احمدی اقلیت اور ہمارے علما کا رویہ

جاسم محمد

محفلین
تو کس نے کہا نہیں ہیں؟؟؟
اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے!!!
وہ تمام اسلامی فتوے جو آئین و قانون پاکستان سے متصادم ہیں کی عملی طور پر کوئی حیثیت نہیں ہے۔ آئین و قانون کی نظر میں ان فتوں پر عمل کرنے والے انسانیت کے سفاک ترین قاتل ہیں۔
علم دین، ممتاز قادری جیسے قاتلوں کو آج بھی ایک بڑا مذہبی طبقہ ہیرو مانتا ہے۔ گو کہ قانونی طور پر وہ قاتل ہی ہیں۔
 
آخری تدوین:

فاخر

محفلین
خود غلام احمد قادیانی کی ارشاد فرمودہ سینکڑوں گالیوں میں چند ایک کی جھلکیاں:
آپ نے راقم سے قبل ہی ’’سارا ادھار بمع شرحِ سود‘‘ کے ادا کردیا ، اس لیے اب ’’مزید‘‘ کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ جزاک اللہ خیرا فأحسن الجزاء ۔ بس خدا سے یہی دعا ہے:
(خدایا ....................!!
تو برکت کنی در وفائے محمدﷺ
 

فاخر

محفلین
جب آپ ہمارے ہیرو ’’غازی شہید علم دین رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ‘‘ کیلئے نعوذ باللہ ’’الم دین‘‘ کہہ سکتے ہیں تو پھر آپ کی مدافعانہ کوشش پر مرثیہ ہی پڑھا جائے تو بہتر ہے۔ کم از کم آپ اپنا نظریہ تو درست کرلیں۔
 

فاخر

محفلین
قضیہ کسی کذاب (جھوٹے) کا نبوت کے بجائے رسالت کا دعویٰ کرنے کا نہیں ہے۔
ختم نبوت و رسالت پر ایمان تو ہر مسلمان کے عقیدے کا لازمی حصہ ہے۔ اور جو شخص ختم نبوت یا رسالت پر ایمان نہیں رکھتا ہے، وہ مسلمان ہی نہیں۔
ختم نبوت پر نو کمپرومائز تو اسلام کے روز اول سے ہے۔
سب سے پہلے دو جھوٹے مدعیانِ نبوت اسود عنسی اور مسیلمہ کذاب دونوں نے صرف نبوت کے دعوے کیے تھے، رسالت کے نہیں۔ اس کے باوجود انھیں سختی سے کچل دیا گیا۔
جھوٹے مدعیان نبوت کے فتنے کا آغاز آپ صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں اس وقت ہی ہو گیا تھا جب 10 ہجری میں اسود عنسی نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا۔اس پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسود عنسی کو قتل کرنے کا حکم جاری فرمایا۔
چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے جانثار صحابی حضرت فیروز دیلمی نے اس گستاخ کو قتل کرکے اپنے اوپر شفاعت محمدی کو واجب کیا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو اس بات کی خبر دی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام  کو ان الفاظ میں خوش خبری سنائی۔ ” فاز فیروز“ کہ فیروز کام یاب ہو گیا۔
اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے آخری ایام میں قبیلہ بنو حنیفہ کے ایک بدبخت مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعویٰ کر دیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی رحلت کے بعد جب حضرت ابوبکر صدیق  کو خلیفہ مقرر کیا گیا تو آپ نے منصب خلافت سنبھالتے ہی سب سے پہلے مسیلمہ کذاب کے خلاف لشکر روانہ کیا، لیکن پہلے لشکر کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، اس طرح دوسرے لشکر کو بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، حضرت خالدبن ولید  کو سپہ سالار بنا کر تیسرا لشکر روانہ کیا گیا، پھر دونوں لشکروں کی آپس میں زبردست جنگ ہوئی اور بالآخر لشکر اسلام کو فتح عظیم نصیب ہوئی صرف اس جنگ میں 1200 صحابہ شہید ہوئے اور مد مقابل مسیلمہ کذاب سمیت اس کے 27 ہزار حواریوں کو جہنم واصل کیا گیا۔

