احساسِ کمتری۔۔۔ از۔۔ عبدالرؤوف

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
مرکزی کردار کی زندگی میں ابھی ایسا کوئی موڑ نہیں آیا جو اسے ایک نئے روپ میں سامنے لا سکے جو مثبت بھی ہو اور احساس کمتری کی کیفیات سے باہر نکل چکا ہو۔ جو لوگ کسی امتحان یا کیفیت سے گزر کر مثبت رویے اپناتے ہیں ، اصل کامیاب وہی ہوتے ہیں
آپ نے بہت درست فرمایا
لیکن میں نے محض کہانی سنانے کی کوشش ہرگز نہیں کی ہاں مگر معاشرے کو اس کی ذمہ داری کا احساس دلانے کی کوشش ضرور کی ہے
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
رووف بھائی!آپکا افسانہ ہمارے معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کے ایک کردار کو نمایاں کرتا ہے۔ یہ کردار ہر شہر اور ہر گاؤں میں پایا جاتا ہے۔ یہ ایک حقیقی کردار ہے جسے ہم نظرانداز نہیں کر سکتے،مگر ہمارے معاشرے کے معتبر لوگوں کی سوچ انکو پاؤں کے نیچے روندتے ہوئے آگے گزر جاتی ہے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ ایسے کرداروں کو کارآمد کیسے بنیا جاسکتا ہے۔
آپ نے بہت عمدہ لکھا اور ایک اہم پہلو اجاگر کیا۔
بہت شکریہ، سلامت رہیں
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
آپ نے بہت درست فرمایا
میں نے محض کہانی سنانے کی کوشش ہرگز نہیں کی ہاں مگر معاشرے کو اس کی ذمہ داری کا احساس دلانے کی کوشش ضرور کی ہے
بالکل بھائی۔۔۔ ہم نے اس کردار کو حقیقی کردار کے طور پر لیا ہے۔ اس معاملے میں معاشرے کے ہر فرد پر ذمہ داری عائد ہے۔ ظاہر ہے کہ ہم پورے معاشرے کو تو اس کی ذمہ داری نبھانے پر تو مجبور نہیں کر سکتے لیکن اپنی انفرادی ذمہ داری سمجھتے ہوئے تو نبھا سکتے ہیں۔ غربت والے معاملے میں روپے پیسے سے اگر مدد نہ بھی کر سکیں مگراچھے خیالات کی طرف توجہ دلا کر کسی حد تک اخلاقی فرض تو نبھا ہی سکتے ہیں۔ ورنہ کچے اور بیمار ذہن بغاوت پر اترنے میں دیر نہیں لگاتے جو نہ صرف ان کے حق میں نقصان دہ ہے بلکہ آس پاس والے بھی متاثر ہوتے ہیں۔
کئی بار انسان کو اس ذمہ داری کا احساس تو ہوتا ہے، بہتر بنانے کی سوچ بھی ہوتی ہے لیکن کسی کے وسائل آڑے آ جاتے ہیں اور کہیں رابطے نہ ہونے کے سبب بہت کچھ سوچا ہوا ادھورا رہ جاتا ہے۔ اس کے لئے کیا کیا جا سکتا ہے؟
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
بالکل بھائی۔۔۔ ہم نے اس کردار کو حقیقی کردار کے طور پر لیا ہے۔ اس معاملے میں معاشرے کے ہر فرد پر ذمہ داری عائد ہے۔ ظاہر ہے کہ ہم پورے معاشرے کو تو اس کی ذمہ داری نبھانے پر تو مجبور نہیں کر سکتے لیکن اپنی انفرادی ذمہ داری سمجھتے ہوئے تو نبھا سکتے ہیں۔ غربت والے معاملے میں روپے پیسے سے اگر مدد نہ بھی کر سکیں مگراچھے خیالات کی طرف توجہ دلا کر کسی حد تک اخلاقی فرض تو نبھا ہی سکتے ہیں۔ ورنہ کچے اور بیمار ذہن بغاوت پر اترنے میں دیر نہیں لگاتے جو نہ صرف ان کے حق میں نقصان دہ ہے بلکہ آس پاس والے بھی متاثر ہوتے ہیں۔
کئی بار انسان کو اس ذمہ داری کا احساس تو ہوتا ہے، بہتر بنانے کی سوچ بھی ہوتی ہے لیکن کسی کے وسائل آڑے آ جاتے ہیں اور کہیں رابطے نہ ہونے کے سبب بہت کچھ سوچا ہوا ادھورا رہ جاتا ہے۔ اس کے لئے کیا کیا جا سکتا ہے؟
میرا ایک حقیرانہ سا مشاہدہ یہ ہے کہ آدمی وسائل کی کمی کی وجہ سے اتنا نہیں بگڑتا جتنا کہ امتیازی سلوک سے
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
میرا ایک حقیرانہ سا مشاہدہ یہ ہے کہ آدمی وسائل کی کمی کی وجہ سے اتنا نہیں بگڑتا جتنا کہ امتیازی سلوک سے
وسائل کی کمی کا تذکرہ ہم نے معاشرے یا ان لوگوں کے حوالے سے کیا ہے جو کچھ کرنا تو چاہتے ہے مدد کے طور پر مگر نہیں کر پاتے اور اس طرح انکا یہ جذبہ ایک حد میں سمٹ کر رہ جاتا ہے۔
امتیازی سلوک کی بنا پر احساس کمتری کا شکار ہونے والی بات میں ہم متفق ہیں۔
اب یہاں ہر دو کا ذکر ہو رہا ہے۔ ایک وہ جو شکار ہوا ہے اور دوسرا وہ جو کچھ کرنا چاہتا ہے اور بوجہ کر نہیں پاتا۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
آپ نے بہت درست فرمایا
لیکن میں نے محض کہانی سنانے کی کوشش ہرگز نہیں کی ہاں مگر معاشرے کو اس کی ذمہ داری کا احساس دلانے کی کوشش ضرور کی ہے
بہت حساس تحریر ۔ ایک شخص جب محروم ہو تو اس کے کیا احساسات ہو تے ہیں مگر معاشرے کے زیادہ تر لوگوں کو ایسے مظلوموں کا کچھ احساس ہی نہیں ہو پاتا۔
 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم عبدالرؤوف بھائی
اچھی کوشش ہے یوں ہی اگر لکھتے رہے اور گھبرائے نہیں تو ایک دن آپ اچھےافسانہ نگار بن سکتے ہیں ۔
فی الحال اسے بہت مختصر ہونے کی وجہ سے افسانچہ بلکہ افسانچی کہہ لیں اور آپ ہوئے ایک نئی ادبی صنف افسانچی کے موجد۔اس افسانچی میں بھی واقعہ مختصر ہے اور اس کے محرکات پہ زیادہ روشنی ڈالی گئی ہے۔لہذا افسانچی اور مختصر ہو گئی بالکل ایک مخلوق کے لباس کی طرح۔
اپنا سائیکل ٹیک لگائے

