ابن انشاء

نیلم

محفلین
ایک اخبار میں بھونکتے کتے سے بچنے کا نسخہ شائع ہوا ہے۔ لکھا ہے۔

"اگر آدمی ساکت کھڑا ہوجائے۔ بازو اور ہاتھ نیچے کی طرف سیدھے کرلے اور دوسری طرف دیکھنے لگے تو بھونکتا ہوا کتا کچھ دیر کے بعد خاموش ہوجائے گا اور پھر وہاں سے چلا جائے گا۔"

اخبار نے یہ نہیں لکھا کہ یہ نسخہ کہاں سے لیا گیا ہے۔ اوپر فقط "جدید طبی تحقیق" کا عنوان دیا گیا ہے۔ یہ بھی مذکور نہیں آیا کتوں کو بھی مطلع کر دیا گیا ہے کہ ان پر اس ظابطہ اخلاق کی پابندی ضروری ہے۔ یہ اعتراض بھی کچھ لوگ کریں گے کہ اگر انسان حسبِ ہدایت بھیگی بلی بن کر منہ دوسری طرف کر کے کھڑا ہوجائے اور کتا اس کی ٹانگ لے لے تو ایڈیٹر اخبار ہذا کس حد تک ذمہ دار ہوگا۔ ہمارے نزدیک تو یہ اعتراض بے محل اور ناواجب ہے۔ بھونکنا ایک فعل ہے اور کاٹنا الگ۔ کتا کاٹ لے تو سیدھا سیدھا اسپتال جا کر چودہ انجکشن پیٹ میں لگوائیے اور مزے کیجیے۔ اصل کوفت تو کتے کی عف عف سے ہوتی ہے اور اس کے لیے یہ نسخہ مجرب ہے۔

ان امور میں اصل مشکل اس وقت پیش آتی ہے جب کہ کتے کو معلوم ہو کہ اسے اخبار میں چھپی ہوئی ہدایت کی پابندی کرنی ہے یعنی کوئی شخص بازو لٹکا کر دوسری طرف منہ کرے تو اسے دم دبا کر کھسک جانا چاہیے۔ یا تو بعض کتے ناخواندہ ہوتے ہیں، یا اخبار نہیں پڑھتے یا جان بوجھ کر بات ٹال جاتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک مشہور ہوٹل کے لاؤنج میں ایک کتے کو استراحت کرتے پایا گیا۔ مینجر صاحب بہت خفا ہوئے۔ اسے کان سے پکڑ کر دروازے پر لے گئے جہاں موٹے موٹے لفظوں میں صاف لکھا ہوا تھا۔

"جن کتوں کے ساتھ ان کا مالک نہ ہو، ان کا ہوٹل میں آنا منع ہے۔"

بہ نظرِ احتیاط ہم لوگوں کو مشورہ دیں گے کہ وہ اس اخبار کا شمارہ ہمیشہ اپنے ساتھ رکھیں جس میں یہ ترکیب درج ہے۔ اگر کوئی کتا بھونکنے سے باز نہ آئے بلکہ کاٹنے پر اتر آئے تو جدید طبی تحقیق والا صفحہ اس کے سامنے کر دیں پھر بھی باز نہ آئے تو ڈنڈے سے اس کی خبر لیں۔

یہ ڈنڈے سے خبر لینے کی ہدایت ہماری طرف سے ہے۔ احباب مذکور کی ذمہ داری نہیں۔ ہماری طبی تحقیق اتنی جدید نہ سہی تاہم مجرب ضرور ہے۔ ڈنڈا بڑی کارآمد چیز ہے اور بہت سے نسخوں میں پڑتا ہے۔ پرانے زمانے میں اسے تنبیہ الغافلین کہتے تھے۔ اور شاگرد اسی کو احترام کی نظر سے دیکھتے تھے۔ کچھ مدت ہوئی ہم نے ایک کارٹون دیکھا کہ ایک استاد اپنے شاگرد رشید کو ایک موٹی سی کتاب سے دھڑا دھڑ پیٹ رہا ہے۔ کتاب کا نام بھی نظر آ رہا تھا۔ "دی چائلڈ سائیکالوجی۔ یعنی بچوں کی نفسیات۔"

(آپ سے کیا پردہ از ابنِ انشا)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ابن انشاء ہی کا غالباً کہنا ہے کہ کتے کا وجود صرف اس لیئے تھا کہ پطرس اس پر بہترین مضمون لکھ سکے۔ سو یہ کام عرصہ ہوا احسن طریقے سے انجام پاگیا۔ اب اسکا وجود سمجھ سے بالاتر ہے۔
 

نیلم

محفلین
ادیبوں کی باتیں۔۔۔

کہتے ہیں پہلے زمانے میں آسمان اتنا اونچا نہیں ہوتا تھا، جوں جوں چیزوں کی قیمتیں اونچی ہوتی گئیں، آسمان ان سے باتیں کرنے کے لیے اوپر اُٹھتا چلا گیا، اب نہ چیزوں کی قیمتیں نیچے آئیں، نہ آسمان نیچے اُترے۔
(ابنِ انشاء)
 

وپل کمار

محفلین
ايک بڑے مياں جنہوں نے اپني زندگي ميں بہت کچھ کمايا بنايا تھا۔ آخر بيمار ہوئے، مرض الموت ميں گرفتار ہوئے۔ ان کو اور تو کچھ نہیں، کوئي فکر تھي تو يہ کہ ان کے پانچوں بيٹوں کي آپس میں نہیں بنتي تھي۔ گاڑھي کيا پتلي بھي نہیں چھنتي تھي۔ لڑتے رہتے تھے کبھي کسي بات پر اتفاق نہ ہوتا تھا حالانکہ اتفاق ميں بڑي برکت ہے۔
آخر انہوں نے بيٹوں پر اتحاد و اتفاق کي خوبياں واضح کرنے کے لئے ايک ترکيب سوچي۔ ان کو اپنے پا س بلايا اور کہا ۔ ديکھو اب میں کوئي دم کا مہمان ہوں سب جا کر ايک ايک لکڑي لاؤ۔
ايک نے کہا۔ لکڑي؟ آپ لکڑيوں کا کيا کريں گے؟ دوسرے نے آہستہ سے کہا ۔بڑے مياں کا دماغ خراب ہو رہا ہے۔ لکڑي نہیں شايد ککڑي کہہ رہے ہیں، ککڑي کھانے کو جي چاہتا ہوگا۔ تيسرے نے کہا نہیں کچھ سردي ہے شايد آگ جلانے کو لکڑياں منگاتے ہوں گے ۔ چوتھے نے کہا بابو جي کوئلے لائيں؟ پانچويں نے کہا نہیں اپلے لاتا ہوں وہ زيادہ اچھے رہيں گے۔
باپ نے کراہتے ہوئے کہا ارے نالائقو میں جو کہتا ہوں وہ کرو۔ کہیں سے لکڑياں لاؤ جنگل سے۔ ايک بيٹے نے کہا۔ يہ بھي اچھي رہي، جنگل يہاں کہا؟ اور محکمہ جنگلات والے لکڑي کہاں کاٹنے ديتے ہيں۔
دوسرے نے کہا آپنے آپے ميں نہیں ہيں بابو جي بک رہے ہيں جنون ميں کيا کيا کچھ۔ تيسرے نے کہا بھئي لکڑيوں والي بات اپُن کي تو سمجھ میں نہیں آئي۔
چوتھے نے کہا۔ بڑے مياں نے عمر بھر ميں ايک ہي تو خواہش کي ہے اسے پورا کرنے ميں کيا حرج ہے؟ پانچويں نے کہا اچھا میں جاتا ہوں ٹال پر سے لکڑياں لاتا ہوں۔ چنانچہ وہ ٹال پرگيا، ٹال والے سے کہا خان صاحب ذرا پانچ لکڑياں تو دينا اچھي مضبوط ہوں۔
ٹال والے نے لکڑياں ديں۔ ہر ايک خاصي موٹي اور مضبوط ۔ باپ نے ديکھا اس کا دل بيٹھ گيا۔ يہ بتانا بھي خلاف مصلحت تھا کہ لکڑياں کيوں منگائي ہيں اور اس سے کيا اخلاقي نتيجہ نکالنا مقصود ہے۔ آخر بيٹوں سے کہا۔ اب ان لکڑيوں کا گھٹا باندھ دو۔
اب بيٹوں ميں پھر چہ ميگوئياں ہوئيں،گٹھا، وہ کيوں؟ اب رسي کہاں سے لائیں بھئي بہت تنگ کيا اس بڈھے نے ۔ آخر ايک نے اپنے پاجامے ميں سے ازار بند نکالا اور گھٹا باندھا۔
بڑے مياں نے کہا۔ اب اس گھٹے کو توڑو۔ بيٹوں نے کہا۔ تو بھئي يہ بھي اچھي رہي۔ کيسے توڑيں ۔ کلہاڑا کہاں سے لائيں ۔
باپ نے کہا کلہاڑي سے نہیں ۔ہاتھوں سے توڑو گھٹنے سے توڑو۔
حکم والد مرگ مفاجات ۔
پہلے ايک نے کوشس کي ۔پھر دوسرے نے پھر تيسرے نے پھر چوتھے نے پھر پانچويں نے۔ لکڑيوں کا بال بيکا نہ ہوا۔ سب نے کہا بابو جي ہم سے نہیں ٹوٹتا يہ لکڑيوں کا گھٹا۔
باپ نے کہا اچھا اب ان لکڑيوں کو الگ الگ کر دو ، ان کي رسي کھول دو۔ ايک نے جل کر کہا رسي کہاں ہے ميرا ازار بند ہے اگر آپ کو کھلوانا تھا تو گھٹا بندھوايا ہي کيوں تھا۔ لاؤ بھئي کوئي پنسل دينا ازار بند ڈال لوں پاجامے میں۔ باپ نے بزرگانہ شفقت سے اس کي بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا اچھا اب ان لکڑيوں کو توڑو ايک ايک کر کے توڑو۔
لکڑياں چونکہ موٹي موٹي اور مضبوط تھيں۔ بہت کوشش کي کسي سے نہ ٹوٹيں آخر میں بڑے بھائي کي باري تھي۔ اس نے ايک لکڑي پر گھٹنے کا پورا زور ڈالا اور تڑاخ کي آواز آئي۔
باپ نے نصيحت کرنے کے لئے آنکھيں ايک دم کھول ديں، کيا ديکھتا ہے کہ بڑا بيٹا بے ہوش پڑا ہے۔ لکڑي سلامت پڑي ہے۔ آواز بيٹے کے گھٹنے کي ہڈي ٹوٹنے کي تھي۔
ايک لڑکے نے کہا يہ بڈھا بہت جاہل ہے۔
دوسرے نے کہا۔ اڑيل ضدي۔
تيسرے نے کہا، کھوسٹ ، سنکي عقل سے پيدل، گھا مڑ۔
چوتھے نے کہا۔ سارے بڈھے ايسے ہي ہوتے ہيں کمبخت مرتا بھي نہیں۔
بڈھے نے اطمينان کا سانس ليا کہ بيٹوں ميں کم از کم ايک بات پر تو اتفاق رائے ہوا۔ اس کے بعد آنکھيں بند کيں اور نہايت سکون سے جان دے دي۔
۔۔۔ ابن انشاء ۔۔۔
واہ۔۔۔۔۔۔ اسے زیا صاحب کی اواز میں سنا تھا پہلی دفا۔۔۔۔۔۔ انہوں نے انشہ جی کی کئی تحریروں کو اواز دی ہے۔۔۔۔۔۔
بہت شکریہ یہاں پیش کرنے کے لئے
 

