سیما علی

لائبریرین
تری گلی میں بہائے پھرے ہے سیل سرشک
ہمارا کاسۂِ سر کیا ہوا حباب ہوا

جوابِ خط کے نہ لکھنے سے یہ ہوا معلوم
کہ آج سے ہمیں اے نامہ بر جواب ہوا

بہادر شاہ ظفر
 

رباب واسطی

محفلین
آنکھیں
یہ کائنات صراحی تھی جام آنکھیں تھیں
مواصلات کا پہلا نظام آنکھیں تھیں
غنیم ِ شہر کو وہ تھا بصارتوں کا جنوں
کہ جب بھی لْوٹ کے لایا تمام آنکھیں تھیں
خطوط ِ نور سے ہر حاشیہ مزّین تھا
کتاب ِ نور میں سارا کلام آنکھیں تھیں
اب آگئے ہیں یہ چہروں کے زخم بھرنے کو
کہاں گئے تھے مناظر جو عام آنکھیں تھیں
وہ قافلہ کسی اندھے نگر سے آیا تھا
ہر ایک شخص کا تکیہ کلام آنکھیں تھیں
نظر فروز تھا یوسف کا پیرہن شاید
دیار ِ مصر سے پہلا سلام آنکھیں تھیں
کسی کا عکس بھی دیکھا تو رو پڑیں یکدم
قسم خدا کی بہت تشنہ کام آنکیں تھیں
ن م راشد​
 
Top