مہ جبین
محفلین
اترے تھے آسماں سے زمیں کو سنوارنے
رکھ دی اڑا کے خاک غمِ روزگار نے
ہر زاویے سے میرے خدو خالِ ذات کو
پرکھا نگار خانہء لیل و نہار نے
سورج سے تھی امیدِ توانائی جسم کو
آواز دی بہت شجرِ سایہ دار نے
میں تیز دھوپ میں بھی رہا برف کی چٹان
پگھلادیا ہے نغمگیء آبشار نے
کہتے ہیں لوگ جبرِ مشیت ہے زندگی
صبر و رضا کا نام دیا اختیار نے
اِس بار بھی چمن میں وہی حادثہ ہوا
گھبرا کے خود خزاں کو پکارا بہار نے
حزیں صدیقی
انکل الف عین کی شفقتوں کی نذر
والسلام
رکھ دی اڑا کے خاک غمِ روزگار نے
ہر زاویے سے میرے خدو خالِ ذات کو
پرکھا نگار خانہء لیل و نہار نے
سورج سے تھی امیدِ توانائی جسم کو
آواز دی بہت شجرِ سایہ دار نے
میں تیز دھوپ میں بھی رہا برف کی چٹان
پگھلادیا ہے نغمگیء آبشار نے
کہتے ہیں لوگ جبرِ مشیت ہے زندگی
صبر و رضا کا نام دیا اختیار نے
اِس بار بھی چمن میں وہی حادثہ ہوا
گھبرا کے خود خزاں کو پکارا بہار نے
حزیں صدیقی
انکل الف عین کی شفقتوں کی نذر
والسلام