فاروقی
معطل
السلام علیکم دوستو''
میں نے محسوس کیا ہے کہ ہم مسلمانوں میں اتحاد نام کی کوئی چیز نہیں رہی جس کی وجہ سے ہم پر ہر طرف سے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں ....آج دنیا میں میرے علم کے مطابق 52 اسلامی ممالک موجود ہیں ...اور تعداد کے لحاظ سے بھی مسلمان دنیا کی سب سے بڑی قوم ہیں..لیکن گاجر مولی کی طرح انہیں سمجھا جاتا ہے ......
اکثر دوست کہتے ہیں کہ ہمیں (اسلامی ملکوں کو) ایک اتحاد قائم کرنا چاہیے جیسا کہ یورپی یونیین ہے ...لیکن بھائیوں کہنے سے اتحاد نہیں بن جاتا ...ہر کوئی اتحاد کے نعرے تو لگاتا ہے لیکن اس کے لیئے کبھی کوشش نہیں کرتا ....اور الزام دوسروں کے سر تھونپ دیتا ہے ......
میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جو لوگ /دوست/بھائی / بہنیں اسلامی اتحاد کے حامی ہیں وہ اس گروپ میں شمولیت اختیار کریں اور آج سے عہد کر لیں (ایک ایسا عہد جو ٹوٹ نہ سکے) کہ آج کے بعد ہم سے اسلامی اتحاد بنانےکے لیئے جو بن پڑا کریں گئے. . خدا کی قسم یہ جہاد ہو گا.....52 اسلامی ملک اگر ایک لڑی میں منسلک ہو جائیں تو کسی دشمن کی جرات ہو گی کہ مسلمانوں کی طرف میلی آنکھ سے بھی دیکھ سکے......
آپ مجھ پہ ہنس سکتے ہین کہ کیسی پاگلوں جیسی باتیں کر رہا ہے ....کہ ہم چند لوگ اگر ایسی کوئی کوشش کریں بھی تو کیا وہ کامیاب ہو گی...،.....میرے خیال سے اگر ہم اس مقصد کو اپنا نصب العین بنا لیں اس اتحاد کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیں تو ضرور کچھ نہ کچھ ہو سکتا ہے .....ایک فرد اگر قوموں کی تقدیر بدل سکتا ہے تو ہم اگر چند جسم ایک جان ہو جائیں تو یقینا اپنی قوم کی تقدیر بدل سکتے ہیں.......تو جس جس کو اسلامی اتحاد نہ ہونے کا شکوہ ہے وہ آج سے یہ شکوہ کرنا چھوڑ دے اور اس خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیئے متحد ہو جائے ......
آئیں ہم مل کر ایک ایسی زنجیر بنائیں جسے کوئی توڑ نہ سکے.......بلکہ جو اسے توڑ نا چاہے خود پاش پاش ہو جائے......
ہم میں بھی خدا نے ہر طرح کی صلاحیتیں رکھی ہیں ....ہم اپنے اوپر سے احساس کمتری کی چادر کو اتار کر ایک جذبے ایک لگن سے اگر اپنے کام میں جت جائیں تو خدا بھی برکت دے گا.....ہم ایک دوسرے کو مشورہ دیں .....اس مقصد کے لیئے سوچیں....دوستوں ہم میں آپ میں کوئی کمی نہیں ہم یہ کام کر سکتے ہیں ......آو ہاتھ ملائیں ....آو ایک عظیم عہد کریں ..... یہ میں نے ایک گروپ تشکیل دیا ہے اس میں شمولیت اختیار کر کے ہم اپنی آج کی تاریخ کو بدلنے کی کوشش کریں .......اللہ ہماری مدد کرے گا
آخر میں شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے کچھ اشعار ان کی نظم جواب شکوہ سے
دل سے جو بات نکلتي ہے اثر رکھتي ہے
پر نہيں' طاقت پرواز مگر رکھتي ہے
ہم تو مائل بہ کرم ہيں' کوئي سائل ہي نہيں
راہ دکھلائيں کسے' رہر و منزل ہي نہيں
تربيت عام تو ہے' جوہر قابل ہي نہيں
جس سے تعمير ہو آدم کي' يہ وہ گل ہي نہيں
کوئي قابل ہو تو ہم شان کئي ديتے ہيں
ڈھونڈنے والوں کو دنيا بھي نئي ديتے ہيں
ہاتھ بے زور ہيں' الحاد سے دل خوگر ہيں
امتي باعث رسوائي پيغمبر ہيں
بت شکن اٹھ گئے' باقي جو رہے بت گر ہيں
تھا براہيم پدر اور پسر آزر ہيں
بادہ آشام نئے ، بادہ نيا' خم بھي نئے
حرم کعبہ نيا' بت بھي نئے' تم بھي نئے
وہ بھي دن تھے کہ يہي مايہ رعنائي تھا
نازش موسم گل لالہ صحرائي تھا
جو مسلمان تھا' اللہ کا سودائي تھا
کبھي محبوب تمھارا يہي ہرجائي تھا
کسي يکجائي سے اب عہد غلامي کر لو
ملت احمد مرسل کو مقامي کو لو!
