ناصر علی مرزا
معطل
آپ کریں تو راس لیلا، ہم کریں تو کریکٹر ڈھیلا
فہد کیہر
سعید اجمل۔ فائل فوٹو
"آپ کریں تو راس لیلا، ہم کریں تو کریکٹر ڈھیلا"، یہ 'جدید' محاورہ کرکٹ میں انگلینڈ پر بالکل صادق آتا ہے۔ جب 1992ء میں پاکستان نے وسیم اکرم اور وقار یونس کی ریورس سوئنگ باؤلنگ کی بدولت انگلینڈ کو اسی کے میدانوں میں شکست دی تو انگلش میڈیا نے ایک طوفان برپا کردیا تھا۔
پاکستان کے باؤلرز پر الزام لگایا گیا کہ وہ گیند کے ساتھ چھیڑچھاڑ یعنی بال ٹیمپرنگ کرتے ہیں اور پھر کٹی پھٹی گیند کے ذریعے غیر معمولی سوئنگ حاصل کرتے ہیں اور نتیجہ انگلینڈ کی بیٹنگ کی ناکامی کی صورت میں نکلا۔ یعنی مختصر یہ کہ پاکستانی باؤلرز بے ایمان ہیں اور انگلش بیٹسمین مظلوم کہ جن کے ساتھ دھوکا کیا گیا۔
انگلینڈ کا یہ دعویٰ اس وقت تک قائم رہا جب تک کہ 2005ء میں اینڈریو فلنٹوف، سائمن جونز اور اسٹیو ہارمیسن نے اسی 'بے ایمانہ' ہتھیار کو استعمال کرتے ہوئے بابائے کرکٹ کو آسٹریلیا کے خلاف ایک عرصے بعد ایشیز سیریز میں تاریخی فتح سے ہمکنار کرایا۔ تب اس کا نام 'بال ٹمپرنگ' سے بدل کر 'ریورس سوئنگ' ہوگیا۔
اب جدید کرکٹ میں 'دوسرا' ایک ایسی گیند ہے جس میں انگلش باؤلرز کو ابھی مہارت حاصل کرنا باقی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عرصے سے ان تمام باؤلرز کے باؤلنگ ایکشن پر سخت اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں جو 'دوسرا' پر مکمل عبور رکھتے ہیں۔
سری لنکن اسپنر سچترا سینانائیکے
آف اسپنر کی جانب سے پھینکے جانے کے بعد روایتی اسپن لینے کے بجائے دوسری سمت گھوم جانے والی یہ گیند انگلینڈ کے بیٹسمین آخر کیسے بھول سکتے ہیں؟۔ 2012ء کے اوائل میں متحدہ عرب امارات کے میدانوں پر سعید اجمل کی انہی گیندوں نے اس وقت کی عالمی نمبر ایک ٹیم کو پاکستان کے ہاتھوں تاریخ کی بدترین وائٹ واش شکست سے دوچار کیا۔ اس وقت دبا دبا شور اٹھا، اور اب یہ ایک توانا آواز بن چکی ہے اور نتیجہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی جانب سے مشتبہ باؤلنگ ایکشن کے حامل باؤلرز کے خلاف قوانین کو سخت کرنے کے اشاروں کی صورت میں نکلا ہے۔
آئی سی سی کی کرکٹ کمیٹی کہتی ہے کہ دنیا بھر میں کھلاڑی مشتبہ ایکشن کے ساتھ باؤلنگ کرتے پھر رہے ہیں جنہیں روکنے کی ضرورت ہے۔ کمیٹی کی تازہ سفارشات سے ظاہر ہے کہ 'دوسرا' پھینکنے والے باؤلرز کے لیے مزید مشکلات کھڑی ہونے جا رہی ہیں۔
کمیٹی نے گزشتہ دنوں میں بنگلور میں ہونے والے دو روزہ اجلاس میں مشتبہ باؤلنگ ایکشن کو رپورٹ کرنے اور پھر اس پر تجربات کے موجودہ طریقے کو ہی غیر اطمینان بخش قرار دے دیا ہے۔ موجودہ قانون کے تحت باؤلر کو اپنی کہنی میں 15 درجے تک کا خم دینے کی اجازت ہے لیکن کرکٹ کمیٹی کی نئے پیمانے پر سفارشات مقرر کیے جانے کے بعد ہوسکتا ہے کہ آف اسپنرز کے لیے حالات اتنے سازگار نہ رہیں۔ بالخصوص 'دوسرا' پھینکنے والے باؤلرز کے لیے جیسا کہ پاکستان کے سعید اجمل، جو ویسے ہی انگلینڈ میں تنقید کی زد میں ہیں۔
