اب 50 سال سے کم عمر مسلمان مسجد میں داخل نہیں ہو سکیں گے۔

x boy

محفلین
کیا فقہ اسلامی کی رو سے کسی "مدعی اسلام شخص" کو مخاطب کرکے آپ کا یہ جملہ کہنا درست اور جائز ہے؟؟ اگر جائز ہے تو براہ کرم کتاب کا حوالہ مع عبارت پیش کریں :) :)
نیز ایک سوال مزید کہ جو شخص کسی فرد پر بے جا طعنہ زنی کرتا ہے مذہب اور قوم کے حوالہ سے، تو فقہ اسلامی اس شخص کے متعلق کیا کہتی ہے؟؟ :) :)
خیال رکھیں کہ ہم نے آپ کے لیے فقہ اسلامی کا حوالہ دے کر وسیع میدان فراہم کردیا ہے، کیونکہ قانونی دفعات میں اس طرح کی شقیں بآسانی اور وضاحت سے مل جاتی ہیں :) :)


ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے بھى كسى قوم سے مشابہت اختيار كى وہ انہي ميں سے ہے "

سنن ابو داود كتاب اللباس حديث نمبر ( 3512 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود حديث نمبر ( 3401 ) ميں اسے حسن صحيح قرار ديا ہے.

امام احمد وغيرہ نے اس حديث سے استدلال كيا ہے، اور اس حديث سے كم از كم چيز كفار سے مشابہت كى حرمت ثابت ہوتى ہے، جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فرمان ميں ہے:

" تم ميں سے جو انہيں اپنا دوست بنائے تو وہ انہي ميں سے ہے "
ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اعاجم سے مشابہت اختيار كرنے سے منع كيا اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے كسى قوم سے مشابہت اختيار كى تو وہ انہى ميں سے ہے "

اسے ابو قاضى ابو يعلى نے ذكر كيا ہے، اور اس سے كئى ايك علماء نے غير مسلمانوں كى شكل و شباہت اختيار كرنے كى كراہت پر استدلال كيا ہے " اھ۔

ديكھيں: عون المعبود شرح سنن ابو داود.

كفار سے مشابہت دو طرح كى ہے:

حرام مشابہت اور مباح مشابہت.
 
ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے بھى كسى قوم سے مشابہت اختيار كى وہ انہي ميں سے ہے "

سنن ابو داود كتاب اللباس حديث نمبر ( 3512 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود حديث نمبر ( 3401 ) ميں اسے حسن صحيح قرار ديا ہے.

امام احمد وغيرہ نے اس حديث سے استدلال كيا ہے، اور اس حديث سے كم از كم چيز كفار سے مشابہت كى حرمت ثابت ہوتى ہے، جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فرمان ميں ہے:

" تم ميں سے جو انہيں اپنا دوست بنائے تو وہ انہي ميں سے ہے "
ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اعاجم سے مشابہت اختيار كرنے سے منع كيا اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے كسى قوم سے مشابہت اختيار كى تو وہ انہى ميں سے ہے "

اسے ابو قاضى ابو يعلى نے ذكر كيا ہے، اور اس سے كئى ايك علماء نے غير مسلمانوں كى شكل و شباہت اختيار كرنے كى كراہت پر استدلال كيا ہے " اھ۔

ديكھيں: عون المعبود شرح سنن ابو داود.

كفار سے مشابہت دو طرح كى ہے:

حرام مشابہت اور مباح مشابہت.
چنانچہ ثابت ہوگیا کہ کوئی مسلمان، کسی غیر مسلم (یہودی، عیسائی وغیرہ) کی مشابہت اختیار کرے تو اسے یہودی، عیسائی وغیرہ کہنا جائز ہے اور اسے یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ تو اس قوم سے ہے مسلمانوں میں سے نہیں :) :)
کیا اسلامی قانون اس استدلال کو درست قرار دے گا؟؟ :) :)
اور ہمارا دوسرا سوال ابھی تشنہ جواب ہے :) :)
 
جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فرمان ميں ہے:" تم ميں سے جو انہيں اپنا دوست بنائے تو وہ انہي ميں سے ہے
محترم ایکس بوائے صاحب! ہمارے خیال میں آپ کے بھی تو غیر مسلم دوست ہونگے؟؟ :) :)
اور ویسے بھی جن احباب کو آپ نے یہاں محفل میں "قوم دیگر" سے وابستہ قرار دیا ہے، وہ بھی آپ کے دوست ہی ہیں نا :) :)
مذکورہ دونوں سوال، حدیث کے ترجمہ میں موجود لفظ "دوست" کو سامنے رکھ کرکیے ہیں، جسے ہر اردو داں سمجھتا ہے، اس لیے براہ کرم اب کوئی لفظی توجیہ پیش نہ کیجیے گا :) :)
 

x boy

محفلین
محترم ایکس بوائے صاحب! ہمارے خیال میں آپ کے بھی تو غیر مسلم دوست ہونگے؟؟ :) :)
اور ویسے بھی جن احباب کو آپ نے یہاں محفل میں "قوم دیگر" سے وابستہ قرار دیا ہے، وہ بھی آپ کے دوست ہی ہیں نا :) :)
مذکورہ دونوں سوال، حدیث کے ترجمہ میں موجود لفظ "دوست" کو سامنے رکھ کرکیے ہیں، جسے ہر اردو داں سمجھتا ہے، اس لیے براہ کرم اب کوئی لفظی توجیہ پیش نہ کیجیے گا :) :)
لگتا ہے کہ احادیث نے آپکی سمجھ کو عبور نہیں کیا،،،
معذرت زیادہ بحث نہیں کرونگا،
دنیاوی امور میں کام چلانے کے لئے کسی کو بھی مالی تعاون دے بھی سکتے ہیں لے بھی سکتے ہیں انکی مدد بھی کرسکتے ہیں لے بھی سکتے ہیں
لیکن دینی امور میں ہر گز نہیں۔
 
لگتا ہے کہ احادیث نے آپکی سمجھ کو عبور نہیں کیا،،،
معذرت زیادہ بحث نہیں کرونگا،
دنیاوی امور میں کام چلانے کے لئے کسی کو بھی مالی تعاون دے بھی سکتے ہیں لے بھی سکتے ہیں انکی مدد بھی کرسکتے ہیں لے بھی سکتے ہیں
لیکن دینی امور میں ہر گز نہیں۔
ہم نے پہلے ہی کہا تھا کہ کوئی لفظی توجیہ پیش نہ کیجیے گا، کیونکہ ہمیں معلوم تھا کہ آپ نے بعد میں یہی کہنا ہے :) :)
آپ نے مراسلہ کو شاید سمجھا نہیں، دراصل ہمیں حدیث کے ترجمہ میں موجود لفظ دوست پر اعتراض ہے، یہ لفظ بتا رہا ہے کہ مترجم اسلامی قانون ولاء سے واقفیت نہیں رکھتے :) :)
 

x boy

محفلین
ہم نے پہلے ہی کہا تھا کہ کوئی لفظی توجیہ پیش نہ کیجیے گا، کیونکہ ہمیں معلوم تھا کہ آپ نے بعد میں یہی کہنا ہے :) :)
آپ نے مراسلہ کو شاید سمجھا نہیں، دراصل ہمیں حدیث کے ترجمہ میں موجود لفظ دوست پر اعتراض ہے، یہ لفظ بتا رہا ہے کہ مترجم اسلامی قانون ولاء سے واقفیت نہیں رکھتے :) :)
مجھے بھی کوئی سمجھا دے کے دوست کے معنی کیا ہے
عربی میں صدیق خاص ہوتا ہے رفیق عام ہوتا ہے جیران محلے کا کوئی بھی۔
 
