نیرنگ خیال
لائبریرین
ابن انشاء صاحب کے تو ہم مریدین میں سے ہیں۔ اب انکے آگے تو ہاتھ ہی بندھے ہیں اپنے
ابن انشاء صاحب کے تو ہم مریدین میں سے ہیں۔ اب انکے آگے تو ہاتھ ہی بندھے ہیں اپنے
بہت شکریہعمدہ........
واہ۔۔۔۔۔۔ اسے زیا صاحب کی اواز میں سنا تھا پہلی دفا۔۔۔۔۔۔ انہوں نے انشہ جی کی کئی تحریروں کو اواز دی ہے۔۔۔۔۔۔ايک بڑے مياں جنہوں نے اپني زندگي ميں بہت کچھ کمايا بنايا تھا۔ آخر بيمار ہوئے، مرض الموت ميں گرفتار ہوئے۔ ان کو اور تو کچھ نہیں، کوئي فکر تھي تو يہ کہ ان کے پانچوں بيٹوں کي آپس میں نہیں بنتي تھي۔ گاڑھي کيا پتلي بھي نہیں چھنتي تھي۔ لڑتے رہتے تھے کبھي کسي بات پر اتفاق نہ ہوتا تھا حالانکہ اتفاق ميں بڑي برکت ہے۔
آخر انہوں نے بيٹوں پر اتحاد و اتفاق کي خوبياں واضح کرنے کے لئے ايک ترکيب سوچي۔ ان کو اپنے پا س بلايا اور کہا ۔ ديکھو اب میں کوئي دم کا مہمان ہوں سب جا کر ايک ايک لکڑي لاؤ۔
ايک نے کہا۔ لکڑي؟ آپ لکڑيوں کا کيا کريں گے؟ دوسرے نے آہستہ سے کہا ۔بڑے مياں کا دماغ خراب ہو رہا ہے۔ لکڑي نہیں شايد ککڑي کہہ رہے ہیں، ککڑي کھانے کو جي چاہتا ہوگا۔ تيسرے نے کہا نہیں کچھ سردي ہے شايد آگ جلانے کو لکڑياں منگاتے ہوں گے ۔ چوتھے نے کہا بابو جي کوئلے لائيں؟ پانچويں نے کہا نہیں اپلے لاتا ہوں وہ زيادہ اچھے رہيں گے۔
باپ نے کراہتے ہوئے کہا ارے نالائقو میں جو کہتا ہوں وہ کرو۔ کہیں سے لکڑياں لاؤ جنگل سے۔ ايک بيٹے نے کہا۔ يہ بھي اچھي رہي، جنگل يہاں کہا؟ اور محکمہ جنگلات والے لکڑي کہاں کاٹنے ديتے ہيں۔
دوسرے نے کہا آپنے آپے ميں نہیں ہيں بابو جي بک رہے ہيں جنون ميں کيا کيا کچھ۔ تيسرے نے کہا بھئي لکڑيوں والي بات اپُن کي تو سمجھ میں نہیں آئي۔
چوتھے نے کہا۔ بڑے مياں نے عمر بھر ميں ايک ہي تو خواہش کي ہے اسے پورا کرنے ميں کيا حرج ہے؟ پانچويں نے کہا اچھا میں جاتا ہوں ٹال پر سے لکڑياں لاتا ہوں۔ چنانچہ وہ ٹال پرگيا، ٹال والے سے کہا خان صاحب ذرا پانچ لکڑياں تو دينا اچھي مضبوط ہوں۔
ٹال والے نے لکڑياں ديں۔ ہر ايک خاصي موٹي اور مضبوط ۔ باپ نے ديکھا اس کا دل بيٹھ گيا۔ يہ بتانا بھي خلاف مصلحت تھا کہ لکڑياں کيوں منگائي ہيں اور اس سے کيا اخلاقي نتيجہ نکالنا مقصود ہے۔ آخر بيٹوں سے کہا۔ اب ان لکڑيوں کا گھٹا باندھ دو۔
اب بيٹوں ميں پھر چہ ميگوئياں ہوئيں،گٹھا، وہ کيوں؟ اب رسي کہاں سے لائیں بھئي بہت تنگ کيا اس بڈھے نے ۔ آخر ايک نے اپنے پاجامے ميں سے ازار بند نکالا اور گھٹا باندھا۔
بڑے مياں نے کہا۔ اب اس گھٹے کو توڑو۔ بيٹوں نے کہا۔ تو بھئي يہ بھي اچھي رہي۔ کيسے توڑيں ۔ کلہاڑا کہاں سے لائيں ۔
باپ نے کہا کلہاڑي سے نہیں ۔ہاتھوں سے توڑو گھٹنے سے توڑو۔
حکم والد مرگ مفاجات ۔
پہلے ايک نے کوشس کي ۔پھر دوسرے نے پھر تيسرے نے پھر چوتھے نے پھر پانچويں نے۔ لکڑيوں کا بال بيکا نہ ہوا۔ سب نے کہا بابو جي ہم سے نہیں ٹوٹتا يہ لکڑيوں کا گھٹا۔
باپ نے کہا اچھا اب ان لکڑيوں کو الگ الگ کر دو ، ان کي رسي کھول دو۔ ايک نے جل کر کہا رسي کہاں ہے ميرا ازار بند ہے اگر آپ کو کھلوانا تھا تو گھٹا بندھوايا ہي کيوں تھا۔ لاؤ بھئي کوئي پنسل دينا ازار بند ڈال لوں پاجامے میں۔ باپ نے بزرگانہ شفقت سے اس کي بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا اچھا اب ان لکڑيوں کو توڑو ايک ايک کر کے توڑو۔
لکڑياں چونکہ موٹي موٹي اور مضبوط تھيں۔ بہت کوشش کي کسي سے نہ ٹوٹيں آخر میں بڑے بھائي کي باري تھي۔ اس نے ايک لکڑي پر گھٹنے کا پورا زور ڈالا اور تڑاخ کي آواز آئي۔
باپ نے نصيحت کرنے کے لئے آنکھيں ايک دم کھول ديں، کيا ديکھتا ہے کہ بڑا بيٹا بے ہوش پڑا ہے۔ لکڑي سلامت پڑي ہے۔ آواز بيٹے کے گھٹنے کي ہڈي ٹوٹنے کي تھي۔
ايک لڑکے نے کہا يہ بڈھا بہت جاہل ہے۔
دوسرے نے کہا۔ اڑيل ضدي۔
تيسرے نے کہا، کھوسٹ ، سنکي عقل سے پيدل، گھا مڑ۔
چوتھے نے کہا۔ سارے بڈھے ايسے ہي ہوتے ہيں کمبخت مرتا بھي نہیں۔
بڈھے نے اطمينان کا سانس ليا کہ بيٹوں ميں کم از کم ايک بات پر تو اتفاق رائے ہوا۔ اس کے بعد آنکھيں بند کيں اور نہايت سکون سے جان دے دي۔
۔۔۔ ابن انشاء ۔۔۔
آپ کا بھی بہت شکریہواہ۔۔۔ ۔۔۔ اسے زیا صاحب کی اواز میں سنا تھا پہلی دفا۔۔۔ ۔۔۔ انہوں نے انشہ جی کی کئی تحریروں کو اواز دی ہے۔۔۔ ۔۔۔
بہت شکریہ ےہاں پیش کرنے کے لئے
انشاءجی کی کیا بات ہے۔۔۔ اور یہ چند سطور لکھ کر تو وہ امر ہوگئےشروع میں دنیا میں تھوڑے ہی ملک تھے- لوگ خاصی امن و چین کی زندگی بسر کرتے تھے – ١٥ صدی میں کولمبس نے امریکا دریافت کیا – اس کے بارے میں دو نظریے ہیں – کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس کا قصور نہیں ، یہ ہندوستان کو یعنی ہمیں دریافت کرنا چاہتا تھا – غلطی سے امریکا دریافت کر بیٹھا – اس نظریے کو اس بات سے تقویت ملتی ہے کہ ہم ابھی تک دریافت نہیں ہو پائے- دوسرا فریق کہتا ہے کہ نہیں کولمبس نے جان بوجھ کر یہ حرکت کی – یعنی امریکا دریافت کیا – بہرحال اگر یہ غلطی بھی تھی تو بہت سنگین غلطی تھی – اس کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں
از ابن انشا ” اردو کی پہلی کتاب” سے اقتباس
بالکل جنابانشاءجی کی کیا بات ہے۔۔۔ اور یہ چند سطور لکھ کر تو وہ امر ہوگئے