سید عاطف علی
لائبریرین
میرا خیال یہ ہے کہ لفظ لغت (ماضی میں لفظ -الفاظ ) کے معنی میں بھی مستعمل رہا ہے جو کہ اب نہیں ۔یہاں دی گئی امثال تو کچھ اور کہتی ہیں۔
فرہنگِ آصفیہ کے مطابق بھی مذکر ہے۔
آپ کا آج کا مشاہدہ اور تجربہ کیا کہتا ہے ؟
میرا خیال یہ ہے کہ لفظ لغت (ماضی میں لفظ -الفاظ ) کے معنی میں بھی مستعمل رہا ہے جو کہ اب نہیں ۔یہاں دی گئی امثال تو کچھ اور کہتی ہیں۔
فرہنگِ آصفیہ کے مطابق بھی مذکر ہے۔
میں نے شربت پی لی ۔اردو کے جس لفظ کے آخر میں ت سے پہلے زبر آکر ”اَت“ کی آواز بنائے وہ مؤنث ہوتاہے۔ مثلا : صداقت، لیاقت، امانت، دیانت، ظلمت“ وغیرہ۔
بھارت ۔شربت ۔ پربت ۔یہ ت کیوں کہ عربی کی ۃ (تا مربوطۃ ) کا متبال ہوتا ہے جو لفظی تانیث کی عام علامت ہے لہذا اردو میں عموما یہی چلن عام ہے۔ لفظ لغت بھی اس سے مستثنی نہیں ۔
ویسےاگر کوئی غیر عربی لفظ اگر اس قاعدے سے ہٹ کر مل جائے تو عجب نہیں دلچسپ ہو۔
مشاہدہ تو یہی ہے کہ اردو لغت بورڈ نے بھی اب ہر جگہ مؤنث ہی استعمال کیا ہے۔ اور عمومی طور پر بھی ایسا ہی ہے۔آپ کا آج کا مشاہدہ اور تجربہ کیا کہتا ہے ؟
"تھا" سے بات تو ختم ہوجاتی ہے بھائی ۔ ہر زمانے کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں اور اپنا رنگ ڈھنگ ۔اسے غلط کہنےکا بوجھ اپنے سرلینے کی کیا ضرورت ہے۔مشاہدہ تو یہی ہے کہ اردو لغت بورڈ نے بھی اب ہر جگہ مؤنث ہی استعمال کیا ہے۔ اور عمومی طور پر بھی ایسا ہی ہے۔
اب یہ تو علمائے اردو ہی بتا سکتے ہیں کہ غلط العام ہے یا غلط العوام۔
یا مذکر کہنا غلط العام تھا یا غلط العوام۔
تابش بھائی ، لغت مذکر اور مؤنث دونوں طرح استعمال ہوا ہے ۔ پہلے مذکر ہی استعمال ہوتا تھا لیکن جیسا کہ عاطف صاحب نےکہا وقت کے ساتھ تجنیس میں فرق آگیا ہے ۔ پچھلے اسی نوے سالہ دور کے ادب کو پڑھئے تو اکثر مؤنث ہی استعمال کیا گیا ہے ۔ حقی صاحب نے بھی فرہنگِ تلفظ میں اسے مذکر اور مؤنث دونوں لکھا ہے ۔مشاہدہ تو یہی ہے کہ اردو لغت بورڈ نے بھی اب ہر جگہ مؤنث ہی استعمال کیا ہے۔ اور عمومی طور پر بھی ایسا ہی ہے۔
اب یہ تو علمائے اردو ہی بتا سکتے ہیں کہ غلط العام ہے یا غلط العوام۔
یا مذکر کہنا غلط العام تھا یا غلط العوام۔
عاطف بھائی ، لفظ لغت اب تک بھی زبان یا لسان کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ بعض اوقات اسلامی کتب یا عربی تراجم میں اس کا استعمال دیکھنے میں آتا ہے ۔ مثلاًً: قرآن لغتِ قریش یا لحنِ قریش پر نازل ہوا وغیرہ ۔میرا خیال یہ ہے کہ لفظ لغت (ماضی میں لفظ -الفاظ ) کے معنی میں بھی مستعمل رہا ہے جو کہ اب نہیں ۔
آپ کا آج کا مشاہدہ اور تجربہ کیا کہتا ہے ؟
جیسا کہ آج کل ایک لڑی میں ہم نے پربت کی ’’درگت‘‘ بنائی ہوئی ہے ۔بھارت ۔شربت ۔ پربت ۔
رواج کیوں نہیں ہے صاحب۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اردو مختلف زبانوں سے بنی ایک کھچڑی زبان ہے اور ہندوستان میں ایک سے زیادہ مراکز پر پروان چڑھی اس لئے تلفظ اور املا کا اختلاف ایک فطری سی بات ہے ۔ ان اختلافات کو خاصی حد تک فیصل کردیا گیا ہے ۔ لیکن سو فیصد ختم کرنا شاید ممکن نہ ہوسکے ۔ املا کے مسائل بہت حد تک حل ہوچکے ۔ اب یہ اور بات ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ لغت دیکھنے پر ہی تیار نہیں ہیں ۔ سہل پسند ہیں ۔ جو اور جیسا دل میں آیا لکھ دیا ۔انگریزی میں اگر کسی لفظ کے ہجے، تلفظ یا معنی پر اختلاف تو کسی معیاری لغت کا حوالہ معاملہ طے کر دیتا ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ اردو میں یہ رواج نہیں ہے۔