نیلم

محفلین
شروع میں دنیا میں تھوڑے ہی ملک تھے- لوگ خاصی امن و چین کی زندگی بسر کرتے تھے – ١٥ صدی میں کولمبس نے امریکا دریافت کیا – اس کے بارے میں دو نظریے ہیں – کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس کا قصور نہیں ، یہ ہندوستان کو یعنی ہمیں دریافت کرنا چاہتا تھا – غلطی سے امریکا دریافت کر بیٹھا – اس نظریے کو اس بات سے تقویت ملتی ہے کہ ہم ابھی تک دریافت نہیں ہو پائے- دوسرا فریق کہتا ہے کہ نہیں کولمبس نے جان بوجھ کر یہ حرکت کی – یعنی امریکا دریافت کیا – بہرحال اگر یہ غلطی بھی تھی تو بہت سنگین غلطی تھی – اس کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں

از ابن انشا ” اردو کی پہلی کتاب” سے اقتباس
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
شروع میں دنیا میں تھوڑے ہی ملک تھے- لوگ خاصی امن و چین کی زندگی بسر کرتے تھے – ١٥ صدی میں کولمبس نے امریکا دریافت کیا – اس کے بارے میں دو نظریے ہیں – کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس کا قصور نہیں ، یہ ہندوستان کو یعنی ہمیں دریافت کرنا چاہتا تھا – غلطی سے امریکا دریافت کر بیٹھا – اس نظریے کو اس بات سے تقویت ملتی ہے کہ ہم ابھی تک دریافت نہیں ہو پائے- دوسرا فریق کہتا ہے کہ نہیں کولمبس نے جان بوجھ کر یہ حرکت کی – یعنی امریکا دریافت کیا – بہرحال اگر یہ غلطی بھی تھی تو بہت سنگین غلطی تھی – اس کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں

از ابن انشا ” اردو کی پہلی کتاب” سے اقتباس
انشاءجی کی کیا بات ہے۔۔۔ اور یہ چند سطور لکھ کر تو وہ امر ہوگئے :)
 
Top