جگر مراد آبادی کے اشعار
ہر حقیقت کو باندازِ تماشا دیکھا
خوب دیکھا ترے جلوؤں کو مگر کیا دیکھا
جستجو میں تری یہ حاصل سودا دیکھا
ایک اک ذرہ کا آغوشِ طلب وا دیکھا
آئینہ خانہء عالم میں کہیں کیا دیکھا
تیرے دھوکے میں خود اپنا ہی تماشا دیکھا
ہم نے ایسا نہ کوئی دیکھنے والا دیکھا
جو یہ کہہ دے کہ ترا حسن سراپا دیکھا
دلِ آگاہ میں کیا کہیے جگر، کیا دیکھا
لہریں لیتا ہوا اک قطرے میں دریا دیکھا
مکاں و لامکاں سے بھی گزر جا
فضائے شوق میں پروازِ خس کیا؟
اجل خود زندگی سے کانپتی ہے
اجل کی زندگی پر دسترس کیا؟
خیر اس کو نظر آیا، شر اُس کو نظر آیا
آئینے میں خود عکسِ آئینہ نگر آیا
یہ محفلِ ہستی بھی کیا محفلِ ہستی ہے!
جب کوئی اُٹھا پردہ، میں خود ہی نظر آیا
چھیڑا تھا جسے پہلے پہل تیری نظر نے
اب تک ہے، وہ اک نغمہء بے ساز و صدا یاد