اب کے پیمانِ محبت کے وفا ہونے تک

ابن رضا

لائبریرین
تازہ غزل کے چند اشعار برائے اصلاح

اب کےپیمانِ محبت کےوفا ہونے تک
سربسجدہ ہوں رضا آہ رسا ہونے تک

چشمِ آشفتہ نے دیکھے ہیں مناظر کیا کیا
طفلِ ناچار سے دھرتی کا خدا ہونے تک

عہدِ شاہی میں رہے محوِہجومِ یاراں
کنجِ تنہائی بچا ، وقت بُرا ہونے تک

منکرِ سجدہ ہوا ، راندۂ درگاہ مگر
برسرِفتنہ ہے اب حشر بپا ہونے تک


لاکھ ہوں عشق کے دعوے مگر اے ابنِ رضا!
بات بنتی نہیں راضی برضا ہونے تک


ٹیگ: جنابِ الف عین صاحب، جنابِ محمد یعقوب آسی صاحب
بھائی مزمل شیخ بسمل صاحب و دیگر برادران۔
 
آخری تدوین:
لاکھ ہو اِدِّعأ عشق کسی بھی دل میں
بات بنتی نہیں راضی برضا ہونے تک

اس شعر کی بابت ایک ذاتی رائے ہے کہ اسے مقطع بنادیں:
لاکھ ہوں عشق کے دعوے مگر اے ابنِ رضا!
بات بنتی نہیں راضی برضا ہونے تک
 

ابن رضا

لائبریرین
لاکھ ہو اِدِّعأ عشق کسی بھی دل میں
بات بنتی نہیں راضی برضا ہونے تک

اس شعر کی بابت ایک ذاتی رائے ہے کہ اسے مقطع بنادیں:
لاکھ ہوں عشق کے دعوے مگر اے ابنِ رضا!
بات بنتی نہیں راضی برضا ہونے تک
توجہ کے لیے ممنون ہوں برادر، نظارے کو تو فوری طور پر مناظر سے بدل رہا ہوں باقی بھی تجاویز نہایت اچھی ہیں۔ ذرا اساتذہ کرام بھی رائے دے دیں تو پھر دیگر تدوین کرتا ہوں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
توجہ کے لیے ممنون ہوں برادر، نظارے کو تو فوری طور پر مناظر سے بدل رہا ہوں باقی بھی تجاویز نہایت اچھی ہیں۔ ذرا اساتذہ کرام بھی رائے دے دیں تو پھر دیگر تدوین کرتا ہوں۔
وفا ہونے تک بھی مناسب رہے گا ۔
 

طارق شاہ

محفلین
جناب ابن رضا صاحب !
اچھے کہے اشعار ہیں خود ہی کچھ روز وقفے وقفے سے دیکھ لیتے (یوں اب بھی کر سکتے ہیں ) تو
مکمل اور از خود درست اور صاف کرلیتے :)
دیکھیں اساتذہ صاحبان کیا کہتے ہیں ، میری اپنی یک نظر کا شاخسانہ کہیں ، آپ کی ذہنی آبیاری کے لئے حاضر ہے

عہد و پیمانِ محبّت کے وفا ہونے تک
سربسجدہ ہُوں رضا، آہ رسا ہونے تک

چشمِ آشفتہ نے دیکھے ہیں مناظر کیا کیا
طفلِ لاچار سے دھرتی کا خُدا ہونے تک

عہدِ ثروت میں ر ہا غرقِ ہجومِ عشرت
کنجِ تنہائی بچا ، وقت بُرا ہونے تک

دعویِٰ عشقِ حقیقی بھی اگر ہو دل میں
بات بنتی نہیں راضی برضا ہونے تک

منکرِ سجدہ ہُوا ، راندۂ درگاہ لیکن
برسرِ کد رہا آدم کو سزا ہونے تک

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ بہت بہتر سوچ لیں گے
بہت خوش رہیں اور ضرور لکھتے رہیں :):)
 

