جسے حیات سے نفرت بہت زیادہ تھی
ہمیں اُسی کی ضرُورت بہت زیادہ تھی
اب ایک لمحۂ مفقُود کو ترستے ہیں
وہ دن بھی تھے، ہمیں فُرصت بہت زیادہ تھی
ہمارے گھر کی تباہی کا یہ سبب ٹھہرا
ہمارے گھر میں سیاست بہت زیادہ تھی
ہر ایک جرم کے پیچھے تھا جس کا ہاتھ یہاں
اُسی کی شہر میں عزت بہت زیادہ تھی
اِسی لیے تو وہ دستِ سِتم دراز رہا
کہ ہم میں ضبط کی عادت بہت زیادہ تھی
اُسی نے شہر کا سارا جمال چھین لیا
جو سَربلند عمارت بہت زیادہ تھی
حقیقتوں پہ تو ٹھہری نہیں نظر اپنی
خیال و خواب کی صُورت بہت زیادہ تھی
نہ اُس کی آنکھ بھر آئی، نہ میرا دل رویا
دمِ فراق یہ حیرت بہت زیادہ تھی
تھکن سے ٹوٹ گرا ہوں تو اب یہ سوچتا ہوں
کہ بےخیال مسافت بہت زیادہ تھی
تمہارا قُرب جو ملتا تو جانے کیا کرتے
ہمیں تو دُور کی نِسبت بہت زیادہ تھی
اب اُس کا نام بھی لیتے ہیں سوچ کر باقی
کِسی سے ہم کو محبت بہت زیادہ تھی