احتجاج کے موثر طریقے

دوست

محفلین
میں نے پرسوں‌ ایک عدد پرچا لکھ کر پوسٹ کیا تھا۔ اب میں محسوس کررہا ہوں ایک تو یہ خاصا ثقیل قسم کا کام ہے۔ دوسرے اس کی افادیت کم ہے اتنی لمبی عبارت کم ہی پڑھیں گے۔ میرا پاکستان اور افتخار اجمل صاحب کے بلاگ سے مجھے آئیڈیا ملا ہے۔ کیوں نہ سٹکر چھپوائے جائیں؟ اگر یہ بیج ہوجائیں تو بہت ہی اچھا رہے گا۔ بیج خاصا مہنگا پڑے گا بس مسئلہ یہ ہے۔ ہمیں فورمز اور بلاگز سے نکل کر جدوجہد کرنا ہوگی یہ تو طے ہے۔ اس کا محفوظ راستہ یہی ہے کہ اپنے اردگرد یہ بیج اور سٹکر بانٹے جائیں۔ تاکہ لوگوں کو احساس تو ہو کہ احتجاج جاری ہے۔ اس کے بعد سڑکوں پر نکلنا آسان ہوجائے گا۔
میرے پاس کوئی پانچ سو روپے ہیں اس مد میں۔ اب آپ احباب فرمائیں کہ سٹکر چھپوائے جائیں یا بیج (جو ظاہر ہے کم ہونگے ان سے تعداد میں)۔
کام اکیلے بندے کا نہیں۔ اور مال بھی اکیلا بندہ نہیں لگا سکتا۔ چناچہ مل جل کر اور چندہ کرکے یہ سب کرنا ہوگا۔ اگر یہ اکٹھے چھپوا لیے جائیں تو لاگت کم ہوجائے گی لیکن شپنگ کے اخراجات کا مسئلہ ہوسکتا ہے۔ عمار ضیاء خاں کراچی میں‌ پریس سے ہی متعلق ہیں شاید۔ کیا وہ اس سلسلے میں ریٹس مہیا کرسکتے ہیں؟
سٹکر اور بیج بڑے سادہ نعروں پر مشتمل ہوسکتے ہیں۔
چیف جسٹس کو رہا کرو
آئین کو بحال کرو
آخری بات:::::::
ہم رہبر کی بات کررہے تھے۔ میرا خیال ہے رہبر کو اگر "آفیشلی لانچ" کردیا جائے تو کیسا رہے گا ا سکے لیے یہ موقع؟ اس قسم کے سٹکرز اور بیجز پر رہبر کا حوالہ دینا ہوگا۔ میں زیادہ گہرائی میں نہیں جاؤں گا اور آپ کو بھی فی الحال معاملہ یہیں تک رکھنے کا مشورہ دوں گا۔ ہمارا نکتہ جس پر ہم سب اس میں‌ متفق ہونگے وہ ہے
چیف جسٹس، ججز اور آئین کی بحالی۔۔اور عدلیہ کو اس کے اختیارات کی واپسی

کون اقتدار میں آرہا ہے کون جارہا ہے ہمیں غرض نہیں۔ عدلیہ ٹھیک ہوئی تو سمجھیں آدھا کام ہوگیا۔
کیا میرے احباب میرے ان نکات سے متفق ہیں۔ اپنی رائے سے آگاہ کریں۔ لیکن براہ کرم لمبی لمبی بحثیں نہیں۔ مختصر الفاظ میں رائے دیں۔ ساتھ ہیں‌تو بسم اللہ نہیں ہیں تو مسئلہ نہیں۔ ان تجاویز کو بہتر کرنے کے لیے کوئی رائے ہے تو بسم اللہ۔ کسی قسم کی مدد کرسکتے ہیں تو ست بسم اللہ۔
اللہ حافظ
 