وارسسٹرشائر کاؤنٹی کی جانب سے کھیلنے والے سعید اجمل کے باؤلنگ ایکشن پر سابق انگلش کپتان مائیکل وان نے ٹوئٹر پرتنقید کی اور انگلینڈ کے موجودہ ٹی ٹوئنٹی کپتان اسٹورٹ براڈ نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی۔ انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ اب اس معاملے پر وضاحتیں پیش کرتا پھر رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب تک انگلینڈ کا کوئی باؤلر اس ہنر کو سیکھ نہیں لیتا، اس معاملے کی گرد بیٹھے گی نہیں۔
ایک جانب سعید اجمل کاؤنٹی کرکٹ میں تنقید کی زد میں ہیں تو دوسری جانب انگلینڈ سے نبرد آزما سری لنکا کے سچیترا سینانائیکے کا باؤلنگ ایکشن بھی گزشتہ دنوں رپورٹ ہوچکا ہے۔ اب انہیں اپنے باؤلنگ ایکشن کو کلیئر کروانا ہوگا، بصورت دیگر طویل پابندی کی زد میں آ سکتے ہیں۔
اب دیکھیں کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے کہ لیکن ویسے تاج برطانیہ کے ساتھ اتنی فرمانبرداری کے اظہار کے بعد تو کرکٹ کمیٹی کے تمام اراکین اعلیٰ ترین شہری اعزاز 'جارج کراس' کے حقدار ٹھہرتے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے؟ ۔
فہد کیہر
سعید اجمل۔ فائل فوٹو
"آپ کریں تو راس لیلا، ہم کریں تو کریکٹر ڈھیلا"، یہ 'جدید' محاورہ کرکٹ میں انگلینڈ پر بالکل صادق آتا ہے۔ جب 1992ء میں پاکستان نے وسیم اکرم اور وقار یونس کی ریورس سوئنگ باؤلنگ کی بدولت انگلینڈ کو اسی کے میدانوں میں شکست دی تو انگلش میڈیا نے ایک طوفان برپا کردیا تھا۔
پاکستان کے باؤلرز پر الزام لگایا گیا کہ وہ گیند کے ساتھ چھیڑچھاڑ یعنی بال ٹیمپرنگ کرتے ہیں اور پھر کٹی پھٹی گیند کے ذریعے غیر معمولی سوئنگ حاصل کرتے ہیں اور نتیجہ انگلینڈ کی بیٹنگ کی ناکامی کی صورت میں نکلا۔ یعنی مختصر یہ کہ پاکستانی باؤلرز بے ایمان ہیں اور انگلش بیٹسمین مظلوم کہ جن کے ساتھ دھوکا کیا گیا۔
انگلینڈ کا یہ دعویٰ اس وقت تک قائم رہا جب تک کہ 2005ء میں اینڈریو فلنٹوف، سائمن جونز اور اسٹیو ہارمیسن نے اسی 'بے ایمانہ' ہتھیار کو استعمال کرتے ہوئے بابائے کرکٹ کو آسٹریلیا کے خلاف ایک عرصے بعد ایشیز سیریز میں تاریخی فتح سے ہمکنار کرایا۔ تب اس کا نام 'بال ٹمپرنگ' سے بدل کر 'ریورس سوئنگ' ہوگیا۔
اب جدید کرکٹ میں 'دوسرا' ایک ایسی گیند ہے جس میں انگلش باؤلرز کو ابھی مہارت حاصل کرنا باقی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عرصے سے ان تمام باؤلرز کے باؤلنگ ایکشن پر سخت اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں جو 'دوسرا' پر مکمل عبور رکھتے ہیں۔
