عبدالقیوم چوہدری
محفلین
ذوالفقار علی بھٹو کو کوئے یار سے سوئے دار تک پہنچانے میں احمد رضا قصوری کی مدعیت اور ائیر مارشل اصغرخان کی تحریک کا کردار اہم تھا۔ ائیر مارشل نے تخت ِ اقتدار الٹنے کا جواز مہیا کیا اور قصوری صاحب نے تختہِ دار کھینچنے کے لیے اپنی صلاحیتیں فراہم کیں۔ بھٹو صاحب کو پھانسی ہوگئی تو احمد رضا قصوری ایڑیاں اٹھا اٹھا کے شہر میں چلنے لگے۔ جس کسی کے مزاج میں وہ اکڑ دیکھتے تو کہتے ”میں نے بھٹو کو پھانسی چڑھادیا تو تم کیا چیز ہو“۔ حالیہ تاریخ میں یہ جملہ انہوں نے فیصل رضا عابدی کو کچھ اس لہجے میں کہا تھا “میں نے تمہارے باپ کو پھندا دلوا دیا تھا تم کیا چیز ہو“۔ قصوری صاحب کا قد اگر ڈیڑھ انچ نکل آیا تھا تو ظاہر ہے ڈھائی تین انچ تو ائیرمارشل اصغرخان صاحب کے بھی بنتے ہی تھے۔
ائیرمارشل اصغرخان کی خود نوشتہ ڈائری تاریخ کی الماری میں محفوظ ہے۔ یہ ڈائری دراصل اس گروہ کا روزنامچہ ہے جو بھٹو کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لیے اس لیے تیار نہ تھا کہ بھٹو غیر آئینی وزیر اعظم ہیں۔ مگر حضرت ضیا الحق نے جب آئین کی دستاویز پر اپنی مسند رکھی تو یہ جوتوں سمیت ان کی غیر آئینی کابینہ میں بیٹھ گئے۔ سوائے ائیرمارشل اصغرخان کے کہ انہیں لگا میرا حق مارا گیا ہے۔
ائیرمارشل صاحب بھٹو صاحب کے کیس کی سماعت میں اہلیہ کے ہمراہ کمرہ عدالت میں ایسے ہی پہنچتے تھے جیسے پانامہ کیس میں معززینِ شہر کشاں کشاں چلے آتے تھے۔ فیصلے سے کچھ دن قبل جسٹس مولوی مشتاق سے ایک عشائیے میں ان کی ملاقات ہوئی۔ اصغرخان مرحوم نے پوچھا، کیا بنے گا؟ مولوی مشتاق نے کہا، مجھے نہیں لگتا کہ جنرل ضیا الحق انہیں معاف کریں گے۔ یعنی فیصلہ تو توپچی نے کردیا ہے منشی نے محض پڑھ کے سنانا ہے۔ تبھی تو دورانِ سماعت جج نے بھٹو کے وکیل سے کہا تھا، دلائل سمیٹنے کی کرو ہمیں فیصلہ بھی سنانا ہے۔
کم وبیش اسی زمین پر انصاف خانے سے آج بھی مصرع اٹھایا جارہا ہے۔ ”کارروائی تیز کرو مہینے کے اندر اندر فیصلہ بھی سنانا ہے“۔ ایسے میں کسی اصغرخان کے سر ”انصاف“ کا سہرا باندھنا بھی کوئی انصاف ہوسکتا ہے؟ مگر انسان کمزور ہے اور حریص بھی۔ اصغر خان اگر سب سے بڑے لیڈر اور سب سے بڑی جماعت کے انجام کا سہرا اپنے سر پہ اٹھائے پھرتے تھے تو کچھ ایسا غلط بھی تو نہیں تھا، مگر تخلیق کار ایسے منظرنامے کو کیوں کر ہضم کرلیں اور کیسے ہضم کرلیں۔ چنانچہ بہت جلد احمد رضا قصوری اور ائیرمارشل اصغر خان کو احساس دلادیا گیا کہ میاں! اوقات میں رہو زیادہ پھیلنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لاکھوں کے مجمعے سے خطاب کرنے والے رہنما کا پھیلاؤ پھر ایسا سمٹا کہ دنیا نے دیکھا۔
