ابولکلام آزاد کی نظر میں مسٹرجناح بحیثیت ایک فرقہ پرست

محمداحمد

لائبریرین
اس لیے بہتر یہی ہے کہ اس لڑی کو خیر باد کیا جائے۔
اب تو ویسے بھی پھکڑ بازی شروع ہو گئی ہے۔

بات یہ ہے کہ میں نے تو اس لڑی میں تب ہی بات شروع کی جب بات ختم ہونے ہی نہیں پا رہی تھی۔ پھر یہ کہ ہمارے بھیا علی وقار کا بھی اشتیاق ہے کہ ابھی کچھ دیر شغل لگا رہے۔ :) تو دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے اور کہاں پہنچائی جاتی ہے بات!
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
بات یہ ہے کہ میں نے تو اس لڑی میں تب ہی بات شروع کی جب بات ختم ہونے ہی نہیں پا رہی تھی۔ پھر یہ کہ ہمارے بھیا علی وقار کا بھی اشتیاق ہے کہ ابھی کچھ دیر شغل لگا رہے۔ :) تو دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے اور کہاں پہنچائی جاتی ہے بات!
علمی وقار 🙂
 

جاسم محمد

محفلین
جاسم کے بارے میں کسی حد تک کہہ سکتا ہوں کہ وہ شاید اس سب میں سے "اسلامی صدارتی نظام" برآمد کرناچاہتے ہوں ... کیونکہ ان کے ممدوح نے آج کل پھر یہ شوشہ چھوڑ رکھا ہے
میں بطور انصافین عمران خان کی ہر الٹی سیدھی بات کا دفاع پیش کرنے کا مجاز نہیں۔ موصوف نے یہ حالیہ اسلامی صدارتی نظام والا شوشہ بھی بس ایسے ہی چھوڑا ہے جس پر بعد میں ضرورت پڑنے پر یوٹرن لے لیا جائے گا۔ 🙂
اب جبکہ موصوف کا اسلامی فلاحی ریاست والا چورن مارکیٹ میں بکنا بند ہو گیا ہے تو ایک نیا چورن مارکیٹ میں لانچ کر دیا گیا ہے😉
 

علی وقار

محفلین
جی بالکل۔ مسلم لیگ آر ایس ایس کا جوڑا ہے۔
مسلم لیگ کو انیس سو تیس کی دہائی میں خاص مقبولیت حاصل نہ تھی تو اچانک ایسا کیا ہوا کہ وہ چند برس میں ہی مسلمانوں کی مقبول ترین جماعت بن گئی۔ آپ انیس سو تیس کی دہائی میں کانگریسی وزارتوں اور ان کی حرکات و سکنات کو دیکھتے ہوئے کیا فرمائیں گے؟ مسلمانوں کے لیے الگ وطن بننا صرف ایک مذہبی ایشو نہیں تھا، بلکہ ان کے مذہبی شعائر کی توہین کر کے انہیں یہ پیغام دے دیا گیا تھا کہ وہ اپنے راستے الگ کر لیں وگرنہ ان کے ساتھ مستقبل کی جمہوری ریاست میں ایسا ہی سلوک روا رکھا جائے گا اگر انگریز یہاں سے رخصت ہو گیا۔ آج بی جے پی ان ہی کانگریسی وزارتوں کے نقش قدم پر چل رہی ہے۔ آپ کیا فرماتے ہیں؟

اگر پاکستان ایک مثالی ملک نہیں بن پایا تو کیا ہندوستان یا بھارت آج ایک مثالی ملک ہے؟
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
سیاست میں دین و مذہب کی دخل اندازی کو کیسے دیکھتے ہیں آپ؟
میرے خیال میں اب اس سوال کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ فطرت کو اصل مقصود سمجھنے والوں کے لیے۔