دیکھ لیجیے کہ ختم نبوت اتنا حساس مسئلہ ہے کہ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبوت (رسالت نہیں) کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے مسیلمہ کذاب کے خلاف تین جنگیں لڑیں اور جب تک وہ فتنہ ختم نہیں ہوا، جہاد جاری رہا۔ اس جنگ میں بارہ سو صحابہ شہید ہوئےجن میں جلیل القدر صحابہ بھی شامل ہیں۔یہ سب نقصان برداشت کیا گیا لیکن کذابین سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا گیا۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ختم نبوت اور ناموسِ رسالت ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ بلکہ ایک لحاظ سے ایمان کی کسوٹی ہے۔
نبوت و رسالت کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہوچکا ہے۔ جو شخص بھی نبوت یا رسالت کا دعویٰ کرے گا، اور خود کو مسلمان کہہ کر مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کرے گا، اس سے اور اس کے پیروکاروں سے نفرت ہر صاحب ایمان کرے گا۔

اس قدر عمدگی سے مسئلہ ختم نبوت کی تبین و تشریح پر راقم گنہ گار آپ کی جوتیوں کو تاج بنائے تو باعثِ سعادت ہوگی ۔ جزاک اللہ خیرا فأحسن الجزاء۔
 

عدنان عمر

محفلین
قضیہ کسی کذاب (جھوٹے) کا نبوت کے بجائے رسالت کا دعویٰ کرنے کا نہیں ہے۔
ختم نبوت و رسالت پر ایمان تو ہر مسلمان کے عقیدے کا لازمی حصہ ہے۔ اور جو شخص ختم نبوت یا رسالت پر ایمان نہیں رکھتا ہے، وہ مسلمان ہی نہیں۔
ختم نبوت پر نو کمپرومائز تو اسلام کے روز اول سے ہے۔
سب سے پہلے دو جھوٹے مدعیانِ نبوت اسود عنسی اور مسیلمہ کذاب دونوں نے صرف نبوت کے دعوے کیے تھے، رسالت کے نہیں۔ اس کے باوجود انھیں سختی سے کچل دیا گیا۔
جھوٹے مدعیان نبوت کے فتنے کا آغاز آپ صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں اس وقت ہی ہو گیا تھا جب 10 ہجری میں اسود عنسی نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا۔اس پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسود عنسی کو قتل کرنے کا حکم جاری فرمایا۔
چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے جانثار صحابی حضرت فیروز دیلمی نے اس گستاخ کو قتل کرکے اپنے اوپر شفاعت محمدی کو واجب کیا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو اس بات کی خبر دی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام  کو ان الفاظ میں خوش خبری سنائی۔ ” فاز فیروز“ کہ فیروز کام یاب ہو گیا۔
اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے آخری ایام میں قبیلہ بنو حنیفہ کے ایک بدبخت مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعویٰ کر دیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی رحلت کے بعد جب حضرت ابوبکر صدیق  کو خلیفہ مقرر کیا گیا تو آپ نے منصب خلافت سنبھالتے ہی سب سے پہلے مسیلمہ کذاب کے خلاف لشکر روانہ کیا، لیکن پہلے لشکر کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، اس طرح دوسرے لشکر کو بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، حضرت خالدبن ولید  کو سپہ سالار بنا کر تیسرا لشکر روانہ کیا گیا، پھر دونوں لشکروں کی آپس میں زبردست جنگ ہوئی اور بالآخر لشکر اسلام کو فتح عظیم نصیب ہوئی صرف اس جنگ میں 1200 صحابہ شہید ہوئے اور مد مقابل مسیلمہ کذاب سمیت اس کے 27 ہزار حواریوں کو جہنم واصل کیا گیا۔


دیکھ لیجیے کہ ختم نبوت اتنا حساس مسئلہ ہے کہ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبوت (رسالت نہیں) کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے مسیلمہ کذاب کے خلاف تین جنگیں لڑیں اور جب تک وہ فتنہ ختم نہیں ہوا، جہاد جاری رہا۔ اس جنگ میں بارہ سو صحابہ شہید ہوئےجن میں جلیل القدر صحابہ بھی شامل ہیں۔یہ سب نقصان برداشت کیا گیا لیکن کذابین سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا گیا۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ختم نبوت اور ناموسِ رسالت ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ بلکہ ایک لحاظ سے ایمان کی کسوٹی ہے۔
نبوت و رسالت کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہوچکا ہے۔ جو شخص بھی نبوت یا رسالت کا دعویٰ کرے گا، اور خود کو مسلمان کہہ کر مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کرے گا، اس سے اور اس کے پیروکاروں سے نفرت ہر صاحب ایمان کرے گا۔
اس قدر عمدگی سے مسئلہ ختم نبوت کی تبین و تشریح پر راقم گنہ گار آپ کی جوتیوں کو تاج بنائے تو باعثِ سعادت ہوگی ۔ جزاک اللہ خیرا فأحسن الجزاء۔
لال کی گئی لائنیں میں نے یہاں سے کاپی کی تھیں۔
اس لیےحقیقی تعریف کے حقدار ربِّ کریم کے بعد صاحب مضمون ہیں۔
اللہ تعالیٰ مجھ گناہ گار پر رحم فرمائے اور ویسا بنائے جیسا آپ کا گمان ہے، آمین۔
 