ابن رضا

لائبریرین
جناب ابن رضا صاحب !
اچھے کہے اشعار ہیں خود ہی کچھ روز وقفے وقفے سے دیکھ لیتے (یوں اب بھی کر سکتے ہیں ) تو
مکمل اور از خود درست اور صاف کرلیتے :)
دیکھیں اساتذہ صاحبان کیا کہتے ہیں ، میری اپنی یک نظر کا شاخسانہ کہیں ، آپ کی ذہنی آبیاری کے لئے حاضر ہے

عہد و پیمانِ محبّت کے وفا ہونے تک
سربسجدہ ہُوں رضا، آہ رسا ہونے تک

چشمِ آشفتہ نے دیکھے ہیں مناظر کیا کیا
طفلِ لاچار سے دھرتی کا خُدا ہونے تک

عہدِ ثروت میں ر ہا غرقِ ہجومِ عشرت
کنجِ تنہائی بچا ، وقت بُرا ہونے تک

دعویِٰ عشقِ حقیقی بھی اگر ہو دل میں
بات بنتی نہیں راضی برضا ہونے تک

منکرِ سجدہ ہُوا ، راندۂ درگاہ لیکن
برسرِ کد رہا آدم کو سزا ہونے تک

۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
آپ بہت بہتر سوچ لیں گے
بہت خوش رہیں اور ضرور لکھتے رہیں :):)
بہت بہت نوازش طارق بھائی، شاد و آباد رہیں
 

الف عین

لائبریرین
مطلع اور ادعائے عشق والے اشعار میں طارق شاہ سے متفق ہوں،
عہدِ عشرت میں مقدر کے سکندرتھے پر
کنجِ تنہائی بچا ، وقت بُرا ہونے تک
÷÷ اگر مقدر کا سکند ہی پسند ہے، تو ’پر‘ کو ’مگر‘ سے بدل دو۔

منکرِ سجدہ ہوا ، راندۂ درگاہ لیکن
برسرِ کد رہا آدم کو سزا ہونے تک
÷÷درگہ استعمال کرنا غلط ہے، لیکن ’لیکن‘ کو ’مگر‘ سے بدلنے میں کیا قباحت ہے؟
 

طارق شاہ

محفلین
مطلع اور ادعائے عشق والے اشعار میں طارق شاہ سے متفق ہوں،
عہدِ عشرت میں مقدر کے سکندرتھے پر
کنجِ تنہائی بچا ، وقت بُرا ہونے تک
÷÷ اگر مقدر کا سکند ہی پسند ہے، تو ’پر‘ کو ’مگر‘ سے بدل دو۔

منکرِ سجدہ ہوا ، راندۂ درگاہ لیکن
برسرِ کد رہا آدم کو سزا ہونے تک
÷÷درگہ استعمال کرنا غلط ہے، لیکن ’لیکن‘ کو ’مگر‘ سے بدلنے میں کیا قباحت ہے؟

منکرِ سجدہ ہُوا راندۂ درگاہ ، مگر
برسرِ کد رہا آدم کو سزا ہونے تک
بہت خوب ہوگیا ۔

رہی بات مقدر کے سکندر کے پسند ہونے کی ، تو میرے خیال میں
عہد عشرت ہی میں مقدر کا سکندر ہونے کی اصطلاح ہی درست نہیں
مقدر کا سکندر تو وہی ہوگا جو مقدر پر مکمل سکندر ہو، نہ کہ صرف
عہدِ ثروت و عشرت کے دور میں (خواہ وہ کتنا بھی مختصر دور ہو )
اگر مان بھی لیا جائے اسے مقدر کا سکندر ، تو اس کے سب کچھ
ختم ہوجانے یا کنج تنہائی پر افسوس ، تا سف ، یا ملال کیوں ہو ، کہ
وہ تو عہد عشرت کا ہی یا اسی عہد تک کا ہی مقدر کا سکندر تھا ، ہر وقت
کا تو نہیں تھا ۔

میرا تجویزکردہ مصرع میری رائے ہی تھی یعنی حرف آخر نہیں :)
اور یہ صرف مصرعۂ ثانی کی مناسبت بیان اور باہمی ربط
کے تناظر میں سوچ کر کہا تھا ، جس سے اتفاق ضروری بھی نہیں

