سیما علی
لائبریرین
گُلِ یاسمیں بٹیا
ظفری
Catharsis
ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گہر دیوار کو در کرگس کو ہما کیا لکھنا
اک حشر بپا ہے گھر میں دم گھٹتا ہے گنبد بے در میں
اک شخص کے ہاتھوں مدت سے رسوا ہے وطن دنیا بھر میں
اے دیدہ ورو اس ذلت کو قسمت کا لکھا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
یہ اہل حشم یہ دارا و جم سب نقش بر آب ہیں اے ہم دم
مٹ جائیں گے سب پروردۂ شب اے اہل وفا رہ جائیں گے ہم
ہو جاں کا زیاں پر قاتل کو معصوم ادا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
لوگوں پہ ہی ہم نے جاں واری کی ہم نے ہی انہی کی غم خواری
ہوتے ہیں تو ہوں یہ ہاتھ قلم شاعر نہ بنیں گے درباری
ابلیس نما انسانوں کی اے دوست ثنا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
حق بات پہ کوڑے اور زنداں باطل کے شکنجے میں ہے یہ جاں
انساں ہیں کہ سہمے بیٹھے ہیں خونخوار درندے ہیں رقصاں
اس ظلم و ستم کو لطف و کرم اس دکھ کو دوا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
ہر شام یہاں شام ویراں آسیب زدہ رستے گلیاں
جس شہر کی دھن میں نکلے تھے وہ شہر دل برباد کہاں
صحرا کو چمن بن کر گلشن بادل کو ردا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
اے میرے وطن کے فن کارو ظلمت پہ نہ اپنا فن وارو
یہ محل سراؤں کے باسی قاتل ہیں سبھی اپنے یارو
ورثے میں ہمیں یہ غم ہے ملا اس غم کو نیا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
حبیب جالب
ظفری
Catharsis
ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گہر دیوار کو در کرگس کو ہما کیا لکھنا
اک حشر بپا ہے گھر میں دم گھٹتا ہے گنبد بے در میں
اک شخص کے ہاتھوں مدت سے رسوا ہے وطن دنیا بھر میں
اے دیدہ ورو اس ذلت کو قسمت کا لکھا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
یہ اہل حشم یہ دارا و جم سب نقش بر آب ہیں اے ہم دم
مٹ جائیں گے سب پروردۂ شب اے اہل وفا رہ جائیں گے ہم
ہو جاں کا زیاں پر قاتل کو معصوم ادا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
لوگوں پہ ہی ہم نے جاں واری کی ہم نے ہی انہی کی غم خواری
ہوتے ہیں تو ہوں یہ ہاتھ قلم شاعر نہ بنیں گے درباری
ابلیس نما انسانوں کی اے دوست ثنا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
حق بات پہ کوڑے اور زنداں باطل کے شکنجے میں ہے یہ جاں
انساں ہیں کہ سہمے بیٹھے ہیں خونخوار درندے ہیں رقصاں
اس ظلم و ستم کو لطف و کرم اس دکھ کو دوا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
ہر شام یہاں شام ویراں آسیب زدہ رستے گلیاں
جس شہر کی دھن میں نکلے تھے وہ شہر دل برباد کہاں
صحرا کو چمن بن کر گلشن بادل کو ردا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
اے میرے وطن کے فن کارو ظلمت پہ نہ اپنا فن وارو
یہ محل سراؤں کے باسی قاتل ہیں سبھی اپنے یارو
ورثے میں ہمیں یہ غم ہے ملا اس غم کو نیا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
حبیب جالب
آخری تدوین: