آپ کریں تو راس لیلا، ہم کریں تو کریکٹر ڈھیلا

آپ کریں تو راس لیلا، ہم کریں تو کریکٹر ڈھیلا
فہد کیہر

5391c51a0eeb1.jpg


سعید اجمل۔ فائل فوٹو
"آپ کریں تو راس لیلا، ہم کریں تو کریکٹر ڈھیلا"، یہ 'جدید' محاورہ کرکٹ میں انگلینڈ پر بالکل صادق آتا ہے۔ جب 1992ء میں پاکستان نے وسیم اکرم اور وقار یونس کی ریورس سوئنگ باؤلنگ کی بدولت انگلینڈ کو اسی کے میدانوں میں شکست دی تو انگلش میڈیا نے ایک طوفان برپا کردیا تھا۔

پاکستان کے باؤلرز پر الزام لگایا گیا کہ وہ گیند کے ساتھ چھیڑچھاڑ یعنی بال ٹیمپرنگ کرتے ہیں اور پھر کٹی پھٹی گیند کے ذریعے غیر معمولی سوئنگ حاصل کرتے ہیں اور نتیجہ انگلینڈ کی بیٹنگ کی ناکامی کی صورت میں نکلا۔ یعنی مختصر یہ کہ پاکستانی باؤلرز بے ایمان ہیں اور انگلش بیٹسمین مظلوم کہ جن کے ساتھ دھوکا کیا گیا۔

انگلینڈ کا یہ دعویٰ اس وقت تک قائم رہا جب تک کہ 2005ء میں اینڈریو فلنٹوف، سائمن جونز اور اسٹیو ہارمیسن نے اسی 'بے ایمانہ' ہتھیار کو استعمال کرتے ہوئے بابائے کرکٹ کو آسٹریلیا کے خلاف ایک عرصے بعد ایشیز سیریز میں تاریخی فتح سے ہمکنار کرایا۔ تب اس کا نام 'بال ٹمپرنگ' سے بدل کر 'ریورس سوئنگ' ہوگیا۔

اب جدید کرکٹ میں 'دوسرا' ایک ایسی گیند ہے جس میں انگلش باؤلرز کو ابھی مہارت حاصل کرنا باقی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عرصے سے ان تمام باؤلرز کے باؤلنگ ایکشن پر سخت اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں جو 'دوسرا' پر مکمل عبور رکھتے ہیں۔

5391c56ddf7e2.png

سری لنکن اسپنر سچترا سینانائیکے
آف اسپنر کی جانب سے پھینکے جانے کے بعد روایتی اسپن لینے کے بجائے دوسری سمت گھوم جانے والی یہ گیند انگلینڈ کے بیٹسمین آخر کیسے بھول سکتے ہیں؟۔ 2012ء کے اوائل میں متحدہ عرب امارات کے میدانوں پر سعید اجمل کی انہی گیندوں نے اس وقت کی عالمی نمبر ایک ٹیم کو پاکستان کے ہاتھوں تاریخ کی بدترین وائٹ واش شکست سے دوچار کیا۔ اس وقت دبا دبا شور اٹھا، اور اب یہ ایک توانا آواز بن چکی ہے اور نتیجہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی جانب سے مشتبہ باؤلنگ ایکشن کے حامل باؤلرز کے خلاف قوانین کو سخت کرنے کے اشاروں کی صورت میں نکلا ہے۔

آئی سی سی کی کرکٹ کمیٹی کہتی ہے کہ دنیا بھر میں کھلاڑی مشتبہ ایکشن کے ساتھ باؤلنگ کرتے پھر رہے ہیں جنہیں روکنے کی ضرورت ہے۔ کمیٹی کی تازہ سفارشات سے ظاہر ہے کہ 'دوسرا' پھینکنے والے باؤلرز کے لیے مزید مشکلات کھڑی ہونے جا رہی ہیں۔

