ایل کے آڈوانی کی خود نوشت پڑھنے کے بعد، تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کے لیے کسی کانگریسی (نٹور سنگھ) اور غیر کانگریسی غیر بھاج پائی (آئی کے گجرال) کی خود نوشت پڑھنے کا ارادہ تھا لیکن بیچ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے متعلق ایک ہی مصنف کی تین کتابیں ہاتھ لگ گئی ہیں سو اُن میں سے پہلی شروع کی ہے۔
The Saffron Tide: The Rise of the B.J.P. by Kingshuk Nag
مصنف ٹائمز آف انڈیا کے ایک ایڈیٹر ہیں اور بھارتی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے سخت ناقد سمجھے جاتے ہیں اور کئی ایک کتابوں کے مصنف ہیں۔ یہ کتاب 2014ء میں شائع ہوئی تھی جب بھاج پا کو مرکزی سرکار سے دس سالہ سنیاس کے بعد مودی کی قیادت میں دوبارہ موقع ملا تھا۔
کتاب میں بھاج پا کی تاریخ کو شروع سے بیان کیا گیا ہے جب 1951ء ایک بنگالی
شیام پرشاد مُکرجی نے نہرو کی کابینہ سے استغفیٰ دے کر بھارتیہ جَن سَنگھ کی بنیاد رکھی تھی۔ شیام پرشاد نے تقسیم سے پہلے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز کانگریس سے کیا تھا لیکن بعد میں کٹر ہندو مہا سبھا کے رکن بن گئے تھے۔ لیکن شیام پرشاد کو زیادہ موقع نہیں ملا اور وہ 1953ء میں اکاون سال کی عمر میں کشمیر میں شیخ عبداللہ کی حراست میں مبینہ طور پر ہلاک ہو گئے تھے۔ مکرجی کے بعد مصنف نے بھاج پا پر کٹر ہندو مگر غیر سیاسی تنظیم راشٹریہ سوئم سیوک سَنگھ آر ایس ایس RSS کے اثرات کا بھرپور تجزیہ کیا ہے کہ کس طرح انہوں نے بھاج پا پر اپنی گرفت مضبوط کی اور کس طرح سَنگھ پریوار اب تک بی جے پی پر حاوی ہے اور کس طرح بی جے پی کے سارے اہم فیصلے اور نامزدگیاں آر ایس ایس کے زیرِ اثر کی جاتی ہیں۔
جن سنگھ 1977 میں ختم ہو کر جنتا پارٹی کا حصہ بن گئ تھی اور مرار جی ڈیسائی کی حکومت میں اہم وزاتوں پر بھی فائز رہی۔ 1979ء میں جنتا پارٹی کی اندرا گاندھی کی کانگریس کے ہاتھوں شکست کے بعد جنتا پارٹی اندرونی تنازعات کا شکار ہو گئی تھی، جس میں سب سے اہم سابقہ جن سنگھ کے ارکان کی آر ایس ایس کی رکنیت تھی، جنتا پارٹی میں دوسری پارٹیوں کے شامل ارکان کا کہنا تھا کہ جن سنگھ کے ارکان کو دہری رکنیت (جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کی رکنیت) ترک کرنی چاہیے اور اگر جنتا پارٹی میں رہنا ہے تو آر ایس ایس سے علیحدہ ہونا ہوگا۔ واجپائی اور آڈوانی دونوں کو یہ منظور نہ تھا اور یوں وہ 1980ء میں جنتا پارٹی سے علیحدہ ہو گئے اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی بنیاد رکھی۔
بے جی پی کے عروج کا دور رام جنم بھومی اور بابری مسجد کے تنازعے سے شروع ہوا۔ جس نے بہرحال ان کو 1998ء میں دہلی کی مرکزی سرکار دلا دی، لیکن 1999ء میں صرف ایک ووٹ کے فرق سے ان کی حکومت گر گئی۔ 1999ء کے نئے لوک سبھا کے الیکشنز میں وہ پھر حکومت میں آئے اور واجپائی کی قیادت میں انڈیا میں پہلی نان کانگریس حکومت بنی جس نے سرکار میں پورے پانچ سال کی ٹرم مکمل کی۔ لیکن 2004ء اور 2009ء کے انتخابات میں ان کو شکستِ فاش کا سامنا کرنا پڑا۔
ان شکستوں کے بعد بی جے پی میں بڑی تبدیلیاں ہوئیں اور واجپائی اور آڈوانی دونوں کی اہمیت نہ صرف ختم ہو کر رہ گئی بلکہ دونوں ہی ریٹائر ہونے پر مجبور کر دیے گئے۔ 2014ء کے الیکشنز مودی کی سربراہی میں لڑے گئے اور پہلے سے زیادہ نشتیں جیت کر یہ پارٹی حکومت میں واپس آئی۔ ناقدین کے مطابق انڈیا کی سیاست اب مودی کی گرفت میں ہے اور 2019ء کے اگلے الیکشنز میں بھی وہی جیتتے نظر آ رہے ہیں۔
عمدہ معلوماتی کتاب ہے۔