احساسِ کمتری۔۔۔ از۔۔ عبدالرؤوف

وسیم

محفلین
بصورت دیگر افسانہ نامکمل رہے گا یا مکمل تصویر کے شعور کے بغیر ہو گا یا شعور دیے بغیر اختتام پزیر ہو گا۔ سب سے اچھا قصہ سورہ یوسف ہے کہ تمام حسد اور شر کے باوجود اختتام انصاف اور سچ کی سر بلندی کی صورت میں ہوتا ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ انصاف کی برتری رہے۔ جیسا کہ قیامت ہے۔ ادھورا افسانہ لکھنے والے کے ادھورے شعور کا عکاس ہے۔ بہرحال ادھورا لکھا جائے اس پر کوئی زور نہیں یا مجبور نہیں کیا جا سکتا البتہ کہا اسکو ادھورا ہی جائے گا۔ افسانہ نگار کی مرضی ہے کہ مکمل کرے اور قارئین کو ایک مثبت حالت میں چھوڑے۔ اسی میں ترقی ہے اور برکت ہے۔

یہ تو تخلیق کو اپنی سوچ کے مطابق محدود کرنے والی بات کی ہے آپ نے۔ افسانہ نگار جو چاہے تخلیق کرے، جتنا چاہے جیسا چاہے۔ آپ اس کی تخلیق کردہ شے پہ تنقید کر سکتے ہیں لیکن افسانہ نگار کو مجبور نہیں کر سکتے کہ وہ اسی دائرے میں رہے جو ہمیں پسند ہو۔ سوری آپ کی بات سے بالکل بھی متفق نہیں
 

وسیم

محفلین
روؤف بھائی کی تحریر کالم کی ایک شکل لگ رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کالم حسن مجھے اس میں لگتا ہے کہ میں آخر میں سوچتی روں کہ پھر کیا ہوا۔
میٹرک میں انگلش بی میں عالی والا قطعہ نہیں پڑھا؟ تب سے اب تک سوچ میں ہوں کہ عالی کے ساتھ آخر ہوا کیا تھا۔۔۔
 