کمیٹی نے گزشتہ دنوں میں بنگلور میں ہونے والے دو روزہ اجلاس میں مشتبہ باؤلنگ ایکشن کو رپورٹ کرنے اور پھر اس پر تجربات کے موجودہ طریقے کو ہی غیر اطمینان بخش قرار دے دیا ہے۔ موجودہ قانون کے تحت باؤلر کو اپنی کہنی میں 15 درجے تک کا خم دینے کی اجازت ہے لیکن کرکٹ کمیٹی کی نئے پیمانے پر سفارشات مقرر کیے جانے کے بعد ہوسکتا ہے کہ آف اسپنرز کے لیے حالات اتنے سازگار نہ رہیں۔ بالخصوص 'دوسرا' پھینکنے والے باؤلرز کے لیے جیسا کہ پاکستان کے سعید اجمل، جو ویسے ہی انگلینڈ میں تنقید کی زد میں ہیں۔

وارسسٹرشائر کاؤنٹی کی جانب سے کھیلنے والے سعید اجمل کے باؤلنگ ایکشن پر سابق انگلش کپتان مائیکل وان نے ٹوئٹر پرتنقید کی اور انگلینڈ کے موجودہ ٹی ٹوئنٹی کپتان اسٹورٹ براڈ نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی۔ انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ اب اس معاملے پر وضاحتیں پیش کرتا پھر رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب تک انگلینڈ کا کوئی باؤلر اس ہنر کو سیکھ نہیں لیتا، اس معاملے کی گرد بیٹھے گی نہیں۔

ایک جانب سعید اجمل کاؤنٹی کرکٹ میں تنقید کی زد میں ہیں تو دوسری جانب انگلینڈ سے نبرد آزما سری لنکا کے سچیترا سینانائیکے کا باؤلنگ ایکشن بھی گزشتہ دنوں رپورٹ ہوچکا ہے۔ اب انہیں اپنے باؤلنگ ایکشن کو کلیئر کروانا ہوگا، بصورت دیگر طویل پابندی کی زد میں آ سکتے ہیں۔

اب دیکھیں کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے کہ لیکن ویسے تاج برطانیہ کے ساتھ اتنی فرمانبرداری کے اظہار کے بعد تو کرکٹ کمیٹی کے تمام اراکین اعلیٰ ترین شہری اعزاز 'جارج کراس' کے حقدار ٹھہرتے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے؟ ۔
 

arifkarim

معطل
آئی سی سی کی کرکٹ کمیٹی کہتی ہے کہ دنیا بھر میں کھلاڑی مشتبہ ایکشن کے ساتھ باؤلنگ کرتے پھر رہے ہیں جنہیں روکنے کی ضرورت ہے۔ کمیٹی کی تازہ سفارشات سے ظاہر ہے کہ 'دوسرا' پھینکنے والے باؤلرز کے لیے مزید مشکلات کھڑی ہونے جا رہی ہیں۔
ہاہاہا۔ یوں تو خود آئی سی سی مشتبہ اور کرکٹ مخالف ٹھہری۔ ہر کھیل میں نت نئی جدتیں خود کھلاڑی ہی پیدا کر تے ہیں۔ جیسے بہت سے غیر پاکستانی کھلاڑیوں نے نت نئی کرکٹ شارٹس متعارف کروائی ہیں تو اگر پاکستانی کھلاڑی سری لنکن دلشان کی طرح نئی باؤلنگ ٹیکنیک ایجاد کرتے ہیں تو آئی سی سی کو پِسو کیوں پڑ جاتے ہیں؟ یاد رہے کہ دلشان کی دل اسکوپ شاٹ کو بھی بہت کم کھلاڑی ٹھیک سے کاپی کر پائے ہیں:
http://en.wikipedia.org/wiki/Dilscoop
 
لندن: انگلش آل راؤنڈر معین علی دوسرا گیند کرنے والا انگلینڈ کا پہلا بولر بننے کے خواہاں ہیں۔
وہ سعید اجمل کے مشوروں سے اس ڈلیوری میں مہارت حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں، انھوں نے کہا کہ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ پاکستان کیلیے کیوں نہیں کھیلتے؟ میں اب صرف برطانوی شہری ہوں۔

تو کیا جلد ہی دوسرا کو لیگل قراد دے دیا جائے گا، سعید اجمل نے بھی کیا حل نکالا ہے
 