ہر معاشرے کے لوگ فطرت کو اپنے احوال کے تناظر میں ہی دیکھتے ہیں۔ یہ تو شریعت ہی ہے جو ہر ایک چیز کا ایک دائرہ مختص کرتی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین

تقسیم ہند کا ذمہ دار کون ہے یہ مسئلہ بڑا سنگین اور غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی وجہ بہت سے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ ہمارے بعض غیر مسلم بھائی کہتے ہیں کہ مسلمان اس کے ذمہ دار ہیں- انہوں نے ملک کو تقسیم کیا اپنا حصہ حاصل کرلیا چنانچہ ہندوستان کے مسلمانوں کو پاکستان چلے جانا چاہیے- اس کے جواب میں مسلمان کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے پاکستان بنایا وہ وہاں چلے گئے۔ ہمارے باپ داداوں نے ہندوستان میں رہنا پسند کیا چنانچہ ہم یہیں رہیں گے، یہی ہمارا وطن ہے، یہیں ہم پیدا ہوئے یہی کی مٹی میں دفن ہوجائیں گے۔

اس جواب کا ایک پہلو درست ہے دوسرے پہلو سے گویا مسلمان یہ کہہ رہے ہیں کہ ہندوستان کی تقسیم کی ذمہ داری مسلم لیگ کے سربراہ محمد علی جناح پر ہے۔

یہ جواب تاریخ کے غلط مطالعہ کی وجہ سے ہے۔ بلکہ صحیح معنوں میں نہ تو الزام لگانے والوں نے تاریخ کا مطالعہ کیا ہے اور نہ مظلوموں نے تاریخ کو پڑھا ہے۔ بس صرف سنی سنائی باتوں پر یقین کرلیا ہے ۔ اس کی وجہ سے مسلمان ایک احساس کمتری میں مبتلا ہیں۔

تقسیم ہند کے موضوع پر یوں تو بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں لیکن ہم یہاں صرف تین کتابوں کا ذکر کریں گے
1-Partition of India Legend and Reality
مصنف ایچ۔ ایم سیروائی
2-India Wins Freedom
مصنف مولانا آزاد مرحوم
3۔ تقسیم ہند 1947
کیا اصلاً مسلمان ہی اس کے ذمہ دار ہیں؟
منصف: منصور احمد ، آئی ایف ایس ریٹائرڈ

ایچ ایم سیر وائی 1957سے 1974تک مہاراشٹر کے ایڈووکیٹ جنرل رہ چکے ہیں۔ وہ نہ ہندو تھے نہ مسلم نہ اُن کا تعلق مسلم لیگ سے تھا اور نہ کانگریس سے وہ ایک پارسی تھے۔ اس لیے ان کی غیر جانب داری پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ انہوں نے تقسیم سے متعلق اصل دستاویز (Original Documents)سے استفادہ کیا ہے یہ کتاب 255 صفحات پر مشتمل ہے اس کا پہلا ایڈیشن 1989میں شائع ہوا اس کے بعد بھی کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔
سیر وائی نے اپنی کتاب کے صفحہ 234پر لکھا
I have said that Gandhi and Nehru by rejecting the cabinet Plan were responsible for the partition of India and the disasters which followed partition
میں کہہ چکا ہوں کہ گاندھی اور نہرو کیبنٹ پلان کو رد کرکے تقسیم اور تقسیم کی لائی ہوئی آفات کے ذمہ دار ہیں۔

دوسری کتاب India Wins Freedomہے یہ مولانا آزاد کی بہت مشہور کتاب ہے اس کے بھی کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ اس کا پہلا ایڈیشن 1960میں شائع ہوا۔ دوسرا ایڈیشن مع اضافہ 1988میں شائع ہوا۔ اس کتاب میں مولانا آزاد نے تقسیم کا ذمہ دار جواہر لال نہرو کو ٹھہرایا۔ انہوں نے لکھا کہ گاندھی جی تقسیم کے سخت مخالف تھے اور کہتے تھے کہ تقسیم میری لاش پر ہوگی لیکن آخر میں وہ بھی تقسیم کے لیے تیار ہوگئے اور یہ میری زندگی کا عظیم سانحہ تھا۔

