آپ کا معصوم مگر بھیانک واقعہ!!

ہم امردوتوڑنے اپنے چچیرے دادا کے یہاں گئے ہوئے تھے۔جو ہمارے گھر سے کچھ ہی دور پر تھا۔یہاں پر ہمارے دادا کی کافی زمینیں تھیں جن میں مختلف قسم کے پیڑ پودے لگے ہوئے تھے ،لیکن دادا کے ہاں کے امرودوں کی کچھ بات ہی الگ تھی ،میٹھےبڑ ے بڑے خوبصورت امرود کہ دیکھ کر اچھے اچھوں کا جی للچا جائے ،ہم تو ٹھہرے بچے۔دادای اماں جھولی میں بھر بھر امرودگھر پہنچا جاتی ،لیکن جو مزا خود سے توڑ کے کھانے میں ہے وہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔ایک دن دادی کے منع کرنے کے باوجود میں درخت پر چڑھ گیا اور بندروں کی طرح کبھی اس ڈالی سے اس ڈالی اور کبھی اس ڈالی سے اس ڈالی امرودتوڑتا اور کھاتا رہا، بڑا مزا آ رہا تھا۔

جس درخت پر میں چڑھا تھا ٹھیک اس کے سامنے گہرا کنواں تھا مجھے اس کا اندازہ ہی نہ تھا۔اچانک ایک ڈالی ٹوٹتی ہوئی رٹ رٹ کی آواز کے ساتھ نیچے آ رہی۔نیچے جو نظر پڑی تو کیا دیکھتا ہوں کنواں خطرناک اڑدہاکی طرح منہ کھولے کھڑا ہے۔یہ دیکھتے ہی اچانک میری چیخ نکل گئی ،مجھے موت انتہائی قریب نظر آنے لگی اور ایسا محسوس ہوا جیسے میں واقعی مر گیا ،تھوڑی دیر کے لئے سانس جیسے تھم سی گئی۔مری زبان سے بس یہی نکلا”اللہ بچا لے“۔

سچ کہا کہنے والے نے ”مصیبت کے وقت خدا یاد آتا ہے “اسی لمحہ اچانک ایک دوسری ڈال میرے ہاتھ کی گرفت میں آ گئی اور میں اس کی مدد سے زمین پر صحیح سلامت اترنے میں کامیاب ہوگیا۔واقعی یہ اللہ کا کرم تھا ورنہ اس دن میں کنویں میں گر ہی گیا تھا۔آج بھی جب میں دادی کے یہاں جاتا ہوں یہ منظر نہیں بھولتا ،بدن میں کپکپی سی طاری ہو جاتی ہے۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
بچپن میں، یعنی ساتویں کلاس کے دوران ہی موم بتی جلا کر اس کے سامنے بیٹھے رہنا اور "ٹیلی پیتھی" اور ہپناٹزم کی مشقیں کرنا اور دھاگے کو باندھ کر خیال کی طاقت سے اسے حرکت دلانا:grin::ROFLMAO: سوچو اگر کامیاب ہو جاتا تو کتنا بھیانک ہوتا آج:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor: "دیوتا" کی عملی تفسیر ہوتی میری زندگی:twisted:
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
اصلاحی بھائی امرود کے درخت پر چڑھا جا سکتا ہے کیا
ہماری نانا ابو کےہاں تو پودے تھے شاید جن کی ڈالیاں اتنی مضبوط نہیں تھیں کہ ان کو پکڑ کر لٹک سکیں
 
اصلاحی بھائی امرود کے درخت پر چڑھا جا سکتا ہے کیا
ہماری نانا ابو کےہاں تو پودے تھے شاید جن کی ڈالیاں اتنی مضبوط نہیں تھیں کہ ان کو پکڑ کر لٹک سکیں
میں بھی بچپن میں امرود کے درخت پر چڑھ کر ڈانٹ کھا چکا ہوں :)
 

