اجنبی ہو کے بات کیوں کرتی

السلام علیکم
ایک غزل اصلاح کے لئے پیش ہے۔ غزل کی بحر ہے:
فاعلن فاعلن فعولن فع
اساتذہء کِرام
محترم جناب الف عین صاحب
محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب
اور احباب محفل کی توجہ کا طالب ہوں۔
--------------------------------------
قطعہ 1
اجنبی ہو کے بات کیوں کرتی
تنگ مجھ کو حیات کیوں کرتی

منتشر تھی جو دل کی بستی، پھر
مسکرانے کی بات کیوں کرتی

قطعہ 2
زندگی، جان سے گزرنے پر
آزمائش کی بات کیوں کرتی

زخم گر دل کے بھر گئے ہوتے
پھر نمائش کی بات کیوں کرتی

وہ محبت کا گر سمندر تھی
بوند بھر التفات کیوں کرتی

فکر اس کو اگر مری ہوتی
دور جانے کی بات کیوں کرتی

میرے نادار دل کے حصّے میں
غم کی اک کائنات، کیوں کرتی

تم نہ جاتے تو زندگی کاشف
رنج اور غم سے گھات کیوں کرتی

سید کاشف
-------------------------------
 
الفاظ کے ساتھ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک طرح کی عرفیت حاصل کر چکے ہوتے ہیں۔ میں اگر لفظاً یا معناً اس عرفیت سے ہٹتا ہوں تو لوگ باگ میری بات ٹھیک طور پر سمجھ نہیں سکتے یا پھر وہ لفظیات کے "چکر میں پڑ جاتے ہیں"، اور یوں یہ مسئلہ میرا مسئلہ بن جاتا ہے۔ قاری کی اجنبیت چاہے میری کم علمی کا حاصل ہو چاہے اس کی، بات میری غیر مؤثر (یا، کم از کم بے مزہ) ہو جاتی ہے۔
گھات کرنا (اجنبی لفظ ہے) گھات لگانا، گھات میں بیٹھنا (مانوس ہیں)۔
اجنبی ہوکے، اجنبی بن کے؛ (دو مختلف باتیں ہیں)۔
کائنات حصے میں کرنا (اجنبی ہے)۔
 
ایک الجھاؤ اور آن پڑا۔
اوپر، آپ نے کہا یہ غزل ہے، نیچے قطعہ 1، قطعہ 2 ۔۔۔ آپ کا قاری کیا سمجھے؟ یہ دو قطعے ہیں؟
ایک قطعہ میں چاہے وہ دو بیت کا ہو، چاہے زیادہ کا ہو؛ ایک بات مکمل ہوتی ہے۔ بہ الفاظِ دیگر ایک قطعہ اپنی جگہ ایک مبسوط نظم ہوتا ہے، اس میں شامل ابیات میں ریزہ خیالی اس کی رسمی حیثیت (قطعہ ہونے) کے خلاف ہے۔ غزل کی بات دوسری ہے؛ اس کے شعروں کا مزاج اور ماحول چاہے مشترک ہو، مضمون ہر شعر کا اپنی جگہ ایک اکائی ہوتا ہے۔ یہ وہی بات ہے عرفیت کی۔ آپ کا قاری عرفیت کا عادی ہے۔ اگر آپ اُسے اِس عادت کے خلاف یا کچھ ہٹ کے بتانا چاہ رہے ہیں تو آپ کا اسلوب اسے بتائے گا کہ میاں! یہاں معاملہ مختلف ہے؛ اس انداز سے دیکھو، اس انداز سے سوچو! وہ نہ ہو تو آپ کا قاری آپ کا ساتھ نہیں دے پاتا۔
 
غزل، غزل کا ماحول، اس کا مزاج، اس کی زیریں رَو، اس کی ریزہ خیالی اور تسلسل ۔۔۔ یہ باتیں پہلے بھی کئی بار ہو چکیں، کہیں سے ڈھونڈ لیجئے، مل جائیں تو اچھی بات ہے، بارے پھر دیکھ لیجئے گا۔
 

الف عین

لائبریرین
قطعہ مکمل لکھنا بطور عنوان غلط ہے۔ اسے غزل ہی کہو، اور قطعہ بند اشعار کو۔ق۔‘ سے ظاہر کرو۔ لیکن قطعہ1 میں مجھے تسلسل محسوس نہیں ہوا۔ بلکہ دوسرے قطعے کو بھی الگ الگ اشعار سمجھا جائے تب بھی ان کی معنویت برقرار رہتی ہے۔ آسی بھائی بھی اس پر غور کریں۔
گھات کرنا تو اجنبی ہی ہے، اور کائنات حصے میں کرنا بھی۔ لیکن اجنبی ہونا مجھے اجنبی نہیں لگا۔
اور کوئی غلطی نظر نہیں آتی غزل میں
 