کس قدر تم پہ گراں صبح کي بيداري ہے
ہم سے کب پيار ہے! ہاں نيند تمھيں پياري ہے
طبع آزاد پہ قيد رمضاں بھاري ہے
تمھي کہہ دو يہي آئين و فاداري ہے؟
قوم مذہب سے ہے' مذہب جو نہيں' تم بھي نہيں
جذب باہم جو نہيں' محفل انجم بھي نہيں
جن کو آتا نہيں دنيا ميں کوئي فن' تم ہو
نہيں جس قوم کو پروائے نشيمن، تم ہو
بجلياں جس ميں ہوں آسودہ' وہ خرمن تم ہو
بيچ کھاتے ہيں جو اسلاف کے مدفن، تم ہو
ہو نکو نام جو قبروں کي تجارت کرکے
کيا نہ بيچو گے جو مل جائيں صنم پتھر کے
تم ميں حوروں کا کوئي چاہنے والا ہي نہيں
جلوئہ طور تو موجود ہے' موسي ہي نہيں
منفعت ايک ہے اس قوم کي' نقصان بھي ايک
ايک ہي سب کا نبي' دين بھي' ايمان بھي ايک
حرم پاک بھي' اللہ بھي' قرآن بھي ايک
کچھ بڑي بات تھي ہوتے جو مسلمان بھي ايک
فرقہ بندي ہے کہيں اور کہيں ذاتيں ہيں
کيا زمانے ميں پنپنے کي يہي باتيں ہيں
کون ہے تارک آئين رسول مختار؟
مصلحت وقت کي ہے کس کے عمل کا معيار؟
کس کي آنکھوں ميں سمايا ہے شعار اغيار؟
ہوگئي کس کي نگہ طرز سلف سے بيزار؟
قلب ميں سوز نہيں' روح ميں احساس نہيں
کچھ بھي پيغام محمد کا تمھيں پاس نہيں
واعظ قوم کي وہ پختہ خيالي نہ رہي
برق طبعي نہ رہي، شعلہ مقالي نہ رہي
رہ گئي رسم اذاں روح بلالي نہ رہي
فلسفہ رہ گيا ، تلقين غزالي نہ رہي
مسجديں مرثيہ خواں ہيں کہ نمازي نہ رہے
يعني وہ صاحب اوصاف حجازي نہ رہے
شور ہے، ہو گئے دنيا سے مسلماں نابود
ہم يہ کہتے ہيں کہ تھے بھي کہيں مسلم موجود!
وضع ميں تم ہو نصاري تو تمدن ميں ہنود
يہ مسلماں ہيں! جنھيں ديکھ کے شرمائيں يہود
يوں تو سيد بھي ہو، مرزا بھي ہو، افغان بھي ہو
تم سبھي کچھ ہو ، بتائو تو مسلمان بھي ہو!
ہر مسلماں رگ باطل کے ليے نشتر تھا
اس کے آئينہء ہستي ميں عمل جوہر تھا
جو بھروسا تھا اسے قوت بازو پر تھا
ہے تمھيں موت کا ڈر، اس کو خدا کا ڈر تھا
باپ کا علم نہ بيٹے کو اگر ازبر ہو
پھر پسر قابل ميراث پدر کيونکر ہو!
ہر کوئي مست مے ذوق تن آساني ہے
تم مسلماں ہو! يہ انداز مسلماني ہے!
حيدري فقر ہے نے دولت عثماني ہے
تم کو اسلاف سے کيا نسبت روحاني ہے؟
وہ زمانے ميں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
تم ہو آپس ميں غضب ناک، وہ آپس ميں رحيم
تم خطاکار و خطابيں، وہ خطا پوش و کريم
چاہتے سب ہيں کہ ہوں اوج ثريا پہ مقيم
پہلے ويسا کوئي پيدا تو کرے قلب سليم
تخت فغفور بھي ان کا تھا، سرير کے بھي
يونہي باتيں ہيں کہ تم ميں وہ حميت ہے بھي؟
خودکشي شيوہ تمھارا، وہ غيور و خود دار
تم اخوت سے گريزاں، وہ اخوت پہ نثار
تم ہو گفتار سراپا، وہ سراپا کردار
تم ترستے ہو کلي کو، وہ گلستاں بہ کنار
اب تلک ياد ہے قوموں کو حکايت ان کي
نقش ہے صفحہ ہستي پہ صداقت ان کي
اس نئي آگ کا اقوام کہن ايندھن ہے
ملت ختم رسل شعلہ بہ پيراہن ہے
آج بھي ہو جو براہيم کا ايماں پيدا
آگ کر سکتي ہے انداز گلستاں پيدا
ديکھ کر رنگ چمن ہو نہ پريشاں مالي
کوکب غنچہ سے شاخيں ہيں چمکنے والي
خس و خاشاک سے ہوتا ہے گلستاں خالي
گل بر انداز ہے خون شہدا کي لالي
رنگ گردوں کا ذرا ديکھ تو عنابي ہے
يہ نکلتے ہوئے سورج کي افق تابي ہے
ہے جو ہنگامہ بپا يورش بلغاري کا
غافلوں کے ليے پيغام ہے بيداري کا
تو سمجھتا ہے يہ ساماں ہے دل آزاري کا
امتحاں ہے ترے ايثار کا، خود داري کا
کيوں ہراساں ہے صہيل فرس اعدا سے
نور حق بجھ نہ سکے گا نفس اعدا سے
چشم اقوام سے مخفي ہے حقيقت تيري
ہے ابھي محفل ہستي کو ضرورت تيري