آپ بھی اللہ اللہ کرتے، ہم بھی لیلیٰ لیلیٰ کرتے

واہ. لَو یو اردو محفل.
بندہ مفت میں بیٹھے بٹھائے بہت کچھ سیکھ لیتا ہے.

ظاہر ہے کہ میں اس عروضی بحث کا حصہ بننے کے لائق تو نہیں ہوں، صرف یہ کہنا چاہوں گا کہ راحیل بھائی آپ میں ایک بہت اچھا ڈویلپر بننے کی صلاحیت موجود ہے. :)
 
ظاہر ہے کہ میں اس عروضی بحث کا حصہ بننے کے لائق تو نہیں ہوں، صرف یہ کہنا چاہوں گا کہ راحیل بھائی آپ ایک میں ایک بہت اچھا ڈویلپر بننے کی صلاحیت موجود ہے. :)
غالباً آپ ہماری ڈی بگنگ کی صلاحیت سے متاثر ہوئے ہیں۔ :D:LOL::ROFLMAO:
گوہر شناسی پر ممنون ہوں!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کچھ نظائر 16 اسباب کے ساتھ بھی ملاحظہ ہوں:
اللہ اگر توفیق نہ دے، انسان کے بس کا کام نہیں
(جگرؔ)
آزاد منش رہ دنیا میں، پروائے امید و بیم نہ کر
(جوشؔ)
انشاؔ جی، اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر میں جی کو لگانا کیا
(ابنِ انشاؔ)​
اب ذرا غور فرمائیں تو جگرؔ کے مصرع میں تیسرا، ساتوں، گیارہواں اور پندرہواں سبب ثقیل ہے۔ جوشؔ کے مصرع میں تیسرا، گیارہواں اور پندرہواں سبب اور ابنِ انشاؔ کے مصرع میں تیسرا، ساتوں، گیارہواں اورتیرہواں سبب ثقیل ہے۔ یاد رہے کہ یہ ان غزلیات کے مطلعوں کے صرف مصرع ہائے اولیٰ ہیں۔ قس علیٰ ہٰذا!

راحیل فاروق بھائی ۔ پہلے تو غزل پر بہت داد!! آپ ہی کی غزل ہے!!! کیا بات ہے!! اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
بس اس غزل میں ایک بات جو پسند نہین آئی وہ یہ کہ اسمِ جلالہ ’’اللہ‘‘ کو بروزن اللا باندھنا میں سخت معیوب سمجھتا ہوں ۔ اسے میری تنگ نظری سمجھ لیجئے کہ میں خالقِ کائنات کے ذاتی نام کو مسخ کرنا کسی صورت پسند نہیں کرتا ۔
عروضی معاملے پر تو سیر حاصل گفتگو ہوچکی ۔ اس معاملے میں ، میں بھی عاطف بھائی ، سلمان دانش اور مزمل شیخ صاحبان سے متفق ہوں۔ اب آپ کے آخری مراسلے سے یہ واضح ہورہاہے کہ آپ بھی متقارب اور متدارک کو خلط ملط کر رہے ہیں ۔ اور یہ غلط فہمی عام ہے ۔ مین نے سنا ہے کہ کچھ لوگ ان دو بحور کا اختلاط ایک نظم میں درست سمجھتے ہیں ۔ میری رائے میں ایسا کرنے سے معاملہ آسان ہونے کے بجائے اور الجھ جاتا ہے ۔ خیر ۔

متقارب( فعل فعول فعول فعول ۔۔۔۔۔۔) میں فعلن آٹھ رکنی استعمال کریں یا ساڑھے سات رکنی (یا اس گفتگو کے حوالے سے سولہ اسباب یا پندرہ اسباب) اصول یہی ہے کہ طاق سبب ہمیشہ خفیف اور جفت سبب حسبِ خواہش خفیف یا ثقیل باندھا جائے گا۔
راحیل بھائی ! جگر ، جوش اور ابن انشاء کی جو مثالیں آپ نے اوپر ذکر کی ہیں وہ متقارب میں نہیں بلکہ متدارک میں ہیں یعنی فعِلن فعِلن فعِلن فعِلن (عین متحرک)۔ اس لئے اس بحر میں طاق اسباب ثقیل ہوسکتے ہیں جبکہ جفت اسباب ہمیشہ خفیف ہوں گے ۔ اس بارے میں ذرا سی گفتگو ایک جگہ احمد بھائی کے ساتھ ہوئی تھی ، اگر وقت ملے تو اسے دیکھ لیجئے ۔ ربط یہ ہے ۔
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/سورج-رستہ-بھول-گیا-تھا.86954/

