جنوں میں موج برق کا جو رخ ذرا بدل گیا
غبار نور شعلہ بار پیکروں میں ڈھل گیا
خودی کی جب ہوا چلی تو سب کا دل مچل گیا
کوئی ادھر نکل گیا کوئی ادھر نکل گیا
ابھی چھڑا نہیں ربابِ داستان زندگی
عدم کی گرد میں نہاں ہے کاروان زندگی
انھیں میں تھی زمین بھی ایک شعلہ شرر فشاں
بجھی ہزارہا برس میں مدتوں اٹھا دھواں
یہ رات جب کٹی تو کوہ و دشت و جو ہوئے عیاں
دیا سمندروں کو آفتاب نے پیام جاں
بنی اسی عمل سے سطح آب کان زندگی
عجیب شان سے رواں ہے کاروان زندگی
کھلی ہے مدتوں کے بعد اب زبان زندگی
عدم کے بت کدے میں دی گئی اذان زندگی
سکندر علی وجد