شہر والوں کے ڈیرے
پہاڑوں میں چھوٹے سے گاؤں
سے چل کر
بڑے شوق سے میں نگر کوٹ آیا
دھوئیں کے بگولے
بسیں، ٹیکسیاں، ریل گاڑی
۔ ۔ ۔ ۔ ہزاروں مسافر
بہت تیز چلتے
وہ اک دوسرے کے تعاقب میں جیسے
اچکتے، پھسلتے، سنبھلتے
رواں تھے
کہ مغرب میں سورج کے ڈھلنے
کے آثار بھی تو عیاں تھے
عجب ہی سماں
اجنبی سے مناظر کا اک سلسلہ تھا
در و بام، گلیاں
وہ جھلمل ستاروں کے مانند
روشن ہنڈولے
رفیقوں کے ٹولے
کھلی شاہراہیں، وہ آباد سڑکیں
دکانوں میں خوش رنگ سامان
ہوٹل، کلب، سنیما گھر
حسیں میکدے، رقص گاہیں
وہ فلمی ستاروں کے فوٹو
دل مشتری کو لبھانے کی چالیں
ہجوم ہوس میں
کہاں تک طبیعت سنبھالیں
گناہوں سے دامن بچا لیں
فلک بوس
اک دوسرے پر بنائے گئے
شہر والوں کے ڈیرے
مکانات کی اونچی اونچی چھتوں پر
بسائی گئیں
بیکراں بستیاں سی!
کچھاروں میں جیسے
طلسمات کی دھند میں اونگھتی
جادوئی ہستیاں سی
ہرے پارکوں میں
وہ شاداب اونچے گلابوں
کے خلوت کدے
جن میں نازک بدن پھول سی اپسرائیں
حسیں خوبرو نوجوانوں کے پہلو میں
الفت کی شمعیں جلائیں
بصد عشوہ و ناز نگہت فشاں تھیں
۔ ۔ ۔ ۔ ہنسی دل لگی۔ ۔ ۔ قہقہے۔۔ ۔ ۔ ۔ گیت
اور میں یہاں
چوک کے دائرے پہ کھڑا
رات کو لحظہ لحظہ
فلک سے زمین پر اترتے ہوئے دیکھتا تھا!
بسیں، ٹیکسیاں، تیز کاریں
حسیں میکدے، رقص گاہیں
یہاں ہر طرف
اجنبی صورتوں کا تھا ریلا
اداسی کی یلغار اور میں اکیلا!
۔ ۔ ۔ قدم الٹی جانب اٹھے
تیز بھاگا
یکایک جو جاگا
وہی گھر تھا اپنا
یہ سب کچھ تھا سپنا
پسینے میں تر جسم تھا
سانس بھاری
ابھی تک اعصاب پر خوف طاری!
چکا چوند تھی۔ ۔ ۔ ٹھیک ہے
میں نے سوچا!
مگر شکر ہے خیر سے گاؤں پہنچا