ٹائپنگ مکمل اب شام نہیں ڈھلتی۔ از۔ باقی احمد پوری سے انتخاب

شیزان

لائبریرین
بےکیف ہیں یہ ساغر و مینا ترے بغیر
آساں ہوا ہے زہر کا پینا ترے بغیر
کیا کیا ترے فراق میں کی ہیں مشقّتیں
اِک ہو گیا ہے خُون پسینہ ترے بغیر
جچتا نہیں ہے کوئی نِگاہوں میں آج کل
بےعکس ہے یہ دیدہء بینا ترے بغیر
کِن کِن بلندیوں کی تمنا تھی عشق میں
طے ہو سکا نہ ایک بھی زِینہ ترے بغیر
تُو آشنائے شدتِ غم ہو تو کچھ کہوں
کِتنا بڑا عذاب ہے جینا ترے بغیر
ساحل پہ کتنے دیدہ و دل فرشِ راہ تھے
اُترا نہ پار دل کا سفینہ ترے بغیر
باقی کسی بھی چیز کا دل پر اثر نہیں
پتھر کا ہو گیا ہے یہ سینہ ترے بغیر
 

شیزان

لائبریرین
تمہارے آخری خط کا جواب دینا ہے
نہ جانے رُوح کو کتِنا عذاب دینا ہے
اُس اِک نگِاہ نے اِک پل میں کیا نہیں پُوچھا
کئی سوال ہیں جن کا جواب دینا ہے
گُذر گیا ہے یہ دن تو کِسی طرح، لیکن
تمام رات غموں کا حساب دینا ہے
ستمگروں کو یہی بات بُھول جاتی ہے
کہ ایک روز تو خُوں کا حساب دینا ہے
اُسی نے مُہر لگا دی ہے سب کے ہونٹوں پر
وہ اِک سوال کہ جس کا جواب دینا ہے
نظام ہائے کہن آزما کے دیکھ لیے
زمیں کو اور ہی اب اِنقلاب دینا ہے
لہوُ لہوُ ہے ہر اِک یاد کا بدن باقی
گئے دنوں کا اَبد تک حساب دینا ہے
 

شیزان

لائبریرین
تیری طرح ملال مجھے بھی نہیں رہا
جا، اب ترا خیال مجھے بھی نہیں رہا
تُو نے بھی موسموں کی پذیرائی چھوڑ دی
اب شوقِ ماہ و سال مجھے بھی نہیں رہا
میرا جواب کیا تھا ، تجھے بھی خبر نہیں
یاد اب ترا سوال، مجھے بھی نہیں رہا
جس بات کا خیال نہ تُو نے کیا کبھی
اُس بات کا خیال مجھے بھی نہیں رہا
توڑا ہے تُو نے جب سے مرے دل کا آئینہ
اندازہء جمال مجھے بھی نہیں رہا
باقی میں اپنے فن سے بڑا پُرخلوص ہوں
اِس واسطے زوال مجھے بھی نہیں رہا


 

شیزان

لائبریرین
جو تجھ سے وابستہ ہے
مجھ پر فقرے کستا ہے
طنز ہے اِک بیماروں پر
ہاتھ میں جو گُلدستہ ہے
تیری ہی سب راہیں ہیں
میرا کون سا رستہ ہے
بادل ہیں اور آنکھیں بھی
دیکھیں کون برستا ہے
ساون میں اِک ناگ مجھے
فرض سمجھ کے ڈستا ہے
پانی کون پلائے گا
خُون یہاں اب سسَتا ہے
دیوانے کی بات سہی
بات مگر برجستہ ہے
باقی ہی کچھ بولے گا
ہرکوئی لب بستہ ہے
 

شیزان

لائبریرین
فقط دیوارِ نفرت رہ گئی ہے
یہی اِس گھر کی صُورت رہ گئی ہے
کوئی شامل نہیں ہے قافلے میں
قیادت ہی قیادت رہ گئی ہے
بطولت کذب کے حصّے میں آئی
حقیقت بےحقیقت رہ گئی ہے
کوئی کب ساتھ چلتا ہے کسی کے
غرض کی ہی رفاقت رہ گئی ہے
تگ و دو تو بہت کرتے ہیں لیکن
خلوصِ دل کی قلّت رہ گئی ہے
نہیں ہے اور کچھ باقی تو کیا ہے
یہ کیا کم ہے کہ عزت رہ گئی ہے
 