جاسم محمد

محفلین
جب آپ ہمارے ہیرو ’’غازی شہید علم دین رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ‘‘ کیلئے نعوذ باللہ ’’الم دین‘‘ کہہ سکتے ہیں تو پھر آپ کی مدافعانہ کوشش پر مرثیہ ہی پڑھا جائے تو بہتر ہے۔ کم از کم آپ اپنا نظریہ تو درست کرلیں۔
یہی تو کہا کہ جن کو آپ اسلامی ہیروز قرار دے رہے ہیں وہ قانون کی نظر میں قاتل اور انسانیت کے مجرم ہیں۔ خود تو آپ اپنے مذہبی تقاضے کے تحت قانون سے ثابت شدہ مجرموں کو بھی ہیرو بنا دیتے ہیں۔ اور جب قادیانی اپنے مذہب کے تحت آئین و قانون پر عمل نہیں کرتے تو کہتے ہیں وہ غلط کر رہے ہیں۔ یوں آپ میں اور ان میں کیا فرق رہ جاتا ہے ؟ دونوں ہی اپنے اپنے مذہب کو آئین و قانون سے بالا تر سمجھتے ہیں۔
 

عدنان عمر

محفلین
یہی تو کہا کہ جن کو آپ اسلامی ہیروز قرار دے رہے ہیں وہ قانون کی نظر میں قاتل اور انسانیت کے مجرم ہیں۔ خود تو آپ اپنے مذہبی تقاضے کے تحت قانون سے ثابت شدہ مجرموں کو بھی ہیرو بنا دیتے ہیں۔ اور جب قادیانی اپنے مذہب کے تحت آئین و قانون پر عمل نہیں کرتے تو کہتے ہیں وہ غلط کر رہے ہیں۔ یوں آپ میں اور ان میں کیا فرق رہ جاتا ہے ؟ دونوں ہی اپنے اپنے مذہب کو آئین و قانون سے بالا تر سمجھتے ہیں۔
دونوں میں فرق ہے۔
قادیانیوں کا مذہب غلط اور باطل ہے، اس لیے وہ اپنی مذہبی تعلیمات پر چلیں یا نہ چلیں، اس کی کوئی اہمیت نہیں۔
مسلمانوں کا دین درست اور حق ہے، باقی تمام ادیان باطل ہیں۔ اس لیے مسلمانوں کے لیے ان کا دین ہی مقدم ہونا چاہیے۔
 

جاسم محمد

محفلین
دونوں میں فرق ہے۔
قادیانیوں کا مذہب غلط اور باطل ہے، اس لیے وہ اپنی مذہبی تعلیمات پر چلیں یا نہ چلیں، اس کی کوئی اہمیت نہیں۔
مسلمانوں کا دین درست اور حق ہے، باقی تمام ادیان باطل ہیں۔ اس لیے مسلمانوں کے لیے ان کا دین ہی مقدم ہونا چاہیے۔
ایسا آپ کا ماننا ہے۔ ریاست کے نزدیک تمام مذاہب و ادیان کی حیثیت مساوی ہے۔ آئین و قانون بھی کسی خاص مذہب یا دین کی برتری کو تسلیم نہیں کرتا۔
 

عدنان عمر

محفلین
ایسا آپ کا ماننا ہے۔ ریاست کے نزدیک تمام مذاہب و ادیان کی حیثیت مساوی ہے۔ آئین و قانون بھی کسی خاص مذہب یا دین کی برتری کو تسلیم نہیں کرتا۔
ریاست پاکستان تو دین اسلام کی برتری تسلیم کرتی ہے۔
جب کائنات اللہ کی ہے تو قانون بھی اللہ کا ہی چلنا چاہیے۔ کوئی مانے یا نہ مانے، وہ اور بات ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
’’من يبتغ غيرالاسلام ديناً فلن يقبل منه‘‘ الآية
ریاست پاکستان تو دین اسلام کی برتری تسلیم کرتی ہے۔
جب کائنات اللہ کی ہے تو قانون بھی اللہ کا ہی چلنا چاہیے۔ کوئی مانے یا نہ مانے، وہ اور بات ہے۔
اپنے تئیں مختلف ادیان اور مذاہب کے ماننے خود کو سب سے بہتر مانتے رہیں اس سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مسئلہ وہاں پیدا ہو جہاں ریاست یا سرکار خود محض عددی برتری کی بنیاد پر کسی ایک دین یا مذہب کو دیگر پر برتر تسلیم کر لے۔ اس غلط پالیسی کا نتیجہ پاکستان میں قادیانی اقلیت اور بھارت میں مسلم اقلیت کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کی شکل میں نکل رہا ہے۔ جب تک ریاست یا حکومت مذہب کے معاملہ میں غیر جانبدار نہیں ہو گی یہ مسائل چلتے رہیں گے۔
 

