ماہی احمد
لائبریرین
ہاتھی بھی۔عمر پہ انحصار ہے کہ کتنی چھوٹی عمر تھی۔ بھیانک تو ہر گز نہیں۔ البتہ اگر مگر مچھ ہوتا تو یقیناً بھیانک ہوتا۔
ہاتھی بھی۔عمر پہ انحصار ہے کہ کتنی چھوٹی عمر تھی۔ بھیانک تو ہر گز نہیں۔ البتہ اگر مگر مچھ ہوتا تو یقیناً بھیانک ہوتا۔
بارہ تیرہ سال کافی بزرگانہ عمر ہوتی ہےعمر پہ انحصار ہے کہ کتنی چھوٹی عمر تھی۔ بھیانک تو ہر گز نہیں۔ البتہ اگر مگر مچھ ہوتا تو یقیناً بھیانک ہوتا۔
میں بھی بچپن میں امرود کے درخت پر چڑھ کر ڈانٹ کھا چکا ہوںاصلاحی بھائی امرود کے درخت پر چڑھا جا سکتا ہے کیا
ہماری نانا ابو کےہاں تو پودے تھے شاید جن کی ڈالیاں اتنی مضبوط نہیں تھیں کہ ان کو پکڑ کر لٹک سکیں
معصوم، مگر بھیانک کام نہیں ہوابارہ تیرہ سال کافی بزرگانہ عمر ہوتی ہے
لگتا ہے سارے پاکستانی یہ کام کرتے رہے ہیں ۔ دیوتا نے واقعی مت مار کے رکھ دی تھی ہماری بھی۔کبھی سورج سےآنکھیں لراتے تھے کبھی سفید کاغذ پر چنے برابر دائرہ بنا کر گھورتے رہتے تھے۔ کبھی شمع جلا کر اس میں عجیب عجیب شکلیں دیکھنے کو ملتی تھیں۔ ۔۔۔ایک دفعہ تو ہماری دادی ماں نے ہمیں بندے کمرے میں کسی درز سے شمع کو گھورتے دیکھ لیا۔۔۔۔۔۔ سارے گھر میں رولا پڑ گیا کہ منڈا جادو سیکھ رہا ہے ۔۔۔۔ خوب عزت افزائی ہوئی ہماری۔۔۔۔۔۔ اوپر سے یہ ہوا کہ ہم ایک رات سوتے میں ڈر کر چیخیں مارنے لگے ۔۔ سب گھر والے اٹھ گے۔۔۔۔ بعد میں ہمیشہ کہا جاتا ۔۔۔۔ہور کر جادو۔۔۔ہون آرام آیا ای نا!!بچپن میں، یعنی ساتویں کلاس کے دوران ہی موم بتی جلا کر اس کے سامنے بیٹھے رہنا اور "ٹیلی پیتھی" اور ہپناٹزم کی مشقیں کرنا اور دھاگے کو باندھ کر خیال کی طاقت سے اسے حرکت دلانا سوچو اگر کامیاب ہو جاتا تو کتنا بھیانک ہوتا آج "دیوتا" کی عملی تفسیر ہوتی میری زندگی
کرنے والے کے لئے معصومیت لیکن مینڈک کے لئے بھیانککیا گھر میں مینڈک کی ڈائسیکشن کی کوشش معصوم اور بھیانک ہو سکتی ہے؟
دو بندے تے ہو گئے آں باقیاں دانہی پتا۔۔۔۔لگتا ہے سارے پاکستانی یہ کام کرتے رہے ہیں ۔
یعنی آپ چھ جماعت پاس ہیں؟بچپن میں، یعنی ساتویں کلاس کے دوران ہی موم بتی جلا کر اس کے سامنے بیٹھے رہنا اور "ٹیلی پیتھی" اور ہپناٹزم کی مشقیں کرنا اور دھاگے کو باندھ کر خیال کی طاقت سے اسے حرکت دلانا سوچو اگر کامیاب ہو جاتا تو کتنا بھیانک ہوتا آج "دیوتا" کی عملی تفسیر ہوتی میری زندگی
میرا بھی یہی خیال ہے کہ بہت چھوٹے بچے تو شاید لٹک سکیں، لیکن باقیوں کے لئے ٹہنیاں ٹوٹ سکتی ہیں۔ دوسرا امردو کون سا اونچے لگتے ہیںاصلاحی بھائی امرود کے درخت پر چڑھا جا سکتا ہے کیا
ہماری نانا ابو کےہاں تو پودے تھے شاید جن کی ڈالیاں اتنی مضبوط نہیں تھیں کہ ان کو پکڑ کر لٹک سکیں