نور وجدان

لائبریرین
گرمیوں کا ایک دن تھا، سورج سر سے ڈھل چکا تھا۔ اور وہ گلی کی نکڑ پر ایک بجلی کے کھمبے سے اپنا سائیکل ٹیک لگائے پچھلے دو گھنٹے سے کھڑا تھا۔ گلی میں واقع ایک دفتر پر مسلسل آنکھیں ٹکائی ہوئیں تھیں۔ سڑک پر گاڑیاں رکشے رواں دواں تھے جس گلی کی نکڑ پر وہ موجود تھا اس گلی میں بھی لوگ آ جا رہے تھے۔ لوگ آتے اور اس کے پاس سے گزر جاتے مگر وہ تھا کہ ہلنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا، جیسے اس کی روح کو وہیں قید کر لیا گیا ہو۔ پسینہ بہہ بہہ کر اس کے کپڑوں میں جذب ہوتا جا رہا تھا۔ اس میں ہمت ہی نہیں پڑ رہی تھی کہ وہ اس دفتر میں جا کر اپنا تعارف پیش کرے اور بتائے کہ مجھے چاچا چراغ دین نے بھیجا ہے۔ کل رات ہی چاچا ان کے گھر آیا تو اس کی اماں نے منتیں کرتے ہوئے کہا کہ بھیا میرے بیٹے کو کسی کام پر لگا دو، سارا سارا دن آوارہ پھرتا رہتا ہے اور ہر ایک سے اکھڑا اکھڑا رہتا ہے، اگر یہ کام کرے گا تو چار پیسے بھی گھر آتے رہیں گے اور شاید اس کا مزاج بھی کچھ بدل جائے۔ وہ احساسِ کمتری کا شکار ایک سترہ اٹھارہ سال کا نوجوان تھا، جسے تعلیم کے مواقع میسر نہ ہوئے، اس کا رنگ سانولا اور کپڑے ایسے بوسیدہ جن کا رنگ بھی انتہائی پھیکا پڑ چکا تھا۔ جب سے اس کے والد نے دوسری شادی کی گویا ان کی ذمہ داری کا بوجھ اپنے کندھوں سے یکسر اتار پھینکا تھا۔ چونکہ ایک ہی گھر میں سب چچا رہتے تھے تو کھانے پینے کا تو کسی طور کام چل جاتا لیکن کپڑوں کا مسئلہ درپیش رہتا، خاندان میں کبھی کسی چاچا زاد یا ماموں زاد کے کپڑے پرانے ہو جاتے تو اسے پہننے کو دے دیئے جاتے۔ اس کی کسی خوبی کو کبھی نہ سراہا جاتا لیکن ہر خامی کو خوب اچھالا جاتا، بچپن سے ہی اس کے ساتھ امتیازی سلوک برتا گیا، بات بے بات اس کے رنگ پر پھبتیاں کسّی جاتیں، کبھی خاندان کے کسی بچے نے شرارت کی تو اسی کا حوالہ دے کر کہا جاتا کہ یہ بھی اسی کی طرح بگڑتا جا رہا ہے۔ اس کی کردار سازی تو کیا ہوتی، اس کے بچپن کو اس بری طرح سے مجروح کیا گیا کہ جب بھی کسی خوش شکل، تعلیم یافتہ جو اردو روانی سے بولتا ہو جس کی گفتگو میں انگریزی کے لفظ نگینے کی طرح جڑتے جاتے ہوں یا کسی مالدار سے سامنا ہوتا تو اس کی محرومیاں اچانک بڑے بڑے اژدھوں کی صورت میں نمودار ہو جاتیں۔ جو اسے اس قدر خوفزدہ کرتیں کہ اس کے پسینے چھوٹ جایا کرتے۔ اس دن بھی ایسا ہی ہوا تھا، جیسے ہی وہ سڑک سے گلی کی طرف مڑا تو اس نے ایک پینٹ شرٹ میں ملبوس شخص کو اس دفتر میں جاتے ہوئے دیکھ لیا تھا تو اسی وقت سے وہ وہیں باہر گلی کی نکڑ پر موجود رہا، حتی کہ سورج تیزی سے غروب ہونے لگا اندھیرا بڑھتا چلا جا رہا تھا کہ اچانک وہی پینٹ شرٹ والا آدمی نمودار ہوا۔ لیکن اس مرتبہ ایک اور شخص بھی اس کے ساتھ تھا جس نے دفتر کو تالا لگایا پھر وہ دونوں گلی کی دوسری جانب چل دیئے۔ اس نے بھی اپنا سائیکل لیا، اور اپنی روح پر ایک اور ناکامی کا بوجھ لادے واپس اپنے گھر کی طرف چل دیا
اچھا افسانہ وہی ہوتا ہے جس میں تشنگی برقرار رہے ... بس "آزاد روح " لفظ کھٹکا
بہت اچھا لکھا آپ نے
 
روؤف بھائی کی تحریر کالم کی ایک شکل لگ رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کالم حسن مجھے اس میں لگتا ہے کہ میں آخر میں سوچتی روں کہ پھر کیا ہوا۔

سورہ یوسف جیسا قصہ ہے جو کہ حسد کے بعد کنوئیں میں گرا دینے پر ختم ہو گیا۔
 
یہ تو تخلیق کو اپنی سوچ کے مطابق محدود کرنے والی بات کی ہے آپ نے۔ افسانہ نگار جو چاہے تخلیق کرے، جتنا چاہے جیسا چاہے۔ آپ اس کی تخلیق کردہ شے پہ تنقید کر سکتے ہیں لیکن افسانہ نگار کو مجبور نہیں کر سکتے کہ وہ اسی دائرے میں رہے جو ہمیں پسند ہو۔ سوری آپ کی بات سے بالکل بھی متفق نہیں

