صفحہ نمبر192 سے صفحہ نمبر196۔
---------
صفحہ192
---------
اور ساری سپاہ قاز کی متفرق ھوئی؛ اب کوئی دم میں قلعہ بھی فتح ھو جاتا ھے۔
القصہ اُس کے درمیان ایسی لڑائی ھوئی کہ طرفین کے بہت سردار اور سپاھی کام آئے۔ آخر غلبہ ھُدھُد کی فوج کا ھوا اور قاز کی سپاہ ھر طرف پریشان ھوئی اور تھوڑے سے لوگ قاز کے پاس رہ گئے۔
قاز نے جانا کہ اب قدرت لڑنے کی میں اپنے میں نہیں پاتا اور فوج کا بھی رخ پھر گیا اور صدمے سے لڑائی کے کسی کو پھر حریف سے مقابلے کی تاب و طاقت باقی نہ رھی۔ ناچار ھو کر کلنگ کو بلایا اور کہا "اے کوتوال! میں نے خوب معلوم کیا ھے کہ طالع میرے پھر گئے اور مجھ کو اتنی امید نہیں کہ یہاں سے اب پھر کر سلامت جا سکوں گا۔ میں یہ چاھتا ھوں کہ تو نوکر نمک حلال ھے۔ کسی طرح خیرو عافیت سے اپنی جان لے کر نکل جا؛ لیکن یہاں سرخاب سے پہلے صلاح لے، پھر وھاں جا کر میرے بڑے بیٹے کو اس ملک کا بادشاہ کر کہ ھمارے گھر میں سلطنت قائم رھے۔ اور میں جانتا ھوں کہ سوائے تیرے اتنا بڑا کام کسو سے ھر گز نہ ھو سکے گا۔ "
کلنگ بولا " اے بادشاہ ! تم یہ بات اپنی زبان مبارک سے نہ نکالو، اس کے سننے سے میری چھاتی پھٹتی ھے۔ جب تلک جان میرے تن میں ھے، تب تک کسی کی طاقت ایسی نہیں کہ تم پر آ کر حملہ کرے۔ میں تم سے ولی نعمت کو اکیلا چھوڑ کر کدھر جاؤں۔ سرخ روئی میری اسی میں ھے کہ میرا سر آپ کے قدموں کے نیچے گرے اور یہی میری عین سعادت ھے۔" بادشاہ نے کہا " اے کلنگ! میں جو تجھ کو کہتا ھوں سو کر۔ تیرے سوائے میرا ایسا کوئی خیر خواہ اور کارگزار دوسرا نہیں۔" کلنگ
-------
صفحہ 193
-------
اپنے دل میں سمجھا کہ خداوند اپنی مہربانی سے مجھ کو لڑائی کے میدان سے نکالا چاھتے ھیں، اور یہ شرط نمک حلالی کی نہیں کہ بادشاہ کو میدان میں اکیلا چھوڑ کر میں چلا جاؤں۔ مناسب یوں ھے کہ کسی حیلے جہاں پناہ کو اس خیال سے باز رکھوں۔
یہ فکر کر کے کہا " پیرُمرشد! اگر میں اپنے لوگوں کو چھوڑ کر جاؤں تو خلق مجھ کو نامرد کہے گی کہ اس گاڑھ میں اور ایسے برے وقت میں بادشاہ اور اپنے یاروں کو جی کی نامردی سے چھوڑ کر چلا گیا، میری اس میں رسوائی ھو گی۔ جب تک جیتا ھوں کہیں نہ جاؤں گا۔ یہ بات قاز نے سن کر سرخاب سے کہا کہ کلنگ کی وہ صورت ھے جیسے پانی اور کیچڑ آپس میں بے نفاق محبت رکھتےھیں۔ جب تلک پانی کیچڑ کے اوپر ھے تب تک ھمیشہ وہ اُس کے نیچے ھے، جس وقت پانی اُس کے اوپر سے خشک ھو جاوے، تب وہ گارا اُس کی جدائی سے چھاتی پھٹ کر رہ جاتا ھے۔
