اب کے پیمانِ محبت کے وفا ہونے تک

ابن رضا

لائبریرین
وزن سے قطع نظر مجھے تو یہ پہلا مصرع غیر واضح ہو نے کی وجہ سے شعر کو تخیل کے ابلاغ سے عاری یا کم از کم ضعیف کر رہا ہے دوسرے مصرع میں بھی مضمون کو سمیٹ نہیں رہا۔
جی اسی وجہ سے میں نے اسے حذف کر لیا تھا۔ آپ تازہ مصرع پر نظر فرمائیں

عہدِ شاہی میں رہے غرقِ ہجومِ یاراں
کنجِ تنہائی بچا ، وقت بُرا ہونے تک

مزیدیہ کہ مطلع میں اگر یہ معمولی سی تدوین کر دی جائے ؟؟
عہدو اب کے پیمانِ محبت کے وفا ہونے تک
سربسجدہ ہوں رضا آہ رسا ہونے تک

 
آخری تدوین:
3۔ لفظ ’’لاچار‘‘ کو دیکھ لیجئے کہ یہ فارسی لفظ کے طور پر مقبول ہے یا نہیں، کہ یہاں اس سے ،ملتا جلتا لفظ ’’ناچار‘‘ بھی رائج ہے۔
 

عہدِ ثروت میں ر ہا غرقِ ہجومِ عشرت
کنجِ تنہائی بچا ، وقت بُرا ہونے تک

’’وقت برا ہونا‘‘ خلافِ محاورہ ہے۔ ’’برا وقت آنا‘‘ معروف ہے۔ مزید، کہ شعر کا مفہومِ مقصود ہے ’’برا وقت آنے پر‘‘ نہ کہ ’’برا وقت آنے تک‘‘۔
توجہ فرمائیے گا۔
 

دعویِٰ عشقِ حقیقی بھی اگر ہو دل میں
بات بنتی نہیں راضی برضا ہونے تک
دعوٰی دل میں نہیں ہوتا، بلکہ اعلان یا اظہار ہو تو دعوٰی ہوتا ہے، اظہار نہ ہو بات دل میں رہے تو اس کو دعوٰی نہیں کہتے۔ اس کو مُدعا، اِدعا (دال مشدد) البتہ کہا جا سکتا ہے۔
اس مصرعے میں یہ لفظ ’’دع + و + اے‘‘ پڑھیں تو وزن میں آتا ہے، جب کہ الف مقصورہ کو گرانا میرے نزدیک محل نظر ہے۔ اہلِ علم سے مشورہ کر لیجئے گا۔
 

ابن رضا

لائبریرین
1۔ جناب محمد اسامہ سَرسَری نے اچھا مشورہ دیا ہے، وہ مقطع بنانے والا۔
2۔ ’’اب کے‘‘ اور ’’اب کہ‘‘ ان کے معانی مختلف ہو جاتے ہیں۔ آپ کا مقصود کیا ہے، دیکھ لیجئے گا۔

استادِ محترم ’’اب کے‘‘ اور ’’اب کہ‘‘ فرق کی وضاحت فرما دیں
 

منکرِ سجدہ ہوا ، راندۂ درگاہ مگر
برسرِ کد رہا آدم کو سزا ہونے تک
اس شعر کی فنیات پر احباب کے مشورے مناسب ہیں۔
معنوی سطح پر یہ خلافِ واقعہ ہے۔
حضرتِ آدم علیہ السلام کو باغِ بہشت سے حکم سفر مل جانے کے بعد کیا اُس منکر نے آدم یا اولادِ آدم سے کنارہ کر لیا؟ نہیں! بلکہ وہ تو قیامت تک انسانوں کو بھٹکاتا رہے گا۔
اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم؛ من ہمزہٍ و نفسہٍ و نفثہٍ۔
 
استادِ محترم ’’اب کے‘‘ اور ’’اب کہ‘‘ فرق کی وضاحت فرما دیں
اب کے = اس بار
ع: اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں

اب کہ = اب جب کہ (گویا صورتِ حال میں کوئی تبدیلی واقع ہو گئی ہو)۔
کوئی مثال فوری طور پر ذہن میں نہیں آ رہی۔
 

ابن رضا

لائبریرین

منکرِ سجدہ ہوا ، راندۂ درگاہ مگر
برسرِ کد رہا آدم کو سزا ہونے تک
اس شعر کی فنیات پر احباب کے مشورے مناسب ہیں۔
معنوی سطح پر یہ خلافِ واقعہ ہے۔
حضرتِ آدم علیہ السلام کو باغِ بہشت سے حکم سفر مل جانے کے بعد کیا اُس منکر نے آدم یا اولادِ آدم سے کنارہ کر لیا؟ نہیں! بلکہ وہ تو قیامت تک انسانوں کو بھٹکاتا رہے گا۔
اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم؛ من ہمزہٍ و نفسہٍ و نفثہٍ۔
جی بجا فرمایا۔ اگر صرف اسی واقعہ تک محدود رہا جائے تو کیا "کو سزا " کو "سے خطا" اگر کر دیا جائے تو کیا کچھ بہتری ہوسکتی ہے؟
 

زاہد ملک

محفلین
سچ بتاؤں تو مجھے سرے سے ہی سمجھ نہیں آ رہی۔میری اردو بھی میرے اشعار کی طرح ابھی کچی ہی ہے۔ امید ہے کہ اساتذہ کرام کی صحبت میں رہتے ہوئے پک جائے گی۔:flower:
 
استاد محترم از راہ کرم اب اس شعر پر غور فرمائیے گا

منکرِ سجدہ ہوا ، راندۂ درگاہ مگر
برسرِ فتنہ ہے اب حشر بپا ہونے تک

مناسب ہے، پہلے مصرعے کو بہتر کر لیجئے۔ اوپر کسی دوست نے مگر کی جگہ کچھ اور الفاظ تجویز کئے تھے، وہ بھی دیکھ لیجئے گا۔
 

ابن رضا

لائبریرین



منکرِ سجدہ ہوا ، راندۂ درگاہ مگر
برسرِفتنہ ہے اب حشر بپا ہونے تک

دو مختلف الفاظ کےہجائے کوتاہ کو ملا کر ہجائے بلند باندھنے کا قائدہ کیا ہے ، وضاحت فرمائیے گا۔
 



منکرِ سجدہ ہوا ، راندۂ درگاہ مگر
برسرِفتنہ ہے اب حشر بپا ہونے تک

دو مختلف الفاظ کےہجائے کوتاہ کو ملا کر ہجائے بلند باندھنے کا قائدہ کیا ہے ، وضاحت فرمائیے گا۔

آپ کا سوال واضح نہیں ہے۔ معذرت میں سمجھ نہیں پایا۔
در اصل عروضی ارکان مصرعے کی لفظی ساخت سے غیر متعلق ہیں۔ تفصیل پھر سہی۔ فی الوقت جو میں سمجھا ہوں اس کا جواب یہ ہے کہ آپ کی بحر ہے:
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعِلُن
اس میں پہلا فاعلاتن بدل کر فعلاتن بھی کیا جاسکتا ہے، آخری فعِلُن کو عین ساکن فعْلُن بھی کر سکتے ہیں۔ اور درمیانے ارکان میں سے کسی ایک فعِلاتن کو مفعولن بھی کیا جاسکتا ہے۔ اور ان سارے اوزان کو ایک غزل میں جمع بھی کیا جاسکتا ہے۔
امید ہے آپ کی بات کا جواب ہو چکا ہوگا۔ بصورت دیگر سوال کی مزید وضاحت کا طالب ہوں۔
 
Top