زیادہ سیدھا اور موثر طریقہ یہ ہے کہ پہلے سے متحرک لوگوں‌کے ساتھ شامل ہوا جائے۔
دیکھ بھال کر چلیے۔ باھر کے لوگ اپکو ہوشیاری کے ساتھ استعمال کرسکتےہیں۔ سادگی میں‌ کسی پراسرار کام کے الہ کار نہ بنے ۔ مشتبہ لوگوں‌پر اعتبار نہ کریں۔ دیکھیے میں اپ کو یہ نہایت دردمندی کے ساتھ کہہ رہا ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ جسے رہبر مانے وہ اخر میں شیطانِ بزرگ کی طرف رہبری کررہاہو۔
 
بہت خوب شاکر بھائی! میں بھی یہی سوچ رہا تھا کہ اپنی تحریک/ تنظیم کا قیام عمل میں لانے کا یہ بہترین وقت ہے۔ اس وقت ہمیں ایک پلیٹ فارم کی بھی اشد ضرورت ہے جو شاید یہ تنظیم کی صورت میں مہیا ہوسکے۔
ان پرچوں کا آپ نے کیا کیا؟ میں نے تو کچھ گھروں میں ڈال دیئے تھے، ایک نیٹ کیفے میں بھی چھوڑ آیا تھا۔۔۔! لیکن ابو سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ اس کا زیادہ فائدہ نہیں ہوگا۔۔۔ کیونکہ عام بندہ خود سے احتجاج کو نہیں نکل آئے گا کہ گھر سے نکلا اور چوک پر کھڑے ہوگر نعرے مارنے شروع کردئے۔ ضرورت ہے ایک پلیٹ فارم کی۔۔۔۔۔ اس پرچے میں بھی ایسی کوئی رہنمائی نہیں ہے کہ ساتھ مل کر احتجاج کرنے کا تعین کیا گیا ہو۔
اب اگر تنظیم کو باقاعدہ قائم کردیا جائے تو ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ اسٹیکرز یا بیجز اسی کی جانب سے چھپیں اور پھر ان میں ہر کوئی رابطہ نمبر بھی ہو۔۔۔ یا تو کوئی ویب سائٹ یا فورم اس کے لیے بنائی جائے، یا پھر فون یا ای۔میل وغیرہ۔۔۔۔۔۔ تاکہ لوگوں کو اکٹھا تو کیا جاسکے۔۔۔۔! پہلے ہر شہر کے ہم خیال لوگوں سے مشاورت ہوجائے، ان کی تعداد کا اندازہ ہوجائے، اسی حساب سے احتجاج کا فیصلہ کریں گے نا۔۔۔۔۔!
بیجز سے کیا مراد ہے؟ سینے پر لگانے والے بیجز؟
اسٹیکرز کی چھپائی پر آنے والا خرچہ "اردو محفل کی تشہیر" والے دھاگہ میں لکھا تھا۔۔۔ اسی کو دیکھتا ہوں۔۔۔
 

دوست

محفلین
مجھے آج اپنے تہی داماں ہونے کا احساس ہوا بہت شدت کے ساتھ
مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ میں لاجواب ہوگیا۔ آج جب یہ پرچہ میں نے اپنے لائبریرین دیا تو پڑھ کر کہنے لگے سب ٹھیک ہے۔ بہت اچھا لکھا ہے۔ لیکن اس پر عمل کون کرے گا؟
کیا آپ کے پاس کوئی تنظیم ہے اس کام کے لیے؟ یا بھیڑ بکریوں کی طرح جاؤ دو نعرے لگاؤ اور پولیس آئے تو بھاگ لو؟
یہ کام تو وقت مانگتا ہے۔ یہ مسائل تو سب جانتے ہیں لیکن مسئلہ قیادت کا ہے۔
یہ سب سن کر میں لاجواب ہوگیا۔ میں تو دو بندوں کو قائل نہ کرسکا میں قیادت کروں گا؟
پھر مجھے یہی حل سوجھا کہ اب اسی پرچے کی پشت پر دو نعرے لکھوں اور اسے کسے گتے سے چپکا کر گلے میں‌ ڈالوں اور بس سٹاپ پر کھڑا ہوجاؤں۔ میرے بس میں جو ہے وہ تو کروں۔ آج کل پرسوں کوئی تو ساتھ ملے گا۔ چناچہ میں اب یہی کرنے جارہا ہوں۔ اپنے بس سٹاپ پر آدھ گھنٹا کھڑا ہوا کروں گا۔ اور اپنی یونیورسٹی کے بس سٹاپ پر بھی اسی طرح گلے میں تختی لٹکا کر کھڑا ہوا کروں‌گا۔
آپ نے احتجاج کا کیا طریقہ سوچا ہے؟
 