ہم نے امرود کے درخت سے امرود ہی کھائے تھے، یا پھر اس کے پھولوں کی خوشبو۔۔۔ سے لطف اندوز ہوئے۔ سبحان اللہمیں بھی بچپن میں امرود کے درخت پر چڑھ کر ڈانٹ کھا چکا ہوں
باقیاں نوں شرم آوندی اے اپنے راز کھولن تے۔ اسی تے ہوئے بے۔۔۔۔۔۔۔دو بندے تے ہو گئے آں باقیاں دانہی پتا۔۔۔ ۔
بس "کامیابی" دو ہاتھ ہی تھی اگر مل جاتی اور والد صاحب مرحوم مغفور کو اگر علم نہ ہوجاتا، تو "چھ جماعت پاس" ہی رہ جاتا مگر" بل گیٹ" کی طرح حکومت کرتا، بنا پڑھے، دنیا پر۔۔۔۔۔!یعنی آپ چھ جماعت پاس ہیں؟
لگتا ہے آپ کو میری خدمات کی ضرورت تھیبچپن میں ہمیشہ اپنے سےکم عمر بچوں کو دوست رکھا، اس طرح آپ کا رعب بھی رہتا ہے اور آپ کرکٹ، گُلی ڈنڈے یا کسی بھی کھیل میں کپتان بھی بن جاتے ہیں تو کبھی بچپن میں واپسی ہو تو یہ نصیحت یاد رکھیے گا مگر یہ بھی مت بھولیے گا کہ محلے میں سب سے زیادہ ڈانٹ بھی پھر آپ کو ہی پڑے گی کہ اچھا بھلا کھوتے جتنا (میرا قد بچپن میں اس تیزی سے بڑھا تھا جیسے غریب کی بچیوں کی عمر بڑھتی ہے - خیر یہ موازنہ شاید مزید سوال اٹھا دے تو اسے چھوڑ دیجئے) ہو کر چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھری دوپہر کرکٹ کھیلنے لے جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
ایسے ہی ایک دن (عمر شاید دس سے بارہ سال تھی) اپنے چاولوں کے کارخانے کی اندر ہی ایک جانب رکھی گئی بھینسوں کی دیکھ بھال کے لیے رکھے گئے ایک خاندان کے سب سے چھوٹے چشم و چراغ منیر احمد کے ساتھ کھیل کود میں مشغول تھا کہ یاد آیا کہ آج ہی لائیبریری (محلے میں ایک دوکان جہاں سے ایک روپے فی دن کے کرایہ پر جاسوسی ناول وغیرہ مل جایا کرتے تھے) میں سے لئے گئے ایک رسالے (شائد کوئی شیطانی یا جادو ٹونے والا رسالہ تھا) میں سے پڑھے گئے ایک ٹوٹکے کو آزما لیا جائے۔ اس ٹوٹکے کے مطابق اگر مینڈک کی زبان کو کسی کاغذ میں لپیٹ کر کسی سوئے ہوئے شخص کے سرہانے نیچے رکھ دیا جائے تو وہ نیند میں اپنے سارے راز بڑبڑا دیتا ہے۔
تو قصہ مختصر، کارخانے کی پچھلی طرف والے چھپڑ کے کنارے کئی گھنٹے کھڑے رہنا، منیر کو ضدکر کے چھپڑ میں اتارنا، چھپڑ کے باہر اچھلتے ہوئے مینڈکوں کے پاس پہنچ کر ہاتھ میں پکڑے کپڑے میں لپیٹنے سے ذرا پہلے چیخیں مار کر پیچھے ہٹ جانا، پھر منیر کو پیار سے، ڈانٹ سے اور ہر طریقے سے راضی کر کے ایک مینڈک پکڑنے پر اکسانا اور پھر ناکام و نا امید واپس لوٹ جانا نہیں بھولتا۔
سوچتا ہوں کہ اگر مینڈک پکڑ لیتا تواس کی زبان کون نکالتا۔ اگر نکال بھی لیتا تو کس کے سرھانے کے نیچے رکھتا؟ کچھ چیزوں کا ادھورا رہ جانا ہے بہتر ہوتا ہے شاید
پس نوشت - شاید اس میں بھیانک کچھ نہیں ہے لیکن اگر مینڈک پکڑا جاتا تو اس کہانی کا بھیانک دور شروع ہو جاتا