راحیل فاروق بھائی ۔ پہلے تو غزل پر بہت داد!! آپ ہی کی غزل ہے!!! کیا بات ہے!! اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
بس اس غزل میں ایک بات جو پسند نہین آئی وہ یہ کہ اسمِ جلالہ ’’اللہ‘‘ کو بروزن اللا باندھنا میں سخت معیوب سمجھتا ہوں ۔ اسے میری تنگ نظری سمجھ لیجئے کہ میں خالقِ کائنات کے ذاتی نام کو مسخ کرنا کسی صورت پسند نہیں کرتا ۔
عروضی معاملے پر تو سیر حاصل گفتگو ہوچکی ۔ اس معاملے میں ، میں بھی عاطف بھائی ، سلمان دانش اور مزمل شیخ صاحبان سے متفق ہوں۔ اب آپ کے آخری مراسلے سے یہ واضح ہورہاہے کہ آپ بھی متقارب اور متدارک کو خلط ملط کر رہے ہیں ۔ اور یہ غلط فہمی عام ہے ۔ مین نے سنا ہے کہ کچھ لوگ ان دو بحور کا اختلاط ایک نظم میں درست سمجھتے ہیں ۔ میری رائے میں ایسا کرنے سے معاملہ آسان ہونے کے بجائے اور الجھ جاتا ہے ۔ خیر ۔
متقارب( فعل فعول فعول فعول ۔۔۔۔۔۔) میں فعلن آٹھ رکنی استعمال کریں یا ساڑھے سات رکنی (یا اس گفتگو کے حوالے سے سولہ اسباب یا پندرہ اسباب) اصول یہی ہے کہ طاق سبب ہمیشہ خفیف اور جفت سبب حسبِ خواہش خفیف یا ثقیل باندھا جائے گا۔
راحیل بھائی ! جگر ، جوش اور ابن انشاء کی جو مثالیں آپ نے اوپر ذکر کی ہیں وہ متقارب میں نہیں بلکہ متدارک میں ہیں یعنی فعِلن فعِلن فعِلن فعِلن (عین متحرک)۔ اس لئے اس بحر میں طاق اسباب ثقیل ہوسکتے ہیں جبکہ جفت اسباب ہمیشہ خفیف ہوں گے ۔ اس بارے میں ذرا سی گفتگو ایک جگہ احمد بھائی کے ساتھ ہوئی تھی ، اگر وقت ملے تو اسے دیکھ لیجئے ۔ ربط یہ ہے ۔
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/سورج-رستہ-بھول-گیا-تھا.86954/
دوسرے لفظوں میں متدارک میں ہرفعلن کا ’’لن‘‘ خفیف ہوگا جبکہ ’’فع‘‘ کو خفیف یا ثقیل دونوں طرح باندھا جا سکتا ہے ۔
اس کے برعکس متقارب میں ہرفعلن کا ’’فع‘‘ خفیف ہوگا جبکہ ’’لن‘‘ کو خفیف یا ثقیل دونوں طرح باندھا جا سکتا ہے ۔
راحیل بھائی ، امید ہے اس دخل در معقولات کا برا نہ مانیں گے ۔ میں عمومًا لکھنے میں بھی عام گفتگو کی زبان استعمال کرتا ہوں۔ یعنی جیسے بولتا ہوں ویسے ہی لکھتا ہوں ۔ اصطلاحات سے عموما دور رہتا ہوں ۔ اس لئے میرے اس مبتدیانہ طرزِ گفتگو کو معاف فرمائیے گا ۔
غزل پر پھر ایک بار بہت سی داد ۔