دوست

محفلین
رہبر بیجز سے مراد سینے پر لگانے والے بیجز ہی ہیں۔ اس طرح بندہ چلتا پھرتا اشتہار ہوگا۔ مجھے نہیں معلوم اس سے کسی کو ترغیب ہو یا نہیں لیکن یہ ایک تجویز ہے۔ تنظیم چلانا پتا نہیں ممکن ہے یا نہیں‌ لیکن مجھے اچھا خاصا دھچکا لگا ہے۔ لوگ کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کو بتانے والا کوئی نہیں۔ چلو پھر کوشش کرتے ہیں ہم کہ کوئی راستہ "دکھا" سکیں۔
 

اظہرالحق

محفلین
دوستو احتجاج کا مؤثر ذریعہ یہ نہیں ، اصل میں ہمارے عوام کو معلوم ہی نہیں کہ اس ایمرجنسی پالَس (بلکے پُلس) کے اثرات عوام پر کیسے ہونگے ، مثلاً کل ہی ایک صاحب نے فرمایا کہ بھائی کچھ بھی ہو ایمرجنسی ہو یا نہ ہو ، ہماری زندگی میں تو فرق آنا نہیں ہے ، چاہے بی بی ہو یا بابا ، مُش ہو یا بُش ۔ ۔ ۔ کچھ فرق نہیں آتا ہماری زندگی میں ، اگر میڈیا بند ہے تو کیا ہوا اچھا ہے سردرد والی خبریں نہیں ملتیں اگر انسان مسلسل دباؤ(ٹنشن) اور ڈپریشن کا شکار رہے تو ۔ ۔ ۔اسکی صحت کے لئے اچھا نہیں ہوتا ۔ ۔ ۔یہ نیوز چینل تو صرف اعصابی بیماریاں ہی پھیلاتے ہیں ۔ ۔ ۔

ہمیں سب سے پہلے یہ مایوسی ختم کرنی ہے ، اور عوام کو یہ باور کروانا ہے ، کہ یہ آگ جو آج بھڑکی ہے کل ہمارا گھر بھی جلا سکتی ہے ۔ ۔ ۔ ضرورت اس وقت ہے مکالمے کی جو عوامی سطح پر ہو ۔ ۔۔ ہٹلر کی مثال لیں ، جسنے عام قہوہ خانوں میں تقاریر کر کے ہی قوم کو منظم کیا تھا ۔۔۔۔ دوسرا آپکا اپنا کردار ۔ ۔ ۔ آپکے سامنے قائداعظم کی مثال ہے ، انہوں نے نہ تو جیل کی ہوا کھائی نہ ہی کوئی جھگڑا کیا اور پھر بھی دنیا انکے پیچھے تھی ، وہ بھی انکی تقریر سنتا تھا جسے وہ سمجھ نہیں آتی تھی ۔۔ ۔

