اسکین دستیاب اخلاقِ ہندی

اخلاقِ ہندی ٹائپنگ کے بارے میں گفتگو

اخلاق ہندی از میر بہادر علی حسینی

اردو ویکیپیڈیا کے مطابق
"1803میں اردو زبان کی تاریخ میں نثر کی جو پہلی کتاب چھاپے خانے سے چھپ کر کر نکلی وہ اخلاق ہندی تھی۔ یہ کتاب فارسی کتاب مفرح القلوب کا ترجمہ تھا جو فورٹ ولیم کالج کلکتہ کے میر منشی میر بہادر علی حسینی نے کیا تھا۔
 
آخری تدوین:
صفحہ 52 سے 57
صفحہ 52

ہزاروں شکر اس خدا کے کہ جس نے اپنی تمام خلقت میں انسان کو فضیلت عطا فرمائی اور عقل کے تاجِ مرصع سے دین و دنیا میں اس کے سر کو زیب و زینت بخشی اور طبیعت کے چالاک گھوڑے پر سوار کرکے دانائی کی لگام ہاتھ میں دی ، اور علم کی تلوار ملکِ دل کے نظم و نسق کے واسطے سپرد کی کہ شیطان دشمن کے ہاتھ سے ہوش و حواس کی زیست پامال نہ ہو۔ اور درود بے شمار اس کے نبی احمد مختار اور اس کے آل اطہار پر۔
اے دانا ! آگاہ ہو۔ اس کتاب کو ہند میں "ہتوپدیس" یعنی نصیحت مفید کہتے ہیں اور اس میں چار باب مندرج ہیں۔ ایک میں ذکر دوستی کا ، دوسرے میں دوستوں کی جدائی کا ، تیسرے میں لڑائی کی ایسی باتوں کا جو اپنی فتح ہو اور مخالف کی شکست ، چوتھے میں کیفیت ملاپ کی خواہ لڑائی کے آگے ہو یا پیچھے۔
غرض سے ایسے عجیب و غریب قصوں میں قصے لپٹے ہوئے ہیں جن کے دیکھنے اور سنے (سننے) سے آدمی دنیا کے کاروبار میں بہت ہوشیار ، نہایت چالاک ہو جاوے ؛ علاوہ اس کے بھلی بری حرکتیں ہر ایک کی نظر آویں۔ چنانچہ یہ کتاب سرکار دولتِ مدار میں ملک الملوک شاہ نصیرالدین کی (جس کی تخت گاہ صوبہ بہار تھی) پہنچی۔
جب انہوں نے سنا ، اس میں قصے ازبس کہ دلچسپ اور نصیحتیں نہایت مرغوب اور باتیں بہت خوب اور حکایتیں اکثر مفید ، اپنے ملازموں سے ایک کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ اس کو ترجمہ سلیس فارسی میں کرو تو میں اپنے مطالعے میں رکھوں اور اس کے مضمون سے مستفید ہوؤں۔

صفحہ 53
میں رکھوں اور اس کے مضمون سے مستفید هوؤں ۔ تب ان میں سے ایک شخص حکم بجا لایا اور نام اس کا "مفرح القلوب" رکھا ۔ بالفعل اس عاصی میر بہادر علی حسینی نے سن اٹھارہ سو دو عیسوی (۱۸۰۲ء) میں مطابق سن بارہ سو ستره هجری (1217ھ) کے فرمانے سے صاحب خداوند نعمت جان گلکرسٹ صاحب بہادر دام اقبالہ کے زبان فارسی سے ترجمه سلیس رواجی ریختے میں (جسے خاص و عام بولتے هیں) کیا اور نام اس کا "اخلاق هندی" رکھا ۔ جو کوئی اس پر عمل کرے گا تو دل و دماغ اس کا عقل کی بو سے هر دم تازه هوگا اور اکثر دانائی کی باتوں سے واقف هو کر همیشه خوش و خرم رھے گا۔

احوال کتاب کا اور ابتدائی قصه
اب یہاں سے قصبے کی بنیاد یوں هے که هند میں گنگا کنارے ایک شہر ، نام اس کا مانک پور اور راجا وهاں کا چندر سين تها اور جتنے ذات بھائی اس کے برابر کے تھے ، سب اس کے حکم میں رها کرتے۔ ایک دن راجا اپنی سلطنت کے تخت پر بیٹھا تھا اور بیٹے اُس کے بے ادبوں کی طرح سامنے کھڑے تھے ۔ ایک شخص یه بد وضعی ان کی دیکھ کر کہنے لگا جس کو علم نہیں وہ اندها ہے ، اگرچه آنكھوں دیکھتا ھے ؛ لیکن علم وہ چیز هے که جس کی قوت سے مشکلیں حل هوتی هیں اور غنی وه هے جس کو علم کی دولت هو کیوں که نه اسے کوئی چور لیوے ، نه اس پر کوئی دعوی کر سکے اور نه یہ کسی پر معلوم هو که وه رهتی هے کہاں ، بلکه جتنی خرچ کیجیے اتنی بڑھے ، کسی طرح سے کم نه هو۔
اور علم جواهر بے بہا اور مردوں کی زیب و زینت اور سفر حضر کا رفيق ھے ۔ جس میں یه هو ، وہ بزرگوں اور بادشاهوں کی مجلس میں

ص 54
بیٹھنے پاوے ۔ اور سب هنروں میں سے دو خوب هیں : ایک علم ، دوسرا فن سپه گری ۔ لیکن دونوں میں سے علم کو اچھا کها هے ، کس واسطے جو علم لڑکا پڑھے تو سب کوئی دعا دیں ، اگر بوڑها پڑھے تو دل و جان سے سنیں ، جب اس کے معنوں کو وہ سمجھاوے تو اسے دل میں جگه دیں : برخلاف اس کے اگر بوژها تلوار چلاوے تو لوگ اس پر ٹھٹھے ماریں اور یه کہیں دیکھو بڑھاپے میں عقل ماری گئی ، دیوانه هو گیا۔
پس علم سیکھنے میں هرگز کاهلی نه کرو اور یہ خاطر میں لاؤ که اس زندگی کے واسطے اتنی محنت کیا ضرور ھے ؟
سنو! اگر علم حاصل کرو گے تو خدا کی بندگی اور دین دنیا کی دولت به خوبی ہاتھ آوے گی اور یہ بھی خیال غفلت
دل میں کبھی نہ لاؤ کہ ابھی ہم جوان ہیں ، خدا کی بندگی کو بہتیرے دن پڑے ہیں ، خاطر جمع سے کریں گے ، بالفعل کام دنیا کے کریں ۔ بلکه به جانو که موت سر کی چوٹی پکڑ کے ھمیشه خدا کے حکم کی منتظر رهتی هے۔ جب حکم هوا ترت گلا گھونٹ لے جاتی ھے ، ایک دم فرصت نہیں دیتی ۔ اے یارو ! اپنے لڑکوں کو لڑکائی میں علم سکھاؤ تو ان کے دل میں وہ نقش کالحجر هووے ۔ جیسا جیسا کچے برتن پر نقش کیجیے تو وہ بعد پکنے کے کبھی دور نہیں هوتا هے۔
جب راجا نے یہ سب حقیقت سنی تو غم گین ہو کر سر نیچے کر لیا ۔ پھر کہنے لگا '' افسوس ! میرے لڑکوں میں چار چیزیں جمع هوئی هیں : جوانی ، مال ، غرور ، بے هنری ۔ جو ایک ان 1

1۔ لفظ "ان" کو نسخه مطبوعه 1868ء (لندن) میں هر جگه "انھ" لکھا گیا ہے۔
موجودہ املا کو ترجیح دی گئی ہے ۔ (مرتب)

ص 55
چاروں میں سے کسی میں ہو تو اسے خانه خراب تین تیره کرتی هے اور جس لڑکے کو علم نه هو یا علم پر عمل نه کرے تو اس سے بیل بھلا که جو بوجھ اٹھاتا ھے اور بہت اس سے کام نکالتا هے ۔ یه یاد رکھو ، جب کسی مجلس میں یه ذکر نکلے که اس ملک میں نیک کون اور بد کون ہے ؟ اس میں جس کا نام نیکی سے لیا جاوے ، وہی فرزند خلف کہلاوے اور جس شخص کا نام بدی سے لیویں تو اس کے ماں باپ بانجھ لاولد کہلاویں ۔ اور کہہ گئے ہیں که جس پر خدا مہربان هو اسے چھ چیزیں میسر ہوتی ہیں : پہلی ان میں سے روز به روز علم کی زیادتی ، دوسری تندرستی ، تیسری عورت نیک بخت ، وفادار ، شیریں زبان ، چوتھی سخاوت اور خدا ترسی ، پانچویں بڑی عمر اور نیک بختی ، چھٹی یه که ہنر جو ناداری میں کام آوے ۔"
پھر اس مجلس میں سے دوسرا شخص بولا "اے راجا ! چار چیزیں لڑکا ماں کے پیٹ سے لے کر نہیں نكلتا : پہلے بڑی عمر یا چھوٹی ، دوسرے نیک بختی یا بد بختی ، تیسرے دولت یا فقیری ، چوتھے ہنر یا بے ہنری ۔ خدا نے تمہارے بیٹوں کو علم نصیب کیا ہے ، ہنر مند ہوں گے ۔ جو اندیشه که خونِ دل کو تمہارے پانی کرتا ہے ، ایسی دارو کیوں نہیں کھاتے جو اسے وہ دور کرے اور تمھیں ہمیشه آرام رہے ؟"
راجا نے پوچھا "وہ کون سی دوائی ہے ؟ کہا " وہ قول خدا کا ہے جس کا حاصل یه ہے که میں جو چاہتا ہوں ، سو كرتا ہوں اور جس چیز کو کیا چاہتا ہوں ، وہیں ہوتی هے ۔" راجا بولا " سن یار ! یه سچ ھے جو تو نے کہا لیکن باری تعالی نے آدمی کو هاتھ ، پاؤں ، هوش ، گوش ، عقل ، شعور سب کچھ دیا ۔ لازم هے که تحصیل علم کے ساتھ بندگی میں خدا کی تغافل نه کرے ،

ص 56
کیوں که آدمیوں کے کام کا درست کرنے والا وهی هے ۔ جو کوئی علم کے واسطے محنت کرتا هے خدا اس کی مشقت کو ضائع نہیں هونے دیتا ، جیسا که مئی کمہار کے یہاں خود به خود برتن نہیں بنتی جب لگ (تک) اس میں پانی دے کر نه سانے ۔ اور چاک پر رکھ کے اپنے ہاتھ نه بناوے ، بھلا تب لگ (تک) بباسن کیوں کر بنے ؟" یه دیکھ کر پھر راجا نے کہا " اے بھائیو ! تم میں کوئی ایسا دانا عقل مند ہے جو میرے لڑکوں کو علم و ہنر سکھاوے اور کراہ چھڑا کر سیدھی راہ پر لگاوے کیوں که یه مثل مشہور ہے جو درخت صندل کے پیڑ کے پاس رهے تو وہ بھی خاصيت چندن کی پکڑتا هے۔
پیڑ صندل کا جو ہوتا هے کسی جا که کھڑا
تو بہت اشجار کو ہوتا هے اس سے فائدا

ویسے ہی اگر نادان ، دانا کی صحبت میں رہے تو وہ بھی عقل مند ہوتا هے ۔
 
آخری تدوین:

محمد عمر

لائبریرین
58 سے 70


58

پہلا باب
پہلی حکایت متر لابھ کی


یعنی فائدہ جو یاروں سے یاروں کو حاصل ھو

بشن سرما پنڈت کہنے لگا کہ اب دوستوں کے ملاپ کی باتیں کہتا ھوں۔ جو لوگ بے مقدور، دانا، مفلس اور دوست ھیں، سو وے اپنا کام ان چار جانوروں کی طرح کرتے ھیں۔ راجا کے بیٹوں نے پوچھا : "وہ کیوں کر ھے؟ اُس کا بیان جدا جدا کرو۔"


لگی پتنگ کوے اور چڑی مار کی داستان

پھر پنڈت بولا کہ گوداوری ندی کے کنارے بڑا سا ایک سینبھل کا درخت تھا۔ اُس گرد نواح کے تمام پرندے رات کو اُس پر بسیرا لیا کرتے۔ ایک روز منہ (۱) اندھیرے لگ پتنگ کوے کی آنکھ کھلی۔ دیکھتا کیا ھے کہ ایک چڑی مار کاندھے پر جال دھرے ملک الموت کی صورت بنائے چلا آتا ھے۔ یہ اپنے دل میں اندیشہ کرنے لگا کہ آج بڑی فجر کے وقت صورت منحوس نظر آئی ھے، دیکھا چاہیےکیا ھو۔ یہی کہہ کر اس شکاری کے پیچھے لگ لیا۔ آخرش کچھ ایک آگے بڑھ کر تھوڑے چاول جھولی سے
۱۔ نسخہ مطبوعہ ۱۸۶۸ء میں ھر جگہ ھائے مخلوط سے (منھ) لکھا گیا ھے۔ موجودہ املا کو ترجیح دی گئی۔ (مرتب)


59

نکال کر ایک جگہ پر درخت کے نیچے چھٹکائے اور اپنے کاندھے کا جال اُس پر بچھا کر آپ ایک گوشے میں چھِپ رھا۔ اس عرصے میں چتر گریو نام کبوتروں کا بادشاہ اپنی فوج کے ساتھ ھوا پر سے میدان میں آ پہنچا۔ اور اُن میں سے بعضے کبوتروں کی نظر بکھرے ھوئے دانوں پر پڑی تو ھر ایک کو اُن دانوں کے چگنے کی خواہش ھوئی۔ چتر گریو اُن نادانوں کی خام طمعی کو دیکھ کر کہنے لگا "اے یارو! بھلا ٹک غور تو کرو، اس جنگل میں دانے کہاں آئے؟ اگر یہاں آدمی ھوں تو کہہ سکیے کہ اُن کے کھانے کھلانے سے دانے زمین میں گرے ھوں گے، سو تو نہیں۔ اور یہ چاول جو اس درخت کے نیچے پڑے نظر آتے ھیں، سو اس میں کچھ فریب ھے۔ اگر تم دانا کھانے کے لیے نیچے اُترو گے تو تمھارا احوال اُس مسافر کا سا ھو گا جو سونے کی پائل کے لیے چہلے میں پھنس کر بوڑھے شیر کا لقمہ ھوا۔" کبوتروں نے پوچھا "وہ قصہ کیوں کر ھے؟" چتر گریو نے کہا :


