باباجی
محفلین
بہت شکریہ سر جیمومن کی کیا بات ہے جناب
بہت خوب شئیرنگ بابا جی سرکار
آپکی پسندیدگی کا
بہت شکریہ سر جیمومن کی کیا بات ہے جناب
بہت خوب شئیرنگ بابا جی سرکار
بہت شکریہ آپکی محبت اور پسندیدگی کاتُم ہمارے کس طرح نہ ہُوئےورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتاواہ شاہ جی، بہت ہی خوبصورت انتخاب ہے۔ مومن کے کیا ہی کہنے!
بہت شکریہ زبیر بھائیچارہء دل سوائے صبر نہیں
سو تمہارے سوا نہیں ہوتا
مومنِ مبتلا کسے یاد نہیں ہوں گے اور یہ غزل تو زبان زدعام اور بے حد مشہور ہےشاہ جی لاجواب انتخاب
بہت شکریہ شاہ جیبابا جی صاحب!
کلامِ مومن سے اس لاجواب غزل کی منتخبی اور آپ کے حُسنِ ذوق پر ڈھیروں داد قبول ہو
پوری غزل یہاں (مومن کے ہی بینر تلے) پہلےہی لگی ہوئی ہے، گو کہ وہ بھی غلطیوں سے مبرا نہیں
تشکّر
بہت شادماں رہیں
بہت خوب ، بہت ہی عمدہاثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
رنج راحت فزا نہیں ہوتا
بے وفا کہنے کی شکایت ہے
تو بھی وعدہ وفا نہیں ہوتا
ذکرِ اغیار سے ہوا معلوم
حرفَ ناصح برا نہیں ہوتا
کس کو ہے ذوقَ تلخ کامی لیک
جنگ بن کچھ مزا نہیں ہوتا
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
اس نے کیا جانے کیا کیا لے کر
دل کسی کام کا نہیں ہوتا
امتحاں کیجیے مرا جب تک
شوق زور آزما نہیں ہوتا
ایک دشمن کہ چرخ ہے نہ رہے
تجھ سے یہ اے دعا نہیں ہوتا
آہ طولِ امل ہے روز افزوں
گرچہ اِک مدعا نہیں ہوتا
نارسائی سے دم رکے تو رکے
میں کسی سے خفا نہیں ہوتا
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
حالِ دل یار کو لکھوں کیوں کر
ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا
رحم کر خصم، جانِ غیر نہ ہو
سب کا دل ایک سا نہیں ہوتا
دامن اس کا جو ہے دراز تو ہو
دستِ عاشق، رسا نہیں ہوتا
چارہ دل سوائے صبر نہیں
سو تمھارے سوا نہیں ہوتا
صبر تھا اک مونس ہجراں
سو وہ مدت سے اب نہیں ہوتا
کیوں سنے عرض مضطر اے مومن
صنم آخر خدا نہیں ہوتا
واہ ، کیا بات ہےچارہ دل سوائے صبر نہیں
سو تمھارے سوا نہیں ہوتا
صبر تھا اک مونس ہجراں
سو وہ مدت سے اب نہیں ہوتا
یہی سوچ رہا تھا کہ اسی ایک شعر میں قافیہ کیوں نہیں۔صبر تھا اک مونس ہجراں
سو وہ مدت سے اب نہیں ہوتا
نہ یہ شعر مومن کا ہے اور نہ یوں ہے۔ درست شعر اس طرح ہے۔۔
صبر تھا اک مونس ہجراں
سو وہ مدت سے اب نہیں آتا
یہ شعر جناب میر تقی میر کا ہے۔
شہر ہذا کی غزل کا مطلع ہے۔۔
اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
لوہو آتا ہے جب نہیں آتا
کیوں سنے عرض مضطر اےمومنؔاثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
رنج راحت فزا نہیں ہوتا
بے وفا کہنے کی شکایت ہے
تو بھی وعدہ وفا نہیں ہوتا
ذکرِ اغیار سے ہوا معلوم
حرفَ ناصح برا نہیں ہوتا
کس کو ہے ذوقَ تلخ کامی لیک
جنگ بن کچھ مزا نہیں ہوتا
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
اس نے کیا جانے کیا کیا لے کر
دل کسی کام کا نہیں ہوتا
امتحاں کیجیے مرا جب تک
شوق زور آزما نہیں ہوتا
ایک دشمن کہ چرخ ہے نہ رہے
تجھ سے یہ اے دعا نہیں ہوتا
آہ طولِ امل ہے روز افزوں
گرچہ اِک مدعا نہیں ہوتا
نارسائی سے دم رکے تو رکے
میں کسی سے خفا نہیں ہوتا
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
حالِ دل یار کو لکھوں کیوں کر
ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا
رحم کر خصم، جانِ غیر نہ ہو
سب کا دل ایک سا نہیں ہوتا
دامن اس کا جو ہے دراز تو ہو
دستِ عاشق، رسا نہیں ہوتا
چارہ دل سوائے صبر نہیں
سو تمھارے سوا نہیں ہوتا
صبر تھا اک مونس ہجراں
سو وہ مدت سے اب نہیں ہوتا
کیوں سنے عرض مضطر اے مومن
صنم آخر خدا نہیں ہوتا
کیوں سنے عرض مضطر اےمومنؔ
کیوں سنے عرض مضطرب مومنؔ