استادِ گرامی بھی کیا راضی ہو جائیں گے جو ایک رکن کو اضافی قرار دے رہے ہیں؟
جی۔ وزن اب درست ہے۔
عمومی طور پر ہر بحر اور خصوصی طور پر اس بحر میں الفاظ کی نشست و برخاست سے اوزان بدلتے اور ارکان کم زیادہ ہوتے رہتے ہیں. جس کی تازہ مثال آپ کا یہ ری ارینج کیا ہوا مصرح ہے، جو پہلے ایک رکن کی زیادتی اور ناگوار سی اٹکن کا مریض تھا لیکن اب وزن میں پورا ہو کر رواں ہو گیا ہے. راحیل صاحب یہ الفاظ کی نشست و برخواست ہی کا جادو ہے کہ کسی مصرح میں دو جگہ پر ایسے الفاظ آئیں جن کا آخری حرف اسقاط کے عمل سے گزرے اور اگلے اکہرے لفظ کے ساتھ متصل ہو کر دو رکنی بنائے تو پورے مصرع میں ایک رکن کی اضافی گنجائش نکل آتی ہے..
چلیے، اتفاق کی ایک راہ تو نکلی۔ میں مزمل شیخ بسمل کا بالخصوص شکرگزار ہوں کہ وہ فیس بک پر میری درخواست کے نتیجے میں وقت نکال کر تشریف لائے اور اپنی آرا سے نوازا۔
لیکن 'مری تعمیر میں مضمر تھی اک صورت خرابی کی' کے مصداق اس راہ میں کئی اور سوالات کے ناگ پھنکار رہے ہیں جن کی جانب میں احباب کی توجہ چاہتا ہوں۔
1۔ ہم مصرع میں ترتیب کی تبدیلی پر متفق تو ہو گئے ہیں مگر اصل اعتراض کچھ اور تھا۔
میرے خیال میں" رہے ہو" میں "ہو "زائد ہے بحر کے حساب سے فاضل ہے۔
شعر سمجھ کر جھوم رہے ہو ، راحیلؔ میاں یہ دستک تھی
عاطف صاحب سے متفق ہؤں. معاملہ راحیل پر اٹکتا ہے،
شعر سمجھ کر جھوم اُٹھے، راحیلؔ میاں یہ دستک تھی
آپ نے رہے ہو میں ہو کا واؤ اور راحیل کا الف بھی ساقط کر کے باندھا ہے ۔ اس طرح تقطیع (میرےعروضی فہم یا بدفہمی کے مطابق ) بحر کی حد میں آجاتی ہے۔لیکن بادی النظر میں میرا شعری و عروضی ذوق اس کا متحمل نہ ہوسکا ۔
غالبا اس اشکال کی وجہ یہ ہوئی کہ میرا ذہن واؤ کے بعد فوراً ہی ا کے سقوط کو قبول نہ کرپایا۔
یا تو "جھوم رہے ہو" کو "جھوم اٹھے" کرلیں یا پھر راحیل میں الف حذف کرکے لکھیں۔ تاکہ بادی النظر میں غلطی کا امکان نہ رہے۔
اب سرا کسی طرف سے بھی پکڑ لیا جائے، عروضی اور علمی اعتبار سے آخری نتیجہ یہی نکلے گا کہ مصرع میں "ہو" یعنی ایک رکن اضافی ہے۔
یہ سب ابتدائی اعتراضات مصرعے میں کہیں ایک اضافی رکن کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ لیکن اصلاح شدہ مصرعے میں، جس پر سب نے اتفاق کیا، نہ صرف یہ کہ کوئی رکن حذف نہیں کیا گیا بلکہ ایک حرف تک اور ساقط نہیں ہوا۔ یہ عجیب بات نہیں؟
2۔ عروض کے دائروں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اکثر بحروں میں حرکات و سکنات کی تعداد بالکل برابر ہوتی ہے مگر ترتیب بدلنے سے بحر بدل جاتی ہے۔ لیکن ہماری اصلاح میں تو بحر بھی نہیں بدلی۔ ارکان میں بھی سرِ مو فرق نہیں پڑا۔
شعر سمجھ کر جھوم رہے ہو، راحیلؔ میاں یہ دستک تھی​
شعر سمجھ کر جھوم رہے ہو، یہ راحیلؔ میاں دستک تھی​
پھر مصرعے کی ہئیتِ اولیں کو غیرموزوں قرار دینا چہ معنیٰ دارد؟
3۔ جہاں تک مزمل بھائی کے قاعدے کا تعلق ہے تو اس کا مدار غالباً اس خیال پر ہے:
اب بحر کے ارکان کی طرف آئیں تو یہ بحر اپنی بنیاد میں 16 اسباب رکھتی ہے۔
کیا میرے عزیز دوست چوک گئے؟
بحرِ ہندی کی رائج کلاسیکی شکل 15 اسباب کے ساتھ ہے۔ مثالیں واضح ہوں:
باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں ایسی نہ سنیے گا
(میرؔ)
ہیں جو مروج مہر و وفا کے سب سررشتے، بھول گئے
(انشاؔ)
ہر دھڑکن ہیجانی تھی، ہر خاموشی طوفانی تھی
(جونؔ)
بھول گئے تم جن روزوں ہم گھر پہ بلائے جاتے تھے
(جرأتؔ)