غالباً تمام ہی زبانوں میں الفاظ باہر سے درآمد ہوتے رہتے ہیں۔ مثلاً انگریزی لغت میں آپ کو پکوڑا ، سموسہ سب مل جائے گا۔رواج کیوں نہیں ہے صاحب۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اردو مختلف زبانوں سے بنی ایک کھچڑی زبان ہے اور ہندوستان میں ایک سے زیادہ مراکز پر پروان چڑھی اس لئے تلفظ اور املا کا اختلاف ایک فطری سی بات ہے ۔ ان اختلافات کو خاصی حد تک فیصل کردیا گیا ہے ۔ لیکن سو فیصد ختم کرنا شاید ممکن نہ ہوسکے ۔ املا کے مسائل بہت حد تک حل ہوچکے ۔
اسی بات کو رواج کہا ہے۔اب یہ اور بات ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ لغت دیکھنے پر ہی تیار نہیں ہیں ۔ سہل پسند ہیں ۔ جو اور جیسا دل میں آیا لکھ دیا ۔
زبان میں چند نئے الفاظ کا شامل ہونا اور بات ہے اور چند زبانوں سے مل کر ایک بالکل نئی زبان کا بننا بالکل مختلف بات ہے ۔ عملِ تارید ( یعنی غیر زبان کے الفاظ کا ردو کے قالب میں ڈھلنا) جیسی وسیع پیمانے کی مثال دنیا میں شاید ایک دوجگہ ہی ملتی ہے ۔ عربی کے زیرِ اثر موجودہ ہسپانوی زبان کا بننا اس سے ملتی جلتی مثال ہے ۔غالباً تمام ہی زبانوں میں الفاظ باہر سے درآمد ہوتے رہتے ہیں۔ مثلاً انگریزی لغت میں آپ کو پکوڑا ، سموسہ سب مل جائے گا۔
اسی بات کو رواج کہا ہے۔
گویا عثمان بھائی انہیں انگریزی میں Pakora, Smosa کہیں گے؟پکوڑا ، سموسہ
جی ظہیر بھائی لغت کے اصل اور حقیقی معنی تو زبان و لسان ہی ہیں جوآپ نے ذکر فرمائے ہیں اور یہی مقبول ہیں اور دوسرے معنی قاموس بھی ہیں جو اب رائج و مستعمل بھی ہیں ۔ لیکن موجودہ ہردو صورتیں مونث ہی ہیں ۔ لیکن تابش بھائی نے کچھ اشعار مثالوں میں پیش کیے ان میں "لغت" کو "لفظ" کے ہم معنی استعمال میں وارد ہوتے دیکھا جو کہ اب نظر نہیں آتا ۔( مثلا مجھے فلاں زبان کے اتنے لغات معلوم ہیں ۔۔۔یہ استعمال اردو میں اب یکسر متروک ہے۔ ۔۔۔بنات النعش ۔۔۔ خیر النسا : میں شہر والیوں کے لغت کم سمجھتی ہوں ، ۔۔۔ اور ۔۔عاطف بھائی ، لفظ لغت اب تک بھی زبان یا لسان کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ بعض اوقات اسلامی کتب یا عربی تراجم میں اس کا استعمال دیکھنے میں آتا ہے ۔ مثلاًً: قرآن لغتِ قریش یا لحنِ قریش پر نازل ہوا وغیرہ ۔
ویسے پربت جیسے بھاری بھرکم لفظ کی ، اس پہ طرہ یہ کہ مذکر ہوتے ہوئے ، جودرگت (مونث ) بنتے دیکھی حتی کہ اسے سر بازارِ دھاگا نانگا بلکہ ننگا ہوتے تک دیکھا اللہ اللہ۔الحفیظ و الاماں !!! اس کو بیان کریں تو قلم تھرا جائے زبان پھسل پڑے اور فصاحتیں اور بلاغتیں آن واحد میں گنگ ہوجائیں ۔جیسا کہ آج کل ایک لڑی میں ہم نے پربت کی ’’درگت‘‘ بنائی ہوئی ہے ۔
دلچسپ موازنہ ہے۔ ادھر ولگر لاطینی ادھر پراکرت۔موقع ملے تو اس پر کچھ تفصیلی گفتگو ہونی چاہیئےعربی کے زیرِ اثر موجودہ ہسپانوی زبان کا بننا اس سے ملتی جلتی مثال ہے ۔