عقیدہ ختم نبوت اسلام کا وہ بنیادی عقیدہ ہے جس میں معمولی سا شبہ بھی قابل برداشت نہیں' حضرت امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ:
"جو شخص کسی جھوٹے مدعی نبوت (نبوت کا دعویٰ کرنے والا) سے دلیل طلب کرے وہ بھی دائرہ اسلام سے خارج ہے"۔
کیونکہ دلیل طلب کرکے اس نے اجرائے نبوت (نبوت جاری ہے) کے امکان کا عقیدہ رکھا (اور یہی کفر ہے)
اسلام کی بنیاد :
اسلام کی بنیاد توحید ، رسالت اور آخرت کے علاوہ جس بنیادی عقیدہ پر ہے ' وہ ہے "عقیدہ ختم نبوت" حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نبوت اور رسالت کا سلسلہ ختم کر دیا گیا۔ آپ سلسلہ نبوت کی آخری کڑی ہیں۔ آپ کے بعد کسی شخص کو اس منصب پر فائز نہیں کیا جائے گا۔
ختم نبوت اسلام کی جان ہے :
یہ عقیدہ اسلام کی جان ہے ' ساری شریعت اور سارے دین کا مدار اسی عقیدہ پر ہے' قرآن کریم کی یک سو سے زائد آیات اور آنحضرت کی سینکڑوں احادیث اس عقیدہ پر گواہ ہیں۔ اھل بیت ، تمام صحابہ کرام تابعین عظام، تبع تابعین، ائمہ مجتہدین اور چودہ صدیوں کے مفسرین ' محدثین ' متکلمین ' علماء اور صوفیاء (اللہ ان سب پر رحمت کرے) کا اس پر اجماع ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہے:
"ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول الله وخاتم النبیین" ۔ (الاحزاب:۴۰)
ترجمہ:"حضرت محمد ا تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں' لیکن اللہ کے رسول اور نبیوں کو ختم کرنے والے آخری نبی ہیں"۔
تمام مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ "خاتم النبیین" کے معنیٰ ہیں کہ:
آپ آخری نبی ہیں' آپ کے بعد کسی کو "منصب نبوت" پر فائز نہیں کیا جائے گا۔ عقیدہ ختم نبوت جس طرح قرآن کریم کی نصوص قطعیہ سے ثابت ہے' اسی طرح حضور کی احادیث متواترہ سے بھی ثابت ہے۔ چند احادیث ملاحظہ ہوں:
۱- میں خاتم النبیین ہوں' میرے بعد کسی قسم کا نبی نہیں۔ (ابوداؤد ج:۲' ص:۲۲۸)
۲- مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا اور مجھ پر نبیوں کا سلسلہ ختم کردیا گیا۔ (مشکوٰة:۵۱۲)
۳- رسالت ونبوت ختم ہوچکی ہے پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہے اور نہ نبی۔ (ترمذی'ج:۲'ص:۵۱)
۴- میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو۔ (ابن ماجہ:۲۹۷)
۵- میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں۔ (مجمع الزوائد'ج:۳ ص:۲۷۳)
ان ارشادات نبوی میں اس امرکی تصریح فرمائی گئی ہے کہ آپ آخری نبی اور رسول ہیں' آپ کے بعد کسی کو اس عہدہ پر فائز نہیں کیا جائے گا' آپ سے پہلے جتنے انبیاء علیہم السلام تشریف لائے' ان میں سے ہر نبی نے اپنے بعد آنے والے نبی کی بشارت دی اور گذشتہ انبیاء کی تصدیق کی۔ آپ نے گزشتہ انبیاء کی تصدیق تو فرمائی مگر کسی نئے آنے والے نبی کی بشارت نہیں دی۔ بلکہ فرمایا:
۱- قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ ۳۰ کے لگ بھک دجال اور کذاب پیدا نہ ہوں' جن میں سے ہرایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ اللہ کا رسول ہے۔
0- قریب ہے کہ میری امت میں ۳۰ جھوٹے پیدا ہوں' ہرایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں' حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں' میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
ان دو ارشادات میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے "مدعیان نبوت" (نبوت کا دعویٰ کرنے والے) کے لئے دجال اور کذاب کا لفظ استعمال فرمایا' جس کا معنیٰ ہے کہ: وہ لوگ شدید دھوکے باز اور بہت زیادہ جھوٹ بولنے والے ہوں گے' اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرکے مسلمانوں کو اپنے دامن فریب میں پھنسائیں گے' لہذا امت کو خبردار کردیا گیا کہ وہ ایسے عیار و مکار مدعیان نبوت اور ان کے ماننے والوں سے دور رہیں۔ آپ کی اس پیشنگوئی کے مطابق ۱۴۰۰ سو سالہ دورمیں بہت سے کذاب اور دجال مدعیان نبوت کھڑے ہوئے جن کا حشر تاریخ اسلام سے واقفیت رکھنے والے خوب جانتے ہیں۔ماضی قریب میں "قادیانی دجال" (مرزا غلام احمد قادیانی) نے بھی نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا' خدا نے اس کو ذلیل کیا۔ اس لئے یہ "ختم نبوت" امت محمدیہ کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عظیم رحمت اور نعمت ہے' اس کی پاسداری اور شکر پوری امت محمدیہ پر واجب ہے۔
تو اس کا مطلب پہلا قول ابو حنیفہ صاحب سے منسوب ہے، یہ نہ تو قران کے الفاظ ہیں اور نہ ہی حضور کی کوئی حدیث (جو آپ نے نیچے دی ہیں) اس پہ دلالت کرتی ہے کہ نبی کا دعویٰ کرنے والے سے دلیل طلب کرنا کفر ہے!
پہلا نقطہ تو یہ ہے کہ مجھ پر کہیں بھی قران میں یہ فرض نہیں کیا گیا کہ میں ابو حنیفہ صاحب کی تقلید اختیار کروں یا وہی راستہ صحیح ہو گا جس پہ ابو حنیفہ صاحب ہوں گے!
دوسرا نقطہ یہ ہے نبوت کے دعویدار سے دلیل طلب کرنا انسان کی نیت پہ منحصر ہے یعنی اگر کوئی شخص نبوت کے دعویدار سے دلیل طلب کرے تو لازمی نہیں ہے کہ اس کا صرف وہی پہلو ہے جو ابو حنیفہ نے بیان کیا ہے!
یہ بھی تو ممکن ہے کہ نبوت کے دعویدار سے دلیل طلب کرنے والے کی نیت یہ ہو کہ وہ اسے سب کے سامنے ایکسپوز کرے کہ وہ جھوٹا نبی ہے۔ ظاہر ہے اگر وہ جھوٹا نبی ہے تو اس کے پاس اپنے وزن میں کہنے کے لیے جھوٹی باتیں ہی ہونگی!
اس لیے ابو حنیفہ صاحب کو نہ تو ہم خدا کا درجہ دے سکتے ہیں اور نہ ان کے الفاظ کو قران کا درجہ۔ موجودہ دور میں جب علم کی اتنی گرہیں کھلنے کے باوجود ہر ہر حدیث اور قران کا حرف حرف ریکارڈ پہ ہونے کے باوجود ہمارے دیسی علماء کی حالت ہمارے سامنے ہے تو آپ تصور کریں کہ ان سے پہلے علماء کی جنہیں ہم نے نعوذ باللہ خدا کے قریب قریب پہنچا دیا ہے۔ ان میں اللہ نے کسی بھی انسان کو کسی کی تقلید کا پابند نہیں کیا!