یہاں ذہن میں کچھ تحفظات موجود ہیں۔
پیغام پہنچنے اور اس پر شرحِ صدر ہو کر ایمان لانے میں فرق ہے۔ پیغمبروں کا بھی معاملہ یہ ہے کہ انہوں نے صرف پیغام پہنچایا ہی نہیں بلکہ اسے آخری درجے میں واضح کر دیا۔ اور ہر قوم کے لیے اس کی مدت بھی مختلف رہی ہے۔ اس کے بعد پیغمبروں کی مرضی سے نہیں بلکہ اللہ کے فیصلے کے تحت انہیں دنیا میں ہی عذاب کی سزا دی گئی۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ حق آخری درجے میں واضح ہوا ہے یا نہیں اس کا علم صرف اور صرف اللہ ہی کو ہے۔
اب خدا کا آخری پیغام پہنچ چکا ہے، اس پر تو اتفاق کیا جا سکتا ہے، لیکن دنیا کے ہر انسان پر حق آخری درجے میں واضح ہوا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ اور اگر یہ فیصلہ نہیں ہو سکتا تو ہر غیر مسلم کو کافر کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟
(اس مراسلے کو محض طالب علمانہ گزارشات پر ہی محمول کیا جائے۔)
پیغمبرقوموں میں اس وقت بھیجے جاتے ہیں کہ جب رفع فساد عام صلح پسند لوگوں کے ہاتھوں سے نکل گیا ہو۔ مثلا فرعون نے رب ہونے کا دعویٰ کیا تو موسیؑ تشریف لائے۔ یہ ایک دوسری بات ہے کوئی ایمان لاتا ہے کہ نہیں جبکہ پیغمبر آخری درجے میں حجت تمام کر دے۔ مثلا موسیؑ کے اتمام حجت کے بعد بھی فرعون ایمان نہ لایا۔
اللہ نے ایک پورا لشکر اس دنیا میں کافروں کا بنایا ہے۔ یہ کافر ہی رہیں گے۔ سو غیر مسلم رہیں گے۔
اسی طرح نےاللہ نے ایک پورا لشکر اس دنیا میں مومنوں کا بنایا ہے۔ یہ مومن ہی رہیں گے۔ سومسلم رہیں گے۔
اب موجودہ دنیا ہو جس میں امریکہ، یورپین اور ایشین ممالک ہوں یا سابقہ دنیا جب قیصر و کسریٰ کی سلطنتیں تھیں ہمیشہ سے حق کی تشہیر عام بھی تھی اور خود انسان کے ضمیر کے طور پر فطرتا اندر موجود بھی تھی۔ سو حجت آج کی طرح ہمیشہ سے تمام رہی ہے۔