ٹائپنگ مکمل اب شام نہیں ڈھلتی۔ از۔ باقی احمد پوری سے انتخاب

شیزان

لائبریرین
پیمانے سے پیمانہ ٹکرا ہی لیا جائے
اِس دل کو کِسی صُورت بہلا ہی لیا جائے
اِک روز تو وحشت کا انجام یہی ہو گا
یہ سر کسی پتھر سے ٹکرا ہی لیا جائے
اِس طرح کے جینے سے ، مر جانا ہی بہتر ہے
کچھ پی ہی لیا جائے، کچھ کھا ہی لیا جائے
وہ وصل پہ راضی تھا، ہم نے ہی مگر سوچا
کچھ اور ذرا دل کو تڑپا ہی لیا جائے
پتھر سے مراسم کا اِلزام نہیں اچھا
ٹوٹا ہی سہی شیشہ، شیشہ ہی لیا جائے
خوشیاں بھی ہزاروں تھیں پر دل کی یہ خواہش تھی
اِک غم کوئی اچھا سا اپنا ہی لیا جائے
اِس کارِ محبت میں ملتا ہے یہی باقی
اِک زخم جو لینا ہے، گہرا ہی لیا جائے
 

شیزان

لائبریرین
جو اُس محفل میں بیگانے بہت ہیں
وہ چہرے جانے انجانے بہت ہیں
زباں سے لا الٰہ کہتے ہیں سارے
دلوں میں پھر بھی بُت خانے بہت ہیں
ہمیں ساقی سے کیا مطلب، ہمیں تو
تری آنکھوں کے پیمانے بہت ہیں
مثالِ قیس کیوں صحرا میں جاؤں
مرے دل میں ہی ویرانے بہت ہیں
اکیلی شمع اب جلتی ہے باقی
فقط کہنے کو پروانے بہت ہیں
 

شیزان

لائبریرین
تیرے شہرِ وفا میں رہتے ہیں
کتنی اونچی ہوا میں رہتے ہیں
اِس جہاں میں تو ایسا لگتا ہے
جیسے کرب و بلا میں رہتے ہیں
وہ بھی اپنی ضدوں پہ قائم ہے
ہم بھی اپنی اَنا میں رہتے ہیں
فصلِ گُل میں بھی گُل نہیں کھِلتے
کیسی آب و ہوا میں رہتے ہیں
ہم شہنشاہِ وقت ہیں باقی
کیوں دریدہ قبا میں رہتے ہیں
 

شیزان

لائبریرین
جُنوں کے شہر کا ہر آدمی عجب نکلا
جسے میں کچھ نہ سمجھتا تھا، وہ غضب نکلا
کوئی نہ کوئی غرض شاملِ محبت تھی
کوئی نہ دوست زمانے میں بےطلب نکلا
میں اپنے آپ کو کتنا دُکھی سمجھتا تھا
جو آج سوچا تو ہر درد بےسبَب نکلا
میں اُس کے ہِجر کی منزل کو کھیل سمجھا تھا
یہ مرحلہ تو محبت میں جاں طلب نکلا
نوازشات ہیں اُس کی ہزار غیروں پر
جو میرے دل میں اِک ارمان ہے، وہ کب نکلا
اُسی کے دم سے زمانے میں نور ہے باقی
جو آفتاب سرِ وادئ عرب نکلا
 

شیزان

لائبریرین
گُزرے ہوئے لمحوں کے حسابوں میں رہیں گے
ہم تجھ سے جُدا ہو کے عذابوں میں رہیں گے
ہر گام پہ کانٹوں نے قدم تھام لیے ہیں
سوچا تھا کہ کلیوں میں، گُلابوں میں رہیں گے
جو لوگ ترے وصل کی اُمید پہ خوش ہیں
وہ لوگ محبت کے سرابوں میں رہیں گے
جب تک تری آنکھوں کا اِشارہ نہیں ہوتا
ہم لوگ یونہی غرق شرابوں میں رہیں گے
باقی نہ مٹائے گا کبھی ہم کو زمانہ
ہم زندہء جاوید کتابوں میں رہیں گے
 