دوسرے لفظوں میں متدارک میں ہرفعلن کا ’’لن‘‘ خفیف ہوگا جبکہ ’’فع‘‘ کو خفیف یا ثقیل دونوں طرح باندھا جا سکتا ہے ۔
اس کے برعکس متقارب میں ہرفعلن کا ’’فع‘‘ خفیف ہوگا جبکہ ’’لن‘‘ کو خفیف یا ثقیل دونوں طرح باندھا جا سکتا ہے ۔
راحیل بھائی ، امید ہے اس دخل در معقولات کا برا نہ مانیں گے ۔ میں عمومًا لکھنے میں بھی عام گفتگو کی زبان استعمال کرتا ہوں۔ یعنی جیسے بولتا ہوں ویسے ہی لکھتا ہوں ۔ اصطلاحات سے عموما دور رہتا ہوں ۔ اس لئے میرے اس مبتدیانہ طرزِ گفتگو کو معاف فرمائیے گا ۔
غزل پر پھر ایک بار بہت سی داد ۔
 

جاسمن

لائبریرین
وہ اس بحث میں موجود خوبیوں میں سے ایک ہے. :p
بحث؟؟؟؟؟ اللہ رحم کرے۔ سچ میں نے بڑے غور وفکر سے یہ ساری بات چیت پڑھنے کی کوشش کی لیکن اس نتیجہ پہ پہنچی کہ کلام پہ میرے جیسے ماہرین کی رائے علیحدہ ہونی چاہیے اور "اس طرح" کی بحث کے لئے کوئی اور دھاگہ ہو۔ اتنے پیارے اشعار پڑھتے ہوئے اور اپنے جیسے ماہرین کی رائے سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں کہ ساری شاعری کو ایسے پھرول کے رکھ دیا جاتا ہے جیسے ایک خوبصورت سی نئی نکور موٹر کار کو کوئی مستری کھول کھول پورے ویڑے میں کھلار کے رکھ دے ۔رحم!
 
بحث؟؟؟؟؟ اللہ رحم کرے۔ سچ میں نے بڑے غور وفکر سے یہ ساری بات چیت پڑھنے کی کوشش کی لیکن اس نتیجہ پہ پہنچی کہ کلام پہ میرے جیسے ماہرین کی رائے علیحدہ ہونی چاہیے اور "اس طرح" کی بحث کے لئے کوئی اور دھاگہ ہو۔ اتنے پیارے اشعار پڑھتے ہوئے اور اپنے جیسے ماہرین کی رائے سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں کہ ساری شاعری کو ایسے پھرول کے رکھ دیا جاتا ہے جیسے ایک خوبصورت سی نئی نکور موٹر کار کو کوئی مستری کھول کھول پورے ویڑے میں کھلار کے رکھ دے ۔رحم!
جاسمن بہن، بحث بذاتِ خود کوئی برا لفظ نہیں ہے. میں نے اسے مثبت بحث کے معنی میں لکھا ہے. :)
 

ابن رضا

لائبریرین
مستری کھول کھول پورے ویڑے میں کھلار کے رکھ دے ۔رحم!
ہاہاہا آپ نے تو اچھے بھلے عروضیوں کو مستری ہی کہہ دیا:ROFLMAO:. اس میں کوئی شک نہیں کہ کلام کی خوبصورتی اپنی جگہ تاہم ایسی گفتگو سے کافی سارے نو آموز لوگوں کا بھلا ہو سکتا ہے
 
اس میں کوئی شک نہیں کہ کلام کی خوبصورتی اپنی جگہ تاہم ایسی گفتگو سے کافی سارے نو آموز لوگوں کا بھلا ہو سکتا ہے
متفق. ایسی گفتگو اگر الگ لڑی میں ہو تو مجھ جیسے لوگ تو ایسی لڑی میں داخل ہونے کی زحمت ہی نہ کریں. شاعری کے ساتھ ہی اس کے زموز سے آگہی سیکھنے کا بڑا آسان ذریعہ ہے.
 

