طارق شاہ

محفلین
تمام عمر عذابوں کے ہم اثر میں رہے
نہ ذِکر میں رہے کِس کے نہ ہی نظر میں رہے

زبان رکھتے ہوئے اُن سے مُدّعا نہ کہا
ملال اِس کا ہمارے دل و جگر میں رہے

شفیق خلش
 

طارق شاہ

محفلین
تھی مُختصرسی محبت کی زندگی اتنی !
لگے کہ جیسے کِسی پل، کِسی شرر میں رہے

کِسے بھی پیار ومحبت کا کچُھ نہیں تھا دماغ !
سب اجنبی کی طرح ہی رہے، جوگھرمیں رہے

شفیق خلش
 

طارق شاہ

محفلین

قدم اُٹھے تو گلی سے گلی نکلتی رہی
نظر دیے کی طرح چوکھٹوں پہ جلتی رہی

کچھ ایسی تیز نہ تھی اُس کے انتظار کی آنچ
یہ زندگی ہی مری برف تھی پگھلتی رہی

عرفان صدیقی
 

طارق شاہ

محفلین

اُس غیرتِ ناہید کی ہر تان ہے دیپک
شعلہ سا چمک جائے ہے آواز تو دیکھو

دیں پاکی دامن کی گواہی مرے آنسو
اُس یوسفِ بے درد کا اعجاز تو دیکھو

جنّت میں بھی مومن نہ مِلا ہائے بتوں سے
جورِ اجلِ تفرقہ پرداز تو دیکھو

مومن خان مومن
 

طارق شاہ

محفلین
مت مِلا کر مجھے مِری شہرت
تجھ سے بیزار ہو گئی ہُوں میں

کِس قدر خوش دِکھائی دیتی ہُوں
کیسی فنکار ہو گئی ہُوں میں

نرجس افروز
 

طارق شاہ

محفلین
بِکھر جائیں گے ہم کیا جب تماشا ختم ہوگا
مِرے معبُود آخر کب تماشا ختم ہوگا

کہانی میں نئے کِردار شامِل ہو گئے ہیں
نہیں معلوُم اب کِس ڈھب تماشا ختم ہوگا

افتخار عارف
 

طارق شاہ

محفلین
دل تو چاہا پر شکستِ دل نے مہلت ہی نہ دی
کچھ گِلے شِکوے بھی کر لیتے مُناجاتوں کے بعد

اُن سے جو کہنے گئے تھے فیض جاں صدقہ کیے
ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد

فیض احمد فیض
 

طارق شاہ

محفلین

شامِ غم کی سحر نہیں ہوتی
یا ہمیں کوخبر نہیں ہوتی

ہم نے سب دُکھ جہاں کے دیکھے ہیں
بے کلی اِس قدر نہیں ہوتی

نالہ یوں نا رسا نہیں رہتا
آہ یوں بے اثر نہیں ہوتی

چاند ہے، کہکشاں ہے، تارے ہیں
کوئی شے نامہ بر نہیں ہوتی

ابن انشا
 

طارق شاہ

محفلین

حُسن سب کو، خُدا نہیں دیتا
ہر کِسی کی نظر نہیں ہوتی

دِل پیالہ نہیں گدائی کا
عاشِقی در بہ در نہیں ہوتی

ابنِ انشا
 

طارق شاہ

محفلین

یہی تو لائے تھے اُکسا کے زہر نوشی پر
جو آج نوحہ کناں ہیں مِری خموشی پر

دُعائے عمرِ خضر کی اُمید اُن سے ہے !
مدار جن کا ہے انصر کفن فروشی پر

سیّد انصر
 

طارق شاہ

محفلین
پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا
دِل، جگر تشنۂ فریاد آیا

دم لِیا تھا نہ قیامت نے ہنوز
پھر تِرا وقتِ سفر یاد آیا

اسد الله خاں غالب
 

طارق شاہ

محفلین
نہ رہا جنونِ رُخِ وفا، یہ رسن یہ دار کرو گے کیا
جنہیں جرمِ عشق پہ ناز تھا وہ گناہ گار چلے گئے

فیض احمد فیض
 

طارق شاہ

محفلین

نہ سوالِ وصل، نہ عرضِ غم، نہ حکایتیں، نہ شکایتیں
ترے عہد میں دلِ زار کے سبھی اختیار چلے گئے

فیض احمد فیض
 

طارق شاہ

محفلین
دل میں بس دو مکین رہ پائے
پہلے الفت تھی، اب اُداسی ہے

سب سے کہہ کہہ کے تھک گیا نیّر
کچھ نہیں، بے سبب اُداسی ہے

شہزاد نیّر
 

طارق شاہ

محفلین
اُس اعتکافِ تمنا کی سرد رات کے بعد !
میں جَل مروں، جو کبھی آگ تک جلائی ہو

کبھی کبھی تو یہ لگتا ہے، ساعتِ موجود
مجھے قدیم زمانے میں کھینچ لائی ہو

رفیق سندیلوی
 
Top