طارق شاہ

محفلین

دل سے اپنے رہے خدشہ کا تجھے دیکھ کے پھر !
مُنحَرِف مجھ سے یہ بد ذات نہ ہو جائے کہیں

دُور رہتا ہوں، تو ڈرتا ہُوں، کہ اس دُوری سے
سرد یہ شورشِ جذبات نہ ہو جائے کہیں

لوٹ آؤں جو تِرے شہر، تو دھڑکا یہ رہے
پیار پھر شامل حالات نہ ہو جائے کہیں

شفیق خلش
 

طارق شاہ

محفلین

ہمارا کیا ہے جو ہوتا ہے جی اُداس بہت
تو گل تراشتے ہیں، تِتلیاں بناتے ہیں

کسی طرح نہیں جاتی فسُردگی دِل کی
تو زرد رنگ کا اِک آسماں بناتے ہیں

احمد مشتاق
 

طارق شاہ

محفلین
مِری نمُود میں وحشت ہے میری سوچ میں شور
بہت الگ ہے مِری زندگی کا ڈھب تم سے

تمہارے نام کی تُہمت ہے میرے سر پہ نبیل
جُدا ہے ورنہ، مِرا شجرۂ نسب تم سے

عزیزنبیل
 

طارق شاہ

محفلین


زندگی جیسی توقع تھی نہیں، کچھ کم ہے
ہر گھڑی ہوتا ہے احساس، کہیں کچھ کم ہے

آج بھی ہے تِری دُوری ہی اُداسی کا سبب
یہ الگ بات کہ پہلی سی نہیں کچھ کم ہے

شہریار
 

طارق شاہ

محفلین
یہ جو دِیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں
اِن میں کچُھ صاحبِ اسرار نظر آتے ہیں

تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سو جاتے ہیں
ورنہ یہ لوگ تو بیدار نظر آتے ہیں

ساغر صدیقی
 

طارق شاہ

محفلین
بے خبرشوق سے میرے نہیں وہ نُورِ نِگاہ
قاصدِ اشک شب و روز رواں ہے کہ جو تھا

لیلتہ القدر کنایہ نہ شبِ وصل سے ہو؟
اِس کا افسانہ میانِ رَمَضاں ہے کہ جو تھا

حیدرعلی آتش
 

طارق شاہ

محفلین
جو کہے سُن کے مُدّعا مطلب
میرے مطلب سے اُس کو کیا مطلب

مِل گیا دِل، نکل گیا مطلب !
آپ کو اب کسی سے کیا مطلب

مولانا حسن رضا خان
 

طارق شاہ

محفلین

ہم ہیں آوارہ سُو بسُو لوگو
جیسے جنگل میں رنگ و بُو لوگو

ساعتِ چند کے مُسافر سے
کوئی دم اور گفتگو لوگو

ابن انشا
 
کوئی کیوں کسی کا لبھائے دل ، کوئی کیا کسی سے لگائے دل
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل ، وہ دکان اپنی بڑھا گئے

شاعر ”بہادر شاہ ظفر”
 
Top