جاسمن

لائبریرین
ہاہاہا آپ نے تو اچھے بھلے عروضیوں کو مستری ہی کہہ دیا:ROFLMAO:. اس میں کوئی شک نہیں کہ کلام کی خوبصورتی اپنی جگہ تاہم ایسی گفتگو سے کافی سارے نو آموز لوگوں کا بھلا ہو سکتا ہے
نو آموزوں کا تو بھلا ضرور ہوتا ہے پر میرے جیسے کہنہ مشق لوگوں کا کیا قصور ہے؟سچ اس پورے ویہڑے میں بچ بچا کے گذرنا کتنا مشکل ہے جہاں قدم قدم پہ مڈگارڈ،ٹائر وغیرہ بکھرے پڑے ہوں۔۔۔۔:D
 
راحیل فاروق بھائی ۔ پہلے تو غزل پر بہت داد!! آپ ہی کی غزل ہے!!! کیا بات ہے!! اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
بس اس غزل میں ایک بات جو پسند نہین آئی وہ یہ کہ اسمِ جلالہ ’’اللہ‘‘ کو بروزن اللا باندھنا میں سخت معیوب سمجھتا ہوں ۔ اسے میری تنگ نظری سمجھ لیجئے کہ میں خالقِ کائنات کے ذاتی نام کو مسخ کرنا کسی صورت پسند نہیں کرتا ۔
عروضی معاملے پر تو سیر حاصل گفتگو ہوچکی ۔ اس معاملے میں ، میں بھی عاطف بھائی ، سلمان دانش اور مزمل شیخ صاحبان سے متفق ہوں۔ اب آپ کے آخری مراسلے سے یہ واضح ہورہاہے کہ آپ بھی متقارب اور متدارک کو خلط ملط کر رہے ہیں ۔ اور یہ غلط فہمی عام ہے ۔ مین نے سنا ہے کہ کچھ لوگ ان دو بحور کا اختلاط ایک نظم میں درست سمجھتے ہیں ۔ میری رائے میں ایسا کرنے سے معاملہ آسان ہونے کے بجائے اور الجھ جاتا ہے ۔ خیر ۔

متقارب( فعل فعول فعول فعول ۔۔۔۔۔۔) میں فعلن آٹھ رکنی استعمال کریں یا ساڑھے سات رکنی (یا اس گفتگو کے حوالے سے سولہ اسباب یا پندرہ اسباب) اصول یہی ہے کہ طاق سبب ہمیشہ خفیف اور جفت سبب حسبِ خواہش خفیف یا ثقیل باندھا جائے گا۔
راحیل بھائی ! جگر ، جوش اور ابن انشاء کی جو مثالیں آپ نے اوپر ذکر کی ہیں وہ متقارب میں نہیں بلکہ متدارک میں ہیں یعنی فعِلن فعِلن فعِلن فعِلن (عین متحرک)۔ اس لئے اس بحر میں طاق اسباب ثقیل ہوسکتے ہیں جبکہ جفت اسباب ہمیشہ خفیف ہوں گے ۔ اس بارے میں ذرا سی گفتگو ایک جگہ احمد بھائی کے ساتھ ہوئی تھی ، اگر وقت ملے تو اسے دیکھ لیجئے ۔ ربط یہ ہے ۔
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/سورج-رستہ-بھول-گیا-تھا.86954/

