عرفان سعید
محفلین
کفار میں ایک تو غیر کتابی کافر ہیں
یعنی کافر قرار دینے پر آپ کا کفر نہیں ٹوٹ رہا!دوسرے، کتابی کافر ہیں
یہ "کفر" شاعری والا ہے۔
کفار میں ایک تو غیر کتابی کافر ہیں
یعنی کافر قرار دینے پر آپ کا کفر نہیں ٹوٹ رہا!دوسرے، کتابی کافر ہیں
تو کس نے کہا نہیں ہیں؟؟؟
وہ تمام اسلامی فتوے جو آئین و قانون پاکستان سے متصادم ہیں کی عملی طور پر کوئی حیثیت نہیں ہے۔ آئین و قانون کی نظر میں ان فتوں پر عمل کرنے والے انسانیت کے سفاک ترین قاتل ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے!!!
آپ نے راقم سے قبل ہی ’’سارا ادھار بمع شرحِ سود‘‘ کے ادا کردیا ، اس لیے اب ’’مزید‘‘ کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ جزاک اللہ خیرا فأحسن الجزاء ۔ بس خدا سے یہی دعا ہے:خود غلام احمد قادیانی کی ارشاد فرمودہ سینکڑوں گالیوں میں چند ایک کی جھلکیاں:
جب آپ ہمارے ہیرو ’’غازی شہید علم دین رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ‘‘ کیلئے نعوذ باللہ ’’الم دین‘‘ کہہ سکتے ہیں تو پھر آپ کی مدافعانہ کوشش پر مرثیہ ہی پڑھا جائے تو بہتر ہے۔ کم از کم آپ اپنا نظریہ تو درست کرلیں۔الم دین
قضیہ کسی کذاب (جھوٹے) کا نبوت کے بجائے رسالت کا دعویٰ کرنے کا نہیں ہے۔
ختم نبوت و رسالت پر ایمان تو ہر مسلمان کے عقیدے کا لازمی حصہ ہے۔ اور جو شخص ختم نبوت یا رسالت پر ایمان نہیں رکھتا ہے، وہ مسلمان ہی نہیں۔
ختم نبوت پر نو کمپرومائز تو اسلام کے روز اول سے ہے۔
سب سے پہلے دو جھوٹے مدعیانِ نبوت اسود عنسی اور مسیلمہ کذاب دونوں نے صرف نبوت کے دعوے کیے تھے، رسالت کے نہیں۔ اس کے باوجود انھیں سختی سے کچل دیا گیا۔
جھوٹے مدعیان نبوت کے فتنے کا آغاز آپ صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں اس وقت ہی ہو گیا تھا جب 10 ہجری میں اسود عنسی نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا۔اس پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسود عنسی کو قتل کرنے کا حکم جاری فرمایا۔
چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے جانثار صحابی حضرت فیروز دیلمی نے اس گستاخ کو قتل کرکے اپنے اوپر شفاعت محمدی کو واجب کیا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو اس بات کی خبر دی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو ان الفاظ میں خوش خبری سنائی۔ ” فاز فیروز“ کہ فیروز کام یاب ہو گیا۔
اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے آخری ایام میں قبیلہ بنو حنیفہ کے ایک بدبخت مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعویٰ کر دیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی رحلت کے بعد جب حضرت ابوبکر صدیق کو خلیفہ مقرر کیا گیا تو آپ نے منصب خلافت سنبھالتے ہی سب سے پہلے مسیلمہ کذاب کے خلاف لشکر روانہ کیا، لیکن پہلے لشکر کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، اس طرح دوسرے لشکر کو بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، حضرت خالدبن ولید کو سپہ سالار بنا کر تیسرا لشکر روانہ کیا گیا، پھر دونوں لشکروں کی آپس میں زبردست جنگ ہوئی اور بالآخر لشکر اسلام کو فتح عظیم نصیب ہوئی صرف اس جنگ میں 1200 صحابہ شہید ہوئے اور مد مقابل مسیلمہ کذاب سمیت اس کے 27 ہزار حواریوں کو جہنم واصل کیا گیا۔