سوچ واضح کردوں : ہم رنگ الفاظ کو باہمی نسبت ہے :
عہدِ ثروت میں ر ہا غرقِ ہجومِ عشرت
کنجِ تنہائی
بچا ، وقت بُرا ہونے تک

عہدِ ثروت کو ۔۔۔۔۔ وقت برا ہونے تک سے
اور ہجوم عشرت کو ۔۔۔۔ کنج تنہائی سے
اور کہا ں "غرق" تھا کو ۔۔۔۔۔ کیا" بچا " ہے اب ،
سے نسبت ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابن رضا صاحب خود بھی ماشا الله خوب ہی خیال اور
الفاظ کا استعمال کرتے ہیں ، خود ہی سر مارتے رہتے تو
بہتر نتائج برآمد کرسکتے تھے :):)
کہ ہماری بُھدی کا کیا ، کبھی کام کرے ہے کبھی نہیں :)
تشکّر عبید صاحب !
الله آپ کو صحت اور تندرستی عطا رکھے۔
بہت خوش رہیں :):)
 
آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین
مطلع اور ادعائے عشق والے اشعار میں طارق شاہ سے متفق ہوں،
عہدِ عشرت میں مقدر کے سکندرتھے پر
کنجِ تنہائی بچا ، وقت بُرا ہونے تک
÷÷ اگر مقدر کا سکند ہی پسند ہے، تو ’پر‘ کو ’مگر‘ سے بدل دو۔

منکرِ سجدہ ہوا ، راندۂ درگاہ لیکن
برسرِ کد رہا آدم کو سزا ہونے تک
÷÷درگہ استعمال کرنا غلط ہے، لیکن ’لیکن‘ کو ’مگر‘ سے بدلنے میں کیا قباحت ہے؟
استاد محترم بتائیے گا کہ ایماں کو ہم فعو شمار کرتے ہیں تو ایفا کو کیوں نہیں؟؟
دوسرا یہ کہ ساکن حرف کو متحرک کرنے کا قائدہ کیا ہے
 

ابن رضا

لائبریرین
منکرِ سجدہ ہُوا راندۂ درگاہ ، مگر
برسرِ کد رہا آدم کو سزا ہونے تک
بہت خوب ہوگیا ۔

رہی بات مقدر کے سکندر کے پسند ہونے کی ، تو میرے خیال میں
عہد عشرت ہی میں مقدر کا سکندر ہونے کی اصطلاح ہی درست نہیں
مقدر کا سکندر تو وہی ہوگا جو مقدر پر مکمل سکندر ہو، نہ کہ صرف
عہدِ ثروت و عشرت کے دور میں (خواہ وہ کتنا بھی مختصر دور ہو )
اگر مان بھی لیا جائے اسے مقدر کا سکندر ، تو اس کے سب کچھ
ختم ہوجانے یا کنج تنہائی پر افسوس ، تا سف ، یا ملال کیوں ہو ، کہ
وہ تو عہد عشرت کا ہی یا اسی عہد تک کا ہی مقدر کا سکندر تھا ، ہر وقت
کا تو نہیں تھا ۔

میرا تجویزکردہ مصرع میری رائے ہی تھی یعنی حرف آخر نہیں :)
اور یہ صرف مصرعۂ ثانی کی مناسبت بیان اور باہمی ربط
کے تناظر میں سوچ کر کہا تھا ، جس سے اتفاق ضروری بھی نہیں

سوچ واضح کردوں : ہم رنگ الفاظ کو باہمی نسبت ہے :
عہدِ ثروت میں ر ہا غرقِ ہجومِ عشرت
کنجِ تنہائی
بچا ، وقت بُرا ہونے تک

عہدِ ثروت کو ۔۔۔ ۔۔ وقت برا ہونے تک سے
اور ہجوم عشرت کو ۔۔۔ ۔ کنج تنہائی سے
اور کہا ں "غرق" تھا کو ۔۔۔ ۔۔ کیا" بچا " ہے اب ،
سے نسبت ہے
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
ابن رضا صاحب خود بھی ماشا الله خوب ہی خیال اور
الفاظ کا استعمال کرتے ہیں ، خود ہی سر مارتے رہتے تو
بہتر نتائج برآمد کرسکتے تھے :):)
کہ ہماری بُھدی کا کیا ، کبھی کام کرے ہے کبھی نہیں :)
تشکّر عبید صاحب !
الله آپ کو صحت اور تندرستی عطا رکھے۔
بہت خوش رہیں :):)