الفاظ کے ساتھ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک طرح کی عرفیت حاصل کر چکے ہوتے ہیں۔ میں اگر لفظاً یا معناً اس عرفیت سے ہٹتا ہوں تو لوگ باگ میری بات ٹھیک طور پر سمجھ نہیں سکتے یا پھر وہ لفظیات کے "چکر میں پڑ جاتے ہیں"، اور یوں یہ مسئلہ میرا مسئلہ بن جاتا ہے۔ قاری کی اجنبیت چاہے میری کم علمی کا حاصل ہو چاہے اس کی، بات میری غیر مؤثر (یا، کم از کم بے مزہ) ہو جاتی ہے۔
گھات کرنا (اجنبی لفظ ہے) گھات لگانا، گھات میں بیٹھنا (مانوس ہیں)۔
اجنبی ہوکے، اجنبی بن کے؛ (دو مختلف باتیں ہیں)۔
کائنات حصے میں کرنا (اجنبی ہے)۔
جزاک اللہ سر۔
آپ کی بات سمجھ گیا ہوں۔ ان شا اللہ ۔۔۔
میں ان اشعار پر دوبارہ غور کرتا ہوں۔
اگر صحیح نہیں کر پایا تو غزل سے ہٹا دونگا۔
 
ایک الجھاؤ اور آن پڑا۔
اوپر، آپ نے کہا یہ غزل ہے، نیچے قطعہ 1، قطعہ 2 ۔۔۔ آپ کا قاری کیا سمجھے؟ یہ دو قطعے ہیں؟
ایک قطعہ میں چاہے وہ دو بیت کا ہو، چاہے زیادہ کا ہو؛ ایک بات مکمل ہوتی ہے۔ بہ الفاظِ دیگر ایک قطعہ اپنی جگہ ایک مبسوط نظم ہوتا ہے، اس میں شامل ابیات میں ریزہ خیالی اس کی رسمی حیثیت (قطعہ ہونے) کے خلاف ہے۔ غزل کی بات دوسری ہے؛ اس کے شعروں کا مزاج اور ماحول چاہے مشترک ہو، مضمون ہر شعر کا اپنی جگہ ایک اکائی ہوتا ہے۔ یہ وہی بات ہے عرفیت کی۔ آپ کا قاری عرفیت کا عادی ہے۔ اگر آپ اُسے اِس عادت کے خلاف یا کچھ ہٹ کے بتانا چاہ رہے ہیں تو آپ کا اسلوب اسے بتائے گا کہ میاں! یہاں معاملہ مختلف ہے؛ اس انداز سے دیکھو، اس انداز سے سوچو! وہ نہ ہو تو آپ کا قاری آپ کا ساتھ نہیں دے پاتا۔
تو گویا میں دونوں قطعات کو ایک کر کے لکھ دوں تو بھی مشکل نہیں؟
وہ اور بات کہ عبید سر نے قطعہ 1 میں دوبارہ غور کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
 
قطعہ مکمل لکھنا بطور عنوان غلط ہے۔ اسے غزل ہی کہو، اور قطعہ بند اشعار کو۔ق۔‘ سے ظاہر کرو۔ لیکن قطعہ1 میں مجھے تسلسل محسوس نہیں ہوا۔ بلکہ دوسرے قطعے کو بھی الگ الگ اشعار سمجھا جائے تب بھی ان کی معنویت برقرار رہتی ہے۔ آسی بھائی بھی اس پر غور کریں۔
گھات کرنا تو اجنبی ہی ہے، اور کائنات حصے میں کرنا بھی۔ لیکن اجنبی ہونا مجھے اجنبی نہیں لگا۔
اور کوئی غلطی نظر نہیں آتی غزل میں

جزاک اللہ عبید سر۔
میں پہلے قطعہ کو دوبارہ دیکھتا ہوں۔
اجنبی والی ترکیب کی اجازت پر آپ کا شکر گزار ہوں۔ آسی سر کو شاید وہ اتنا مانوس نہیں لگی تھی۔
آپ دونوں کا بہت بہت شکریہ۔
میں تصحیح کر پایا تو ضرور دوبارہ حاضر ہوتا ہوں۔
 
اساتذہء کِرام
تصحیحات کے ساتھ حاضر ہوں
ق
اجنبی ہو کے بات کیوں کرتی
تنگ مجھ کو حیات کیوں کرتی

