احمدیہ جماعت انتخابی عمل سے دور

بھائی جان، اس توضیح کے لیے شکریہ۔ لیکن مجھے ابھی تک سمجھ نہیں آیا کہ احمدیوں پر بنائے دھاگے کے محل میں اس سے میں کیا مطلب اخذ کروں۔ اسے میری کند ذہنی کہہ لیجئے :)
چند دن پیشتر مسٹر بینز کی ایک فلم دیکھی جس میں وہ ایک پادری کا رول ادا کر رہا تھا۔ چنانچہ ایک تقریر میں وہ کہتا ہے:
God says, " My ways are mysterious. You cannot understand my ways...Live with it !...."
چنانچہ آپ بھی یہی مطلب اخذ کرلیجئے:p:D
 

عسکری

معطل
بھائی میرے! آپ کا اسلام اور کافر سے کیا لینا دینا؟ کافر بنانے کی پہلی ”فیکٹری“ احمدیوں نے ”قائم“ کی تھی کہ جو مرزا غلام احمد کو نبی نہیں مانتا، وہ کافر ہے۔ اس کے جواب میں دنیا بھر کی امت مسلمہ نے ”جوابی فیکٹری“ لگائی کہ جو مرزا کو نبی مانتا ہے اور مرزا کو نبی ماننے والوں کو مسلمان سمجھتا ہے، وہ بھی کافر ہے۔ پاکستان کے آئین نے تو یہ فیکٹری سب سے آخر میں لگائی اور وہ بھی جملہ ارکان قومی اسمبلی کے سامنے احمدی جماعت کے سربراہ سے ”پوچھ“ کر لگائی کہ کیا آپ مرزا کو نبی نہ ماننے والوں کو کافر سمجھتے ہیں؟؟؟ اور جب اس نے تصدیق کردی کہ ہاں تمام غیر احمدی کافر ہیں، تب آئین پاکستان میں تیسری فیکٹری قائم ہوئی کہ احمدی کافر ہیں۔:)
اگر آپ ایک سچے ایتھیسٹ ہیں تو ”کافر بنانے کی فیکٹریوں“ کے معاملات سے دور ہی رہیں۔ لیکن اگر حقیقتاَ احمدی ہیں اور اسلام اور مسلمانوں کو گالیاں دینے اور ہر جگہ احمدیوں کی پشت پناہی کے لئے منافقت کا لبادہ اوڑھ کر ایتھیسٹ بنے ہوئے ہیں، تو اپنا ”مشن“ جاری رکھیں۔ اسلام، کفر اور منافقت پر قائم لوگ جلد ہی اپنی اپنی حقیقت سے آگاہ ہوجائیں گے۔ بس انہیں قبر میں اترنے کی دیر ہے۔ آپ بھی انتظار کیجئے ۔ قبر ہنوز دور نیست:D
تالیاںںںںںںںںننننننننننننننننن:rollingonthefloor:
 

باباجی

محفلین
میری عمر یا میری 'نظریاتی الجھن' کو مذاق کا نشانہ بنائے بغیر آپ موضوع پر ہی بات کریں تو اچھا ہو گا۔ میں نے ایک بات کی ہے، لازمی نہیں ہے میری کہی گئی بات میں میری ذات کو بھی نقطۂ حوالہ بنایا جائے۔


کم الفاظ میں کہوں، تو میرے نزدیک لوگوں کے لیے عموماً مذہبی سچائی اور دروغ وہی ہوتا ہے جس میں وہ پیدا ہوتے ہیں۔ مذہب کی جانچ پڑتال کے لیے کوئی سائنسی اور معروضی معیار نہیں ہے۔ احمدی ہو سکتا ہے میرے لیے یا آپ کے لیے غلط ہوں، لیکن احمدیوں کے نزدیک وہ سچائی کے حامل ہیں، اور اُنہیں ایسا اعتقاد رکھنے کی مکمل آزادی ہے، جس کا احترام میں اپنا اخلاقی فرض سمجھتا ہوں۔


آپ کی عنایت کے لیے شکریہ، لیکن رہنے دیجئے۔ مجھ اُن کتب اور حوالوں کی ضرورت نہیں ہے۔ :)


اُن کا خلیفہ بھلے مریخ میں بھی محل بنا لے، تو بھی اس بات کا پاکستان میں ہونے والے احمدیوں پر جبر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
حسان خان
میرے بھائی آپ کی ذات کو نشانہ بنایا ہی نہیں میں نے، صرف ایک بات کہی ہے اور وہ بھی اس لیئے کہی ہے کہ آپ نے اس پورے دھاگے میں ایک ہی لفظ کی تکرار بار با کی وہ لفظ ہے "میرے نزدیک" :)
دوسرا آپ نے کسی بھی بات کا واضح جواب نہیں دیا جو واضح طور پر کنفیوزڈ ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے اور آپ کی بات کے وزن میں کمی آجاتی ہے ۔
ٹھیک ہے جناب نہیں کرتا وہ لنکس آپ کو فراہم ، کیوں کہ آپ خود اپنے بنائے ہوئے خول ٹوٹتا نہیں دیکھ سکتے ۔
اور یہ کیسی جماعت ہے جس کاخلیفہ اربوں روپے کے محل میں شان و شوکت سے رہے اور اس کے چند ہزار پیروکار ظلم و ستم سہیں :)

اور میں بات کو یہیں ختم کرنا چاہوں گا کہ یہ بات چیت سراسر بے سروپا ہے ۔
اللہ ہم سب کو ہدایت اور سیدھے رستے پر چلنے کو توفیق عطا فرمائے
آپ سے معذرت چاہوں گا کہ آپ کو میری بات بری لگی ، پر میرے بھائی سچ تو سچ ہے ۔
 

حسان خان

لائبریرین
میرے بھائی آپ کی ذات کو نشانہ بنایا ہی نہیں میں نے، صرف ایک بات کہی ہے اور وہ بھی اس لیئے کہی ہے کہ آپ نے اس پورے دھاگے میں ایک ہی لفظ کی تکرار بار با کی وہ لفظ ہے "میرے نزدیک" :)
کیونکہ یہاں ہر کوئی اپنا نظریہ ہی بیان کرنے آتا ہے۔

دوسرا آپ نے کسی بھی بات کا واضح جواب نہیں دیا جو واضح طور پر کنفیوزڈ ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے اور آپ کی بات کے وزن میں کمی آجاتی ہے ۔
مان لیا کہ میں الجھن کا شکار ہوں، لیکن کسی نے کیا میری یہ الجھن دور کرنے کی کوشش کی کہ جماعتِ احمدیہ کیوں اپنی منتخب کردہ شناخت چننے کے لیے اور اپنی مرضی کے عقائد رکھنے اور عبادت کرنے میں آزاد نہیں ہے؟ کوئی عقلی دلیل اس کے پیچھے؟

اور یہ کیسی جماعت ہے جس کاخلیفہ اربوں روپے کے محل میں شان و شوکت سے رہے اور اس کے چند ہزار پیروکار ظلم و ستم سہیں :)
عباسی دورِ خلافت میں بھی تو ایسا ہی کچھ ہوتا تھا۔ احمدیوں کے خلیفہ کو اس کا حق نہیں ہے کیا؟ :D

اور میں بات کو یہیں ختم کرنا چاہوں گا کہ یہ بات چیت سراسر بے سروپا ہے ۔

شکریہ۔ اگر یہ پوری گفتگو سراسر بے سروپا ہے، تو اس گفتگو سے دور ہی رہے تو اچھا ہے۔ :)
 

باباجی

محفلین
مان لیا کہ میں الجھن کا شکار ہوں، لیکن کسی نے کیا میری یہ الجھن دور کرنے کی کوشش کی کہ جماعتِ احمدیہ کیوں اپنی منتخب کردہ شناخت چننے کے لیے اور اپنی مرضی کے عقائد رکھنے اور عبادت کرنے میں آزاد نہیں ہے؟ کوئی عقلی دلیل اس کے پیچھے؟
آپ مانیں گے نہیں کیونکہ یہ تب کی بات ہے جب آپ پیدا نہیں ہوئے تھے :)
 

نکتہ ور

محفلین
مسلمان ہونے کی شرط (میرے نزدیک): جو خود کو مسلمان کہے اور سمجھے۔

یہ بتاتا چلوں کہ میری ذاتی حیثیت میں اسلام ایک عقائد کے مجموعے یعنی مذہب کے بجائے چودہ سو سالوں پر محیط ایک عظیم تمدن کا نام ہے، اور اُسی حوالے سے میں نے مسلمان ہونے کی شرط بیان کی ہے۔ :)
یعنی خود کو مسلمان کہہ لینا اور سمجھ لینا کافی ہے مسلمان ہونے کی شرائط اور ذمہ داریاں پوری کرنا ضروری نہیں؟
عطائی کا خود کو ڈاکٹر کہنا اور سمجھنا کافی ہے محنت کرکے ڈگری حاصل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں؟
 

زبیر حسین

محفلین
انسان بھی بڑی عجیب چیز ہے۔۔۔اس کو منانا بہت مشکل ہے تبھی تو ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اس کو سمجھانے اور منانے کے لئے بھیجے گئے اور ابھی یہ ہمارے ذمے ہے تو ہمیں اپنی کوشش کرتے رہنا چاہیے ۔
 

عسکری

معطل
انسان بھی بڑی عجیب چیز ہے۔۔۔ اس کو منانا بہت مشکل ہے تبھی تو ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اس کو سمجھانے اور منانے کے لئے بھیجے گئے اور ابھی یہ ہمارے ذمے ہے تو ہمیں اپنی کوشش کرتے رہنا چاہیے ۔
بلکہ اب تو انسانوں کو 124 کے نام بھی یاد نہیں :grin:
 

حسان خان

لائبریرین
یعنی خود کو مسلمان کہہ لینا اور سمجھ لینا کافی ہے مسلمان ہونے کی شرائط اور ذمہ داریاں پوری کرنا ضروری نہیں؟
عطائی کا خود کو ڈاکٹر کہنا اور سمجھنا کافی ہے محنت کرکے ڈگری حاصل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں؟

اگر ڈاکٹریت بھی کسی عالمی مذہب یا تمدن کا نام ہوتا تو جی ہاں، ڈاکٹر بننے کے لیے بندے کا صرف خود کو 'ڈاکٹریت' کا حصہ سمجھنا ضروری ہوتا۔ لیکن چونکہ ڈاکٹریت مذہب اور تمدن کے بجائے ایک سائنسی علم ہے، اس لیے اُسے ہی ڈاکٹر سمجھا جاتا ہے جس کے پاس اپنی ڈاکٹریت کا تصدیق نامہ ہو۔

یہ دونوں چیزیں اپنی کیفیت میں جدا ہیں، اس لیے دونوں کی باہم تطبیق نہیں ہو سکتی۔ مذہب یا کسی تہذیب سے وابستی انسان کا ذاتی معاملہ ہوتا ہے اس لیے اُن کا فیصلہ بھی انسان کی اپنی صوابدید پر چھوڑا جاتا ہے۔ جبکہ ڈاکٹر کا کام دیگر افراد کی زندگیوں سے وابستہ ہوتا ہے، اور اس میں ذرا سی چھوٹ لوگوں کی جان لے سکتی ہے، اس لیے اس میں تصدیق ناموں کی حاجت پڑتی ہے۔ نیز، احمدیوں کی اپنی منتخب کردہ شناخت تسلیم کرنے سے میرا قطعی کچھ نقصان نہیں ہوتا، البتہ میں کسی عطائی کو ڈاکٹر مان کر علاج کرواؤں تو خطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
 

رانا

محفلین
اب کیا کیا جائے حسان بھائی ان کے ساتھ حد درجہ ظلم ہوا ہے اور ہو رہا ہے ایسے میں وہ کیوں ہماری خؤشی غم الیکشن یا کسی اور چیز میں شامل ہوں؟
عسکری بھائی سرخ الفاظ سے غیر متفق ہوں۔ ظلم چاہے ہزار درجہ اور ہی کیوں نہ بڑھ جائے اس وطن سے ہماری محبت اور خیرخواہی میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ خوشی غم میں ہم شریک ہوتے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ اور یہ ہم نے اپنے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا ہے کہ قوم کے ظلم سے تنگ آنے کے باوجود طائف میں پتھر کھانے کے باوجود اور شعب ابی طالب کی گھاٹی میں تین سال کے دردناک بائیکاٹ کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم اور وطن سے محبت اور خیر خواہی میں کوئی فرق نہیں آیا۔
ہمارے لئے ہمارے امام کے یہ الفاظ ہمیشہ مشعل راہ رہیں گے:
"پس دنیا کے کونے کونے میں جہاں بھی مسلمان بستا ہے خواہ وہ آپ سے دشمنی میں انتہا بھی کررہا ہو اگر وہ آپ کے محبوب حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا دعویدار ہے تو یہی بات اس کے لئے کافی ہے کہ آپ اس کے کے لئے دعائیں کریں اور اس کے دکھ میں شریک ہوجائیں اس کی خوشی سے خوش ہوں۔ اس کے غم میں مغموم ہوجایا کریں۔ (خطبہ جمعہ 22 دسمبر 1989)
 
مسلمان ہونے کی شرط (میرے نزدیک): جو خود کو مسلمان کہے اور سمجھے۔

یہ بتاتا چلوں کہ میری ذاتی حیثیت میں اسلام ایک عقائد کے مجموعے یعنی مذہب کے بجائے چودہ سو سالوں پر محیط ایک عظیم تمدن کا نام ہے، اور اُسی حوالے سے میں نے مسلمان ہونے کی شرط بیان کی ہے۔ :)

یاد رہے یہ ضروری نہیں کہ آپ کے نزدیک جو بات درست ہے وہ ٹھیک ہی ہو۔ اسلام کا ایک ضابطہ ہے اس ضابطے میں رہ کر بات کریں تو مناسب ہوگا۔
 
ملا کا کام فتوے دینا ہی ہے، اِس کے علاوہ ملا سے آج تک کیا ہو سکا ہے۔ :)

ختم نبوت کی تحریک کی قیادت اگرچہ جید علما نے کی تھی مگر یہ تحریک در اصل عوام کی تحریک تھی۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی حکومت نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا ۔ اس میں ملائیت کی فتوی بازی سے زیادہ عوام کی رائے کا زور تھا۔
 
اسی اصول کے تحت لوگ شیعوں سے بھی اُن کی مذہبی شناخت چھیننے کی بات کرتے ہیں۔ وہ تو شکر ہے کہ شیعہ تعداد میں احمدیوں سے زیادہ ہیں، اور اُن کے پاس تھوڑی سیاسی قوت بھی ہے، ورنہ اُن کا بھی بہت پہلے احمدیوں کی طرح ناطقہ بند ہو چکا ہوتا۔

نجانے آپ شیعوں کی حمایت کس خوش فہمی میں کر رہے ہیں۔ حالانکہ یہ تحریک سنیوں کی نہیں تھی بلکہ امت مسلمہ کی مشترکہ تحریک تھی ۔ اس میں شعیہ علما اور عوام بھی شامل تھے۔۔
 
چناب نگر کا نام تو اُن کی مرضی کا رہنے نہیں دیا، اب وہ بیچارے کیا کسی دوسرے کی جان ہلکان کریں گے۔

لفظ بیچارے کہنے سے پہلے اس قادیانیوں کے اس ظالمانہ رویے پر بھی غور فرما لیں جو اس تحریک کا محرک بنا تھا۔
 
محیب الرحمان کا تعلق احمدی برادری سے ہے۔ وہ گذشتہ پچاس برس سے وکالت کے شعبے سے وابستہ ہیں اور خود کو ایک باشعور شہری سمجھتے ہیں لیکن وہ آئندہ انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔
’انتخابی فہرستیں میں احمدیوں کے لیے ایک الگ رنگ دے دیا گیا کہ گلابی رنگ احمدیوں کا ہوگا یعنی ہمیں اچھوتوں کی طرح بالکل الگ کرکے رکھ دیا گیا۔ اور پھر اگر کوئی ایسا حلف نامہ مجھے دیا جائے جس پر دستخط کرنا میرے ضمیر کے خلاف ہو تو وہ دستخط کرکے میں اپنا حق رائے دیہی استمعال نہیں کرنا چاہتا۔‘
لیکن احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے لیے ملک گیر تحریک چلانے والی جماعت تحریک تحفظ ناموس رسالت کے راہنما مولانا عبد الروف فاروقی جماعتِ احمدیہ کی جانب سے الیکشن عمل کے بائیکاٹ کو پاکستانی آئین سے بغاوت قرار دیتے ہیں۔
مولانا عبدالروف فاروقی کے مطابق ’ احمدیوں کو چاہیے کہ وہ سن تہتر کے متفقہ آئین سے اور امتِ مسلمہ کے فیصلوں سے بغاوت کا راستہ اختیار نہ کریں۔ بغاوت کا راستہ انھوں نے خود اختیار کیا ہوا ہے۔ وہ اپنی آئینی حثیت کو تسلیم کریں اور اپنے ووٹ قادیانیوں کی حثیت سے رجسٹر کروائیں اور قادیانیوں کی حثیت سے اسمبلیوں میں جاکر اپنے حقوق کا تحفظ کریں۔‘
پاکستان میں عام انتخابات کی تیاری اب دھیرے دھیرے زور پکڑ چکی ہے لیکن جماعتِ احمدیہ خود کو جمہوری عمل سے الگ رکھے ہوئے ہے اور ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہورہا بلکہ جماعتِ احمدیہ نے انیس سو ستتر کے بعد کسی بھی عام انتخابات میں حق رائے دیہی استعمال نہیں کیا۔
تجزیہ نگار رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ ’احمدی پاکستان میں ووٹ ڈال سکتے ہیں اپنے نمائندے کھڑے کر سکتے ہیں اور اسمبلی میں موجود مخصوص نشستوں پر امیدوار بھی بن سکتے ہیں۔ انتخابی عمل میں حصہ لینے کے لیے ان پر کوئی آئینی اور قانونی پابندی نہیں۔ لیکن موجودہ سیاسی نظام میں ان کی نمائندگی نہ ہونے کی بنیادی وجہ ان کی مذہبی قیادت کا فیصلہ ہے کہ وہ پاکستان میں سیاسی عمل میں حصہ نہ لیں۔‘
پاکستان میں ایک طویل عرصے تک مشترکہ اتنخابات کا طریقہ ہی رائج رہا تاہم جنرل ضیا الحق نے انیس سو پچاسی میں جب آئین میں آٹھویں ترمیم کی تو ملک میں جداگانہ انتخابات کے طریقے کی منظوری دی جس کےتحت اقلیتیوں کی نشستوں اور ووٹرز کو الگ کردیا گیا۔
پھر سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے دوہزار دو میں تمام اقلیتوں کے لیے مشترکہ انتخابات کو بحال کیا۔ دو ہزار دو میں ملک میں مشترکہ انتخابات کے طریقہ بحال ہونے کے بعد اب اقلیتوں سمیت تمام شہریوں کے لیے ایک ووٹر لسٹ موجود ہے لیکن پاکستان میں موجود تقریباً سوا لاکھ احمدی ووٹرز کے لیے ابھی بھی فہرست الگ ہے ۔
جماعتِ احمدیہ کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں مذہب کی بنیاد پر انھیں شہری حقوق سے محروم کیا گیا، ایک تفریق پیدا کی گئی ہے حالانکہ شہری حقوق غیرمنقسم ہوتے ہیں ان کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
احمدیہ برادری نے اتنخابی فہرستوں میں اپنے ناموں کا اندراج بھی نہیں کروایا ۔ الیکشن کمیشن نے یہ معلومات شناختی کارڈ بنانے والے ادارے نادرا سے لے کر نہ صرف اس سے فہرستیں مرتب کیں بلکہ ان معلومات کو اپنی ویب سائٹ پر شائع کیا ہے جسے جماعتِ احمدیہ اپنے تحفظ کے لیے خطرہ سمجھتی ہے ۔
تجزیہ نگار رسول بخش رئیس کی رائے ہے کہ دوسری اقلیتوں کی طرح احمدی برادری بھی سیاسی عمل کا حصہ بن کر اپنے حقوق کا بہتر تحفظ کرسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بہتر یہ ہے کہ وہ انتخابی عمل کو سمجھیں اس میں حصہ لیں اور جو آئین موجود ہے اس میں تمام تبدیلیوں کے باوجود اس کا احترام کریں اور اس کے ساتھ رہتے ہوئے اگر وہ اپنے حقوق اور خود کے ساتھ ہونے والی تفریق کو ختم کرنے کے لیے جدوجہد کریں۔
لیکن مجیب الرحمان اس نظریے سے متفق نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میرا باہر رہنا احتجاج ہے اس بات کے لیے کہ میرے ضمیر پر جبر نہ کرو اس احتجاج کو میں ختم کرکے ایک عمل کا حصہ بن کر اپنے ضمیر کو دبانے کی کوشش کروں تو یہ میرے لیے ممکن نہیں۔‘
لیکن پاکستان کے معروضی حالات کے مطابق فی الحال تو ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا کہ ملک میں احمدیہ برادری کی آئینی حثیت میں کوئی تبدیلی ہوسکے۔

ربط
ویڈیو رپورٹ

بی بی سی اس طرح کی رپورٹس کو اچھا کر دنیا کو اسلام اور پاکستان کے حوالے سے کیا پیغام دینا چاہتا ہے
 
Top