کسی بھی تنظیم کو بنانے کے لئے کچھ اصول اپنانے پڑتے ہیں ۔ ۔ ۔

- اتحاد
- نظریہ
- یقین

اتحاد سے مراد ہے ، سب لوگ جو اس کے ممبر ہوں ، وہ ایک دوسرے سے رابطے میں رہیں
کوئی بھی عمل کسی نظریے کے بنا ادھورا ہوتا ہے ، ہم ابھی تک اپنا نظریہ ہی نہیں بتا سکے
یقین مایوسی کا الٹ ہے ، مگر ہم اپنے ہی عمل سے اتنے متنفر ہیں کہ ہم خود کو مایوسی کی بلند ترین سطح پر پاتے ہیں

ہم اپنے عزم پر قائم نہیں رہتے ، ایک نقطے پر اتفاق نہیں کرتے تو پھر کیا فائدہ اتنے سارے بکھیڑے کا ۔ ۔ ۔؟؟؟؟

اصل میں ہجوم سے قوم بننا بہت مشکل کام ہے ، اور اسکے لئے جو ڈیڈیکیشن چاہیے وہ ہم نہیں دے سکتے ۔ ۔ ۔ وجہ ہمارا لیونگ اسٹائیل ہے ، اور ہمارا بکھرا ہوا ہونا ہے ، اور قربانی کے جذبے کا نہ ہونا بھی ہے ۔ ۔۔ ہم ہمیشہ دوسروں سے قربانی مانگتے ہیں ، مگر خود ۔ ۔ ۔ نہیں دے سکتے اور اگر کبھی کچھ زیادہ ہمیں کہا جائے تو جزباتی ہو کر ڈنڈے کھا کر واپس اپنی روٹین پر آ جاتے ہیں ۔ ۔ ۔

میں جانتا ہوں کہ یہ حقیقتیں تلخ ہیں مگر کیا کریں ۔ ۔ سچائی ہی تلخ ہوتی ہے ۔ ۔ ۔

اب آپ کہیں گے کہ میں خود مایوس ہوں ۔ ۔ ۔مگر نہیں میرے پاس راستے ہیں ۔ ۔۔ جو ہم سب کر سکتے ہیں ۔ ۔۔آپ اپنے کمپیوٹر پر بیٹھ کر سکتے ہو ۔ ۔ہم محفل والے مل کر ایک دن ایک وقت میں گورنمنٹ کی ویب سائٹس کو "چوک" کر سکتے ہیں ، ای میل اور ایس ایم ایس سے سیلاب (فلڈ) جنریٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ فون کالز سے حکومتی نمبرز کو بزی کر سکتے ہیں ۔ ۔ ۔

ایک دن بس ایک دن ایک وقت میں ساری دنیا سے ۔ ۔ ذرا مل کر اتحاد کا مظاہرہ تو کریں ۔ ۔ ۔ پھر دیکھتے ہیں کوئی کیسے نہیں ہار مانتا ۔ ۔۔؟؟؟
 

دوست

محفلین
انٹرنیٹ پر بیٹھ کر کیسے اتحاد ہوسکتا ہے۔ یہ تو سڑکوں پر آکر کرنے والا کام ہے۔ میں نے آج زندگی کا پہلا احتجاج کیا ہے۔ آدھا گھنٹا گلے میں چیف جسٹس کو بحال کرو نعرے والا پوسٹر گلے میں ڈال کر بس سٹاپ پر کھڑا رہا ہوں۔ اب یہ معمول ہوگا۔ چاہے پولیس پکڑے یا ایجنسیاں۔ آج دو نے تعریف کی کل دو ساتھ کھڑے ہونگے۔ آپ بھی آگے بڑھ کر تو دیکھیے بخدا کچھ نہیں ہوتا۔۔۔
 
انٹرنیٹ پر بیٹھ کر کیسے اتحاد ہوسکتا ہے۔ یہ تو سڑکوں پر آکر کرنے والا کام ہے۔ میں نے آج زندگی کا پہلا احتجاج کیا ہے۔ آدھا گھنٹا گلے میں چیف جسٹس کو بحال کرو نعرے والا پوسٹر گلے میں ڈال کر بس سٹاپ پر کھڑا رہا ہوں۔ اب یہ معمول ہوگا۔ چاہے پولیس پکڑے یا ایجنسیاں۔ آج دو نے تعریف کی کل دو ساتھ کھڑے ہونگے۔ آپ بھی آگے بڑھ کر تو دیکھیے بخدا کچھ نہیں ہوتا۔۔۔