شیزان

لائبریرین
خُوگرِ ظلم ہو رسمِ مہر و وفا، تم نہیں جانتے
رنگ لائے گا ٹوٹا ہوا آئینہ تم نہیں جانتے
دیکھنا تو سہی زینتِ دار کے کتنے سامان ہیں
یہ شفق، یہ اُفق، یہ لہُو، یہ حِنا تم نہیں جانتے
دن کی حد تک شرافت کے دستُور تھے، لوگ مجبُور تھے
شب کے پردے میں پھر کیا سے کیا ہو گیا، تم نہیں جانتے
دوستی دُشمنی میں بدلتی ہوئی تم نے دیکھی نہیں
اِس زمانے کی کیسی ہے آب و ہوا تم نہیں جانتے
صرف دولت کی دیکھی ہے تم نے جھلک، کیا ہے دورِ فلک
بیکسی، مُفلسی، یہ خُودی، یہ اَنا، تم نہیں جانتے
باقی احمد پوری، بھُول جانا اُسے اتنا آساں نہیں
گزرے لمحوں کی آتی رہے گی صدا تم نہیں جانتے
 

شیزان

لائبریرین
یہی حیات کا ساماں نہیں ہے، وہ بھی ہے
کہ میری جاں ہی مری جاں نہیں ہے، وہ بھی ہے
ہمارے دل کے مقدر میں بھی ہیں غم کیا کیا
وہ غم جو زِیست کا عنواں نہیں ہے وہ بھی ہے
غموں کی دُھوپ میں کِس کِس نے ساتھ چھوڑ دیا
بس ایک ابرِ گریزاں نہیں ہے، وہ بھی ہے
پلک پلک پہ فروزاں سرشکِ غم کو تو دیکھ
یہ کیا کہا کہ چراغاں نہیں ہے، وہ بھی ہے
جہاں میں کوئی بھی غم سے نہ بچ سکا باقی
بس ایک تو ہی پریشاں نہیں ہے، وہ بھی ہے
 

شیزان

لائبریرین
اِس طرح چپ ہیں مرے شہر کے لوگ
اب تو ہر ظلم روَا ہو جیسے
سانس لینا بھی ہے مُشکل یارو
شہر میں قحطِ ہوَا ہو جیسے
کوئی چہرہ نہیں پُورا دیکھا
آئینہ ٹُوٹ گیا ہو جیسے
رہگزر سُرخ ہوئی جاتی ہے
راہرو آبلہ پَا ہو جیسے
ایک ہی بات پڑھی ہے سو بار
خط کا مضموں نہ کُھلا ہو جیسے
ہاتھ اُٹھتے ہی نہیں ہیں باقی
خامشی حرفِ دُعا ہو جیسے
 

شیزان

لائبریرین
سب مرحلے وفا کے، جفا کے سپرد ہیں
وہ دیپ کیا جلیں جو ہوا کے سپرد ہیں
اُس نے بھی اپنی ضد نہیں چھوڑی کِسی طرح
ہم کیا کریں کہ ہم بھی انَا کے سپرد ہیں
ہر تہمتِ عمل سے برَی ہیں ،جو ہو سو ہو
اپنے تمام کام خُدا کے سپرد ہیں
کیسے نشاطِ بزم کا ساماں بہم کریں
نغمے شکستِ دل کی صدا کے سپرد ہیں
رنگ و وجودِ گُل تو سبھی خاک ہو گیا
خوشبو کے قافلے بھی ہوا کے سپرد ہیں
 