طارق بھائی آپ کی مجوزہ اصلاح کو من و عن قبول کرنے میں کوئی عار نہیں کہ آپ نے خوب صلاح دی ہے۔تاہم جہاں تک مقدر کے سکندر والی بات ہے تو اس پرصد فی صد متفق ہوں تاہم ذرا مزید تخیل کے بال و پر آزمانا مقصود ہے۔ کہ میرا محور الفاظ کے مربوط ہونے کے علاوہ تاریخ ساز واقعات کو بطور تشبیہ استعمال کرنا بھی ہے۔ اس لیے کچھ توقف سے کام لے رہا ہوں۔ آپ کی محبت پر تشکر بسیار۔ شادوآباد رہیں۔ :):)
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین
طارق بھائی آپ کی مجوزہ اصلاح کو من و عن قبول کرنے میں کوئی عار نہیں کہ آپ نے خوب صلاح دی ہے۔تاہم جہاں تک مقدر کے سکندر والی بات ہے تو اس پر ذرا مزید تخیل کے بال و پر آزمانا مقصود ہے۔ کہ میرا محور الفاظ کے مربوط ہونے کے علاوہ تاریخ ساز واقعات کو بطور تشبیہ استعمال کرنا بھی ہے۔ اس لیے کچھ توقف سے کام لے رہا ہوں۔ آپ کی محبت پر تشکر بسیار۔ شادوآباد رہیں۔ :):)
یقینا آپ بہت بہتر سوچ سکتے ہیں ،میرا لکھا بغیر پکا یعنی جس پر وقت لگا ہی نہیں کی طرح ہی ہوتا ہے ، مقصد اپنا خیال شیئر کرنا ہی مقصود یا دوست بھائی
پر کچھ اور خوب کا دباؤ ڈالنا ہی کی طرح ہوتا ہے۔ اور یہاں ایک فیملی کی طرح ہیں کوئی بات حرف آخر تو ہے نہیں ، میرے لئے کچھ اچھا نظر آئے گا
تو آپ بھی اسی طرح ہی میرے لئے لکھیں گے
ہم روز ہی ایک دوسرے سے سیکھنے کے عمل میں ہیں ، اور یہی ارتقائی عمل ہے :):)
 

ابن رضا

لائبریرین
اسی کو پیش کر دیجئے۔یہ بھی ایک مثال ہو جائے گی۔:)
جی تلاش کرتا ہوں۔ تاہم مسئلہ یہ ہے کہ گاہے گاہے دیگر حضرات کی شاعری پر بھی اساتذہ اکرام کی رائے دیکھتا رہتا ہوں اب یاد نہیں کہ یہ کہاں نکتہ آرائی ہوئی تھی۔ لیکن لاشعور میں کہیں ایسے ہی تھی تو اس لیے ہی ایفا کو وفا پر ترجیح دی تھی۔
 

ابن رضا

لائبریرین
سوچ واضح کردوں : ہم رنگ الفاظ کو باہمی نسبت ہے :
عہدِ ثروت میں ر ہا غرقِ ہجومِ عشرت
کنجِ تنہائی
بچا ، وقت بُرا ہونے تک

اس مصرع پر غور فرمائیں

عہدِ شاہی میں رہے غرقِ ہجومِ یاراں
کنجِ تنہائی بچا ، وقت بُرا ہونے تک
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
طارق بھائی و عاطف بھائی اس مصرع کی بابت آپ کی کیا رائے ہے؟؟؟
عیش کوشی میں رہے ڈوبے عہدِ شاہی میں
کنجِ تنہائی بچا ، وقت بُرا ہونے تک

وزن سے قطع نظر مجھے تو یہ پہلا مصرع غیر واضح ہو نے کی وجہ سے شعر کو تخیل کے ابلاغ سے عاری یا کم از کم ضعیف کر رہا ہے دوسرے مصرع میں بھی مضمون کو سمیٹ نہیں رہا۔
 
Top