شیزان

لائبریرین
سامنے سب کے نہ بولیں گے ہمارا کیا ہے
چُھپ کے تنہائی میں رو لیں گے ہمارا کیا ہے
گلشنِ عشق میں ہر پُھول تمہارا ہی سہی
ہم کوئی خار چبھو لیں گے ہمارا کیا ہے
عُمر بھر کون رہے ابرِ کرم کا محتاج
داغِ دل اشکوں سے دھو لیں گے ہمارا کیا ہے
ہاتھ آیا نہ اگر دستِ حنائی تیرا
اُنگلیاں خُوں میں ڈبو لیں گے ہمارا کیا ہے
تم نے محلوں کے علاوہ نہیں دیکھا کچھ بھی
ہم تو فٹ پاتھ پہ سو لیں گے ہمارا کیا ہے
اپنی منزل تو سرابوں کا سفر ہے باقی
ہم کِسی راہ پہ ہو لیں گے ہمارا کیا ہے
 

شیزان

لائبریرین
سُنا ہے پاس کوئی رنگ و بُو کا بھی نہیں کرتا
خیال اب وہ چمن کی آبرُو کا بھی نہیں کرتا
سِتم ہے اب وہ آنکھیں بھی نہیں ہیں مہرباں ہم پر
کوئی اب تذکرہ جام و سبُو کا بھی نہیں کرتا
زبانِ دوستاں نے اِس قدر نشتر لگائے ہیں
کہ اِتنا کام تو خنجر عدُو کا بھی نہیں کرتا
یہاں میرے پسینے کی کِسی کو کیا خبر ہو گی
حساب اِس شہر میں کوئی لہُو کا بھی نہیں کرتا
وہاں لا کے محبت نے کِیا ہے چاک دل باقی
جہاں پر کام اب کوئی رفُو کا بھی نہیں کرتا
 

شیزان

لائبریرین
اُداس بام ہے، دَر کاٹنے کو آتا ہے
ترے بغیر یہ گھر کاٹنے کو آتا ہے
خیالِ موسمِ گُل بھی نہیں ستمگر کو
بہار میں بھی شجر کاٹنے کو آتا ہے
فقیہہِ شہر سے اِنصاف کون مانگے گا
فقیہہِ شیر تو سَر کاٹنے کو آتا ہے
اِسی لیے تو کسانوں نے کھیت چھوڑ دیئے
کہ کوئی اور ثمر کاٹنے کو آتا ہے
ترے خیال کا آہو کہیں بھی دن میں رہے
مگر وہ رات اِدھر کاٹنے کو آتا ہے
کہا تو تھا کہ ہمیں اِس قدر بھی ڈھیل نہ دے
اب اُڑ رہے ہیں تو پَر کاٹنے کو آتا ہے
یہ کام کرتے تھے پہلے سگانِ آوارہ
بشر کو آج بشر کاٹنے کو آتا ہے
یہ اُس کی راہ نہیں ہے مگر یُونہی باقی
وہ میرے ساتھ سفر کاٹنے کو آتا ہے
 

شیزان

لائبریرین
خود کو کب درمیان رکھتے ہیں
صرف تیرا دھیان رکھتے ہیں
کون کہتا ہے چھت نہیں اپنی
سر پہ سات آسمان رکھتے ہیں
وہ ہمارے سوا کسی کا نہیں
ہم بھی کیا کیا گمان رکھتے ہیں
اُن کے انداز بھی نرالے ہیں
ہم بھی اِک اپنی شان رکھتے ہیں
اتنے بےباک مت بنو باقی
دَر و دیوار کان رکھتے ہیں
 