ساقی۔

محفلین
بچپن میں، یعنی ساتویں کلاس کے دوران ہی موم بتی جلا کر اس کے سامنے بیٹھے رہنا اور "ٹیلی پیتھی" اور ہپناٹزم کی مشقیں کرنا اور دھاگے کو باندھ کر خیال کی طاقت سے اسے حرکت دلانا:grin::ROFLMAO: سوچو اگر کامیاب ہو جاتا تو کتنا بھیانک ہوتا آج:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor: "دیوتا" کی عملی تفسیر ہوتی میری زندگی:twisted:
لگتا ہے سارے پاکستانی یہ کام کرتے رہے ہیں ۔ دیوتا نے واقعی مت مار کے رکھ دی تھی ہماری بھی۔کبھی سورج سےآنکھیں لراتے تھے کبھی سفید کاغذ پر چنے برابر دائرہ بنا کر گھورتے رہتے تھے۔ کبھی شمع جلا کر اس میں عجیب عجیب شکلیں دیکھنے کو ملتی تھیں۔ ۔۔۔ایک دفعہ تو ہماری دادی ماں نے ہمیں بندے کمرے میں کسی درز سے شمع کو گھورتے دیکھ لیا۔۔۔۔۔۔ سارے گھر میں رولا پڑ گیا کہ منڈا جادو سیکھ رہا ہے ۔۔۔۔ خوب عزت افزائی ہوئی ہماری۔۔۔۔۔۔ اوپر سے یہ ہوا کہ ہم ایک رات سوتے میں ڈر کر چیخیں مارنے لگے ۔۔ سب گھر والے اٹھ گے۔۔۔۔ بعد میں ہمیشہ کہا جاتا ۔۔۔۔ہور کر جادو۔۔۔ہون آرام آیا ای نا!!:devil:
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
بچپن میں، یعنی ساتویں کلاس کے دوران ہی موم بتی جلا کر اس کے سامنے بیٹھے رہنا اور "ٹیلی پیتھی" اور ہپناٹزم کی مشقیں کرنا اور دھاگے کو باندھ کر خیال کی طاقت سے اسے حرکت دلانا:grin::ROFLMAO: سوچو اگر کامیاب ہو جاتا تو کتنا بھیانک ہوتا آج:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor: "دیوتا" کی عملی تفسیر ہوتی میری زندگی:twisted:
یعنی آپ چھ جماعت پاس ہیں؟ :p
 

قیصرانی

لائبریرین
اصلاحی بھائی امرود کے درخت پر چڑھا جا سکتا ہے کیا
ہماری نانا ابو کےہاں تو پودے تھے شاید جن کی ڈالیاں اتنی مضبوط نہیں تھیں کہ ان کو پکڑ کر لٹک سکیں
میرا بھی یہی خیال ہے کہ بہت چھوٹے بچے تو شاید لٹک سکیں، لیکن باقیوں کے لئے ٹہنیاں ٹوٹ سکتی ہیں۔ دوسرا امردو کون سا اونچے لگتے ہیں :)
 
امی بتاتی ہیں ایک دن میں غصہ میں آیا تو اپنا ہی ہاتھ چولہے میں ڈال دیا تھا جس کے نشان آج بھی ہیں ۔۔۔۔۔ہیں نا معصوم مگر بھیانک :-P:-P
 

سلمان حمید

محفلین
بچپن میں ہمیشہ اپنے سےکم عمر بچوں کو دوست رکھا، اس طرح آپ کا رعب بھی رہتا ہے اور آپ کرکٹ، گُلی ڈنڈے یا کسی بھی کھیل میں کپتان بھی بن جاتے ہیں تو کبھی بچپن میں واپسی ہو تو یہ نصیحت یاد رکھیے گا مگر یہ بھی مت بھولیے گا کہ محلے میں سب سے زیادہ ڈانٹ بھی پھر آپ کو ہی پڑے گی کہ اچھا بھلا کھوتے جتنا (میرا قد بچپن میں اس تیزی سے بڑھا تھا جیسے غریب کی بچیوں کی عمر بڑھتی ہے - خیر یہ موازنہ شاید مزید سوال اٹھا دے تو اسے چھوڑ دیجئے) ہو کر چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھری دوپہر کرکٹ کھیلنے لے جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

ایسے ہی ایک دن (عمر شاید دس سے بارہ سال تھی) اپنے چاولوں کے کارخانے کی اندر ہی ایک جانب رکھی گئی بھینسوں کی دیکھ بھال کے لیے رکھے گئے ایک خاندان کے سب سے چھوٹے چشم و چراغ منیر احمد کے ساتھ کھیل کود میں مشغول تھا کہ یاد آیا کہ آج ہی لائیبریری (محلے میں ایک دوکان جہاں سے ایک روپے فی دن کے کرایہ پر جاسوسی ناول وغیرہ مل جایا کرتے تھے) میں سے لئے گئے ایک رسالے (شائد کوئی شیطانی یا جادو ٹونے والا رسالہ تھا) میں سے پڑھے گئے ایک ٹوٹکے کو آزما لیا جائے۔ اس ٹوٹکے کے مطابق اگر مینڈک کی زبان کو کسی کاغذ میں لپیٹ کر کسی سوئے ہوئے شخص کے سرہانے نیچے رکھ دیا جائے تو وہ نیند میں اپنے سارے راز بڑبڑا دیتا ہے۔