بے نظیر بھٹو کے معاملے میں یہی احساس میاں محمد نواز شریف کو بھی دلایاگیا تھا۔ میاں صاحب کو بہت جلد یہ احساس ہوبھی گیا کہ بے نظیر بھٹو کا اقتدار ختم کرنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں تھا کہ اس ملک کو میرے رحم وکرم پر چھوڑدیا جائے۔ انہیں یہ بھی احساس ہوگیا کہ اقتدار میں آتے ہی عوام سے کیے ہوئے وعدے کسی ہیبت ناک سائے کی طرح تعاقب کرتے ہیں۔ اور وعدے بغیر اختیار کے وفا نہیں ہوتے۔ اختیار کا سوال آتا ہے تو ملک ”خطرے” سے دوچار ہوتا ہے۔ ملک خطرے سے دوچار ہوجائے تو پھر کم از کم سیاست دانوں کی صلاحیتوں پر تو بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔
بے نظیر بھٹو کے اصغر خان میاں نواز شریف تھے۔ نواز شریف کے نواز شریف عمران خان ہیں۔ عمران خان ان غلط فمہیوں کا شکار کیوں نہ ہوں جن کا شکار ان کے پیشرو ہوئے تھے۔ عمران خان کی دو غلط فہمیاں ان کی راہ میں رکاوٹ رہیں گیں۔ ایک یہ کہ میاں نواز شریف کی بے دخلی میں اول و آخر ان کا کردار تھا اور دوسرا یہ کہ نواز شریف کی بے دخلی کا مطلب یہ ہے کہ یہ ملک کسی انقلاب کے واسطے انہیں سونپ دیا جائے گا۔ عمران نے عوام سے جو وعدے کیے ہیں وہ تو کُل انسانی تاریخ میں کسی رہنما نے نہیں کیے تھے۔ وعدوں کی سطح جتنی بلند ہوگی اختیار کا تقاضا اتنا شدید ہوگا۔ ٹھیک ہے کہ ستر برسوں میں دنیا بہت بدل گئی ہے مگر اختیار کی کنجی جس ذات کے قبضہ قدرت میں ہے اس کی ترجیحات تو نہیں بدلیں نا صاحب۔
قدرت کے کارخانے میں کوئی کمی نہیں ہے۔ قدسیوں نے ہر“انقلابی“ کا ایک متبادل ضرور رکھا ہوتا ہے۔ اصغر خان کے جیتے جیتے نواز شریف تخلیق کرلیے گئے تھے۔ نواز شریف کے جیتے جیتے عمران خان نے جنم لے لیا تھا۔ عمران خان ابھی جی رہے ہیں کہ دیکھا افتخار محمد چوہدری باسٹھ تریسٹھ کا علم اٹھائے غیب کے پردوں سے ظہور پذیر ہو رہے ہیں۔ کامل پانچ برس عمران خان کا دامن نچوڑ کے وضو کرنے والے ٹی وی میزبانوں کو بھی راتوں رات یہ احساس لاحق ہوگیا ہے کہ عمران خان باکردار توہیں مگر اتنے بھی نہیں۔ تاریخ کا سچ یہ ہے کہ ہم ایک ہی غلطی ہربار دہراتے ہیں۔ اور گھما کے پھرا کے تاریخ کا ہربار ایک ہی سوال ہوتا ہے۔ بتوں سے تجھ کو امیدیں؟ عطار کے اسی لونڈے سے دوستی؟
از فرنود عالم
ربط
ائیرمارشل اصغرخان کی خود نوشتہ ڈائری تاریخ کی الماری میں محفوظ ہے۔ یہ ڈائری دراصل اس گروہ کا روزنامچہ ہے جو بھٹو کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لیے اس لیے تیار نہ تھا کہ بھٹو غیر آئینی وزیر اعظم ہیں۔ مگر حضرت ضیا الحق نے جب آئین کی دستاویز پر اپنی مسند رکھی تو یہ جوتوں سمیت ان کی غیر آئینی کابینہ میں بیٹھ گئے۔ سوائے ائیرمارشل اصغرخان کے کہ انہیں لگا میرا حق مارا گیا ہے۔
ائیرمارشل صاحب بھٹو صاحب کے کیس کی سماعت میں اہلیہ کے ہمراہ کمرہ عدالت میں ایسے ہی پہنچتے تھے جیسے پانامہ کیس میں معززینِ شہر کشاں کشاں چلے آتے تھے۔ فیصلے سے کچھ دن قبل جسٹس مولوی مشتاق سے ایک عشائیے میں ان کی ملاقات ہوئی۔ اصغرخان مرحوم نے پوچھا، کیا بنے گا؟ مولوی مشتاق نے کہا، مجھے نہیں لگتا کہ جنرل ضیا الحق انہیں معاف کریں گے۔ یعنی فیصلہ تو توپچی نے کردیا ہے منشی نے محض پڑھ کے سنانا ہے۔ تبھی تو دورانِ سماعت جج نے بھٹو کے وکیل سے کہا تھا، دلائل سمیٹنے کی کرو ہمیں فیصلہ بھی سنانا ہے۔