تیسری کتاب تقسیم ہند 1947
کیا اصلاً مسلمان ہی اس کے ذمہ دار ہیں؟
یہ کتاب جناب منصور احمد صاحب نے لکھی یہ سہسرام بہار کے رہنے والے ہیں 1989میں انڈین فاریسٹ سرویس بہار کیڈر سے ریٹائرڈ ہوئے 1940کے بعد کے ہنگامہ خیز حالات کے اور اس کے نتیجہ میں جو آفات ملک کے باشندوں پر ٹوٹیں اس کے چشم دید گواہ ہیں۔ ان کی کتاب ، کتاب بھون 1784کلاں محل دریا گنج دلی نے 2003میں شائع کی۔ ڈاکٹر عبدالمغنی مرحوم وائس چانسلر متھلا یونیورسٹی نے لکھا کہ جو حقائق اس کتاب میں پیش کیے گئے ہیں ان کی تردید مشکل ہے۔ صورت واقعہ کو بیان کرنے میں ان کی دیدہ ریزی قابل داد ہے۔ اس کتاب کے بہت سے مضامین 1995میں ہفت روزہ ریڈینس اور اسلامک وائس بنگلور میں شائع ہوچکے ہیں۔ مصنف نے سیروائی کی اس بات کو دہرایا ہے کہ تقسیم کانگریس چاہتی تھی۔ جناح تو تقسیم کے خلاف تھے لیکن انہوں نے ترجیح دوم کے طور پر اس کو قبول کیا۔ مصنف نے انگریزوں کی پالیسی پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو Divide and Rule کی پالیسی کا بھرپور جائزہ لیا ہے۔ مصنف نے لکھا ہے کہ آخر کب تک مسلمان تقسیم کا الزام اپنے سر پر ڈھوتے رہیں گے۔ یہی مقصد ہے جس کو سامنے رکھ کر یہ کتاب لکھی گئی ہے۔اس ڈرامے کے پانچ اہم کردار ہیں محمد علی جناح، جواہر لال نہرو، گاندھی جی ، مولانا آزاد اور انگریز خود۔محمد علی جناح جن کو پاکستان کا خالق کہا جاتا ہے ان کے والد راجکوٹ گجرات کے رہنے والے تھے تجارت کی غرض سے کراچی منتقل ہوگئے وہاں جناح کی پیدائش ہوئی ۔ابتدائی تعلیم گجراتی زبان میں ہوئی۔16سال کی عمر میں ان کے والد نے انہیں انگلینڈ بھیج دیا ۔ وہاں انہوں نے بیرسٹر کی ڈگری لی اور واپس ممبئی آئے اور وہیں پر مقیم ہوگئے۔ ممبئی میں وکالت شروع کی بالآخر 1905میں وہ دادا بھائی نورو جی کے پرائیویٹ سکریٹری مقرر ہوئے۔ وہ گوکھلے اور سریندر ناتھ بنرجی جیسے سیاست دانوں سے متاثر تھے۔ اسی سال وہ کانگریس پارٹی کے ممبر بن گئے۔ 1906میں مسلم لیگ ڈھاکہ میں بنی جس کے وہ شدید مخالف تھے۔ 1913میں مولانا محمد علی جوہر کی دعوت پر مسلم لیگ کے ممبر بن گئے۔ اس زمانے میں ایک شخص پارٹیوں کا بیک وقت ممبر بن سکتا تھا ۔ جناح نے مسلم لیگ اور کانگریس میں اتحاد کی بہت کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ سروجنی نائیڈو ان سے بہت متاثر تھیں اور کہتی تھیں
.Jinnah the ‘Ambassador of Hindu-Muslim Unity