شاعر یا ادیب زمین کی طرح ہوتا ہے۔ اسکا سیم و تھور ختم ہو تو مقبول عام مولانا روم نکلتا ہے ورنہ کتابیں تو بہتروں نے لکھی ہیں۔ اس پر نہ ہی زور ہے نہ ہی دائرے کے اندر رہنے کی زبردستی ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
اس دن بھی ایسا ہی ہوا تھا، جیسے ہی وہ سڑک سے گلی کی طرف مڑا تو اس نے ایک پینٹ شرٹ میں ملبوس شخص کو اس دفتر میں جاتے ہوئے دیکھ لیا تھا تو اسی وقت سے وہ وہیں باہر گلی کی نکڑ پر موجود رہا، حتی کہ سورج تیزی سے غروب ہونے لگا اندھیرا بڑھتا چلا جا رہا تھا کہ اچانک وہی پینٹ شرٹ والا آدمی نمودار ہوا۔ لیکن اس مرتبہ ایک اور شخص بھی اس کے ساتھ تھا جس نے دفتر کو تالا لگایا پھر وہ دونوں گلی کی دوسری جانب چل دیئے۔ اس نے بھی اپنا سائیکل لیا، اور اپنی روح پر ایک اور ناکامی کا بوجھ لادے واپس اپنے گھر کی طرف چل دیا
بہت خوب آپکا انداز بہت موثر ہے ۔۔۔ہر لکھنے والے جس حساسیت سے محسوس کرتا ہے اُسی کو سپردِ قلم کرتا ہے ۔۔ہر ایک پر مختلف کیفیت الگ طرح سے اثر انداز ہوتیں ہیں ۔۔۔
بہت خوبصورت انداز
بھیا جیتے رہیے بہت ساری دعائیں آپکے لئے ۔۔۔
 

وسیم

محفلین
شاعر یا ادیب زمین کی طرح ہوتا ہے۔ اسکا سیم و تھور ختم ہو تو مقبول عام مولانا روم نکلتا ہے ورنہ کتابیں تو بہتروں نے لکھی ہیں۔ اس پر نہ ہی زور ہے نہ ہی دائرے کے اندر رہنے کی زبردستی ہے۔

مولانا روم اسی لیے مولانا روم نکلے کہ انہوں نے خود کو کسی کے بنائے ہوئے دائرے میں مقید نہیں کیا۔ ایبسٹریکٹ آرٹ کو کسی زمانے میں آرٹ تسلیم ہی نہیں کیا جاتا تھا۔ سو یہ فیصلہ وقت اور قارئین نے کرنا ہوتا ہے کہ مقبول عام کتاب کونسی ہو گی، ادبی لحاظ سے شہکار کونسی ہو گی اور کونسی ڈبوں میں بند رہے گی۔

اقبال اگر کسی کے بنائے دائرے میں ہی گھومتا پھرتا رہتا تو کبھی شکوہ یا جواب شکوہ نا لکھ پاتا۔۔۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
بہت خوب آپکا انداز بہت موثر ہے ۔۔۔ہر لکھنے والے جس حساسیت سے محسوس کرتا ہے اُسی کو سپردِ قلم کرتا ہے ۔۔ہر ایک پر مختلف کیفیت الگ طرح سے اثر انداز ہوتیں ہیں ۔۔۔
بہت خوبصورت انداز
بھیا جیتے رہیے بہت ساری دعائیں آپکے لئے ۔۔۔
سلامت رہیں، حوصلہ افزائی کے لیے بہت شکریہ
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین

وسیم

محفلین
میری بات کو جواب الجواب نہ سمجھیے گا
میری To-do لسٹ میں بھان متی سرِ فہرست ہے لیکن کئی دنوں سے وہ فرصت کے لمحے جس میں ذہن بھی مائل ہو، نہیں مل رہے۔ ورنہ اپنے خیالات کا اظہار ضرور کر دیتا
ارے اب تو ہم نے آج ایک افسانہ بھی پوسٹ کر دیا ہے۔۔۔
تہاڈے کول ٹییم ای کوئی نا
:LOL:
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
حقیقت مقبولیت اور برکت سے نزدیک ترین افسانہ بن جائے گا۔ یہ ہدایت لینا تو اچھی بات ہے۔
یقیناً تحریر سے اگر کچھ حاصل نہ ہو تو وقت کا ضیاع ہی ہو گا۔
اس تحریر کی مثال یوں لیجیے جیسے ہمیں صاحبانِ علم روزے کی بہت سے فضائل و اہمیت میں ایک یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس سے روزے دار کو کسی کی بھوک کو محسوس کرنے کا موقع بھی میسر آتا ہے جس سے کسی بھوکے کو کھانا کھلانے کا جذبہ بیدار ہوتا ہے، اس (افسانہ) میں احساسِ کمتری میں مبتلا شخص کے احساسات کو بتانے کی کوشش کی کہ ہم میں اس سے متعلق بھی فکر پیدا ہو
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
خوبصورت تحریر روؤف بھائی۔
یوں پورا بچپن بتائی گئی وجوہات کی بنا پر احساس کمتری کا شکار ہو جانا ۔۔۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اترن پہننا یا دوسروں کا بچا کھچا کھانا۔۔۔ ایک امتحان ہی تو ہے۔ مثبت رویہ اپنانے کے لئے یقیناً کسی بڑے دھچکے کی ضرورت ہوتی ہےیا پھر اپنی اہمیت سمجھنے کی۔ اور یہی وہ موڑ ہوتا ہے جب ایک کمزور بھی طاقتور بن کر ڈٹ جاتا ہے۔
مرکزی کردار کی زندگی میں ابھی ایسا کوئی موڑ نہیں آیا جو اسے ایک نئے روپ میں سامنے لا سکے جو مثبت بھی ہو اور احساس کمتری کی کیفیات سے باہر نکل چکا ہو۔ جو لوگ کسی امتحان یا کیفیت سے گزر کر مثبت رویے اپناتے ہیں ، اصل کامیاب وہی ہوتے ہیں۔
بہت اچھی لگی تحریر۔
خوش رہئیے اور لکھتے رہئیے۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
خوبصورت تحریر روؤف بھائی۔
یوں پورا بچپن بتائی گئی وجوہات کی بنا پر احساس کمتری کا شکار ہو جانا ۔۔۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اترن پہننا یا دوسروں کا بچا کھچا کھانا۔۔۔ ایک امتحان ہی تو ہے۔ مثبت رویہ اپنانے کے لئے یقیناً کسی بڑے دھچکے کی ضرورت ہوتی ہےیا پھر اپنی اہمیت سمجھنے کی۔ اور یہی وہ موڑ ہوتا ہے جب ایک کمزور بھی طاقتور بن کر ڈٹ جاتا ہے۔
مرکزی کردار کی زندگی میں ابھی ایسا کوئی موڑ نہیں آیا جو اسے ایک نئے روپ میں سامنے لا سکے جو مثبت بھی ہو اور احساس کمتری کی کیفیات سے باہر نکل چکا ہو۔ جو لوگ کسی امتحان یا کیفیت سے گزر کر مثبت رویے اپناتے ہیں ، اصل کامیاب وہی ہوتے ہیں۔
بہت اچھی لگی تحریر۔
خوش رہئیے اور لکھتے رہئیے۔
آپ کی توجہ اور تأثرات کا بہت شکریہ
 
رووف بھائی!آپکا افسانہ ہمارے معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کے ایک کردار کو نمایاں کرتا ہے۔ یہ کردار ہر شہر اور ہر گاؤں میں پایا جاتا ہے۔ یہ ایک حقیقی کردار ہے جسے ہم نظرانداز نہیں کر سکتے،مگر ہمارے معاشرے کے معتبر لوگوں کی سوچ انکو پاؤں کے نیچے روندتے ہوئے آگے گزر جاتی ہے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ ایسے کرداروں کو کارآمد کیسے بنیا جاسکتا ہے۔
آپ نے بہت عمدہ لکھا اور ایک اہم پہلو اجاگر کیا۔
 
Top