کم وبیش اسی زمین پر انصاف خانے سے آج بھی مصرع اٹھایا جارہا ہے۔ ”کارروائی تیز کرو مہینے کے اندر اندر فیصلہ بھی سنانا ہے“۔ ایسے میں کسی اصغرخان کے سر ”انصاف“ کا سہرا باندھنا بھی کوئی انصاف ہوسکتا ہے؟ مگر انسان کمزور ہے اور حریص بھی۔ اصغر خان اگر سب سے بڑے لیڈر اور سب سے بڑی جماعت کے انجام کا سہرا اپنے سر پہ اٹھائے پھرتے تھے تو کچھ ایسا غلط بھی تو نہیں تھا، مگر تخلیق کار ایسے منظرنامے کو کیوں کر ہضم کرلیں اور کیسے ہضم کرلیں۔ چنانچہ بہت جلد احمد رضا قصوری اور ائیرمارشل اصغر خان کو احساس دلادیا گیا کہ میاں! اوقات میں رہو زیادہ پھیلنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لاکھوں کے مجمعے سے خطاب کرنے والے رہنما کا پھیلاؤ پھر ایسا سمٹا کہ دنیا نے دیکھا۔
بے نظیر بھٹو کے معاملے میں یہی احساس میاں محمد نواز شریف کو بھی دلایاگیا تھا۔ میاں صاحب کو بہت جلد یہ احساس ہوبھی گیا کہ بے نظیر بھٹو کا اقتدار ختم کرنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں تھا کہ اس ملک کو میرے رحم وکرم پر چھوڑدیا جائے۔ انہیں یہ بھی احساس ہوگیا کہ اقتدار میں آتے ہی عوام سے کیے ہوئے وعدے کسی ہیبت ناک سائے کی طرح تعاقب کرتے ہیں۔ اور وعدے بغیر اختیار کے وفا نہیں ہوتے۔ اختیار کا سوال آتا ہے تو ملک ”خطرے” سے دوچار ہوتا ہے۔ ملک خطرے سے دوچار ہوجائے تو پھر کم از کم سیاست دانوں کی صلاحیتوں پر تو بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔
بے نظیر بھٹو کے اصغر خان میاں نواز شریف تھے۔ نواز شریف کے نواز شریف عمران خان ہیں۔ عمران خان ان غلط فمہیوں کا شکار کیوں نہ ہوں جن کا شکار ان کے پیشرو ہوئے تھے۔ عمران خان کی دو غلط فہمیاں ان کی راہ میں رکاوٹ رہیں گیں۔ ایک یہ کہ میاں نواز شریف کی بے دخلی میں اول و آخر ان کا کردار تھا اور دوسرا یہ کہ نواز شریف کی بے دخلی کا مطلب یہ ہے کہ یہ ملک کسی انقلاب کے واسطے انہیں سونپ دیا جائے گا۔ عمران نے عوام سے جو وعدے کیے ہیں وہ تو کُل انسانی تاریخ میں کسی رہنما نے نہیں کیے تھے۔ وعدوں کی سطح جتنی بلند ہوگی اختیار کا تقاضا اتنا شدید ہوگا۔ ٹھیک ہے کہ ستر برسوں میں دنیا بہت بدل گئی ہے مگر اختیار کی کنجی جس ذات کے قبضہ قدرت میں ہے اس کی ترجیحات تو نہیں بدلیں نا صاحب۔
قدرت کے کارخانے میں کوئی کمی نہیں ہے۔ قدسیوں نے ہر“انقلابی“ کا ایک متبادل ضرور رکھا ہوتا ہے۔ اصغر خان کے جیتے جیتے نواز شریف تخلیق کرلیے گئے تھے۔ نواز شریف کے جیتے جیتے عمران خان نے جنم لے لیا تھا۔ عمران خان ابھی جی رہے ہیں کہ دیکھا افتخار محمد چوہدری باسٹھ تریسٹھ کا علم اٹھائے غیب کے پردوں سے ظہور پذیر ہو رہے ہیں۔ کامل پانچ برس عمران خان کا دامن نچوڑ کے وضو کرنے والے ٹی وی میزبانوں کو بھی راتوں رات یہ احساس لاحق ہوگیا ہے کہ عمران خان باکردار توہیں مگر اتنے بھی نہیں۔ تاریخ کا سچ یہ ہے کہ ہم ایک ہی غلطی ہربار دہراتے ہیں۔ اور گھما کے پھرا کے تاریخ کا ہربار ایک ہی سوال ہوتا ہے۔ بتوں سے تجھ کو امیدیں؟ عطار کے اسی لونڈے سے دوستی؟
از فرنود عالم
ربط