تو قصہ مختصر، کارخانے کی پچھلی طرف والے چھپڑ کے کنارے کئی گھنٹے کھڑے رہنا، منیر کو ضدکر کے چھپڑ میں اتارنا، چھپڑ کے باہر اچھلتے ہوئے مینڈکوں کے پاس پہنچ کر ہاتھ میں پکڑے کپڑے میں لپیٹنے سے ذرا پہلے چیخیں مار کر پیچھے ہٹ جانا، پھر منیر کو پیار سے، ڈانٹ سے اور ہر طریقے سے راضی کر کے ایک مینڈک پکڑنے پر اکسانا اور پھر ناکام و نا امید واپس لوٹ جانا نہیں بھولتا۔

سوچتا ہوں کہ اگر مینڈک پکڑ لیتا تواس کی زبان کون نکالتا۔ اگر نکال بھی لیتا تو کس کے سرھانے کے نیچے رکھتا؟ کچھ چیزوں کا ادھورا رہ جانا ہے بہتر ہوتا ہے شاید :)

پس نوشت - شاید اس میں بھیانک کچھ نہیں ہے لیکن اگر مینڈک پکڑا جاتا تو اس کہانی کا بھیانک دور شروع ہو جاتا :biggrin:
 

زیک

مسافر
بچپن میں ہمیشہ اپنے سےکم عمر بچوں کو دوست رکھا، اس طرح آپ کا رعب بھی رہتا ہے اور آپ کرکٹ، گُلی ڈنڈے یا کسی بھی کھیل میں کپتان بھی بن جاتے ہیں تو کبھی بچپن میں واپسی ہو تو یہ نصیحت یاد رکھیے گا مگر یہ بھی مت بھولیے گا کہ محلے میں سب سے زیادہ ڈانٹ بھی پھر آپ کو ہی پڑے گی کہ اچھا بھلا کھوتے جتنا (میرا قد بچپن میں اس تیزی سے بڑھا تھا جیسے غریب کی بچیوں کی عمر بڑھتی ہے - خیر یہ موازنہ شاید مزید سوال اٹھا دے تو اسے چھوڑ دیجئے) ہو کر چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھری دوپہر کرکٹ کھیلنے لے جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

ایسے ہی ایک دن (عمر شاید دس سے بارہ سال تھی) اپنے چاولوں کے کارخانے کی اندر ہی ایک جانب رکھی گئی بھینسوں کی دیکھ بھال کے لیے رکھے گئے ایک خاندان کے سب سے چھوٹے چشم و چراغ منیر احمد کے ساتھ کھیل کود میں مشغول تھا کہ یاد آیا کہ آج ہی لائیبریری (محلے میں ایک دوکان جہاں سے ایک روپے فی دن کے کرایہ پر جاسوسی ناول وغیرہ مل جایا کرتے تھے) میں سے لئے گئے ایک رسالے (شائد کوئی شیطانی یا جادو ٹونے والا رسالہ تھا) میں سے پڑھے گئے ایک ٹوٹکے کو آزما لیا جائے۔ اس ٹوٹکے کے مطابق اگر مینڈک کی زبان کو کسی کاغذ میں لپیٹ کر کسی سوئے ہوئے شخص کے سرہانے نیچے رکھ دیا جائے تو وہ نیند میں اپنے سارے راز بڑبڑا دیتا ہے۔

تو قصہ مختصر، کارخانے کی پچھلی طرف والے چھپڑ کے کنارے کئی گھنٹے کھڑے رہنا، منیر کو ضدکر کے چھپڑ میں اتارنا، چھپڑ کے باہر اچھلتے ہوئے مینڈکوں کے پاس پہنچ کر ہاتھ میں پکڑے کپڑے میں لپیٹنے سے ذرا پہلے چیخیں مار کر پیچھے ہٹ جانا، پھر منیر کو پیار سے، ڈانٹ سے اور ہر طریقے سے راضی کر کے ایک مینڈک پکڑنے پر اکسانا اور پھر ناکام و نا امید واپس لوٹ جانا نہیں بھولتا۔

سوچتا ہوں کہ اگر مینڈک پکڑ لیتا تواس کی زبان کون نکالتا۔ اگر نکال بھی لیتا تو کس کے سرھانے کے نیچے رکھتا؟ کچھ چیزوں کا ادھورا رہ جانا ہے بہتر ہوتا ہے شاید :)

پس نوشت - شاید اس میں بھیانک کچھ نہیں ہے لیکن اگر مینڈک پکڑا جاتا تو اس کہانی کا بھیانک دور شروع ہو جاتا :biggrin:
لگتا ہے آپ کو میری خدمات کی ضرورت تھی
 
Top