عدنان عمر

محفلین
اپنے تئیں مختلف ادیان اور مذاہب کے ماننے خود کو سب سے بہتر مانتے رہیں اس سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مسئلہ وہاں پیدا ہو جہاں ریاست یا سرکار خود محض عددی برتری کی بنیاد پر کسی ایک دین یا مذہب کو دیگر پر برتر تسلیم کر لے۔ اس غلط پالیسی کا نتیجہ پاکستان میں قادیانی اقلیت اور بھارت میں مسلم اقلیت کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کی شکل میں نکل رہا ہے۔ جب تک ریاست یا حکومت مذہب کے معاملہ میں غیر جانبدار نہیں ہو گی یہ مسائل چلتے رہیں گے۔
آپ کا نظریہ میرے نظریے سے مختلف ہے۔
بہرحال، میں آپ کے لیے دعا گو ہوں۔
 

فاخر

محفلین
جہاں ریاست یا سرکار خود محض عددی برتری کی بنیاد پر کسی ایک دین یا مذہب کو دیگر پر برتر تسلیم کر لے۔
ھاھاھاھاھا !!!!!!! :ROFLMAO::ROFLMAO:
مجھے آپ کی بچکانہ باتیں پر ترس آرہا ہے۔ کیا آپ کو پتہ نہیں کہ :’علامہ اقبال نے الہ آباد کے مسلم لیگ کے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کیوں پاکستان کا نظریہ پیش کیا تھا؟آپ کو اس کی وجہ کا بھی علم ہے‘۔ آخر اُن شہیدانِ عشق کے خون کو کیوں آپ غلط ثابت کرنے پر تُلے ہیں ،جنہوں نے 1947 میں اِس نظریہ کو قبول کرتے ہوئے اپنے گھر بار کو چھوڑ کر نئی مملکت میں آن بسے تھے؟
میں پاکستانی نہیں ؛لیکن میں ڈنکےکی چوٹ پر کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کا قیام اسلام کے تحفظ اور ناموس رسالتماب شہنشاہِ کونینﷺ کی حفاظت کیلئے ہی عمل میں آیا تھا۔ اگر پاکستان میں ختم نبوت کی حفاظت نہ ہوسکی ، تو یقیناً 1947 میں پندرہ لاکھ سے زائد شہید ہونے والوں مسلمانوں کے ساتھ دھوکہ ہوگا۔ یہ سوال آپ ذوالفقار علی بھٹو سے پوچھ لیتے کہ آخرانہوں نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے پر مشتمل بل ایوان میں پیش کرنے میں کیوں عجلت اختیار کی؟ اگریہ ملک باقی ہے تو صرف شہنشاہِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بابرکات کے فیضان کی وجہ سے ہے ،ورنہ بہت بڑے بڑے طوفان نے اس ملک کو ہلانا چاہا ؛لیکن اللہ جسے رکھے اسے کون چکھے؟ ہر ایک مخالف کو اپنے منھ کی کھانی پڑی ۔یہ سچ ہے کہ پاکستان کے دو لخت ہوگئے ؛لیکن پھربھی عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی گرمی ہے کہ بڑے سے بڑے طوفان کا رخ موڑ دیا جاتا ہے۔
خیر چھوڑیں بات بہت طویل ہوجائے گی ، کوئی قرآنی آیت آپ کی اکڑ و ’’طغیان‘‘ پر منطبق کردوں گا آپ سیخ پا ہوجائیں گے۔ :cool::cool::cool:
 
کیا سنی کافر نہیں ِ؟ ان کے انبیاء تو تمام کے تمام کتب روایات کے ٓمصنفین ہیں اور قرآن کے بعد بھی کتب روایات پر'سنتوں' کے نام پر، قرآن کی طرح ایمان رکھتے ہیں؟ زکواۃ کھا جاتے ہیں،
کیا شیعہ کافر نہیں کہ ، ماتم کرتے ہیں۔۔ زکٓواۃ کو حیلے بہانوں سے مانتے ہی نہیں :)