منتشر کر کے دل کی بستی کو
مسکرانے کی بات کیوں کرتی

زندگی، جان سے گزرنے پر
آزمائش کی بات کیوں کرتی

زخم گر دل کے بھر گئے ہوتے
پھر نمائش کی بات کیوں کرتی

وہ محبت کا گر سمندر تھی
بوند بھر التفات کیوں کرتی

فکر اس کو اگر مری ہوتی
دور جانے کی بات کیوں کرتی

میرے نادار دل کے حصّے میں
غم کے لمحے ثبات ، کیوں کرتی

تم نہ جاتے تو زندگی کاشف
رنج اور غم کی بات کیوں کرتی

سید کاشف
-------------------------------

شکریہ۔
 
قطعہ مکمل لکھنا بطور عنوان غلط ہے۔ اسے غزل ہی کہو، اور قطعہ بند اشعار کو۔ق۔‘ سے ظاہر کرو۔ لیکن قطعہ1 میں مجھے تسلسل محسوس نہیں ہوا۔ بلکہ دوسرے قطعے کو بھی الگ الگ اشعار سمجھا جائے تب بھی ان کی معنویت برقرار رہتی ہے۔ آسی بھائی بھی اس پر غور کریں۔
گھات کرنا تو اجنبی ہی ہے، اور کائنات حصے میں کرنا بھی۔ لیکن اجنبی ہونا مجھے اجنبی نہیں لگا۔
اور کوئی غلطی نظر نہیں آتی غزل میں

مجھے وضاحت کرنی ہو گی، شاید میں اپنی بات ٹھیک طور پر بیان نہیں کر پایا۔

1۔ اصولی طور پر درست بات ہے کہ کسی بھی غزل کے اندر ایک سے زائد شعر ایسے وارد ہوں کہ وہ مل کر ایک مضمون کی تکمیل کریں تو وہ قطعہ بند اشعار ہیں۔
اس سے میں یہ اخذ کرتا ہوں کہ قطعہ بند اشعار کو مل کر ایک مضمون مکمل کرنا ہوتا ہے۔ اسی غزل میں بیرون از قطعہ اشعار اپنی اپنی جگہ پر ایک مضمون آزادانہ مکمل کرتے ہیں۔ اسی کو میں یوں سمجھا کہ ایسے اشعار جو اپنی اپنی جگہ پر ایک مضمون آزادانہ طور پر مکمل کرتے ہیں، وہ قطعہ بند اشعار نہیں ہیں۔
2۔ شعر کی معنویت اور معنوی حیثیت سے ان کا اپنا اپنا مقام ہے، اس میں تو شک والی بات ہی کوئی نہیں۔
3۔ ایک بات میں نے الجھاؤ کے متعلق کہی، کہ فاضل شاعر نے عنوان میں انہیں اشعار کو غزل قرار دیا اور متن میں قطعہ نمبر 1، قطعہ نمبر 2 لکھا تو میں الجھ گیا کہ یہ قطعے ہیں یا غزل ہے۔
 
ایک سوال کئی بار ذہن میں آیا مگر کہیں پوچھ نہیں سکا، جناب الف عین سے راہ نمائی چاہتا ہوں۔

غزل کے اندر ق لکھا ہوتا ہے۔ بات سمجھ میں آرہی ہوتی ہے کہ یہ قطعہ بند اشعار ہیں۔ اس ق کو لکھنے کا درست مقام کون سا ہے؟ قطعہ بند اشعار کے شروع میں؟ بیچ میں؟ یا آخر میں؟ بسا اوقات بہ سہولت یہ تعین بھی نہیں ہو پاتا کہ کون کون سے شعر قطعہ بند ہیں (قطعہ شروع کہاں سے ہوا، اور مکمل کہاں پر ہوا)۔ اس کے لئے کوئی علامت ہے کیا؟ میرے جیسا عام سطح کا قاری کیا سمجھے!
 
یہاں قطعہ ایک الگ صنف شعر کی صورت میں معروف ہو چکا ہے۔ ساخت میں یہ غزلیہ ابیات کی طرح ہوتا ہے۔ مصرعے جفت ہوئے، دوسرا، چوتھا، چھٹا، آٹھواں ۔۔ ۔۔ ۔۔ مصرع ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ پہلا مصرع بھی کہیں کہیں ہم قافیہ ہوتا ہے۔ باقی کے طاق مصرعے (تیسرا، پانچواں، ساتواں ۔۔ ۔۔ ۔۔) کا قافیے میں نہ ہونا پسندیدہ تر ہے۔ قطعے کے لئے کوئی اوزان مختص نہیں ہیں، جیسے رباعی میں ہوتے ہیں۔