آخری تدوین:
انگلینڈ کا یہ دعویٰ اس وقت تک قائم رہا جب تک کہ 2005ء میں اینڈریو فلنٹوف، سائمن جونز اور اسٹیو ہارمیسن نے اسی 'بے ایمانہ' ہتھیار کو استعمال کرتے ہوئے بابائے کرکٹ کو آسٹریلیا کے خلاف ایک عرصے بعد ایشیز سیریز میں تاریخی فتح سے ہمکنار کرایا۔ تب اس کا نام 'بال ٹمپرنگ' سے بدل کر 'ریورس سوئنگ' ہوگیا۔ ۔

یعنی کہ ہمارا کُتا، کُتا اور آپ کا کُتا، ٹونی :battingeyelashes: ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
http://www.bbc.co.uk/urdu/sport/2014/09/140909_saeed_ajmal_action_analysis_rh.shtml

شعیب اختر اور مرلی دھرن کی طرح سعید اجمل بھی اپنے بولنگ ایکشن کا مقدمہ طبی بنیادوں پر لڑتے آئے ہیں اور ان کا موقف ہے کہ ٹریفک کے ایک حادثے نے ان کے بازو کو غیرمعمولی طور پر موڑ دیا تھا جو ان کی بولنگ میں عیاں ہے۔
تاہم اب یہ فیصلہ آئی سی سی کرے گی کہ ان کے موقف میں کتنی صداقت ہے کیونکہ دو سال پہلے بھی انھوں نے انگلینڈ کے خلاف سیریز کے دوران خود کو بولنگ ایکشن کی بحث میں غیرضروری طور پر ملوث کرلیا تھا کہ آئی سی سی نے انہیں تئیس ڈگری کی چھوٹ دے رکھی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی سی سی نے تمام بولرز کے لیے کلائی کے خم کی ایک حد مقرر کررکھی ہے جو پندرہ ڈگری سے تجاوز نہیں کرنی چاہیے۔
مرلی دھرن کی نو بال

آئی سی سی نے یہ حد مرلی دھرن اور شعیب اختر کے معاملے کے بعد ہی مقرر کی تھی کیونکہ یہ دونوں بولرز اپنے غیرمعمولی بازوؤں کو بنیاد بناکر بائیو مکینک ماہرین کی مدد سے خود کو کلیئر کراتے رہے تھے۔
مرلی دھرن کے معاملے میں سری لنکن کرکٹ بورڈ بھی سخت موقف کے ساتھ سامنے آتا رہا تھا بلکہ ایک بار تو سری لنکن کپتان ارجنا رانا تنگا نے اس وقت میچ جاری رکھنے سے انکار کردیا تھا جب آسٹریلوی امپائر نے مرلی دھرن کے بولنگ ایکشن کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے نوبال دے دی تھی۔
پاکستان کرکٹ بورڈ اور سعید اجمل کے لیے یہ مشکل گھڑی ہے کیونکہ سب ہی جانتے ہیں کہ سعید اجمل ایک فتح گر بولر کی حیثیت سے پاکستانی بولنگ اٹیک کا اہم حصہ ہیں اور ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کو متحدہ عرب امارات میں آسٹریلیا سے سیریز کھیلنی ہے اور اس کے بعد عالمی کپ بھی سر پر ہے سعید اجمل کی معطلی اس کے لیے بہت بڑا دھچکہ ہے۔
سعید اجمل اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے پاس اب کوئی ’دوسرا‘ راستہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ ان کے بولنگ ایکشن پر اٹھائے گئے تمام اعتراضات دور کرکے انہیں دوبارہ پاکستانی ٹیم کا حصہ بنادیا جائے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے اگرچہ معطلی کے خلاف اپیل کا فیصلہ بھی کیا ہے لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ اس کی حیثیت خالی وار سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہوگی کیونکہ اگر یہ اپیل مسترد ہوگئی تو پھر پاکستان کرکٹ بورڈ کو سعید اجمل کی انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی کے لیے بہت زیادہ انتظار کرنا ہوگا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بہتر یہی ہوگا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ سعید اجمل کے بولنگ ایکشن میں موجود خامیوں کو دور کرنے کی جلد سے جلد کوشش کرے اور پھر انھیں کسی بائیومکینک ماہر کے پاس بھیج کر یہ جاننے کی کوشش کرے کہ بولنگ ایکشن کی یہ خامیاں کس حد تک دور ہوئی ہیں جیسا کہ سری لنکا نے اپنے بولر سینا نائیکے کے ساتھ کیا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کو تمام تر یقین دہانی کے بعد ہی آئی سی سی سے دوبارہ رجوع کرنا ہوگا کہ کہیں بیک فائر نہ ہوجائے۔
تلوار سعید اجمل کے سر پر لٹک رہی ہے کیونکہ اگر وہ دوسال کے دوران دو مرتبہ مشکوک بولنگ ایکشن کی زد میں آگئے تو پھر ایک سالہ پابندی ان کا مقدر ٹھہرے گی۔