دوسرے لفظوں میں متدارک میں ہرفعلن کا ’’لن‘‘ خفیف ہوگا جبکہ ’’فع‘‘ کو خفیف یا ثقیل دونوں طرح باندھا جا سکتا ہے ۔
اس کے برعکس متقارب میں ہرفعلن کا ’’فع‘‘ خفیف ہوگا جبکہ ’’لن‘‘ کو خفیف یا ثقیل دونوں طرح باندھا جا سکتا ہے ۔
راحیل بھائی ، امید ہے اس دخل در معقولات کا برا نہ مانیں گے ۔ میں عمومًا لکھنے میں بھی عام گفتگو کی زبان استعمال کرتا ہوں۔ یعنی جیسے بولتا ہوں ویسے ہی لکھتا ہوں ۔ اصطلاحات سے عموما دور رہتا ہوں ۔ اس لئے میرے اس مبتدیانہ طرزِ گفتگو کو معاف فرمائیے گا ۔
غزل پر پھر ایک بار بہت سی داد ۔
یہ ہوئی نا بات!
:applause::applause::applause::applause::applause::applause::applause::applause::applause::applause:
عقدہ کشائی کے لیے بے پناہ شکریہ، ظہیر بھائی۔ بظاہر ایک بے ضرر رائے سے شروع ہونے والا یہ مکالمہ آپ کی شاندار مداخلت سے انجام کو پہنچا۔ فی الحال اس غزل میں ترمیم کرنے سے قاصر ہوں۔ آئندہ اندراجات میں نئی صورت میں لکھی جائے گی، انشاءاللہ!
بحث؟؟؟؟؟ اللہ رحم کرے۔ سچ میں نے بڑے غور وفکر سے یہ ساری بات چیت پڑھنے کی کوشش کی لیکن اس نتیجہ پہ پہنچی کہ کلام پہ میرے جیسے ماہرین کی رائے علیحدہ ہونی چاہیے اور "اس طرح" کی بحث کے لئے کوئی اور دھاگہ ہو۔ اتنے پیارے اشعار پڑھتے ہوئے اور اپنے جیسے ماہرین کی رائے سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں کہ ساری شاعری کو ایسے پھرول کے رکھ دیا جاتا ہے جیسے ایک خوبصورت سی نئی نکور موٹر کار کو کوئی مستری کھول کھول پورے ویڑے میں کھلار کے رکھ دے ۔رحم!
میں اپنی بہن کے دکھ میں برابر کا شریک ہوں۔ مژدہ ہو کہ مستری نے سامان سمیٹنا شروع کر دیا ہے!
ہم نے تو اس کا آسان قاعدہ اعشاری نظام والا رکھا ہے کہ
ہند بحر = 112 یا 22
زمزمہ = 211 یا 22
اسی نے تو مروایا، بھائی! :laughing::laughing::laughing:
 

ابن رضا

لائبریرین
نو آموزوں کا تو بھلا ضرور ہوتا ہے پر میرے جیسے کہنہ مشق لوگوں کا کیا قصور ہے؟سچ اس پورے ویہڑے میں بچ بچا کے گذرنا کتنا مشکل ہے جہاں قدم قدم پہ مڈگارڈ،ٹائر وغیرہ بکھرے پڑے ہوں۔۔۔۔:D
ویسے مزے کی بات بتاؤں اگر آپ نے کلام سے لطف لینا ہے تو وہ مقصد اولین مراسلے سے ہی شرمندہ ء تکمیل ہو جاتا ہے ہاں اگر آپ نے ویہڑے میں پھٹے ہوئے ٹائروں سے لطف اندوز ہونا ہے تو پھر تو برداشت کرنا پڑے گا:LOL:
 
اب آپ بھی ذرا باقائم ہوش و حواسِ خمسہ و بلا جبر و کراہ اس کی وضاحت مع صراحت و سند روبرو گواہان فرما دیجیے تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے:p
عقل مند کو اشارہ ہی کافی ہوتا ہے، خیر!
ظہیر بھائی نے اصل میں ایک نکتہ ایسا پیش کیا ہے جو مجھے اس سے پیشتر معلوم نہیں تھا۔ بحث پر ایک طائرانہ نظر دوڑانے سے واضح ہوتا ہے کہ غالباً اور کسی کو بھی اس معاملے میں ظہیر بھائی جیسا درک حاصل نہ تھا جس کے باعث گفتگو طول پکڑ گئی۔ دونوں جانب سے اندھیرے میں تیر چلائے جاتے رہے جب تک کہ ایک آفتاب طلوع نہ ہو گیا۔۔۔
متقارب( فعل فعول فعول فعول ۔۔۔۔۔۔) میں فعلن آٹھ رکنی استعمال کریں یا ساڑھے سات رکنی (یا اس گفتگو کے حوالے سے سولہ اسباب یا پندرہ اسباب) اصول یہی ہے کہ طاق سبب ہمیشہ خفیف اور جفت سبب حسبِ خواہش خفیف یا ثقیل باندھا جائے گا۔
راحیل بھائی ! جگر ، جوش اور ابن انشاء کی جو مثالیں آپ نے اوپر ذکر کی ہیں وہ متقارب میں نہیں بلکہ متدارک میں ہیں یعنی فعِلن فعِلن فعِلن فعِلن (عین متحرک)۔ اس لئے اس بحر میں طاق اسباب ثقیل ہوسکتے ہیں جبکہ جفت اسباب ہمیشہ خفیف ہوں گے ۔ اس بارے میں ذرا سی گفتگو ایک جگہ احمد بھائی کے ساتھ ہوئی تھی ، اگر وقت ملے تو اسے دیکھ لیجئے ۔ ربط یہ ہے ۔
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/سورج-رستہ-بھول-گیا-تھا.86954/

