طارق شاہ

محفلین
اب نہ دل مانوس ہے ہم سے نہ خوش ہیں دل سے ہم
یہ کہاں کا روگ لے آئے تِری محفل سے ہم

ہائے وہ ہر سُو نگاہی، وہ جنُوں وہ شورَشیں
بے دلی یہ تو بتا پھر کب ملیں گے دل سے ہم

سیماب اکبرآبادی
 

طارق شاہ

محفلین
وقت وارث کا صفحۂ قرطاس
ہیر دُنیا کا اجنبی قِصّہ
جھنگ سہتی کے مَکر کی نگری
اور کیدو خیال کا حِصّہ

ساغر صدیقی
 

طارق شاہ

محفلین
دُکھ بھری داستان ماضی کی
حال کی بے رُخی کا قصّہ ہُوں
اے حقیقت کے ڈھونڈنے والے
میں تِری جستجو کا حِصّہ ہوں

ساغر صدیقی
 

طارق شاہ

محفلین
دل کی رُت ایسی تو یادِ یار نے بدلی نہ تھی
یہ چمن اُجڑا ہی اِس ڈھب سے، کہ صحرا بن گیا

فانی بدایونی
 

طارق شاہ

محفلین
چمکنا برق کا لازم پڑا ہے ابرِ باراں میں
تصور چاہیے رونے میں اُس کے روئے خنداں کا
ناسخ
 

طارق شاہ

محفلین
کبھی جادۂ طلب سے جو پھرا ہُوں دل شِکستہ
تِری آرزو نے ہنس کر وہیں ڈال دی ہیں بانہیں

مجروح سلطان پوری
 

طارق شاہ

محفلین
انساں عجیب رنگ سے دن کاٹ رہا ہے
حُلیے کا اُس کو ہوش، نہ گھر گھاٹ رہا ہے

ایک دَور یہ تھا وقت کو ہم کاٹ رہے تھے !
اک حشر یہ ہے، وقت ہمیں کاٹ رہا ہے

ڈاکٹر خیال امروہی
 

طارق شاہ

محفلین
پھر وضعِ احتیاط سے رُکنے لگا ہے دم
برسوں ہُوئے ہیں چاک گریباں کئے ہُوئے

دل پھرطوافِ کوُئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کئے ہُوئے

پھر چاہتا ہُوں، نامۂ دلدار کھولنا
جاں، نذرِ دلفریبیِ عنواں کئے ہُوئے

جی، ڈھونڈھتا ہے پھر، وہی فرصت، کہ رات دن
بیٹھے رہیں تصور جاناں کئے ہُوئے

مرزا اسداللہ خاں غالب
 

طارق شاہ

محفلین
تِرا ہر کمال ہے ظاہری، تِرا ہر خیال ہے سرسری
کوئی دل کی بات کروں تو کیا، تِرے دل میں آگ تو ہے نہیں
ناصر کاظمی
 

طارق شاہ

محفلین
ساون میں خاک اُڑتی ہے دل ہے رُنْدھا ہُوا
جی چاہتا ہے گریۂ مستانہ کیجیے

یاس یگانہ عظیم آبادی
 

طارق شاہ

محفلین
کتابِ عُمْر ہے گویا انیسِ تنہائی
نظرمیں قصّۂ ماضی و حال ہوتا ہے

خُدا میں شک ہے تو ہو، موت میں نہیں کوئی
مشاہدے میں کہیں احتمال ہوتا ہے

یاس یگانہ عظیم آبادی
 

طارق شاہ

محفلین
ہے آدمی بجائے خود اِک محشرِ خیال
ہم انجمن سمجھتے ہیں، خَلوت ہی کیوں نہ ہو

مِٹتا ہے فوتِ فُرصت ہَستی کا غم کوئی
عمرِ عزیز صرفِ عبادت ہی کیوں نہ ہو

مرزا غالب
 
Top