لب پر ہے فریاد کہ ساقی یہ کیسا مے خانہ ہے
(میرا جی)​
یہ البتہ ہے کہ میں نے نسبتاً کم مروج شکل میں غزل پورے 16 اسباب کے ساتھ کہی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مزمل صاحب کا مجوزہ قاعدہ کیا اس صورت میں بھی لاگو ہو گا؟
اب قاعدہ یہ ہے کہ مذکورہ بحر میں ہر طاق سبب (فع) بطورِ سبب خفیف ہی آئے گا۔ یعنی یہ کہ ہر طاق فع کے عین کو ساکن رکھنا لازم ہے۔ اور جفت میں اختیار ہے کہ متحرک برتیں یا ساکن۔
کچھ نظائر 16 اسباب کے ساتھ بھی ملاحظہ ہوں:
اللہ اگر توفیق نہ دے، انسان کے بس کا کام نہیں
(جگرؔ)
آزاد منش رہ دنیا میں، پروائے امید و بیم نہ کر
(جوشؔ)
انشاؔ جی، اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر میں جی کو لگانا کیا
(ابنِ انشاؔ)​
اب ذرا غور فرمائیں تو جگرؔ کے مصرع میں تیسرا، ساتوں، گیارہواں اور پندرہواں سبب ثقیل ہے۔ جوشؔ کے مصرع میں تیسرا، گیارہواں اور پندرہواں سبب اور ابنِ انشاؔ کے مصرع میں تیسرا، ساتوں، گیارہواں اورتیرہواں سبب ثقیل ہے۔ یاد رہے کہ یہ ان غزلیات کے مطلعوں کے صرف مصرع ہائے اولیٰ ہیں۔ قس علیٰ ہٰذا!
جبکہ مصرعِ زیرِ بحث میں فقط ایک جگہ یہ رعایت لی گئی تھی جیسا کہ مزمل صاحب خود فرماتے ہیں:
آپ نے مذکورہ مصرع میں گیارھواں (طاق) سبب متحرک عین کے ساتھ باندھ دیا ہے جس کی وجہ سے مصرع بحر سے ساقط ہوگیا ہے۔
ویسے کیا ہی اچھا ہو کہ آئندہ گفتگو میں ہمیں سند کا تقاضا بار بار نہ کرنا پڑے!
سند کے لیے میں یہی کہوں گا کہ علمِ عروض پر کوئی بھی مستند کتاب ملاحظہ فرما لیں۔ :) چند نام میں ذکر کردیتا ہوں:
قواعد العروض از قدر بلگرامی۔
بحر الفصاحت از نجم الغنی رامپوری
آئینۂ بلاغت از مرزا عسکری
چراغِ سخن از مرزا یاس عظیم آبادی
آہنگ اور عروض از کمال احمد صدیقی
بارِ ثبوت مدعی کے نازک کاندھوں پر۔ :)
میرا کوئی اعتراض ناگوار گزرا ہو تو میں اپنے دوست کا ماتھا چوم کر جپھی پا کر معافی چاہتا ہوں.
لو یو راحیل صاحب
ناگوار گزرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، بھائی۔ مجھے خوشی ہے کہ ایک مفید، خرد افروز اور تعمیری بحث اس بہانے آغاز ہوئی۔ لو یو، ٹو! :redheart:
میں نےاپنے استاد گرامی سے رائے لی تو انہوں نے بھی بسمل صاحب کے دلائل اور موقف کی تائید کی ہے۔
سلمان بھائی۔ اپنے استادِ گرامی کا تعارف کروائیے یا کم از کم اسمِ گرامی سے تو ضرور مطلع فرمائیے۔ عین ممکن ہے کہ اس قضیے کے فیصل ہونے تک ہم بھی ان کے مرید ہو جائیں! :in-love:
یہاں یہ صراحت ازبس ضروری ہے کہ میں اس بحث میں قطعی طور پر کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہوں۔ میرے شعور، تحت الشعور اور لاشعور میں یہ امکان پوری قوت سے جگمگا رہا ہے کہ میرا مصرع غیر موزوں ہو سکتا ہے۔ لیکن اس امکان کی روشنی سے حقیقت کو منور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ میرے فاضل دوست دلائل کے دریچے وا فرمائیں۔ میں انھیں مایوس نہیں کروں گا! :):)
بالفاظِ دیگر، میں اس مصرعے کا دفاع نہیں کر رہا بلکہ محض اپنے عروضی فہم کو آزمانا چاہ رہا ہوں۔ اگر اس فہم میں کوئی جھول سامنے آتا ہے تو آپ نہ صرف اس مصرعے کو بلکہ اور بہت سے مصرعوں کو بھی بدلا ہوا پائیں گے۔ کیونکہ مبینہ عیب اسی غزل میں چند اور جگہوں پر بھی موجود ہے جن کی جانب یقیناً احباب کا دھیان نہیں گیا۔ ;)
 
آخری تدوین:
بے حد عمدہ! بہت خوب!! اور وہ گل اور بلبل والا تخیل تو اچھے اچھوں کو حسد میں مبتلا کر دینے والا ہے بھئ!!! :) :) :)
 
Top