دوسرے لفظوں میں متدارک میں ہرفعلن کا ’’لن‘‘ خفیف ہوگا جبکہ ’’فع‘‘ کو خفیف یا ثقیل دونوں طرح باندھا جا سکتا ہے ۔
اس کے برعکس متقارب میں ہرفعلن کا ’’فع‘‘ خفیف ہوگا جبکہ ’’لن‘‘ کو خفیف یا ثقیل دونوں طرح باندھا جا سکتا ہے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ظہیر صاحب نے بالکل شروع میں ایک اور عندیہ بھی دیا ہے۔
مین نے سنا ہے کہ کچھ لوگ ان دو بحور کا اختلاط ایک نظم میں درست سمجھتے ہیں ۔
جبکہ محفل ہی پر الف عین صاحب ظہیر صاحب کے محولہ مراسلے میں فرماتے ہیں کہ
اب متدارک ہو یا متقارب، فعل فعولُ ہو یا فعلن فعلن، ان دونوں کا اختلاط بھی میں جائز سمجھتا ہوں۔ خود میر کے یہاں بھی ایسی مثالیں مل جائیں گی!!
اگر یہ رعایت لے لی جائے جیسا کہ میں اب تک کرتا آیا ہوں تو مصرعِ زیرِ بحث بالکل درست ہے۔ مگر حق یہ ہے کہ مجھے نہ صرف ظہیر صاحب کا تبحر بھا گیا ہے بلکہ کمال پرست ہونے کے باعث میں کبھی نہیں چاہوں گا کہ ایک معمولی سی خطا کے سبب موردِ اعتراض ٹھہروں۔ اس نکتے کو سمجھ لینے کے بعد میں علی الاعلان یہ اعتراف کرتا ہوں کہ اس غزل میں فقط مقطع ہی نہیں اور بھی بہت سے مصاریع میں یہ خامی موجود ہے۔ اور یہ کہ میں یہ عیب دور کرنے کو نہ کرنے پر ترجیح دیتا ہوں۔
باقی رہا ابتدائی اعتراضات کا معاملہ تو گو کہ وہ زوائد کی قدغن لگانے کے باوصف کافی حد تک غیر متعلق تھے مگر میں معترضین کا بہرحال شکرگزار ہوں کہ ان کی بدولت مجھے ظہیر بھائی سے یہ گوہرِ نایاب ہاتھ لگا!
 

ابن رضا

لائبریرین
عقل مند کو اشارہ ہی کافی ہوتا ہے، خیر!
ظہیر بھائی نے اصل میں ایک نکتہ ایسا پیش کیا ہے جو مجھے اس سے پیشتر معلوم نہیں تھا۔ بحث پر ایک طائرانہ نظر دوڑانے سے واضح ہوتا ہے کہ غالباً اور کسی کو بھی اس معاملے میں ظہیر بھائی جیسا درک حاصل نہ تھا جس کے باعث گفتگو طول پکڑ گئی۔ دونوں جانب سے اندھیرے میں تیر چلائے جاتے رہے جب تک کہ ایک آفتاب طلوع نہ ہو گیا۔۔۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ظہیر صاحب نے بالکل شروع میں ایک اور عندیہ بھی دیا ہے۔

