ذرا سی بات پہ دل کا نگر بدلتے نہیں
تری نظر کی طرح ہم نظر بدلتے نہیں
بدل چکے ہیں کئی آفتابِ وقت مگر
مرے جہان کے شام و سحر بدلتے نہیں
کِسی گنہ کی سزا میں بھٹکتے پھرتے ہیں
سُکوں نصیب ہو جن کو وہ گھر بدلتے نہیں
وہی مٗہیب دریچے، وہی اُداس مکاں
ہمارے شہر کے دیوار و دَر بدلتے نہیں
غموں نے ساتھ نبھایا ہے ہر قدم پہ مرا
کِسی طرح یہ مرے ہم سفر بدلتے نہیں
اُنہی کو منزل مقصد نصیب ہوتی ہے
ہر ایک موڑ پہ جو رہگزر بدلتے نہیں
ہم اپنے وعدوں کی حُرمت کا پاس رکھتے ہیں
زبان دے کے کبھی عُمر بھر بدلتے نہیں
ہے اُس کی یاد کی شدت اُسی طرح باقی
کتابِ درد کے زیر و زَبر بدلتے نہیں