شیزان

لائبریرین
جسموں کے پگھلنے کا مہینہ نہیں آیا
بھاگے ہیں بہت، پھر بھی پسینہ نہیں آیا
طوفانِ بلا خیز میں رہتے ہیں ہمیشہ
ساحل پہ کبھی اپنا سفینہ نہیں آیا
حق بات پہ کیا زہر کا وہ جام پیئں گے
اِک ساغرِ مے بھی جنہیں پینا نہیں آیا
نکلتے ہیں فقط سنگ تہہِ سنگِ زمیں سے
ہاتھوں میں کِسی کے بھی خزینہ نہیں آیا
تلوار لیے لرزہ براندام ہے قاتل
مقتول کے ماتھے پہ پسینہ نہیں آیا
سانسوں کا تسلسل بھی ہے مجبورئ ہستی
جیتے ہیں کہ مرنے کا قرینہ نہیں آیا
جس شہر میں اِک عُمر سے ہم رہتے ہیں باقی
اُس شہر میں اب تک ہمیں جینا نہیں آیا
 

شیزان

لائبریرین
زمانے بھر نے منہ موڑا تو جانا
کِسی نے ساتھ جب چھوڑا تو جانا
نظر آتے ہیں دو دو عکس اپنے
شکستہ آئینہ جورا تو جانا
بہت دُشواریاں ہیں راستوں میں
کِسی نے راہ میں چھوڑا تو جانا
گُلوں کا لَمس کیا ہوتا ہے باقی
کِسی پتھر پہ سر پھوڑا تو جانا
 

شیزان

لائبریرین
سامنا زمانے کی سرپھری ہوا کا ہے
پھر بھی ضوفشاں اب تک اِک دِیا وفا کا ہے
ایک ایک بات اُس کی یاد آتی رہتی ہے
کیا کریں کہ اپنا بھی حافظہ بلا کا ہے
اُن کُھلے کواڑوں سے اور کون جھانکے گا
اُن اُداس گلیوں میں بس گُزر ہوا کا ہے
خواہشوں کی ہاؤ ہُو، حسرتوں کے واویلے
سوچتا ہوں شہرِ دل، شہر کِس بلا کا ہے
ہم بھی سنگِ مر مر کے اپنے گھر بنا لیتے
لیکن اپنی مجبوری، مسئلہ انا کا ہے
ہم سفید پوشوں کی زندگی نرالی ہے
پاس کچھ نہیں باقی نام بس خُدا کا ہے
 

الف عین

لائبریرین
باقی صاحب کی ای بک بہت دنوں سے ڈیو ہے، کچھ کلام میں نے جمع کر رکھا ہے۔ کیا شیزان کے پاس کوئی ان پیج فائل موجود ہے؟ کیا پوری کتاب شامل نہیں کی جا سکتی۔ کتاب کا نام بھی کیا یہی ہے؟
 

شیزان

لائبریرین
باقی صاحب کی ای بک بہت دنوں سے ڈیو ہے، کچھ کلام میں نے جمع کر رکھا ہے۔ کیا شیزان کے پاس کوئی ان پیج فائل موجود ہے؟ کیا پوری کتاب شامل نہیں کی جا سکتی۔ کتاب کا نام بھی کیا یہی ہے؟
محترم اعجاز صاحب
یہ کلام میں باقی صاحب کے چوتھے شعری مجموعہ جس کا نام اب شام نہیں ڈھلتی سے کمپوز کر رہا ہوں۔۔
اس میں 59 غزلیں اور نو دس قطعات متفرقات کے نام سے ہیں۔
میں اسی کتاب سے سارا کلام پوسٹ کر دوں گا۔۔ اور میرے پاس ان پیج فائل نہیں ہے
 

شیزان

لائبریرین
ظلم ہی ظلم ہے زوروں کی ہوا چلتی ہے
ایسے طوفان میں اِک شمع کی کیا چلتی ہے
تم کہاں جنسِ وفا لے کے چلے آئے ہو
اِس زمانے میں تو بس رسمِ جفا چلتی ہے
اب کوئی بادِ مخالف کا مخالف ہی نہیں
سب اُدھر چلتے ہیں جس رُخ کی ہَوا چلتی ہے
پھر نہ پُوچھو کہ گزر جاتی ہے کیا کیا دل پر
شام کے بعد جو یادوں کی ہَوا چلتی ہے
آؤ اِس شہر سے اب دور کہیں جا نکلیں
ہر تمنا یہاں زنجیر بہ پا چلتی ہے
میں کبھی شوکتِ شاہی سے نہ مرعُوب ہوا
آئینہ بن کے مرے ساتھ اَنا چلتی ہے
ایک پل بھی کوئی تنہا نہیں ہوتا باقی
ساتھ گزرے ہوئے لمحوں کی صدا چلتی ہے
 