آپ کے جذبے کو سلام، اللہ تعالی ہم سب کو اتنی ہمت دیکھانے کی توفیق دے، اور آپ کو آپ کے مقصد میں ثابت قدم رکھے۔ آپ کو ایجنسیوں کے شر سے محفوظ رکھے آمین
 

آصف

محفلین
دوست بس سٹاپ پر اپنے احتجاج کی روداد تو لکھیں۔ اس سے دوسرے لوگوں میں شوق پیدا ہو گا۔ لوگوں کا ردعمل کیا تھا؟ تھا بھی یا نہیں وغیرہ۔
 

دوست

محفلین
پہلے تو مجھے تو لگا کہ بس ٹانگیں کانپ رہیں ہیں اور میں گیا۔ لیکن پھر ہاتھ باندھ کر اور پھر سنجیدہ سا ہوکر کھڑا ہوگیا۔ دو تین خواتین قریب سے گزریں بڑے غور سے میرے سینے کو دیکھا اور پڑھتی ہوئی آگے بڑھ گئیں۔ اسی طرح کسی نے دیکھا کسی نے نہیں دیکھا۔ میرے محلے کا ہی ایک واپڈا ملازم میرے قریب موٹر سائیکل کھڑی کرکے سامنے اخبار کے سٹال پر بیٹھ کر اخبار پڑھنے لگا۔ یہ بندہ چوہدری قسم کا ہے جب تک میں کھڑا رہا وہ گاہے بگاہے میری طرف نظر ڈال لیتا تھا۔ اسی کا بیٹا بھی کسی کام سے اپنے دوست کے ساتھ میرے قریب کھڑا ہوا تو میں نے اسے بھی کہا آپ بھی آجاؤ لیکن وہ اپنے دوست کے ساتھ پھر چلا گیا۔
کچھ موٹر سائیکل سواروں نے اور کار والوں نے گزرتے ہوئے یہ پوسٹر پڑھا۔ میں البتہ بے نیاز بنا کھڑا رہا۔ گاہے بگاہے اپنا موبائل نکال کر وقت دیکھ لیتا تھا۔ ایک ان پڑھ سے موٹرسائیکل سوار نے پوچھا یہ کیا لکھا ہوا ہے تو میں نے اسے بتایا چیف جسٹس کے حق میں نعرے ہیں۔ ایک موٹر سائیکل سوار مجھے دیکھ کر رک گیا۔ مجھے قریب بلایا شاباش دی۔ میں نے کہا آپ بھی آجائیں تو بولا اس طرح کا اور ہے تو آجاتا ہوں۔ میں نے کہا فی الحال تو ایک ہی ہے۔ کہنے لگا آؤ بازار سے اس سے بڑا لے لیتے ہیں۔ لیکن میں نے کہا میں تو اپنا بنا لایا ہوں آپ بنوا لائیں۔ اس نے پھر شاباش دی اور کہا کہ یہ تو بھیڑ بکریوں کی قوم ہے آپ بارش کا پہلا قطرہ ہو۔ میں نے کہا انشاءاللہ آپ دعا کیجیے گا۔ ان صاحب کے بعد دو بچے میرے پاس آکر رک گئے۔ لکھا ہوا پڑھ کر بڑے نے چھوٹے کو بتایا کہ چیف جسٹس کو بحال کرو لکھا ہوا ہے۔ میں ان کے قریب گیا اور انھیں اس بارے میں بتایا کہ یہ سب کیوں‌کررہا ہوں۔ وہ معصوم ذہن میری باتوں پر سرہلا کر سائیکل پر روانہ ہوگئے۔ چھٹی کا وقت تھا کئی طلباء اور طالبات اور مسافر آتے جاتے رہے۔ اتنے میں دو بج گئے اور میں نے پوسٹر اتار کر ہاتھ میں پکڑا گھر کو چل دیا۔ کوئی پچاس میٹر کے بعد ایک صاحب میرے ساتھ آملے۔ ہمارے محلے کے ہی ہیں۔ کہنے لگے آپ کس تنظیم سے ہیں تو میں نے کہا بھائی کسی تنظیم سے نہیں اپنی طرف سے ہی ہیں۔ اس نےکہا یہ بڑی ہمت کی بات ہے ورنہ تو لوگ ڈرتے ہیں یہ کرنے سے وغیرہ وغیرہ ۔ میں نے کہا دعا کیجیے میں‌ اکیلا نہ رہوں۔ اور ان سے سلام لے کر اپنی گلی مڑ آیا۔
دعا کیجیے گا کہ یہاں یہ روئداد لکھنے والا بھی میں‌ اکیلا نہ رہوں۔
یااللہ ہمیں استقامت عطاء فرما۔
 