جبکہ محفل ہی پر الف عین صاحب ظہیر صاحب کے محولہ مراسلے میں فرماتے ہیں کہ

اگر یہ رعایت لے لی جائے جیسا کہ میں اب تک کرتا آیا ہوں تو مصرعِ زیرِ بحث بالکل درست ہے۔ مگر حق یہ ہے کہ مجھے نہ صرف ظہیر صاحب کا تبحر بھا گیا ہے بلکہ کمال پرست ہونے کے باعث میں کبھی نہیں چاہوں گا کہ ایک معمولی سی خطا کے سبب موردِ اعتراض ٹھہروں۔ اس نکتے کو سمجھ لینے کے بعد میں علی الاعلان یہ اعتراف کرتا ہوں کہ اس غزل میں فقط مقطع ہی نہیں اور بھی بہت سے مصاریع میں یہ خامی موجود ہے۔ اور یہ کہ میں یہ عیب دور کرنے کو نہ کرنے پر ترجیح دیتا ہوں۔
باقی رہا ابتدائی اعتراضات کا معاملہ تو گو کہ وہ زوائد کی قدغن لگانے کے باوصف کافی حد تک غیر متعلق تھے مگر میں معترضین کا بہرحال شکرگزار ہوں کہ ان کی بدولت مجھے ظہیر بھائی سے یہ گوہرِ نایاب ہاتھ لگا!
حضور یہ سب باتیں تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں ہم نے ایک تو آپ کی رگِ ظرافت کو پکارا تھا اور دوسرا وضاحت صرف یہ مانگی تھی کہ
ہم نے تو اس کا آسان قاعدہ اعشاری نظام والا رکھا ہے کہ
ہندی بحر = 112 یا 22
زمزمہ = 211

اسی نے تو مروایا، بھائی! :laughing:

کہ دونوں بحور کے لیے الگ الگ یہ اعشاری قاعدہ کیسے مرواتا ہے تاکہ ہم بھی خودکشی سے بچ سکیں. ہاں البتہ خلط کی صورت میں تومرنا پرے گا
 
آخری تدوین:
بحرِ ہندی کی رائج کلاسیکی شکل 15 اسباب کے ساتھ ہے۔ مثالیں واضح ہوں:
باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں ایسی نہ سنیے گا
(میرؔ)
ہیں جو مروج مہر و وفا کے سب سررشتے، بھول گئے
(انشاؔ)
ہر دھڑکن ہیجانی تھی، ہر خاموشی طوفانی تھی
(جونؔ)
بھول گئے تم جن روزوں ہم گھر پہ بلائے جاتے تھے
(جرأتؔ)
لب پر ہے فریاد کہ ساقی یہ کیسا مے خانہ ہے
(میرا جی)​
یہ البتہ ہے کہ میں نے نسبتاً کم مروج شکل میں غزل پورے 16 اسباب کے ساتھ کہی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مزمل صاحب کا مجوزہ قاعدہ کیا اس صورت میں بھی لاگو ہو گا؟

جو قاعدہ وہ ہر جگہ لاگو ہوگا۔ چاہے سولہ اسباب ہوں، پندرہ، بارہ یا آٹھ ہوں۔ بحر چونکہ ایک ہی ہے اس لیے قاعدہ مختلف نہیں ہوگا۔

کچھ نظائر 16 اسباب کے ساتھ بھی ملاحظہ ہوں:
اللہ اگر توفیق نہ دے، انسان کے بس کا کام نہیں
(جگرؔ)
آزاد منش رہ دنیا میں، پروائے امید و بیم نہ کر
(جوشؔ)
انشاؔ جی، اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر میں جی کو لگانا کیا
(ابنِ انشاؔ)​
اب ذرا غور فرمائیں تو جگرؔ کے مصرع میں تیسرا، ساتوں، گیارہواں اور پندرہواں سبب ثقیل ہے۔ جوشؔ کے مصرع میں تیسرا، گیارہواں اور پندرہواں سبب اور ابنِ انشاؔ کے مصرع میں تیسرا، ساتوں، گیارہواں اورتیرہواں سبب ثقیل ہے۔ یاد رہے کہ یہ ان غزلیات کے مطلعوں کے صرف مصرع ہائے اولیٰ ہیں۔ قس علیٰ ہٰذا!
آپ نے شاید غور نہ کیا ہو۔ لیکن میں ابتدا میں ہی ایک بات عرض کرچکا ہوں۔ دوبارہ ملاحظہ فرمائیں:
اسی طرح آپ بحر میں فعلُ فعولن کے ساتھ ساتھ فعِلُن کبھی نہیں لا سکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا کرنے سے بحر تبدیل ہو جاتی ہے۔ چنانچہ آپ بحر کے تمام دو حرفی اسباب (خفیف یا ثقیل) کو اگر جمع کریں تو ایک پابندی عائد ہوتی۔ یعنی آپ پوری بحر میں کسی بھی طاق سبب کو متحرک نہیں کر سکتے۔ اس سے بحر کا خلط ہوجاتا ہے۔
گویا یا تو اسباب میں طاق پر سکون کی پابندی ہوگی یا پھر جفت پر۔
انشا، جوش اور جگر کے مصاریع کی بحر اس طرح ہے:

فعِلُن فعِلُن فعِلُن فعِلُن فعِلُن فعِلُن فعِلُن فعِلُن
اس میں کسی بھی فعِلن کے عین کو ساکن کرکے فعلن بنایا جاسکتا ہے۔ لیکن کسی بھی لُن کے نون کو متحرک نہیں کیا جاسکتا۔ گویا ہر جفت سبب ہمیشہ سبب خفیف ہی رہے گا۔
اس کے برعکس آپ کی غزل کی بحر اس طرح ہے:
فعلُ فعولُ فعولُ فعولُ فعولُ فعولُ فعولُ فعولُن
اس میں کسی بھی متوالی حرکات میں درمیان والے متحرک کو ساکن کیا جاسکتا ہے۔
میرے خیال میں اس سے زیادہ مزید وضاحت ممکن نہیں ہے۔ یا اگر ہو تو میرے بس میں نہیں۔

بہت آداب۔
 
راحیل فاروق بھائی ۔ پہلے تو غزل پر بہت داد!! آپ ہی کی غزل ہے!!! کیا بات ہے!! اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
بس اس غزل میں ایک بات جو پسند نہین آئی وہ یہ کہ اسمِ جلالہ ’’اللہ‘‘ کو بروزن اللا باندھنا میں سخت معیوب سمجھتا ہوں ۔ اسے میری تنگ نظری سمجھ لیجئے کہ میں خالقِ کائنات کے ذاتی نام کو مسخ کرنا کسی صورت پسند نہیں کرتا ۔
۔
غزل پر پھر ایک بار بہت سی داد ۔

ظہیر صاحب اکیلے اللہ کے ہ کو حذف کرنا عروضی طور پرتو غلط ہی ہے لیکن اللہ کا نام اس صورت میں بھی مسخ نہیں ہوتا ۔ان یا ایسے کئ کیسز کے بارے کیا ارشاد فرمائیں گے؟
وہ مجھ سے ہوئے ہمکلام اللہ اللہ
یہ رنگینیء نوبہار اللہ اللہ
 
چ
۔

سلمان بھائی۔ اپنے استادِ گرامی کا تعارف کروائیے یا کم از کم اسمِ گرامی سے تو ضرور مطلع فرمائیے۔ عین ممکن ہے کہ اس قضیے کے فیصل ہونے تک ہم بھی ان کے مرید ہو جائیں! :in-love:
;)
راحیل صاحب۔ میرے استاد نے مجھے ایک ہی بات سمجھائی ہے کہ عروض کو اتنا ہی سیکھو اور سمجھو جتنا بحر اور وزن سمجھنے اور شعر لکھنے کیلیے ضروری ہے۔ میرے استاد گرامی کوئی عروضیے نہیں بلکہ ایک ایسا منفرد لہجہ اور دلکش اسلوب رکھنے والے شاعر ہیں۔جن کے اشعار کو بنا نام کے بھی پہچان لیا جاتا ہے۔ جہاں تک عروض کا تعلق ہے میں سمجھتا ہوں کہ یعقوب آسی اور سرور راز جیسے بزرگوں کا علم اور خدمات تعریف کے دائروں سے ورا ہیں۔ نئے لوگوں میں محمد وارث اور شیخ بسمل صاحب گراں قدر علم رکھتے ہیں۔ لیکن میں نے ان میں سے کسی ایک یاکسی اوربھی عروضیے کو اچھا شاعر نہیں دیکھا۔ لہذا میری مخلص رائے ہے کہ صاحب عروض کی بحث سے نکلیں اور غزل در غزل لکھنے پر توجہ دیں
 
Top