شیزان

لائبریرین
غریبِ شہر پہ اُس کو ترس نہیں آتا
سبھی کو آتا ہے، اُس کو ہی بس نہیں آتا
بیاضِ دل میں نہ کوئی غزل رقم ہوتی
اگر وہ یاد نفس دَر نفس نہیں آتا
یہ قلب و رُوح کا رشتہ ہے ربطِ پاکیزہ
محبتوں میں خیالِ ہوس نہیں آتا
گُلاب کلیاں بھی ہیں جنتِ نظر، لیکن
مزہ چمن میں بجز خار و خس نہیں آتا
سِتمگروں سے کرم کی اُمید مت رکھنا
سِتمگروں کو کِسی پر ترس نہیں آتا
کِسی کو گریۂ شبنم کی قدر کیا معلوم
بغیر اُس کے گُلوں میں بھی رَس نہیں آتا
وہ مل گیا ہے تو جی بھر کے پیار کر باقی
کہ ایسا وقت برس ہا برس نہیں آتا
 

شیزان

لائبریرین
اِن آبلوں سے جو ذوقِ سفر میں پلتے ہیں
گُلاب رنگ نظارے نظر میں پلتے ہیں
خزاں کے کان میں اُن کی بھنک نہ پڑ جائے
نمو کے خواب جو چشمِ شجر میں پلتے ہیں
اِنہی کے دم سے تو ظلمت کدے بھی روشن ہیں
یہ رتجگے جو اُمیدِ سحر میں پلتے ہیں
ہُنر کے نام پہ کب تک مصیبتیں جھیلیں
کہ بےہُنر بھی جہانِ ہُنر میں پلتے ہیں
اُنہی کو دل میں اُترنے کا ڈھنگ آتا ہے
غزل کے شعر جو خُونِ جِگر میں پلتے ہیں
میں دُشمنوں سے نبردآزمائی کیسے کروں
کہ لاکھ فتنے مرے اپنے گھر میں پلتے ہیں
پہاڑ بن کے کھڑے ہیں یہی تو راہوں میں
یہ وسوسے جو دماغِ بشر میں پلتے ہیں
میں اپنے اشک چھپاتا ہوں اِس لیے باقی
کہ اُس کے عکس مری چشمِ تر میں پلتے ہیں
 

شیزان

لائبریرین
آئی نہیں چمن میں بہارِ چمن ابھی
بندِ قبا کو کھول کے پاگل نہ بن ابھی
بدلا نہیں ہے اُس میں جفا کا چلن ابھی
یہ انجمن نہیں ہے مری انجمن ابھی
دن کو ضرُورتوں نے مرا سر جھکا دیا
راتوں کو ٹوٹتا ہے انَا کا بدن ابھی
کیسے یزیدِ وقت کی ہم بات مان لیں
تازہ ہے داستانِ حسین و حسن ابھی
اب دیکھنا ہے کون اناالحق کی دے صدا
سُونے پڑے ہیں شہر کے دَار و رَسن ابھی
بھُولا نہیں ہوں میں تری پازیب کی صدا
کانوں میں ہو رہی ہے چھنا چھن چھنن ابھی
ہر بات تیری بات سے منسُوب کل بھی تھی
تیرے ہی تذکرے ہیں سُخن در سُخن ابھی
زنجیرِ ظلم و جور میں جکڑے ہوئے ہیں لوگ
آزاد کب ہوئے ہیں ہمارے وطن ابھی
یُوں سب کے ہاتھ خُوں میں تر ہیں کہ جسطرح
مہندی لگا رہی ہو عرُوسِ وطن ابھی
اپنے لیے تو جی بھی چکے اور مر چکے
باقی ہے کِس کے واسطے جیون مرَن ابھی
 

