پھر وضعِ احتیاط سے رُکنے لگا ہے دم
برسوں ہُوئے ہیں چاک گریباں کئے ہُوئے
دل پھرطوافِ کوُئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کئے ہُوئے
پھر چاہتا ہُوں، نامۂ دلدار کھولنا
جاں، نذرِ دلفریبیِ عنواں کئے ہُوئے
جی، ڈھونڈھتا ہے پھر، وہی فرصت، کہ رات دن
بیٹھے رہیں تصور جاناں کئے ہُوئے
مرزا اسداللہ خاں غالب