حکایت بوڑھے باگھ اور مسافر کی


"ایک دن میں دکھن کی طرف کسی جنگل میں چرائی کو گیا تھا۔ وہاں دیکھا کہ ایک بوڑھا باگھ منہ کعبے کی طرف کیے مؤدب ھو کر تالاب کنارے بیٹھا ھے۔ جو کوئی راہی مسافر اُس طرف کو ھو کر نکلتا، وہ کہتا کہ میرے پاس سونے کی پایل ھے، اُس کو میں خدا کی راہ پر دیا چاھتا ھوں، جو کوئی لے، میں اُسے دوں۔ لیکن مارے ڈر کے اس کے نزدیک کوئی نہ آتا۔
قضا کار ایک روز کسی مسافر اجل گرفتہ کو یہ ھوس ھوئی کہ اُس زیور کو شیر سے لیا چاھیے۔ دل میں خیال کیا ایسا مال مفت پھر کہاں ہاتھ آوے گا۔ معلوم ھوتا ھے کہ میرے بخت نے



60

یاوری کی اور طالعوں نے مدد۔ یہ سمجھ کر چاھا کہ باگھ کے پاس جاوے، پھر جان کی دھشت اندیشہ کرنے لگا کہ یکایک دشمن کی میٹھی بات پر بھروسا نہ کیا چاھیے۔ اگرچہ اُس کے نزدیک پایل ھے پر اُسے کیوں کر لوں۔ چنان چہ زھر کے ساتھ ھر چند شہد ملا ھو، تا ہم اُس میں خطرہ جان کا ھے اور جس برائی میں بھلائی شامل ھو وہ بھی خوب نہیں۔ پھر من میں سوچا جہان گنج تہاں مار، جہان پھول تہاں خار، اور زر کے محتاج کو ھر جگہ خوف ھے۔ اب جو میں ڈر کر رہ جاؤں تو دولت میرے ھاتھ نہ آوے گی۔ آدمی اُس کے واسطے کیسی کیسی محنتیں کرتے ھیں اور کیا کیا اذیتیں اٹھاتے ھیں، تب وہ ھاتھ آتی ھے۔
آخر یہ سب سوچ بچار کر کے بولا "اے شیر! وہ چیز جو اللہ دیا چاھتا ھے سو کہاں ھے؟ دکھا۔" تب اُس نے وہ پایل ھاتھ پسار کے دکھلائی۔ بٹوھی بولا "تُو باگھ میں مانُس، میرا مانْس تیرا ادھار، مجھے تیرا بھروسا نہیں، میں تیرے پاس کیوں کر آؤں؟" شیر بولا "تو نہیں جانتا ھے کہ میں نے مانس کھانا چھوڑ دیا ھے۔ اگر گوشت کی مجھے خواہش ھو تو میں جنگل سے ھرن مار کر کیوں نہ کھاؤں اور تجھے پکڑ کر کیوں نہ کھا جاؤں؟ لیکن میں نے زہد اختیار کیا۔ اب یہ پائل میرے کس کام آوے گی۔ تجھ فقیر دیکھ کر دیتا ھوں تا کہ مجھے ثواب ھو۔ تم ھرگز خوف اپنے دل میں مت لاؤ، نسنگ چلے آؤ۔ جیسی میں اپنی جان جانتا ھوں ویسی ہی دوسرے کی۔" راھی نے کہا "اتنے آدمی اس راہ سے آئے گئے، ان کو کیوں نہ دی؟" کہا "غنی کو دینا کیا فائدہ؟ جو زخمی ھو اُسی کو دارو دیتے ھیں، بھلے چنگے کو دوا کھلانی لا حاصل، بھوکھے (بھوکے) کو کھلانا موجب ثواب کا ھے۔"