چنانچہ ثابت ہوگیا کہ کوئی مسلمان، کسی غیر مسلم (یہودی، عیسائی وغیرہ) کی مشابہت اختیار کرے تو اسے یہودی، عیسائی وغیرہ کہنا جائز ہے اور اسے یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ تو اس قوم سے ہے مسلمانوں میں سے نہیں :) :)
کیا اسلامی قانون اس استدلال کو درست قرار دے گا؟؟ :) :)
اور ہمارا دوسرا سوال ابھی تشنہ جواب ہے :) :)
اس مراسلہ کا جواب بھی اگر عنایت فرمادیں تو مہربانی ہوگی :) :)
 

x boy

محفلین
اس مراسلہ کا جواب بھی اگر عنایت فرمادیں تو مہربانی ہوگی :) :)

میں نے احادیث میں مشابہت پڑی ہے


حرام مشابہت:

وہ يہ ہے كہ كسى ايسے فعل كو سرانجام دينا جو كفار كے دين كے خصائص ميں سے ہے، اور ا سكا علم بھى ہو، اور يہ چيز ہمارى شرع ميں نہ پائى جائے... تو يہ حرام ہے، اور بعض اوقات تو كبيرہ گناہ ميں شامل ہو گى، بلكہ دليل كے حساب سے تو بعض اوقات كفر بن جائيگى.

چاہے كسى شخص نے اسے كفار كى موافقت كرتے ہوئے كيا ہو، يا پھر اپنى خواہش كے پيچھے چل كر، يا كسى شبہ كى بنا پر جو اس كے خيال ميں لائے كہ يہ چيز دنيا و آخرت ميں فائدہ مند ہے.

اور اگر يہ كہا جائے كہ: كيا اگر كسى نے يہ عمل جہالت كى بنا پر كيا تو كيا وہ اس سے گنہگار ہو گا، مثلا جيسے كوئى عيد ميلاد يا سالگرہ منائے ؟

تواس كا جواب يہ ہے كہ:

جاہل اپنى جہالت كى بنا پر گنہگار نہيں ہوگا، ليكن اسے تعليم دى جائيگى اور بتايا جائيگا، اور اگر وہ پھر بھى اصرار كرے تو گنہگار ہوگا.

دوسرى قسم: جائز تشبہ:

يہ ايسا فعل سرانجام دينا ہے جو اصل ميں كفار سے ماخوذ نہيں، ليكن كفار بھى وہ عمل كرتے ہيں، تو اس ميں ممنوع مشابہت نہيں، ليكن ہو سكتا ہے اسميں مخالفت كى منفعت فوت ہو رہى ہو.

اہل كتاب كے ساتھ دينى امور ميں مشابہت كچھ شروط كے ساتھ مباح ہے:

1 - وہ عمل ا نكى عادات اور شعار ميں شامل نہ ہوتا ہو، جس سے ان كفاركى پہچان ہوتى ہے.

2 - يہ كہ وہ عمل اور امر ا نكى شريعت ميں سے نہ ہو، اور ا سكا انكى شريعت ميں سے ہونے كو كوئى ثقہ ناقل ہى ثابت كر سكتا ہے، مثلا اللہ تعالى ہميں اپنى كتاب قرآن مجيد ميں بتا دے، يا پھر اپنے رسول كى زبان سے بتا دے، يا پھر متواتر نقل سے ثابت ہو جائے، جيسا كہ پہلى امتوں ميں سلام كے وقت جھكنا جائز تھا.

3 - ہمارى شريعت ميں ا سكا خاص بيان نہ ہو، ليكن اگر موافقت يا مخالفت ميں خاص بيان ہو تو ہم اس پر اكتفا كرينگے جو ہمارى شريعت ميں آيا ہے.

4 - يہ موافقت كسى شرعى امور كى مخالفت كا باعث نہ بن رہى ہو.

5 - ان كے تہواروں ميں موافت نہ ہو.

6 - اس ميں موافقت مطلوبہ ضرورت كے مطابق ہو، اس سے زائد نہ ہو.