مضمون ایک قطعے میں ایک ہوتا ہے؛ مصرعے چار ہوں، چھو ہوں، زیادہ ہوں سارے مل کر اس مضمون کو مکمل کرتے ہیں (یعنی معنوی ربط و تسلسل ضروری سمجھا جاتا ہے)، تاہم عام طور پر عنوان نہیں دیا جاتا (عنوان دے دیا تو وہ نظم بن گئی)۔

اقبال کے ہاں قطعات ملتے ہیں، انور مسعود کی طنزیہ مزاحیہ قطعات پر مشتمل کتاب "قطعہ کلامی" مشہور ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
آسی بھائی! میں یہ سمجھتا ہوں کہ قطعہ کی حد بندی مناسب طریقے سے کی جائے، تاکہ قاری کو پتہ چل جائے کہ کہاں قطعہ ختم ہو رہا ہے۔ شروع میں ق لکھ کر اور آخر میں ایک لکیر کے ذریعے اختتام کا اشارہ کرنے کا میں نے اوپر ہی لکھا ہے۔ عموماً غزل کے درمیان قطعہ بند اشعار ہوتے ہیں، اس لئے اتنا کافی ہوتا ہے۔ لیکن یہاں غزل شروع ہی قطعے سے ہو رہی ہے۔ اس لئے پوری غزل کو قطعہ بند سمجھنے سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ اوپر عنوان غزل کا دیا جائے، پھر ’ق‘ لکھا جائے۔ اور جہاں قطعہ ختم ہو، وہاں افقی لکیر کھینچی جائے۔
کاشف کی غزل اب بہتر ہو گئی ہے، سوائے ثبات کرنا اب بھی محاورئے کے خلاف ہے۔ اور اب پہلے چاروں اشعار قطعہ بند لگ رہے ہیں۔ لیکن ایک مسئلہ اور ہے جس طرف پہلے دھیان نہیں گیا تھا میرا۔
نمائش کی بات اور آزمائش کی بات یہ غلط فہمی پیدا کرتے ہیں کہ آزمائش وغیرہ قوافی ہیں، اور ’کی بات کیوں کرتیُ ردیف۔ اس اشکال کو بھی دور کرنا ضروری ہے۔
 
آسی بھائی! میں یہ سمجھتا ہوں کہ قطعہ کی حد بندی مناسب طریقے سے کی جائے، تاکہ قاری کو پتہ چل جائے کہ کہاں قطعہ ختم ہو رہا ہے۔ شروع میں ق لکھ کر اور آخر میں ایک لکیر کے ذریعے اختتام کا اشارہ کرنے کا میں نے اوپر ہی لکھا ہے۔ عموماً غزل کے درمیان قطعہ بند اشعار ہوتے ہیں، اس لئے اتنا کافی ہوتا ہے۔ لیکن یہاں غزل شروع ہی قطعے سے ہو رہی ہے۔ اس لئے پوری غزل کو قطعہ بند سمجھنے سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ اوپر عنوان غزل کا دیا جائے، پھر ’ق‘ لکھا جائے۔ اور جہاں قطعہ ختم ہو، وہاں افقی لکیر کھینچی جائے۔
کاشف کی غزل اب بہتر ہو گئی ہے، سوائے ثبات کرنا اب بھی محاورئے کے خلاف ہے۔ اور اب پہلے چاروں اشعار قطعہ بند لگ رہے ہیں۔ لیکن ایک مسئلہ اور ہے جس طرف پہلے دھیان نہیں گیا تھا میرا۔
نمائش کی بات اور آزمائش کی بات یہ غلط فہمی پیدا کرتے ہیں کہ آزمائش وغیرہ قوافی ہیں، اور ’کی بات کیوں کرتیُ ردیف۔ اس اشکال کو بھی دور کرنا ضروری ہے۔

آپ کی گفتگو میرا اعتماد بڑھاتی ہے۔ اللہ کریم خوشیوں سے نوازے، آمین!
 
کاشف کی غزل اب بہتر ہو گئی ہے، سوائے ثبات کرنا اب بھی محاورئے کے خلاف ہے۔ اور اب پہلے چاروں اشعار قطعہ بند لگ رہے ہیں۔ لیکن ایک مسئلہ اور ہے جس طرف پہلے دھیان نہیں گیا تھا میرا۔
نمائش کی بات اور آزمائش کی بات یہ غلط فہمی پیدا کرتے ہیں کہ آزمائش وغیرہ قوافی ہیں، اور ’کی بات کیوں کرتیُ ردیف۔ اس اشکال کو بھی دور کرنا ضروری ہے۔

شکریہ سر
میں ان اشعار کو بہتر کرنے کی کوشش کرونگا۔
جزاک اللہ ۔
 
Top