بہت اعلی یار بہت اعلی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
جتنی داد دی جائے آپ کو، وہ کم ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واقعی بہت بڑا کمال اور ہمت کا کام کیا ہے آپ نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہمت دے۔ آمین!
 

رضوان

محفلین
شاکر آپ اکیلے نہیں ہو دنیا بھر میں پھیلے باشعور پاکستانی آپ کے ساتھ ہیں۔
بیرونِ ملک کے لیے یہ سائٹ اپنا پروگرام بتا رہی ہے۔
کراچی میں Peoples' Resistance نامی ایک گروپ جسمیں شہر کی بائیں بازو کی جماعتیں، لیبر اور ٹریڈ یونین فیڈریشنیں، اکیڈیمیاں ، طلباء اور چیدہ چیدہ این جی اوز شامل ہیں کامیابی کے ساتھ احتجاج ریکارڈ کروارہی ہیں اور مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے ساتھ اس مارشل لاء کیخلاف احتجاج اور مزاحمت میں شامل کروانا ہے۔
30 سے زیادہ کی تعداد میں مختلف ادوارِ عمر سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے فورم شاپنگ مال کلفٹن کے سامنے جمع ہوکر نعرے بازی کی مشرف کے خلاف جیوڈیشری کی بحالی اور جمہوریت کی بحالی کے لیے انہوں نے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے دیکھتے ہی دیکھتے گزرنے والی گاڑیوں کا مجمع لگ گیا انہوں نے بھی وکٹری سائن دکھائے اور اظہارِ یکجہتی کیا۔ یہ سب کاروائی دس منٹ میں مکمل کر کے یہ تمام مظاہرین کامیابی سے غائب ہوگئے اور انکے غائب ہونے کے کچھ ہی دیر بعد قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی وین جائے وقوعہ پر آپہنچی مگر وہاں کوئی ہوتا تو ہاتھ آتا۔
اگلے دن یعنی جمعہ کو یہی کاروائی کامیابی کیساتھ سی ویو میکڈونلڈ کے سامنے اسٹیج کی گئی یہاں موم بتیاں ہاتھوں میں لیے شرکاء نے ہینڈ بلز بھی بانٹے۔ یہاں بھی فوراً ہی عام لوگ ان کے ساتھ شامل ہوگئے اور ساتھ سے گزرنے والی گاڑیوں سے اتر اتر کے لوگ شامل ہوتے گئے نعرے بازی بھی ہوتی رہی یہاں مجمع خاصا پر جوش ہوگیا اور ایک تین افراد پر مشتمل ( بمع تین سالہ بچے کے ) خاندان گاڑی سے اتر کر ساتھ شامل ہوگیا۔ یہ مجمع بھی پندرہ منٹ میں پر امن طور پر منتشر بلکہ غائب ہوگیا۔