1920میں Non-cooperation movementکا ریزولیشن پاس ہوا ۔ محمد علی جناح نے اس کی شدید مخالفت کی اور کہا کہ اس طرح نوجوانوں کا ذہن لا قانونیت کی طرف مائل ہوگا۔ بہرحال جناح کچھ دنوں کے بعد کانگریس سے علیحدہ ہوگئے اور انگلینڈ چلے گئے۔ 1924میں پھر واپس آئے اور مسلم لیگ کی رہنمائی کرتے رہے۔ 1940لاہور میں قرارداد پاکستان منظور ہوگیا۔ یہ دور بڑا ہنگامہ خیز تھا۔اس زمانے میں اور بہت سے واقعات پیش آئے جن کو ہم صرف نظر کرتے ہیں۔

مولانا آزاد اور گاندھی جی مسلمانوں کے اس مطالبے کے سخت خلاف تھے کہ ملک تقسیم ہو۔ ہندوستان کی اس گتھی کو سلجھانے کے لیے انگلینڈ سے 24مارچ 1946کو Cabinet Missionہندوستان پہنچا اس کے سربراہ Lawrence Secretary of State India Missionنے کانگریس اور مسلم لیگ دونوں سے گفتگو کی ۔ مولانا آزاد کانگریس کے صدر تھے۔ انہوں نے 15اپریل 46کو کانگریس کے مشورے سے ایک بیانیہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ تقسیم ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔ البتہ مسئلے کے حل کے لیے پورے ملک کو تین زونس میں تقسیم کردیا جائے۔ البتہ تین امور مرکز کے پاس رہیں ۔ 1دفاعی امور۔ 2خارجہ امور۔ 3۔مواصلات
زون ۔ اے Zone-A
اس میں مدراس، بمبئی۔ سی پی ،یو پی ،بہار ،یہ ہندو اکثریت کے صوبے تھے
زون بیZone-B
اس میں مغربی سرحدی صوبہ پنجاب سندھ بلوچستان
اس زون میں مسلمانوں کی اکثریت تھی
زون سی Zone-C
اس میں بنگال اور آسام کے صوبے شامل تھے اس میں گرچہ آبادی کم تھی لیکن مسلمانوں کی اکثریت تھی
اس پلان میں یہ بات بھی شامل تھی کہ یہ تینوں زون اپنے اپنے آئین خود بنائیں گے۔
اور دس سال تک صوبوں کو اپنے اپنے زون میں رہنا ہوگا۔ کانگریس نے آل انڈیا کانگریس کمیٹی میں اس پلان کو منظور کرلیا۔
مسلم لیگ نے اپنا مطالبہ پاکستان چھوڑ کر کیبنٹ پلان کو منظور کرلیا۔
مولانا آزاد کانگریس کے صدر کی حیثیت سے لمبے عرصے سے کام کررہے تھے اب انہوں نے صدارت کا چارج پنڈت جواہر لعل نہرو کو دے دیا۔
ایک انتہائی نا خوش گوار سانحہ
اب ایک ایسا نامبارک سانحہ ہوا جس نے تاریخ کے رخ کو بدل دیا۔ جواہر لعل نہرو نے ایک پریس کانفرنس بمبئی میں منعقد کی اور ایک سوال کے جواب میں کہا کہ کانگریس خود کو اس بات کے لیے آزاد سمجھتی ہے کہ کیبنٹ پلان کو اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کرے۔
محمد علی جناح نے پنڈت نہرو کے اس بیان کو شدت سے لیا اورایک بیان جاری کیا کہ کانگریس کے صدر کے بیان کا تقاضا ہے کہ پورے پلان پر نظر ثانی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس بیان کی روشنی میں اقلیت کو اکثریت کے رحم و کرم پر چھوڑدیا جائے گا۔ بہرحال کیبنٹ مشن پلان ناکام ہوگیا اور اس کی ناکامی کے ذمہ دار مولانا آزاد کی نظر میں کانگریس اور پنڈت نہرو اور گاندھی جی ہیں۔
مسلم لیگ کا ڈائرکٹ ایکشن
16اگست 1946کو مسلم لیگ کے ڈائرکٹ ایکشن پلان کا اعلان ہوا۔ اس طرح تمام ملک میں مظاہرے ہوئے۔ کلکتہ میں اسی روز فساد ہوا۔ ہندووں نے مسلمانوں کو مارا۔ فوج کنٹرول نہ کرسکی نواکھالی میں فساد ہوا یہاں مسلمان حاوی رہے۔ پھر بہار کے مختلف علاقوں میں فسادات ہوئے اور زیاد تر نقصان مسلمانوں کا ہوا
بہرحال تقسیم کا ذمہ دار کون ہے
سیر وائی نے اپنی کتاب صفحہ 172پر لکھا
it is reasonably clear that it was the congress which wanted partition. It was Jinnah who was against partition but accepted it as the second best
یہ بات معقول حد تک بالکل واضح ہے کہ کانگریس تقسیم چاہتی تھی اور جناح تقسیم کے مخالف تھے لیکن بالآخر انہوں نے ترجیح دوم Second Bestکے طورپر قبول کیا۔
(Partition of India Legend and Reality(page 172
یہ بات تو پہلے بھی کئی بار ڈسکس ہو چکی ہے۔ ہندوستان کی تقسیم اصل مسئلہ نہیں۔ اصل مسئلہ یہ تھا اور ہے کہ یہ تقسیم جس غیر منصفانہ انداز سے ہوئی اس کے آفٹر شاکس آج ۷۵ سال بعد بھی اس خطے میں محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ میرا یہ ماننا ہے کہ اگر ہندوستان کا بٹوارا کرتے وقت انصاف کے اصولوں پر چلا جاتا تو وہ سب یقینا نہ ہوتا جو اس غیر منصفانہ بٹوارے کے بعد ہوا
 