سر دست یہ عرض کر دوں کہ "سائیکل" مونث ہے اور "نکڑ "مذکر۔:)
 

وسیم

محفلین
السلام علیکم عبدالرؤوف بھائی
اچھی کوشش ہے یوں ہی اگر لکھتے رہے اور گھبرائے نہیں تو ایک دن آپ اچھےافسانہ نگار بن سکتے ہیں ۔
فی الحال اسے بہت مختصر ہونے کی وجہ سے افسانچہ بلکہ افسانچی کہہ لیں اور آپ ہوئے ایک نئی ادبی صنف افسانچی کے موجد۔اس افسانچی میں بھی واقعہ مختصر ہے اور اس کے محرکات پہ زیادہ روشنی ڈالی گئی ہے۔لہذا افسانچی اور مختصر ہو گئی بالکل ایک مخلوق کے لباس کی طرح۔



سر دست یہ عرض کر دوں کہ "سائیکل" مونث ہے اور "نکڑ "مذکر۔:)

میرا خیال ہے محمد عبدالرؤوف میرا مضمون افسانچی پڑھنے کے بعد شاید افسانچہ یا افسانچی لکھنے کے متعلق کچھ تحفظات رکھتے ہوں گے۔

:)
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
السلام علیکم عبدالرؤوف بھائی
اچھی کوشش ہے یوں ہی اگر لکھتے رہے اور گھبرائے نہیں تو ایک دن آپ اچھےافسانہ نگار بن سکتے ہیں ۔
فی الحال اسے بہت مختصر ہونے کی وجہ سے افسانچہ بلکہ افسانچی کہہ لیں اور آپ ہوئے ایک نئی ادبی صنف افسانچی کے موجد۔اس افسانچی میں بھی واقعہ مختصر ہے اور اس کے محرکات پہ زیادہ روشنی ڈالی گئی ہے۔لہذا افسانچی اور مختصر ہو گئی بالکل ایک مخلوق کے لباس کی طرح۔



سر دست یہ عرض کر دوں کہ "سائیکل" مونث ہے اور "نکڑ "مذکر۔:)
آپ کی توجہ اور بے لاگ تبصرے پر بے حد ممنون ہوں، کچھ لکھنے کے لیے تو بہت عرصہ سے میرے ذہن میں کھلبلی ہوا کرتی تھی محفل نے اس کھلبلی میں کئی گنا اضافہ کر دیا پھر یہی سوچا کہ جب تک سوچتا رہا چلوں گا کیسے۔ جب کہ چلنے کے لیے لڑکھڑانا بھی ضروری ہے اور گرنا بھی، تو خوف کیسا
جیسا کہ ہمیشہ کنواروں کو شادی سے ڈرانے کے لیے شادی کے لڈو کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جو کھائے وہ پچھتائے، جو نہ کھائے وہ بھی پچھتائے، اور ہمیشہ کنوارے لڈو کھا کے ہی پچھتانے کو ترجیح دیتے ہیں، میرا لکھنے کے متعلق بھی کچھ اسی قسم کا خیال ہے :)
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
اچھا افسانہ وہی ہوتا ہے جس میں تشنگی برقرار رہے ... بس "آزاد روح " لفظ کھٹکا
بہت اچھا لکھا آپ نے
بہت شکریہ بہنا، آپ کی حوصلہ افرائی کا بہت بہت شکریہ
اور دیر سے جواب دینے پر معذرت، شاید آپ کے مراسلے کی اطلاع دوسری اطلاعات میں دب گئی تھی :)
 
Top