لاريب اخلاص

لائبریرین
یہ عجب ساعت رخصت ہے کہ ڈر لگتا ہے
شہر کا شہر مجھے رخت سفر لگتا ہے

ہم کو دل نے نہیں حالات نے نزدیک کیا
دھوپ میں دور سے ہر شخص شجر لگتا ہے

جس پہ چلتے ہوئے سوچا تھا کہ لوٹ آؤں گا
اب وہ رستہ بھی مجھے شہر بدر لگتا ہے

مجھ سے تو دل بھی محبت میں نہیں خرچ ہوا
تم تو کہتے تھے کہ اس کام میں گھر لگتا ہے

وقت لفظوں سے بنائی ہوئی چادر جیسا
اوڑھ لیتا ہوں تو سب خواب ہنر لگتا ہے

ایک مدت سے مری ماں نہیں سوئی تابشؔ
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
عباس تابش
 

سیما علی

لائبریرین
پہلو میں دل نے لوٹ کے آتش سے شوق کی
پایان کار آنکھوں کو خونبار کردیا

کیا جانوں عشق جان سے کیا چاہتا ہے میر
خوں ریزی کا مجھے تو سزاوار کردیا
میر تقی میر
 

سیما علی

لائبریرین
اور کچھ مشغلہ نہیں ہے ہمیں
گاہ و بے گہ غزل سرائی ہے

توڑ کر آئینہ نہ جانا یہ
کہ ہمیں صورت آشنائی ہے
میر تقی میر
 

شمشاد

لائبریرین
عشق میں تہذیب کے ہیں اور ہی کچھ فلسفے
تجھ سے ہو کر ہم خفا خود سے خفا رہنے لگے
عالم خورشید
 

شمشاد

لائبریرین
عشق میں تہذیب کے ہیں اور ہی کچھ فلسفے
تجھ سے ہو کر ہم خفا خود سے خفا رہنے لگے
عالم خورشید
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
ہم کہ تجدید عہد وفا کر چلے آبروئے‌ جنوں کچھ سوا کر چلے
خود تو جیسے کٹی زندگی کاٹ لی ہاں نئے دور کی ابتدا کر چلے
مرتضیٰ برلاس
 
Top