اسی گفت گو میں تھے کہ ناگاہ خُروس ھُدھُد کی طرف سے بجلی کی طرح کڑک کر پہنچا اور آتے ھی قاز پر تلوار چلائی۔ کلنگ نے اُس وار کو اپنے پر لے کر نیزہ اُس کی چھاتی پر مارا۔ ان نے اُس کی انّی کی چوٹ کو رد کر کے پھر کلنگ پر حربہ کیا اور آپس میں اُن دونوں سے ایسی لڑائی ھونے لگی کہ شور زمین سے آسمان تک پہنچا۔ آخر کلنگ خروس کے ھاتھ سے مارا پڑا۔ تب بادشاہ بہت رویا اور اُس کی مغفرت خدا سے چاھی اور آپ وھاں سے کشتی میں سوار ھو بھاگ کر اپنے وطن کو صحیح سلامت پہنچا۔
اور ھُدھُد قاز کے بھاگنے کی خبر سن کر نہایت خوش ھوا اور اُس فتح کو غنیمت جان کر خدا کا شکر کیا۔ اور نقارے فتح کے اور شادیانے خوشی کے بجوائے۔ اور کہنے
-------
صفحہ 194
-------
لگا کہ جیسی مردانگی اور نمک حلالی کلنگ نے کی، ایسی کم کسو سے ھوتی ھے اور اُس کو بڑا ثواب ملے گا؛ کس واسطے کہ جو کوئی خاوند (خداوند) کے حقِ نمک پر جان اپنی فدا کرے تو رتبہ اُس کا آخرت میں غازیوں کا ھو گا اور جنت میں حورو قصور اُس کو نصیب ھوں گے۔ اور جو کوئی کلنگ کا سا کام کرے گا وھی جواں مرد اور سپہ سالار ھو گا۔"
جب یہ حکایت تمام ھوئی ، تب بشن سرما برھمن کہنے لگا " اے راجا کے بیٹو! جو کوئی اس نقل کو اپنے من کے کانوں اور ھئے کی آنکھوں سے سنے اور دیکھے تو وہ بڑا سیانا اور گنونت ھووے اور بیریوں کے سروں کو بدھ کے کھانڈے سے کاٹ گراوے۔"
اس حکایت کے سنّے (سننے) سے راجا کے بیٹے بہت خوش ھوئے اور پوچھا " اے برھمن! چوتھی حکایت ملاپ کی دشمنی سے پہلے یا لڑائی کے پیچھے ھو، کیوں کر ھے؟"
وہ کہنے لگا کہ یوں سنا ھے کہ قاز بادشاہ اور سرخاب وزیر لشکر سے اپنے پراگندہ تھے۔ قاز نے سرخاب سے پوچھا کہ تو کچھ جانتا ھے کہ قلعے سے آگ کیوں کر اُٹھی؟ سرخاب نے جواب دیا " اے بادشاہ! کوّا ھمیشہ فوج کے ساتھ رھتا تھا۔ یہ کام اُسی کا ھے، اور میں نے اس سے آگے ھی التماس کیا تھا کہ کوّے کو جگہ نہ دیا چاھیے۔" قاز نے کہا " نہ یہ خطا تیری عقل کی ھے، نہ دوس کوّے کا بلکہ قصور اپنے طالعوں کا ھے؛ جو کچھ کہ خواھش خدا ھو وھی ھوا چاھیے۔"
سرخاب نے کہا کہ جو کوئی دوست کی نصیحت نہ سنے ، اُس کی وھی حالت ھو گی جیسے کچھوے کی ھوئی۔ قاز نے پوچھا وہ قصہ کیوں کر ھے؟
-------
صفحہ195
-------
چوتھا باب
نقل دو قاز اور کچھوے اور مچھوے کی