شیزان

لائبریرین
منزلِ انقلاب ہی میں رہے
اِک مسلسل عذاب ہی میں رہے
ہم کوئی اور کام کیا کرتے
ہم سدا اِنتخاب ہی میں رہے
کوئی دستُورِ زندگی نہ کُھلا
لفظ قیدِ کتاب ہی میں رہے
لوگ مانوس تھے خرابوں سے
اور عہدِ خراب ہی میں رہے
منزلوں کا کہیں نِشاں بھی نہ تھا
چلنے والے سراب ہی میں رہے
جانے یہ کِس کی بددُعا تھی ہمیں
ہر نفس اِضطراب ہی میں رہے
کیا خبر کیا سے کیا ہوا باقی
جاگ کر ہم تو خواب ہی میں رہے
 

شیزان

لائبریرین
جو تیرا سامنا کیے ہوتے
دل، جگر ہاتھ میں لیے ہوتے
بےوفاؤں پہ جان دیتے رہے
کاش اپنے لیے جئے ہوتے
دل کو غم ہی نصیب ہونے تھے
چاہے لاکھوں برس جئے ہوتے
وصل کی شب یہ کیسی خاموشی
کچھ تو شِکوے گِلے کئے ہوتے
شان سے یوں نہ بیٹھتے باقی
جُرم ہم نے اگر کیے ہوتے
 

شیزان

لائبریرین
جب کِسی زُلف کے اسیر ہوئے
گیت اپنے بھی دل پذیر ہوئے
ہم نے دیکھی نہیں بہارِ شباب
ہم تو بچپن میں تھے کہ پِیر ہوئے
شعر گوئی میں کم نہیں پھربھی
ہم نہ غالب ہوئے نہ میر ہوئے
ہم شہنشاہ تھے کبھی باقی
اب تو مُدت ہوئی فقیر ہوئے
 

شیزان

لائبریرین
کیا کہوں کیوں ہم سے وہ غُنچہ دہن کُھلتا نہیں
اُس کی چُپ سے نغمگی کا بانکپن کُھلتا نہیں
گریۂ شبنم سے کب دُھلتا ہے پت جھڑ کا غُبار
جب تلک بارش نہ ہو، رنگِ چمن کُھلتا نہیں
جب تلک انگڑائیاں لیتی نہیں بادِ صبا
موسمِ گُل میں بھی خُوشبو کا بدن کُھلتا نہیں
کیوں ہماری سمت سورج کی نظر پڑتی نہیں
کیوں بدن سے تیرگی کا پیرہن کُھلتا نہیں
اب کوئی منصُور و سرمد ہو تو یہ عُقدہ کُھلے
راز کیا ہے جو بجز دار و رَسن کُھلتا نہیں
ذوقِ عُریانی ستاروں کو حیا کے ساتھ ہے
رات سے پہلے کِسی کا پیرہن کُھلتا نہیں
کھولتے ہیں دَر یہاں ظرفِ مُسافر دیکھ کر
ہر کِسی پر بابِ شہرِِ عِلم و فن کُھلتا نہیں
لوٹ آتی ہیں غریبوں کی صدائیں بار بار
کِس لیے دروازہء چرخِ کُہن کُھلتا نہیں
سینکڑوں شِکوے گلِے ہوتے ہیں خوابوں میں مگر
سامنے اُس کے کبھی حرفِ سُخن کُھلتا نہیں
کیا خبر باقی اسے کِس بات سے چُپ لگ گئی
اب وہ ہم سے انجمن دَر انجمن کُھلتا نہیں
 

شیزان

لائبریرین
منزلوں پر اجنبی سے راستے یاد آ گئے
قُربتیں حد سے بڑھیں تو فاصلے یاد آ گئے
اشک آنکھوں سے نکل آئے قطار اندرقطار
عِشق میں ناکامیوں کے سِلسلے یاد آ گئے
رات مے خانے میں اِک جامِ شکستہ دیکھ کر
ریزہ ریزہ دو دلوں کے آئینے یاد آ گئے
اپنی پلکوں پر چمکتے آنسُوؤں کو دیکھ کر
دشتِ شب میں جگنوؤں کے قافلے یاد آ گئے
 