سعید اجمل کے معاملے میں اس بار سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ ان کی تمام گیندیں مشکوک قرار دی گئی ہیں جس پر سب حیران ہیں کیونکہ عام خیال یہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ آف سپنر کی مخصوص گیند’دوسرا‘ ہمیشہ مشکوک رہتی ہے لیکن اس بار بجلی پوری طرح گری ہے۔

اس تمام معاملے کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے کبھی بھی مشکوک بولنگ ایکشن والے بولرز پر کبھی بھی توجہ نہیں دی۔ اس کا اندازہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیرمین شہریار خان کی اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے سابقہ دور میں مشکوک بولنگ ایکشن والے 23 بولرز فرسٹ کلاس کرکٹ کھیل رہے تھے اور اب یہ تعداد بڑھ کر 35 ہوگئی ہے۔
شہریار خان کی یہ بات بھی بالکل درست ہے کہ ڈومیسٹک کرکٹ میں امپائرز ایسے بولرز کے بولنگ ایکشن کی رپورٹ بھی نہیں کرتے ۔
ظاہر ہے اس کا نقصان پاکستانی کرکٹ کو ہی ہوا ہے کیونکہ ایسے بولرز کے نہ تو ایکشن درست ہوئے نہ ہی پاکستانی ٹیم کوسعید اجمل کا متبادل مل سکا اور اب جب آئی سی سی نے سعید اجمل کو انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے سے روک دیا ہے پاکستانی ٹیم کے ہاتھ خالی ہیں۔
 
’’دوسرا‘‘ گیند کیا ہے ؟

ع ۔ خاکوانی
دوسرا آف سپنر کی وہ گیند ہے جو آف سپن یعنی آف سٹمپ سے لیگ سٹمپ آنے کی بجائے اس کے دوسری سمت یعنی لیگ سٹمپ سے آف سٹمپ کی طرف جائے ۔ ایک طرح سے یہ ایسا لیگ بریک ہے جو آف سپنر اپنی روایتی آف سپن گیندوں کے ساتھ کراتا ہے۔اسے پڑھنا اور سمجھنا بہت مشکل ہوتا ہے ، اسی لئے اکثر بلے باز اس کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ’’دوسرا‘‘ ایک اعتبار سے لیگ سپنر کی گگلی سمجھ لیں ۔ اس میں خاص بات یہ ہے کہ آف سپنر روایتی طور پر صرف آف سپن گیندیں ہی کراتے تھے،

کرکٹ کی تاریخ میں ایک دو بائولر ایسے ضرور گزرے جو دوسرا کرانے کے دعوے دار ہیں، مگر انہوں نے اس حوالے سے شہرت نہیں پائی۔

جدید کرکٹ یعنی پچھلے تیس پینتیس سال کے دوران آف سپنر صرف آف سپن ہی کراتے تھے، ان کے پاس ورائٹی کم ہونے کی وجہ سے وہ زیادہ خطرناک نہیں تھے، عام طور پر وہ اچھی لائن ولینتھ پر گیند کرا کر رنز روکنے کی کوشش کرتے ، کبھی کبھار کسی ٹرننگ وکٹ پر زیادہ وکٹیں لینے میں بھی کامیاب ہوجاتے۔

پاکستانی آف سپنر ثقلین مشتاق کو یہ کریڈٹ حاصل ہے کہ انہوںنے اپنے روایتی آف سپن ایکشن ہی میں دوسرا کرانے کی صلاحیت حاصل کرلی۔ ان کی اس گیند نے کرکٹ میں تہلکہ مچا دیا۔ شروع میں تو بلے بازوں کو سمجھ ہی نہیں آئی کہ یہ کیا ہور ہا ہے ، گیند اندر آنے کے بجائے باہر کیسے گھوم جاتی ہے؟

اسے دوسرا نام اس وقت کے وکٹ کیپر معین خان کی وجہ سے دیا گیا۔ معین وکٹ کے پیچھے سے پکار کر کہتے کہ ثقی دوسرا کرائو۔ مشہور کرکٹ کمنٹیٹر ٹونی گریک نے اسی مناسبت سے اپنے مضامین میں اس گیند کو دوسرا کا نام دیا۔ یوں یہ اصطلاح مستعمل ہوگئی۔

اس کے بعد دوسرے مشہور آف سپنرز نے دوسرا سیکھنے کی کوشش شروع کر دی۔ مرلی دھرن نے جلد ہی یہ ورائٹی سیکھ لی، وہ پہلے سے زیادہ خطرناک ہوگئے۔ مرلی کے بائولنگ ایکشن پر بھی اعتراضات ہوئے،مگر وہ کلئیر ہوگئے۔ بھارتی آف سپنر ہربھجن سنگھ پر بھی یہی اعتراض ہوا، ان کے دوسرا گیند کرانے پر کچھ عرصہ پابندی بھی لگی،پھر وہ کلئیر ہوگئے۔ پاکستانی آف سپنر شعیب ملک بھی اس اعتراض کی زد میں آئے، انہوں نے پھر دوسرا کرانا ہی ختم کر دیا۔ جنوبی افریقہ کے مشہور کھلاڑی بوتھا پر بھی یہی اعتراض لگا، ان کے دوسرا پر پابندی لگا دی، بوتھا اس کے بعد صرف روایتی آف سپن ہی کراتے رہے۔

سعیدا جمل پر پانچ سال پہلے یہ الزام لگا ،مگر بعد میں بائیومکینک معائنے میں وہ کلئیر ہوگئے۔ سعید اجمل کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے دوسرا گیند کو اپنے عروج پر پہنچا دیا تھا۔ ان سے بہتر دوسرا گیند کوئی اور بائولر نہیں کرا سکا۔ وہ اس قدر مہارت سے یہ گیند کراتے کہ بڑے بڑے بلے باز نہیں سمجھ سکتے تھے۔ سعیدا جمل دوسرا اس قدر زیادہ کرانے لگے تھے کہ ان کی آف سپن گیندیں زیادہ موثر نہیں رہی تھیں۔ سعید اجمل نے’’ تیسرا ‘‘ بھی متعارف کرایا، یہ رائونڈ آرم گیند ہے جو سیدھا رہتا ہے مگر بلے باز اسے آف سپن یا دوسرا سمجھ کر کھیلنے کی کوشش کرتا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے میں آئی سی سی نے سپنرز کے مشکوک ایکشن کے حوالے سے بہت سخت رویہ اپنایا۔ ویسٹ انڈین سپنر شلنگفورڈ پر پابندی لگی، بنگلہ دیشی سپنر سہاگ غازی بھی اس کی زد میں آئے، نیوزی لینڈ کے ایک سپنر پر بھی اعتراض ہوا۔

یہ ایک دلچسپ امر ہے کہ آسٹریلیا اور انگلینڈ کے سپنرز نے دوسرا کرانے کی زیادہ کوشش نہیں کی۔ آسٹریلیا میں تو باقاعدہ اس کی حوصلہ شکنی کی گئی، پانچ سال پہلے وہاں مشہور سپنرشین وارن، میکگل اور بعض دوسرے بائولروں کو بلایا گیا، مشاورت کے بعد طے ہوا کہ نوجوان آسٹریلوی بائولرز کو دوسرا سیکھنے کی حوصلہ شکنی کی جائے کہ یہ مشکوک ایکشن ہے اور کسی بھی وقت آئی سی سی سے اس پر پابندی لگ سکتی ہے۔ انگلینڈ میں بھی کم وبیش یہی صورتحال رہی۔ ان کے مشہور آف سپنر گریم سوان صرف روایتی آف سپن کراتے تھے، دوسرا انہوں نے کبھی نہیں کرایا،مگر وہ اپنی آف سپن کی مدد سے ہی وکٹیں لینے میں کامیاب رہتے۔ انگلش ٹیم میں کچھ عرصہ قبل شامل ہونے والے پاکستانی نژاد سپنرمعین علی نے البتہ ایک دو میچوںمیں دوسرا گیندیں کرائی ہیں۔