دیکھ لیجیے کہ ختم نبوت اتنا حساس مسئلہ ہے کہ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبوت (رسالت نہیں) کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے مسیلمہ کذاب کے خلاف تین جنگیں لڑیں اور جب تک وہ فتنہ ختم نہیں ہوا، جہاد جاری رہا۔ اس جنگ میں بارہ سو صحابہ شہید ہوئےجن میں جلیل القدر صحابہ بھی شامل ہیں۔یہ سب نقصان برداشت کیا گیا لیکن کذابین سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا گیا۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ختم نبوت اور ناموسِ رسالت ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ بلکہ ایک لحاظ سے ایمان کی کسوٹی ہے۔
نبوت و رسالت کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہوچکا ہے۔ جو شخص بھی نبوت یا رسالت کا دعویٰ کرے گا، اور خود کو مسلمان کہہ کر مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کرے گا، اس سے اور اس کے پیروکاروں سے نفرت ہر صاحب ایمان کرے گا۔
قضیہ کسی کذاب (جھوٹے) کا نبوت کے بجائے رسالت کا دعویٰ کرنے کا نہیں ہے۔
ختم نبوت و رسالت پر ایمان تو ہر مسلمان کے عقیدے کا لازمی حصہ ہے۔ اور جو شخص ختم نبوت یا رسالت پر ایمان نہیں رکھتا ہے، وہ مسلمان ہی نہیں۔
ختم نبوت پر نو کمپرومائز تو اسلام کے روز اول سے ہے۔
سب سے پہلے دو جھوٹے مدعیانِ نبوت اسود عنسی اور مسیلمہ کذاب دونوں نے صرف نبوت کے دعوے کیے تھے، رسالت کے نہیں۔ اس کے باوجود انھیں سختی سے کچل دیا گیا۔
جھوٹے مدعیان نبوت کے فتنے کا آغاز آپ صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں اس وقت ہی ہو گیا تھا جب 10 ہجری میں اسود عنسی نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا۔اس پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسود عنسی کو قتل کرنے کا حکم جاری فرمایا۔
چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے جانثار صحابی حضرت فیروز دیلمی نے اس گستاخ کو قتل کرکے اپنے اوپر شفاعت محمدی کو واجب کیا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو اس بات کی خبر دی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو ان الفاظ میں خوش خبری سنائی۔ ” فاز فیروز“ کہ فیروز کام یاب ہو گیا۔
اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے آخری ایام میں قبیلہ بنو حنیفہ کے ایک بدبخت مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعویٰ کر دیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی رحلت کے بعد جب حضرت ابوبکر صدیق کو خلیفہ مقرر کیا گیا تو آپ نے منصب خلافت سنبھالتے ہی سب سے پہلے مسیلمہ کذاب کے خلاف لشکر روانہ کیا، لیکن پہلے لشکر کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، اس طرح دوسرے لشکر کو بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، حضرت خالدبن ولید کو سپہ سالار بنا کر تیسرا لشکر روانہ کیا گیا، پھر دونوں لشکروں کی آپس میں زبردست جنگ ہوئی اور بالآخر لشکر اسلام کو فتح عظیم نصیب ہوئی صرف اس جنگ میں 1200 صحابہ شہید ہوئے اور مد مقابل مسیلمہ کذاب سمیت اس کے 27 ہزار حواریوں کو جہنم واصل کیا گیا۔
دیکھ لیجیے کہ ختم نبوت اتنا حساس مسئلہ ہے کہ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبوت (رسالت نہیں) کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے مسیلمہ کذاب کے خلاف تین جنگیں لڑیں اور جب تک وہ فتنہ ختم نہیں ہوا، جہاد جاری رہا۔ اس جنگ میں بارہ سو صحابہ شہید ہوئےجن میں جلیل القدر صحابہ بھی شامل ہیں۔یہ سب نقصان برداشت کیا گیا لیکن کذابین سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا گیا۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ختم نبوت اور ناموسِ رسالت ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ بلکہ ایک لحاظ سے ایمان کی کسوٹی ہے۔
نبوت و رسالت کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہوچکا ہے۔ جو شخص بھی نبوت یا رسالت کا دعویٰ کرے گا، اور خود کو مسلمان کہہ کر مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کرے گا، اس سے اور اس کے پیروکاروں سے نفرت ہر صاحب ایمان کرے گا۔
لال کی گئی لائنیں میں نے یہاں سے کاپی کی تھیں۔اس قدر عمدگی سے مسئلہ ختم نبوت کی تبین و تشریح پر راقم گنہ گار آپ کی جوتیوں کو تاج بنائے تو باعثِ سعادت ہوگی ۔ جزاک اللہ خیرا فأحسن الجزاء۔
یہی تو کہا کہ جن کو آپ اسلامی ہیروز قرار دے رہے ہیں وہ قانون کی نظر میں قاتل اور انسانیت کے مجرم ہیں۔ خود تو آپ اپنے مذہبی تقاضے کے تحت قانون سے ثابت شدہ مجرموں کو بھی ہیرو بنا دیتے ہیں۔ اور جب قادیانی اپنے مذہب کے تحت آئین و قانون پر عمل نہیں کرتے تو کہتے ہیں وہ غلط کر رہے ہیں۔ یوں آپ میں اور ان میں کیا فرق رہ جاتا ہے ؟ دونوں ہی اپنے اپنے مذہب کو آئین و قانون سے بالا تر سمجھتے ہیں۔جب آپ ہمارے ہیرو ’’غازی شہید علم دین رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ‘‘ کیلئے نعوذ باللہ ’’الم دین‘‘ کہہ سکتے ہیں تو پھر آپ کی مدافعانہ کوشش پر مرثیہ ہی پڑھا جائے تو بہتر ہے۔ کم از کم آپ اپنا نظریہ تو درست کرلیں۔
دونوں میں فرق ہے۔یہی تو کہا کہ جن کو آپ اسلامی ہیروز قرار دے رہے ہیں وہ قانون کی نظر میں قاتل اور انسانیت کے مجرم ہیں۔ خود تو آپ اپنے مذہبی تقاضے کے تحت قانون سے ثابت شدہ مجرموں کو بھی ہیرو بنا دیتے ہیں۔ اور جب قادیانی اپنے مذہب کے تحت آئین و قانون پر عمل نہیں کرتے تو کہتے ہیں وہ غلط کر رہے ہیں۔ یوں آپ میں اور ان میں کیا فرق رہ جاتا ہے ؟ دونوں ہی اپنے اپنے مذہب کو آئین و قانون سے بالا تر سمجھتے ہیں۔
ایسا آپ کا ماننا ہے۔ ریاست کے نزدیک تمام مذاہب و ادیان کی حیثیت مساوی ہے۔ آئین و قانون بھی کسی خاص مذہب یا دین کی برتری کو تسلیم نہیں کرتا۔دونوں میں فرق ہے۔
قادیانیوں کا مذہب غلط اور باطل ہے، اس لیے وہ اپنی مذہبی تعلیمات پر چلیں یا نہ چلیں، اس کی کوئی اہمیت نہیں۔
مسلمانوں کا دین درست اور حق ہے، باقی تمام ادیان باطل ہیں۔ اس لیے مسلمانوں کے لیے ان کا دین ہی مقدم ہونا چاہیے۔