شیزان

لائبریرین
ذرا سی بات پہ دل کا نگر بدلتے نہیں
تری نظر کی طرح ہم نظر بدلتے نہیں
بدل چکے ہیں کئی آفتابِ وقت مگر
مرے جہان کے شام و سحر بدلتے نہیں
کِسی گنہ کی سزا میں بھٹکتے پھرتے ہیں
سُکوں نصیب ہو جن کو وہ گھر بدلتے نہیں
وہی مٗہیب دریچے، وہی اُداس مکاں
ہمارے شہر کے دیوار و دَر بدلتے نہیں
غموں نے ساتھ نبھایا ہے ہر قدم پہ مرا
کِسی طرح یہ مرے ہم سفر بدلتے نہیں
اُنہی کو منزل مقصد نصیب ہوتی ہے
ہر ایک موڑ پہ جو رہگزر بدلتے نہیں
ہم اپنے وعدوں کی حُرمت کا پاس رکھتے ہیں
زبان دے کے کبھی عُمر بھر بدلتے نہیں
ہے اُس کی یاد کی شدت اُسی طرح باقی
کتابِ درد کے زیر و زَبر بدلتے نہیں
 

شیزان

لائبریرین
جو لگے داغ دل لگانے سے
اب وہ مٹتے نہیں مٹانے سے
کتنے لوگوں کی یاد آئی ہے
اِک تری یاد کے بہانے سے
آنکھ میں چبھ گئی ہیں تعبیریں
خواب دیکھے تھے کچھ سُہانے سے
ظُلمتیں ہیں نصیب میں جب تک
کچھ نہ ہو گا دیئے جلانے سے
گھر میں کُھل کر ہَوا تو آئی ہے
گھر کے دیوار و دَر گِرانے سے
مال سب لُٹ لٹا گیا پھر بھی
سانپ نِکلا نہیں خزانے سے
آج تک ہم بھٹکتے پھرتے ہیں
یہ ہُوا، تیرے چھوڑ جانے سے
سینکڑوں زخم سج گئے دل پر
اور کیا چاہیئے زمانے سے
کون جانے کہاں گیا باقی
اُس کو دیکھا نہیں زمانے سے
 

شیزان

لائبریرین
وہ دُور دُور سے رہتے ہیں جانے کیوں ہم سے
بدل گئے ہیں نگِاہیں زمانے کیوں ہم سے
اب اُن کی آنکھ بھر آئی تو کیا قصور اپنا
وہ سُن رہے تھے وفا کے فسانے کیوں ہم سے
ہم ایک پل کی جدائی بھی سہہ نہ سکتے تھے
یہ امتحاں لیے ہیں خُدا نے کیوں ہم سے
جو ہر نفس تری خُوشبُو بسا کے جاتے تھے
اُڑا لیے ہیں وہ لمحے ہَوا نے کیوں ہم سے
ہم اُس کی آس پہ زندہ ہیں آج تک باقی
وفا کے وعدے کیے بےوفا نے کیوں ہم سے
 

شیزان

لائبریرین
شعلۂ زر میں جلے ہیں ہم لوگ
شام سے پہلے ڈھلے ہیں ہم لوگ
گھر کا رستہ بھی نہیں یاد رہا
کیسی راہوں پہ چلے ہیں ہم لوگ
کوئی اِلزام زمانے پہ نہیں
اپنی مرضی سے جلے ہیں ہم لوگ
خیر ایسے بھی گنہگار نہیں
کتِنے لوگوں سے بھلے ہیں ہم لوگ
ہر کوئی سنگ زَنی کرتا ہے
اِس طرح پُھولے پھَلے ہیں ہم لوگ
اب رفاقت کا گلہ کیا کرنا
خُود ترے ساتھ چلے ہیں ہم لوگ
جب دَرِ حُسن پہ آئے باقی
کچھ نہ کچھ لے کے ٹلے ہیں ہم لوگ
 
Top