سری لنکن اسپنر سچترا سینانائیکے
آف اسپنر کی جانب سے پھینکے جانے کے بعد روایتی اسپن لینے کے بجائے دوسری سمت گھوم جانے والی یہ گیند انگلینڈ کے بیٹسمین آخر کیسے بھول سکتے ہیں؟۔ 2012ء کے اوائل میں متحدہ عرب امارات کے میدانوں پر سعید اجمل کی انہی گیندوں نے اس وقت کی عالمی نمبر ایک ٹیم کو پاکستان کے ہاتھوں تاریخ کی بدترین وائٹ واش شکست سے دوچار کیا۔ اس وقت دبا دبا شور اٹھا، اور اب یہ ایک توانا آواز بن چکی ہے اور نتیجہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی جانب سے مشتبہ باؤلنگ ایکشن کے حامل باؤلرز کے خلاف قوانین کو سخت کرنے کے اشاروں کی صورت میں نکلا ہے۔
آئی سی سی کی کرکٹ کمیٹی کہتی ہے کہ دنیا بھر میں کھلاڑی مشتبہ ایکشن کے ساتھ باؤلنگ کرتے پھر رہے ہیں جنہیں روکنے کی ضرورت ہے۔ کمیٹی کی تازہ سفارشات سے ظاہر ہے کہ 'دوسرا' پھینکنے والے باؤلرز کے لیے مزید مشکلات کھڑی ہونے جا رہی ہیں۔
کمیٹی نے گزشتہ دنوں میں بنگلور میں ہونے والے دو روزہ اجلاس میں مشتبہ باؤلنگ ایکشن کو رپورٹ کرنے اور پھر اس پر تجربات کے موجودہ طریقے کو ہی غیر اطمینان بخش قرار دے دیا ہے۔ موجودہ قانون کے تحت باؤلر کو اپنی کہنی میں 15 درجے تک کا خم دینے کی اجازت ہے لیکن کرکٹ کمیٹی کی نئے پیمانے پر سفارشات مقرر کیے جانے کے بعد ہوسکتا ہے کہ آف اسپنرز کے لیے حالات اتنے سازگار نہ رہیں۔ بالخصوص 'دوسرا' پھینکنے والے باؤلرز کے لیے جیسا کہ پاکستان کے سعید اجمل، جو ویسے ہی انگلینڈ میں تنقید کی زد میں ہیں۔
وارسسٹرشائر کاؤنٹی کی جانب سے کھیلنے والے سعید اجمل کے باؤلنگ ایکشن پر سابق انگلش کپتان مائیکل وان نے ٹوئٹر پرتنقید کی اور انگلینڈ کے موجودہ ٹی ٹوئنٹی کپتان اسٹورٹ براڈ نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی۔ انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ اب اس معاملے پر وضاحتیں پیش کرتا پھر رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب تک انگلینڈ کا کوئی باؤلر اس ہنر کو سیکھ نہیں لیتا، اس معاملے کی گرد بیٹھے گی نہیں۔
ایک جانب سعید اجمل کاؤنٹی کرکٹ میں تنقید کی زد میں ہیں تو دوسری جانب انگلینڈ سے نبرد آزما سری لنکا کے سچیترا سینانائیکے کا باؤلنگ ایکشن بھی گزشتہ دنوں رپورٹ ہوچکا ہے۔ اب انہیں اپنے باؤلنگ ایکشن کو کلیئر کروانا ہوگا، بصورت دیگر طویل پابندی کی زد میں آ سکتے ہیں۔
اب دیکھیں کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے کہ لیکن ویسے تاج برطانیہ کے ساتھ اتنی فرمانبرداری کے اظہار کے بعد تو کرکٹ کمیٹی کے تمام اراکین اعلیٰ ترین شہری اعزاز 'جارج کراس' کے حقدار ٹھہرتے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے؟ ۔