61


اس گفت گو پر مسافر نے فریب کھایا اور کہا " اے نیک خصال! وہ پائل مجھے دے ۔" شیر نے کہا "پہلے تم اس تالاب میں نہا کر میرے پاس آؤ تو میں تمھیں دوں۔" تب وہ غریب زیور کی خوشی سے جلد چشمے میں آیا۔ آتے ہی دونوں پاؤں چہلے میں پھنس گئے۔ شیر نے دیکھا اب تو یہ دلدل میں پھنس چکا، اُٹھ کر آھستہ آھستہ پکڑنے کے واسطے چلا۔ اُس نے پوچھا "شیر! تم کہاں آتے ھو؟" شیر نے کہا "تجھے دلدل سے نکالنے کو۔" یہ کہتے ہی گردن جا پکڑ لی۔ بے چارے بٹوھی نے پکڑتے وقت اپنی عقل پر ھزاروں ملامتیں کیں اور کہنے لگا کہ اگر کوئی کڑوے کدو کی جڑ میں پانی کی جگہ شربت دیوے تو بھی پھل اس کا کڑوا ہی ھووے۔
جو جا کو پڑیو سبھاؤ جاینا جیو سوں
نیم نہ میٹھو ھوے سیج گڑ گھیو سوں
اگرچہ اُس نے کتنی ایک باتیں میٹھی میٹھی مجھ غریب کے دل للچانے کے واسطے کیں لیکن جو کچھ اُس کی ذات میں تھا سو نمودار ھوا۔ اگر وہ نیک ھوتا تو بدی ھرگز ظاہر نہ ھوتی اور ایسا کام کبھی نہ ھوتا۔ چنان چہ گاے سوکھی گھاس کھاتی ھے اور دودھ میٹھا دیتی ھے لیکن دودھ اس کا بہ سبب گھاس کھانے کے میٹھا نہیں بلکہ وہ اس کی ذات سے میٹھا ہے۔ اتنا کہہ کر وہ تو مر گیا۔
چتر گریو کبوتروں کے بادشاہ نے کہا "اے بھائیو! اگر دانا کھانے کو درخت کے نیچے اُترو گے، جیسا کہ اُس مسافر لالچی نے اندیشہ نہ کیا، پائل کے لالچ میں اپنی جان مفت برباد دی، ویسا ہی تم بھی ان دانوں کی طمع سے گرفتار ھو کے قدر عافیت معلوم کرو گے۔ اے یارو! میں نے کبھی اس درخت


62


کے تلے دانہ پڑا نہیں دیکھا۔ بزرگوں نے کہا ھے کہ تھوڑے کھانے، اور پڑھے بیٹے سے، اور سیانی عورت سے جو اپنے خصم کے کہنے میں ھو، اور اُس آقا سے جس کو اپنی خادمت کی قوت سے اپنا کیا ھو، اور سوچی ھوئی بات سے، اور جو کام عاقلوں کی صلاح سے ھوا ھو، ان چھ چیزوں سے کبھی زبونی پیدا نہ ھو گی۔ اگر اپنی بھلائی چاہتے ھو تو ان دانوں سے ہاتھ اُٹھاؤ۔
جو کبوتر اُن میں نادان تھا، اس نے کہا "اے بھائیو! اگر ایسی بات چیت سے ہم ڈریں گے تو دانا کہیں کھانے نہ پاویں گے۔ جہاں کہیں چرائی کو جائیں گے اگر ایسا ہی دغدغہ دل میں لاویں گے تو گویا اپنی روزی کا دروازہ اپنے ھی ھاتھوں سے بند کریں گے۔ میں تو ان دانوں کو ہرگز نہ چھوڑوں گا۔" خیر جب سب کبوتر اس کے کہنے سے درخت کے نیچے آئے، چتر گریو بڑا عاقل تھا، اس کے نزدیک کوئی مشکل نہ رہتی اور ھر ایک کو نصیحت کیا کرتا۔ جب سب یار نیچے جا چکے، تب یہ کہا "اب تنہا رھنا میرا بے لطف ھے۔ مرگ انبوہ جشنے دارد۔" ساتھ ان کے جو ھو سو دھو۔ آخر وہ بھی اُتر کر جلد شریک ھوا۔ چڑی مار نے دیکھا، اب تو سب آ چکے، جھٹ سے جال کھینچ لیا، تمام کبوتر جال میں پھنس گئے۔ تب وے اُس نادان کو لعنت و ملامت کرنے لگے کہ ھم اس بے وقوف کے کہنے سے نیچے آئے تو دام میں پھنسے۔
کبوتر نادان اُن کے طعن و تشنیع سے ایسا شرمندہ ھوا جو اُس کو منہ دکھانے کی جگہ نہ رھی۔ کہا بزرگوں کا قول سچ ھے "اگر دس آدمی کو ایک مشکل پیش آوے تو ایک آدمی کو نہ چاھیے کہ مخالف بن کر اس میں سبقت کرے، جو بھلا ھو تو سب کہیں کہ ھم بھی اس میں مددگار تھے۔ خدا نہ خواستہ اگر