شیزان

لائبریرین
اور تو کچھ بھی نہیں میری نظر کے آگے
تیری تصویر ہی آتی ہے اُبھر کے آگے
اِک خلش ہی دلِ نازک کا مقّدر ٹھہری
بچھ گئے خارِ مغیلاں گلِ تر کے آگے
عشق میں وحشتِ پیہم کے علاوہ کیا ہے
خاک ہی خاک ہے بس خاک بہ سَر کے آگے
تیرے چہرے کے خدوخال پڑھے ہیں کِس نے
کب ٹھہرتی ہے نظر تیری نظر کے آگے
صِرف دیوار ہی دیوار نظر آتی ہے
گھر تو شاید کوئی تھا ہی نہیں گھر کے آگے
آ کے اب دیکھ لے تذلیلِ بشر کا عالم
سَر جُھکایا تھا فرشتوں کا بشر کے آگے
ٹُوٹ کر زرد سے پتّے مری جانب لپکے
ہاتھ پھیلا جو مرا شاخِ ثمر کے آگے
ایک مدت سے سرابوں میں لیے پھرتا ہے
کوئی منزل ہی نہ ہو جیسے خضر کے آگے
میرا دامن تو نہیں ہے کہ جو تَر ہو جائے
ایک صحرا ہے مرے دیدہء تر کے آگے
روز ہم اپنی تمناؤں کا خُوں کرتے ہیں
روز رو لیتے ہیں لاش اپنی ہی دَھر کے آگے
وقت بھی رُک سا گیا ہے کِسی غم میں باقی
ہجر کی رات میں لمحہ بھی نہ سرَکے آگے
 

شیزان

لائبریرین
بازئ عِشق جب سے ہاری ہے
بےقراری ہی بےقراری ہے
پہلے جس غم سے تھا مفَر ہم کو
اب اُسی غم کی پاسداری ہے
زندگی نے ہمیں گُذارا ہے
ہم نے کب زندگی گُذاری ہے
آگ کو سب ہوائیں دیتے ہیں
یہ عجب رسمِ غمگُساری ہے
ہم تو حیرت میں پڑ گئے خُود بھی
تیری تصویر کیا اُتاری ہے
عِشق کا رُوگ بھی عجب ٹھہرا
درد میٹھا ہے، زخم کاری ہے
باقی احمد پوری کی صُورت میں
اب بھی غالب کا فیض جاری ہے
 

شیزان

لائبریرین
یادوں کی گُونج دشتِ محبت میں اب بھی ہے
یہ دل گئے دنوں کی رفاقت میں اب بھی ہے
اِک یاد ہے جو نقش ہے لوحِ دماغ پر
اِک زخم ہے جو دل کی حِفاظت میں اب بھی ہے
رُکتے نہیں ہیں آنکھ میں آنسُو کِسی طرح
یہ کاروانِ شوق ، مُسافت میں اب بھی ہے
ترکِ تعلقات کو اِک عمر ہو چکی!
دل ہے کہ بے قرار محبت میں اب بھی ہے
سب دوست مصلحت کی دُکانوں پہ بِک گئے
دشمن تو پُرخلوص عداوت میں اب بھی ہے
آثارِ حشر سارے نمُودار ہو چکے
کہتے ہیں لوگ دیر قیامت میں اب بھی ہے
مجبُوریوں نے برف بنا دی اَنا، مگر
شعلہ سا ایک اپنی طبیعت میں اب بھی ہے
جس نے کیا تھا جرم وہ کب کا بَری ہوا
جو بےقصُور ہے، وہ عدالت میں اب بھی ہے
برسوں ہوئے جو زخمِ شناسائی سے ملا
وہ درد میری، اُس کی شراکت میں اب بھی ہے
مل جائے وہ کہیں تو اُسے کہنا اے ہوا
باقی ترا غموں کی حراست میں اب بھی ہے
 
Top