امریکا اور یورپ میں بھی منظم طور پر مزاحمت جاری ہے اور لوگوں کو موبلائز کیا جارہا ہے۔
سویڈن میں ہفتہ واری تعطیلات کیساتھ پروگرام ترتیب دیا گیا ہے، بوسٹن میں ہفتہ کو گیارہ بجے احتجاجی ریلی ہے، مانچسٹر یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین نے پاکستانی قونصلیٹ کے باہر مارشل لاء وکلا کی گرفتاریوں ‌اور انسانی حقوق کی بحالی کے لیے مظاہرہ ترتیب دیا ہے جو اسوقت ہو رہا ہوگا۔
اس کے علاوہ 14 ستمبر کو ۔۔۔۔۔۔
South Asia Center presents a Panel Discussion on "Pakistan: Political
and Civil Crisis"

Wednesday, November 14th 2007
5:00pm
Penn Humanities Forum, 3619 Locust Walk

Presented by the South Asia Center and co-sponsored by the Department
of South Asia Studies, University of Pennsylvania

On Saturday, November 3rd General Musharraf declared a "State of
Emergency" in Pakistan. The series of events that preceded and followed this
declaration give rise to important issues, some of which will be addressed
in this discussion including the role of the media; terrorism & "war on
terror"; civil society activism; involvement of the international community;
and technology & its use in protests.

Panelists:

-Dr Jamal Elias, Class of 1965 Term Professor of Religious Studies & Chair
South Asian Studies Department, University of Pennsylvania
-Dr Brian Spooner, Professor of Anthropology, University of Pennsylvania
-Dr Suvir Kaul, Professor of English, Chair of English Department,
University of Pennsylvania
-Dr Robert Nichols, Associate Professor of History, Richard Stockton College
-James Caron, Graduate Student, South Asian Studies Department
-Maria Khan, Graduate Student, South Asian Studies Department

Free and open to the public
Refreshments provided
 

امید

محفلین
شاکر – آپ کا جذبہ قابل تحسین ہے۔ آپ اپنے فرض کو بہت احسن طریقے سے نبھا رہے ہیں۔ جزاک اللہ خیر۔
 

زیک

مسافر
زبردست شاکر۔ اگلی دفعہ جب احتجاج پر نکلیں تو کیمرہ ساتھ لیں اور اپنے سائن کے ساتھ کچھ تصاویر کھنچوا کر پوسٹ کریں۔
 

دوست

محفلین
آپ کی بڑی مہربانی لیکن اب مجھے اور پھلاؤ نہیں بھائی لوگوں ورنہ میں پھٹ جاؤں گا۔ ابھی تو پولیس کے ڈنڈے نہیں پڑے پاء جی۔
 

ساجد

محفلین
شاکر ، آپ بہت اچھا کر رہے ہو۔ اس کام کو جاری رکھئیے ۔ بہت لوگ آپ کا ساتھ دیں گے اور آپ کی آواز میں آواز ملائیں گے۔
زیک کی بات پہ غور کیجئیے ۔ آج کا دور میڈیا کا ہے۔
 

اظہرالحق

محفلین
شاکر اللہ آپ کو استقامت دے ، کم سے کم ہم اردو محفل والے اس بات پر تو فخر کر سکیں گے کہ ایک باعمل بندہ ادھر موجود ہے ، جو صرف باتیں نہیں کرتا ۔ ۔ ۔ اللہ آپ کو ہمت دے جیسے کہتے ہیں نا کہ ، میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل ، لوگ ملتے گئے کارواں بنتا گیا

اور یقین کریں آپ ہم سب کو اپنے کارواں کا حصہ سمجھیں ۔ ۔۔ بے شک ہم آپ سے دور ہیں ۔۔ ۔ مگر آپ کے ساتھ ہیں ۔ ۔ ۔
 
Top