’’من يبتغ غيرالاسلام ديناً فلن يقبل منه‘‘ الآيةمسلمانوں کا دین درست اور حق ہے، باقی تمام ادیان باطل ہیں۔ اس لیے مسلمانوں کے لیے ان کا دین ہی مقدم ہونا چاہیے
ریاست پاکستان تو دین اسلام کی برتری تسلیم کرتی ہے۔ایسا آپ کا ماننا ہے۔ ریاست کے نزدیک تمام مذاہب و ادیان کی حیثیت مساوی ہے۔ آئین و قانون بھی کسی خاص مذہب یا دین کی برتری کو تسلیم نہیں کرتا۔
’’من يبتغ غيرالاسلام ديناً فلن يقبل منه‘‘ الآية
اپنے تئیں مختلف ادیان اور مذاہب کے ماننے خود کو سب سے بہتر مانتے رہیں اس سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مسئلہ وہاں پیدا ہو جہاں ریاست یا سرکار خود محض عددی برتری کی بنیاد پر کسی ایک دین یا مذہب کو دیگر پر برتر تسلیم کر لے۔ اس غلط پالیسی کا نتیجہ پاکستان میں قادیانی اقلیت اور بھارت میں مسلم اقلیت کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کی شکل میں نکل رہا ہے۔ جب تک ریاست یا حکومت مذہب کے معاملہ میں غیر جانبدار نہیں ہو گی یہ مسائل چلتے رہیں گے۔ریاست پاکستان تو دین اسلام کی برتری تسلیم کرتی ہے۔
جب کائنات اللہ کی ہے تو قانون بھی اللہ کا ہی چلنا چاہیے۔ کوئی مانے یا نہ مانے، وہ اور بات ہے۔
آپ کا نظریہ میرے نظریے سے مختلف ہے۔اپنے تئیں مختلف ادیان اور مذاہب کے ماننے خود کو سب سے بہتر مانتے رہیں اس سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مسئلہ وہاں پیدا ہو جہاں ریاست یا سرکار خود محض عددی برتری کی بنیاد پر کسی ایک دین یا مذہب کو دیگر پر برتر تسلیم کر لے۔ اس غلط پالیسی کا نتیجہ پاکستان میں قادیانی اقلیت اور بھارت میں مسلم اقلیت کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کی شکل میں نکل رہا ہے۔ جب تک ریاست یا حکومت مذہب کے معاملہ میں غیر جانبدار نہیں ہو گی یہ مسائل چلتے رہیں گے۔
ھاھاھاھاھا !!!!!!!جہاں ریاست یا سرکار خود محض عددی برتری کی بنیاد پر کسی ایک دین یا مذہب کو دیگر پر برتر تسلیم کر لے۔
جی نہیں۔کیا سنی کافر نہیں ِ؟ ان کے انبیاء تو تمام کے تمام کتب روایات کے ٓمصنفین ہیں اور قرآن کے بعد بھی کتب روایات پر'سنتوں' کے نام پر، قرآن کی طرح ایمان رکھتے ہیں؟ زکواۃ کھا جاتے ہیں،
جی نہیں۔کیا شیعہ کافر نہیں کہ ، ماتم کرتے ہیں۔۔ زکٓواۃ کو حیلے بہانوں سے مانتے ہی نہیں
پاکستان بنانے کا مقصد عقیدہ ختم نبوت ہرگز نہ تھا۔ پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ چوہدری ظفراللہ خان جو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے بہت قریبی ساتھی تھے وہ قادیانی تھے۔ اسی طرح پاکستان کا خواب دیکھنے والے شاعر مشرق علامہ محمد اقبال بھی ایک لمبا عرصہ تک قادیانی رہے۔ تاریخ کو تاریخ سمجھ کر پڑھیں، مذہبی نظریہ نہیں۔آخر اُن شہیدانِ عشق کے خون کو کیوں آپ غلط ثابت کرنے پر تُلے ہیں ،جنہوں نے 1947 میں اِس نظریہ کو قبول کرتے ہوئے اپنے گھر بار کو چھوڑ کر نئی مملکت میں آن بسے تھے؟
یہ اس طرف اشارہ ہے کہ سارے کافر مشرک نہیں ہیں۔ مشرک اور کافر میں فرق واضح کیا گیا ہے۔ان محدود ملاحظات کے بعد اہلِ کتاب کو مشرکین جیسا کافر قرار دیا جائے تو ذہن میں سوال ضرور پیدا ہوتے ہیں۔