ديكھيں: كتاب السنن والآثار فى النھى عن التشبہ بالكفار تاليف سھيل حسن صفحہ ( 58 - 59 ).

واللہ اعلم .
 
میں نے احادیث میں مشابہت پڑی ہے


حرام مشابہت:

وہ يہ ہے كہ كسى ايسے فعل كو سرانجام دينا جو كفار كے دين كے خصائص ميں سے ہے، اور ا سكا علم بھى ہو، اور يہ چيز ہمارى شرع ميں نہ پائى جائے... تو يہ حرام ہے، اور بعض اوقات تو كبيرہ گناہ ميں شامل ہو گى، بلكہ دليل كے حساب سے تو بعض اوقات كفر بن جائيگى.

چاہے كسى شخص نے اسے كفار كى موافقت كرتے ہوئے كيا ہو، يا پھر اپنى خواہش كے پيچھے چل كر، يا كسى شبہ كى بنا پر جو اس كے خيال ميں لائے كہ يہ چيز دنيا و آخرت ميں فائدہ مند ہے.

اور اگر يہ كہا جائے كہ: كيا اگر كسى نے يہ عمل جہالت كى بنا پر كيا تو كيا وہ اس سے گنہگار ہو گا، مثلا جيسے كوئى عيد ميلاد يا سالگرہ منائے ؟

تواس كا جواب يہ ہے كہ:

جاہل اپنى جہالت كى بنا پر گنہگار نہيں ہوگا، ليكن اسے تعليم دى جائيگى اور بتايا جائيگا، اور اگر وہ پھر بھى اصرار كرے تو گنہگار ہوگا.

دوسرى قسم: جائز تشبہ:

يہ ايسا فعل سرانجام دينا ہے جو اصل ميں كفار سے ماخوذ نہيں، ليكن كفار بھى وہ عمل كرتے ہيں، تو اس ميں ممنوع مشابہت نہيں، ليكن ہو سكتا ہے اسميں مخالفت كى منفعت فوت ہو رہى ہو.

اہل كتاب كے ساتھ دينى امور ميں مشابہت كچھ شروط كے ساتھ مباح ہے:

1 - وہ عمل ا نكى عادات اور شعار ميں شامل نہ ہوتا ہو، جس سے ان كفاركى پہچان ہوتى ہے.

2 - يہ كہ وہ عمل اور امر ا نكى شريعت ميں سے نہ ہو، اور ا سكا انكى شريعت ميں سے ہونے كو كوئى ثقہ ناقل ہى ثابت كر سكتا ہے، مثلا اللہ تعالى ہميں اپنى كتاب قرآن مجيد ميں بتا دے، يا پھر اپنے رسول كى زبان سے بتا دے، يا پھر متواتر نقل سے ثابت ہو جائے، جيسا كہ پہلى امتوں ميں سلام كے وقت جھكنا جائز تھا.

3 - ہمارى شريعت ميں ا سكا خاص بيان نہ ہو، ليكن اگر موافقت يا مخالفت ميں خاص بيان ہو تو ہم اس پر اكتفا كرينگے جو ہمارى شريعت ميں آيا ہے.

4 - يہ موافقت كسى شرعى امور كى مخالفت كا باعث نہ بن رہى ہو.

5 - ان كے تہواروں ميں موافت نہ ہو.

6 - اس ميں موافقت مطلوبہ ضرورت كے مطابق ہو، اس سے زائد نہ ہو.

ديكھيں: كتاب السنن والآثار فى النھى عن التشبہ بالكفار تاليف سھيل حسن صفحہ ( 58 - 59 ).

واللہ اعلم .
کیا ہمارے سوالات تشبہ اور مشابہت سے متعلق ہیں؟؟ آپ غیر متعلق دلائل پیش کررہے ہیں :) :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
کیا ہمارے سوالات تشبہ اور مشابہت سے متعلق ہیں؟؟ آپ غیر متعلق دلائل پیش کررہے ہیں :) :)
آپ کو عبرانی آتی ہے۔۔۔ اس مشابہت کی وجہ سے آپ کے یہود ہونے پر کیا شک باقی رہ جاتا ہے۔ اور مسلمانوں کو ورغلانے کو آپ نے عربی بھی سیکھ رکھی ہے۔۔۔ میاں اس طرح روپ بہروپ بدل کر وار مت کرو۔۔۔ :p
 
آپ کو عبرانی آتی ہے۔۔۔ اس مشابہت کی وجہ سے آپ کے یہود ہونے پر کیا شک باقی رہ جاتا ہے۔ اور مسلمانوں کو ورغلانے کو آپ نے عربی بھی سیکھ رکھی ہے۔۔۔ میاں اس طرح روپ بہروپ بدل کر وار مت کرو۔۔۔ :p
لیکن ہم سے قسم لے لیں کہ ہمارا تعلق کسی کلب سے نہیں :p:p
 
کیا ہمارے سوالات تشبہ اور مشابہت سے متعلق ہیں؟؟ آپ غیر متعلق دلائل پیش کررہے ہیں :) :)
آسانی کے لیے وضاحت کردیں کہ ہمارے سوالات یہ ہیں کہ کیا کوئی شخص حرام مشابہت کا مرتکب تو جس قوم کی وہ مشابہت اختیار کررہا ہے ہم اسے اس قوم کا حصہ قرار دے سکتے ہیں؟ مثلا کوئی شخص یہود کی مشابہت کررہا ہے تو کیا ہم اسے یہودی کہہ سکتے ہیں اور قرار دے سکتے ہیں؟؟ :) :)
نیز اگر کوئی شخص اس حرام کام کے مرتکب شخص کو کسی قوم کا حصہ کہہ دے تو کہنے والا فقہ اسلامی کی نظر میں کیا ہے؟؟ :) :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
آسانی کے لیے وضاحت کردیں کہ ہمارے سوالات یہ ہیں کہ کیا کوئی شخص حرام مشابہت کا مرتکب تو جس قوم کی وہ مشابہت اختیار کررہا ہے ہم اسے اس قوم کا حصہ قرار دے سکتے ہیں؟ مثلا کوئی شخص یہود کی مشابہت کررہا ہے تو کیا ہم اسے یہودی کہہ سکتے ہیں اور قرار دے سکتے ہیں؟؟ :) :)
نیز اگر کوئی شخص اس حرام کام کے مرتکب شخص کو کسی قوم کا حصہ کہہ دے تو کہنے والا فقہ اسلامی کی نظر میں کیا ہے؟؟ :) :)
اس کا جواب یہ ہے کہ ہم کسی کو بھی اس قوم کا حصہ قرار دے سکتے ہیں۔ لیکن اگر وہی شخص جوابی کارروائی کرتے ہوئے یہی رویہ اختیار کرے۔ تو سخت سزا کا حقدار ہے۔ اور ایسے شخص کو ڈھیٹ کا لقب بھی دینا چاہیے۔
دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ چونکہ ہم قرآن و حدیث کے خودساختہ ٹھیکیدار ہیں۔ اور بنا استاد کی تربیت کے ہم کو باآسانی ترجمہ انٹرنیٹ سے مل جاتا ہے۔ سو ہم اس کا بےدردی سے اور بےدریغ استعمال کرنے میں حق بجانب ہیں۔ کیوں کہ ہم نے خود کو عملی مسلمان کی سب سے بلند مسند پر بھی بٹھا رکھا ہے۔ اور اگر کوئی ہمارے ان حوالوں اور تراجم پر اعتراض کرتا ہے۔ تو یقین مانیے ایسا شخص ایجنٹ ہے۔ اور اس کا مقصد صرف انتشار پھیلانا ہے۔ تاکہ اصل مسلمانوں کو رسوا کیا جا سکے۔

میرے جوابات ازحد سنجیدہ ہیں۔ کسی نے ان کو پرمزاح کیا ۔۔۔۔تو اپنے کیے کی سزا پائے گا۔۔۔ :p
 
Top