میں صرف مسلمان ہوں۔ سنی شیعہ ، قادیانی بالکل نہیں ۔
 

عدنان عمر

محفلین
کیا سنی کافر نہیں ِ؟ ان کے انبیاء تو تمام کے تمام کتب روایات کے ٓمصنفین ہیں اور قرآن کے بعد بھی کتب روایات پر'سنتوں' کے نام پر، قرآن کی طرح ایمان رکھتے ہیں؟ زکواۃ کھا جاتے ہیں،
جی نہیں۔
کیا شیعہ کافر نہیں کہ ، ماتم کرتے ہیں۔۔ زکٓواۃ کو حیلے بہانوں سے مانتے ہی نہیں :)
جی نہیں۔
ویسے آپ ان موضوعات پر سنجیدگی سے استدلال کرنا چاہتے ہیں، تو ایک الگ لڑی شروع کیجیے۔ اس لڑی کا موضوع قطعاً مختلف ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
آخر اُن شہیدانِ عشق کے خون کو کیوں آپ غلط ثابت کرنے پر تُلے ہیں ،جنہوں نے 1947 میں اِس نظریہ کو قبول کرتے ہوئے اپنے گھر بار کو چھوڑ کر نئی مملکت میں آن بسے تھے؟
پاکستان بنانے کا مقصد عقیدہ ختم نبوت ہرگز نہ تھا۔ پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ چوہدری ظفراللہ خان جو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے بہت قریبی ساتھی تھے وہ قادیانی تھے۔ اسی طرح پاکستان کا خواب دیکھنے والے شاعر مشرق علامہ محمد اقبال بھی ایک لمبا عرصہ تک قادیانی رہے۔ تاریخ کو تاریخ سمجھ کر پڑھیں، مذہبی نظریہ نہیں۔
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
قادیانیت یعنی counterfeit کہہ رہا ہے کہ وہ original ہے اور اس مقصد کے لیے اردو محفل پر جعلی آئی ڈی بنا کر پروپگنڈا کرتا ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
مرزا بیدل پشاوری ذکر کرتے ہیں کہ:
موسم سرما میں ایک مشاعرہ ہوا۔ درمیان میں کوئلوں کی انگیٹھی جل رہی تھی۔ میں نے جتنے شعر کہے حضور انور خواجہ میرویؒ کی شان میں کہے۔ اس پر ایک مرزائی شاعر معترض ہوا کہ میں نے جس قدر شعر پڑھے ، اس میں مرزا غلام قادیانی کی شان میں ایک بھی نہ پڑھا۔ حالانکہ ہم انہیں نبی مانتے ہیں ، لیکن تم اپنے پیر کی شان میں پڑھتے ہو۔ اس بات پر مجھے ایسا جلال آیا کہ دیوانہ ہوگیا اور فی الفور یا حضرت خواجہ احمد میروی المدد پکار کر دونوں ہاتھوں پر جلتے ہوئے کوئلے اٹھا لئے اور اس کے پیچھے ہولیا کہ اب تو اس کو پکار کہ تجھے بچائے۔ وہ مرزائی آگے آگے بھاگ رہا تھا اور میں پیچھےپیچھے۔ آخر دوسروں نے بیچ بچاو کرکے بچایا۔
جب مجھے ہوش آیا تو گھبرا کر سٹیشن کی طرف چل پڑا۔ گاڑی تیار کھڑی تھی ۔ میں سوار ہو کر دربار عالی پہنچ گیا۔ ڈر سے کانپ رہا تھا۔ جب حضور انور خواجہ میرویؒ کے سامنے ہوا تو آپ نے کھڑے ہو کر بغل گیر فرمایا اور فرمایا کہ درویش کے لئے حوصلہ چاہیے۔ میں رو پڑا اور عرض کیا کہ اگر آپ کے پیر کے متعلق وہ کہتا تو کیا آپ صبر کرتے۔ اس پر آپ نے فرمایا
دیوانے ! جس وقت تو نے آگ میں ہاتھ ڈالا ، تمام سلسلہ عالیہ کے حضرات نے اپنے ہاتھ تیرے ہاتھ کے ساتھ کر دئیے تھے۔ اس لئے تم نے ایک بے ایمان کے لئے تمام حضرات رضوان اللہ علیھم اجمعین کو تکلیف دی۔ خبردار آئندہ ایسا نہ کرنا
انوارِ رضا ، حضرت خواجہ احمد میروی نمبر ،صفحہ78
 
Top