63

کچھ اَور صورت ھو تو ھر ایک اُسی پر گناہ ثابت کرے۔"
چتر گریو نے کہا "اس وقت ملامت کرنی کیا فائدہ؟"
ملامت روا ھے سلامت کی جا
جو وہ جا چکی ھے ملامت خطا
اے بھائیو! گناہ اور خطا کسو کی نہیں، جو کچھ خواھش الہٰی ھے وہی ہوتی ھے۔
قضا کے ھاتھ میں پانچ انگلیاں وو
اگر چاہے کرے بے جاں کسی کو
رکھے آنکھوں پہ دو اور کان پر دو
اور اک رکھ لب پہ وہ بولے کہ چپ ھو
یارو اگر دن برا آتا ھے تو نیک کام بھی بد ھو جاتا ھے۔ چناں چہ ماں باپ سے زیادہ مہربان اپنے بیٹے بیٹی کے حق میں کوئی نہیں لیکن بعضے وقت ایسا ھوتا ھے کہ وھی ماں باپ اپنے فرزندوں کے دشمن ھوتے ھیں۔ مثل ھے "گوالا جب گائے کا دودھ دوہتا ھے، تب بچھڑے کے گلے کو گائے کے پاؤں سے باندھتا ھے۔ اُس وقت وھی پاؤں بچھڑوں کی بیڑی ھوتا ھے اور وہ گوالا اپنا مطلب حاصل کر لیتا ھے۔" سنو دوستو! اب شور مت کرو، کچھ ایسا اندیشہ کرو کہ موجب ھر ایک کی مخلصی کا ھو۔ یار وھی جو برے وقت میں کام آوے۔ فراغت میں ھر کوئی کہتا ھے کہ میں تمھارا دوست ھوں۔ اگر کسی کو کچھ ضرور کام در پیش ھو اور اُس کے سبب مغموم ھووے تو اُس کو لوگ مرد نہیں کہتے بلکہ نا مرد کر مشہور کرتے ھیں۔ مرد وہ ھے کہ جو حادثہ اُس پر پڑے تو دل اپنا مضبوط رکھے اور سوچ بچار اس بات کا کرے کہ اُس سے اپنا کام سر انجام ھووے۔ قول بزرگوں کا ھے :
اضطرابی ھے عبث کلک قضا نے تیرے
لکھ دیا ھے جو نصیبوں میں وہی ھووے گا


64

اب ایسی فکر کیا چاھیے کہ ھر ایک اس بند سے نجات پاوے کیوں کہ عقل مندوں نے کہا ھے کہ چھ چیزیں آدمیوں کو چاھئیں : پھلی اُن میں سے یہ ھے کہ اگر کسی بلائے ناگہانی میں گرفتار ھو جاوے تو اُس ہرگز نہ گھبراوے۔ دوسری یہ، جو کوئی کسی کے یہاں بڑا آدمی آوے تو اس کی تواضع کرے۔ تیسری یہ، جو بات مجلس میں کہے سو بر محل کہے۔ چوتھی یہ کہ لڑائی دل چلاوے۔ پانچویں یہ کہ اپنے تئیں خلق کی زبان سے بچاوے اور نیک کہلاوے۔ چھٹی یہ ھے کہ علم کی تحصیل میں دل لگاوے۔
اور چھ چیزیں مرد کو نہ چاہئیں : پہلے بہت سونا، دوسرے عبادت میں کاھلی کرنی، تیسرے ھر ایک کام میں ڈرتے رھنا، چوتھے غصہ کرنا، پانچویں برا کہنا پڑوسیوں کو، چھٹے غیبت کرنی لوگوں کی اور ھنسنا اُن پر۔
اب اسے بھائیو! میرے اتفاق سے کام کرو اور میری بات کو سنو تو تمھاری مخلصی ھووے۔" کبوتروں نے کہا "اے بادشاہ! جو پہلے تمھارا کہا ہم سنتے، ایسے فضیحت اور رسوا نہ ھوتے۔ اب جو کچھ فرماؤ سو بجا لاویں۔" بادشاہ نے کہا "یارو! جو دس شخص پر ایک مشکل آ پڑے، اُن میں سے ایک کو نہ چاھیے کہ مختار ھو کر اپنے تئیں نمود کرے، کیوں کہ اگر وہ کام خوب ھو تو سب کہیں کہ اُس میں ھم شریک تھے، جو بد ھو تو سب کہیں کہ فلانے نے یہ کام کیا ھے۔ اب جو کچھ ھوا سو ھوا لیکن بالفعل سب کبوتر ایک دل ھو کر ایک بارگی جال سمیت اڑو۔ چناں چہ ایک گھاس کے تنکے سے جو ایک پرند کو باندھیں تو زور سے اس طائر کے وہ تنکا ٹوٹ جاوے۔ اگر ویسے ہی بہت سے تنکے ایک جگہ کرکے رسا بانٹیں تو اس سے ھاتھی بندھا رھے،


