شیزان
لائبریرین
پیمانے سے پیمانہ ٹکرا ہی لیا جائے
اِس دل کو کِسی صُورت بہلا ہی لیا جائے
اِک روز تو وحشت کا انجام یہی ہو گا
یہ سر کسی پتھر سے ٹکرا ہی لیا جائے
اِس طرح کے جینے سے ، مر جانا ہی بہتر ہے
کچھ پی ہی لیا جائے، کچھ کھا ہی لیا جائے
وہ وصل پہ راضی تھا، ہم نے ہی مگر سوچا
کچھ اور ذرا دل کو تڑپا ہی لیا جائے
پتھر سے مراسم کا اِلزام نہیں اچھا
ٹوٹا ہی سہی شیشہ، شیشہ ہی لیا جائے
خوشیاں بھی ہزاروں تھیں پر دل کی یہ خواہش تھی
اِک غم کوئی اچھا سا اپنا ہی لیا جائے
اِس کارِ محبت میں ملتا ہے یہی باقی
اِک زخم جو لینا ہے، گہرا ہی لیا جائے