آخری تدوین:

علی وقار

محفلین
یہ بات تو پہلے بھی کئی ڈسکس ہو چکی ہے کہ ہندوستان کی تقسیم اصل مسئلہ نہیں۔ اصل مسئلہ یہ تھا اور ہے کہ یہ تقسیم جس غیر منصفانہ طریقہ سے ہوئی اس کے آفٹر شاکس آج ۷۵ سال بعد بھی اس خطے میں محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ اگر ہندوستان کا بٹوارا کرتے وقت انصاف کے اصولوں پر چلا جاتا تو وہ سب یقینا نہ ہوتا جو اس غیر منصفانہ بٹوارے کے بعد ہوا
جی ہاں، میں آپ کی بات سے ایک مرتبہ پھر اتفاق کرنا چاہوں گا۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین

علی وقار

محفلین
کسی نے جاسم سے کہا کہ شروع ہو جا اور جاسم نے منفی ریٹنگ دینا شروع کر دی۔🤣🤣🤣🤣
بغض جاسم محمد !
میں نے یہاں سوائے زیک کے ایک کمنٹ کے کسی کو منفی ریٹنگ نہیں دی 🙂
یہ کیا ماجرا ہے؟
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
یہ بات تو پہلے بھی کئی ڈسکس ہو چکی ہے کہ ہندوستان کی تقسیم اصل مسئلہ نہیں۔ اصل مسئلہ یہ تھا اور ہے کہ یہ تقسیم جس غیر منصفانہ طریقہ سے ہوئی اس کے آفٹر شاکس آج ۷۵ سال بعد بھی اس خطے میں محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ اگر ہندوستان کا بٹوارا کرتے وقت انصاف کے اصولوں پر چلا جاتا تو وہ سب یقینا نہ ہوتا جو اس غیر منصفانہ بٹوارے کے بعد ہوا
انگریز ساڈے مامے دا پتر سی؟ 😜
 
Top