سرخاب نے کہا " جالندھر کے دیس میں پدنام ایک ندی ھے۔ دو قاز وھاں برسوں سے رھتے تھے اور ایک کچھوا بھی اُسی ندی میں رھتا تھا اور اُس سے قازوں سے بڑی دوستی تھی۔ چاند نام ایک مچھوا اُس کے کناے یوں کہتا چلا جاتا تھا کہ کل اس میں جال ڈال کے سب مچھلیاں پکڑوں گا۔ مچھوے کی بات کچھوا اور دونوں قاز سن کر بہت ڈرے اور آپس میں صلاح کرنے لگے کہ اب کیا کیا چاھیے کہ اُس کے ھاتھوں سے کسی طرح جی بچے۔ قاز بولے کہ آج دن بھر دیکھ لو کہ ماھی گیر سچ بول گیا ھے کہ جھوٹ۔ کچھوا بولا " سنو یارو! اپنے کہے پر اگر وہ کل یہاں آن پہنچا، تم تو پرند ھو، اُڑ جاؤ گے اور میں اپنے میں اتنی طاقت نہیں دیکھتا جو اُس کے ھاتھوں سے بچوں۔ جیسا کہ بنیے کی جورو نے اپنے تئیں اور غلام کو مکر سے بچایا۔"
قازوں نے پوچھا کہ وہ قصہ کیوں کر ھے؟
نقل ایک کچھوے اور بنیائن اور غلام کی
کچھوا بولا کہ ایک کچھوے کو کوئی شکاری پکڑے لیے جاتا تھا۔ کسی بنیے کے لڑکے نے اپنے کھیلنے کے لیے اُسے مول لے لیا۔ دن کو اُس کے ساتھ کھیلا کرتا اور رات کو اُس کی ماں اُسے پانی کے گھڑے میں بند کر دیتی۔ اسی طرح جب
-------
196
-------
کئی دن گزرے ، ایک روز کیا ھوا کہ بنیے کی عورت ۔۔۔۔۔ (1) اپنے غلام کا منھ چومنے لگی۔
اتفاقاً بنیا اُس روز بے وقت دکان سے اپنے گھر میں آ نکلا اور نظر بنیے کی بنیائن پر جا پڑی۔ وہ سمجھی کہ میرا بھید اب اس پر کھل گیا۔ جلدی سے خاوند کے پاس دوڑی آئی اور غصے سے کہنے لگی کہ اس موئے غلام نے چھ ماشے کافور جو گھر میں رکھا ھوا تھا، سو چرا کر سب کھا لیا۔ اس کے منھ سے بُو آتی ھے۔ غلام رو کر کہنے لگا کہ مہاراج! اگر میں نے کھایا ھو تو مہا پاپی ھوں، پر یہ رنڈی جھوٹ موٹ مجھے دوکھ لگاتی ھے۔ جس گھر میں ایسی جھوٹی استری ھو اُس میں کوئی غریب کیوں کر رھنے پائے گا۔؛ تب بنیے نے بھی غلام کا منھ سونگھا پر اُس کی بُو باس نہ پائی، تب جھنجھلا کر عورت سے کہنے لگا کہ تونے سارا کافور اپنے پِتا کے گھر بھجوا دیا اور غلام کو طوفان لگایا۔
وہ یہ سنتے ھی چڑچڑا اٹھی۔ وہ گھڑا کہ جس میں کچھوا تھا، دریا کی طرف سر پر رکھ کر لے چلی۔ اس میں مہاجن دل میں سوچا کہ تیہے کے مارے ندی میں ڈوبنے نہ چلی ھو۔ اُس کے پیچھے یہ بھی لپکا۔ ندی کے کنارے تک پہنچتے پہنچتے جا لیا اور اس کے ھاتھ پاؤں پڑ کر منانے لگا کہ مجھ سے چوک ھوئی، جانے دے اور اُسے کھینچ کر گھر کی طرف لانے لگا۔ وہ غصے سے ھاتھ جھٹک کر اپنے تئیں چھڑانے لگی۔ اُس کھینچا کھینچی میں سر پر سے گھڑا گر کر پھوٹ گیا اور کچھوا پانی چھوٹ گیا۔
(1)۔ یہاں سےکچھ عبارت حذف کر دی گئی ھے۔
-----------------------------
صفحہ نمبر 192 سے صفحہ نمبر 196
-----------------------------