ٓٓٓٓٓٓٓٓپاکستان میں زراعت سے پیداوار پر ٓکوئی ٹیکس نہیں۔ جب کہ پاکستانی آئین میں یہ شق موجود ہے کہ قوانیں قرآن و سنت کی روشنی میں بنائے جائیں گے۔ اللہ تعالی کا فرمان ، قرآن حکیم مسلمان کو زراعت پر ٹیکس کے بارے میں یہ حکم دیتا ہے
اللہ کا حق کھیتی کٹنے کے دن ہی ادا کردیا جائے۔
6:141 وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَ جَنَّاتٍ مَّعْرُوشَاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشَاتٍ وَالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا أُكُلُهُ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ كُلُواْ مِن ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُواْ حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ
ترجمہ : اور وہی ہے جس نے برداشتہ اور غیر برداشتہ (یعنی بیلوں کے ذریعے اوپر چڑھائے گئے اور بغیر اوپر چڑھائے گئے) باغات پیدا فرمائے اور کھجور (کے درخت) اور زراعت جس کے پھل گوناگوں ہیں اور زیتون اور انار (جو شکل میں) ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اور (ذائقہ میں) جداگانہ ہیں (بھی پیدا کئے)۔ جب (یہ درخت) پھل لائیں تو تم ان کے پھل کھایا (بھی) کرو اور
اس (کھیتی اور پھل) کے کٹنے کے دن اس کا (اﷲ کی طرف سے مقرر کردہ) حق (بھی) ادا کر دیا کرو اور فضول خرچی نہ کیا کرو، بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا
اللہ کا یہ حق کتنا ہے؟ فائیدہ کا پانچواں حصہ، یعنی زراعت پر 20 فی صد ٹیکس ، قرآن سے ثابت۔
یا تو آئین سے "قراں و سنت کے مطابق" کی شق ہٹائی جائے یا پھر زراعت پر اللہ تعالی کے فرمان کے مطابق 20 فی صد ٹیکس لگایا جائے۔ یہاں تو اپنی ذاتی خواہشات کی پیروی ہورہی ہے۔
8:41
وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِن كُنتُمْ آمَنتُمْ بِاللّهِ وَمَا أَنزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ وَاللّهُ عَلَى
ترجمہ : ا
ور جان لو کہ تمہیں جس شے سے بھی بڑھوتری، (فائیدہ) ہو تو اس میں سے پانچواں حصہ الله اور اس کے رسول کا ہے اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے اگر تمہیں الله پر یقین ہے اور اس چیز پر جو ہم نے اپنے بندے پر فیصلہ کے دن اتاری جس دن دونوں جماعتیں ملیں اور الله ہر چیز پر قادر ہے
اللہ کے حق کی اس وصول شدہ رقم (صدقات) کو کہاں خرچ کیا جائے؟
9:60
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
ترجمہ : بیشک صدقات (زکوٰۃ) غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کئے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کے لئے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں اور قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں اور اللہ کی راہ میں (جہاد کرنے والوں پر) اور مسافروں پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے
1۔ فلاحی امور، غریبوں کے لئے
2۔ حکومت کے ملازمین کے لئے
3۔ ٹیکس (زکواۃ ) وصول کرنے والے کارکنان کو
4۔ اللہ کے احکامات سے الفت یعنی تعلیم
5۔ غلاموں کو آزاد کرانے کے لئے،
6۔ مفاد عامہ کے لئے عوام کے قرضوں کی آدائیگی
7۔ نظریاتی مملکت کے دفاع پر
8۔ مسافروں پر یعنی سفر کرنے کے لئے شاہراہوں یا انفرا سٹرکچر کی تعمیر پر۔
راہی صاحب کو چاہئے کہ ان نکات پر پیٹیشن فائیل کریں
جب تک ٹیکس نہیں لیا جائے گا، تب تک قرضے ہی لینے پڑیں گے۔ پاکستان تقریباً 40 بلین ڈالر کا زراعت پر ٹیکس معاف کردیتا ہے۔ جب کہ یہی ٹیکس پاکستان کی ضرورت ہے۔
صرف اور صرف دولت کی گردش بڑھانے سے ہی قوت خرید میں اضافہ ہو سکتا ہے۔