دوسرا کے حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ اس وقت انگلینڈ، آسٹریلیا اور بھارت تینوں ممالک کی ٹیموں میں کوئی بھی ایسا بائولر نہیں جو یہ گیند کراتا ہو، اس لئے قوانین کی سختی کاانہیں کوئی نقصان نہیں۔

سب سے بڑا نقصان اور دھچکا پاکستانی کرکٹ ٹیم کو پہنچا ہے ،سعید اجمل جس کے سٹرائیک بائولر تھے۔ پچھلے تین چار برسوں کے دوران بیشتر فتوحات سعید اجمل ہی کی مرہون منت تھیں۔ اگر اسے پاکستانی کرکٹ ٹیم کو ورلڈ کپ سے پہلے دبائو میں لانے کی سازش نہ بھی کہا جائے تو پھر بھی یہ تو حقیقت ہے کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کی آدھی قوت ورلڈ کپ میں جانے سے پہلے ہی ختم ہوگئی۔یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر بگ تھری کے کسی مین کھلاڑی کا یہ ایشو ہوتا تو ایسی سختی ورلڈ کپ سے چند ماہ پہلے ہرگز نہ ہو پاتی۔ پاکستان ، بنگلہ دیش اور ویسٹ انڈیز کی عالمی کرکٹ میں کوئی اہمیت نہیں۔ اس لئے جو بھی قانون منظور کر لیا جائے ، کوئی اس کی مزاحمت نہیں کر سکتا۔ منگل کا دن پاکستانی کرکٹ ٹیم کا تاریک دن ہے، اس روز پاکستان کے سب سے اچھے بائولر کا کرکٹ کیرئر خطر ے میں پڑ گیا۔ ہمیں پوری کوشش کرنی چاہیے کہ سعید اجمل کا کیرئر بچ جائے، اسے اس وقت بھرپور سپورٹ کی ضرورت ہے۔اس حوالے سے ہرگز کوتاہی نہیں ہونی چاہیے۔ ٭…٭…٭
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بقیہ چور باؤلرزجیسے کہ لیستھ ملنگا پر بھی پابندی لگانی چاہیے۔۔۔
انیس بھائی ویسے ہی باقی آٹھ یا نو ممالک جتنے بھی ہیں۔ اپنی کوئی یونین بنا کر الگ ہو جانا چاہیے۔ کوئی ضروری ہے کہ ان کے طریق پر ہی چلا جائے۔ یہ دو تین بڑے اپنے پر جو اصول مرضی لاگو کرتے پھریں۔ اس میں برائی ہی کیا ہے۔ لیکن بات پھر وہی ہے کہ کرکٹ کی خاطر اتنی زحمت اٹھانا کون سا آسان کام ہے۔ :p
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
جواب تو بڑھیا ہے پر پاکستانی عوام کو یہ کھیل جو پانچ دن تک کھیلنے کے بعد ہار جیت کے بغیر ختم ہوجاتی ہے وہ پسند ہے
سست قوم۔۔ کھیل بھی سستی والا پسند ہے۔ ہاکی میں جان مارنی پڑتی تھی تو اس کی جان ہی مار دی۔۔۔
 
لگتا ہے آپ صرف تماشائیوں کو دیکھتے ہیں۔ :p
اب سمجھ آیا کہانگلینڈ و آسٹریلیا والی سیریزوں کے دوران احمد بھائی محفل پر کیوں نہیں آتے۔۔
اور ابھی سری لنکا والی سیریز میں ٹی وی پر نہیں جاتے تھے۔۔۔ محفل میں ہی دھرنا دیا ہوا تھا۔۔:ROFLMAO:
 
Top