65

ھر چند ہاتھی زور کرنے پر ھرگز نہ توڑ سکے۔
غرض جو اس نے کہا، سو انھوں نے کیا، یعنی سب زور سے جال لے اُڑے اور چڑی مار نے کئی کوس تک پیچھا اُن کا کیا۔ جب وے نظر سے غائب ھوئے، تب وہ نا اُمید ھو کر پھر گیا۔ کبوتروں نے کہا "اے بادشاہ! شکاری نے ھمارے گوشت کھانے سے ھاتھ دھوئے، اب کیا کیا چاھیے؟" چتر گریو بولا "یارو! دنیا میں ماں باپ درد کے شریک ھیں کیوں کہ وے اپنے دل سے دوست ھیں، اور لوگ کسو سبب سے ھوتے ھیں۔ لیکن اس وقت وے کہاں ملیں؟ پر ایک میرا دوست ھرنسک نام چوھا گندک ندی کے کنارے بچتر بن میں رھتا ھے، جو وھاں پہنچیں گے تو وہ تمھارے جال کے ڈورے کاٹے گا۔" یہ سن کر سب کبوتر اُس چوھے کے بل پاس جا پہنچے۔ اور وہ دور اندیشی سے اپنے رھنے کی جگہ میں سو بل بنا کر رھتا تھا۔ کبوتروں کو دیکھ کر چھپ رھا۔ پھر اپنے دوست کو پہچان کر کہنے لگا " آہ ھو! میں بڑا نیک بخت ھوں جو میرے گھر پر میرا یار چتر گریو آیا۔" پھر دیکھا کہ سب کبوتر ایک جال میں پھنسے پڑے ھیں۔ ایک لحظہ چپ رہ کر کہنے لگا "یار! یہ کیا حال ھے؟" چتر گریو بولا "میں کیا کہوں؟ ھمارے گناہوں كا یہ نتیجہ ھے۔ تم دانا ھو کر یہ کیا پوچھتے ھو؟" چوھا کہنے لگا " شخص کو جہاں کسی سبب سے جو کچھ ھوا چاھے سو ھوتا ھے؛ چنان چہ دکھ سکھ، خوشی نا خوشی، ھر ایک کو اپنے اپنے گناہ اور نیکی کے موافق ملتی ھے۔"
یہ کہہ کر چوھا چتر گریو کی طرف کا پھندا کاٹنے کو دوڑا۔ وہ بولا "ایسا نہ چاھیے، پہلے میرے رفیقوں کی گرہ کاٹو تِس پیچھے میری۔" چوھا بولا "دانتوں میں قوت کم ھے، کیوں کر


66


سب کے پھندے کاٹ کر تمھارا پھندا کاٹوں گا۔" پھر چتر گریو نے کہا "پہلے اُنھیں کا جال کاٹو۔" ھرنک بولا "اپنے تئیں ھلاکت میں کر دوستوں کو بچانا خوب نہیں۔ بزرگوں نے کہا ھے مال کو اور دوستوں کو واسطے دفع بلیات کے رکھتے ھیں، یعنی جان کو دولت اور لواحقوں بچاتے ھیں۔ اپنی جان کی محافظت ھر ایک شے پر مقدم جانا چاھیے کیوں کہ اس کے سبب دین و دنیا کا کام انجام پاتا ھے۔" چتر گریو بولا "اے دوست! تو جو کہتا ھے سو دنیا کا یہی دستور ھے لیکن میں اپنے لواحقوں کا دکھ دیکھ نہیں سکتا۔ آگے بھی لوگ کہہ گئے ھیں کہ دانا غیر کے واسطے جان اور دولت دیتا ھے۔ پس غیر کے لیے اپنی دولت اور زندگی سے ہاتھ اٹھانا مناسب ھے اور یے سب ذات اور زور میں میرے برابر ھیں۔ پس میری بزرگی سے فائدہ ان کو کیا ھو گا؟ بغیر اُجرت کے میری رفاقت میں رہتے ھیں، اس میں اگر میری جان جاوے اور ان کی مخلصی ھووے تو مجھے قبول ھے، کیوں کہ اس جسم فانی کا کچھ اعتبار نہیں۔ جو اس سے دنیا میں بھلائی رھے تو بہتر ھے، کس واسطے کہ وہ تو ایک دم میں فنا پزیر ھے اور یہ ہزاروں برس رہتی ھے۔"
یہ بات ھرنک سن کر بہت خوش ھوا اور کہا "صد آفریں تم کو کہ اپنے رفیقوں پر تمھارا یہاں تک دل ھے۔" خیر ھرنک چوھے نے ھر ایک کبوتر کے پاؤں کے پھندے کاٹ کر تعظیم و تکریم سب کی کی۔ پھر چتر گریو کی طرف متوجہ ھو کر کہا "سن یار! جال میں گرفتار ہونے کا افسوس نہ کرنا کیوں کہ ھرج مرج سب پر یوں ھیں ھوتا چلا آتا ھے۔" بولا "اگر ہم دانا ہوتے تو جال میں چڑی مار کے نہ پھنستے۔" ھرنک کہنے لگا :دیکھو کرگس نزدیک آسمان کے اُڑتا ھے اور تکا گوشت کا جو دیکھے تو


67

اُسی وقت نیچے آتا ھے۔ اگر کسو نے وھاں جال بچھایا ھو تو کیا جانے؟ کیوں کہ خدا کے کام میں عقل ضعیف کا کیا مقدور جو دخل کر سکے، روز بد کی تاثیر ایسی ھے؛ جو چاند سورج چاھیں کہ اپنے تئیں گہن سے بچاویں تو بچا نہیں سکتے۔" ھرنک نے دو چار باتیں نصیحت اور دلاسے کی کر کے مہمانی کھلا پلا اُسے وداع کیا اور دونوں یار آپس میں بغل گیر ھو کر آنکھیں بھر لائے اور چوھے نے مخدوم شیخ سعدی کا یہ شعر پڑھا:

چشم و دل سعدی کے تیرے ساتھ ھیں
جانیو تو مت کہ تنہا ھوں چلا


چتر گریو بادشاہ کبوتروں کا لشکر سمیت اپنے ملک کی طرف چلا اور ھرنک اپنے بل میں گھسا۔


پھر وہی الگ پتنگ کوا کہ جس کا مذکور پہلے ھوا۔ اور اُس چڑی مار کا منہ، منہ اندھیرے دیکھ کر ساتھ لگ لیا تھا۔ اُس نے تمام احوال (جو کبوتروں پر گزرا تھا) دیکھا تو حیران ھو کر کہا "سبحان اللہ! دیکھو تو محبت اور دوستی میں کتنا بڑا فائدہ ھے کہ کس برے وقت میں یار کام آیا ۔

بیل کیچڑ میں پھنسے کو چاھیے ھاتھی قوی

یار در ماندے کی کرتا ھے مدد یارِ دلی
وہ کوا چوھے کے بل کے پاس آیا اور نرم نرم آواز سے کہنے لگا "اے ھرنک! میں نے اتنا سفر کیا ھے لیکن تم سا یار وفادار دنیا میں کہیں نہیں دیکھا۔ میری ایک عرض ھے جو قبول کرو تو کہوں؟" جب چوھے نے آواز کوے کی سنی تو سوراخ سے بولا "تو کون ھے اور کہاں سے آتا ھے؟" کہا "میں لگ پتنگ کوا ھوں۔ اب یہ چاھتا ھوں دوستی کروں۔" چوھا بولا "میں چوھا تُو کوا، میں تیری خوراک، تو میرا


68


کھانے والا۔ پس ھماری تمھاری دوستی کیوں کر بن پڑے؟ جاؤ کسی کوے یا اور کسی پنچھی سے دوستی کرو۔ اگر میں تم سے دوستی کروں تو وہ مثل ھو جیسا کہ گیدڑ اور ھرن میں بہ سبب یاری کے ھوئی۔" کوے نے پوچھا کہ اُن کا قصہ کیوں کر ھے؟ چوھے نے کہا :

حکایت سبدھ کوے اور ھرن اور چھُدر بُدھ گیدڑ کی


"میں نے سنا ھے کہ پورب کی طرف گنگا کے کنارے چنپاوتی نام ایک نگری ھے۔ اس کے نزدیک ایک جنگل ھے۔ اُس میں ایک کوا اور ھرن دو یار جانی رھا کرتے تھے۔ ھرن خوب تازہ توانا تھا۔ ایک گیدڑ اُس کے مٹاپے کو دیکھ کر بہت خوش ھوا اور دل میں اپنے ٹھہرایا کہ پہلے اس ھرن سے روباہ بازی کیا چاھیے، تس کے پیچھے اس کے گوشت سے اپنی داڑھ کو گرم کیجیے۔ یہ نیت کر کے ہولے ہولے ھرن کے پاس آیا اور کہا السلام علیک اے ھرن! خیر و عافیت؟"،ھرن بولا "تو کون ھے؟ کہا "میں گیدڑ ھوں، نام میرا چھُدر بدھ ھے، اس جنگل میں بغیر دوست کے جیوں (جوں) مردہ پڑا رھتا ھوں۔ اب تم سے جو ملاقات ھوئی ھے تو اپنے تئیں میں نے جیتوں کی دفعہ میں شمار کیا اور جانا کہ اب میرے قالب میں جان آئی۔"

اسی گفتگو میں تھے کہ سورج کے قاز نے دریائے نیل سے اُڑ کر کنارے میں جا غوطہ مارا اور پیچھے سے باز کالی رات کا نمودار ھوا۔ ھرن جہاں رات کو رھتا تھا وہاں گیا۔ گیدڑ بھی اُس کے پیچھے لگا ھوا اُس کے ڈیرے لگ (تک) چلا گیا۔ وہاں ایک درخت چنپا کا تھا اور ایک سبدھ نام كوا ھرن کا قدیم دوست تھا۔ دیکھتے ھی بولا "اے یار! یہ دوسرا کون ھے جو تم اپنے ساتھ لائے؟" کہا یہ گیدڑ ھے اور نیک ذات معلوم ھوتا ھے اور



69

مجھ سے دوستی کیا چاھتا ھے۔" کوے نے کہا کہ جس سے کہ آشنائی نہ ھو اُس کی بات کو یک بیک نہ سنا چاھیے اور اپنی جگہ میں رھنے نہ دیجیے۔ مگر تُو نے بات اُس کرگس اور بلی کی نہیں سنی؟ اُس نے پوچھا "وہ کیوں کر ھے؟" کوے نے کہا :

نقل ایک گدھ اور بلی کی
میں نے یوں سنا ھے کہ بھاگ رتھی ندی کے کنارے ایک پہاڑ ھے، اُسے گرد کوٹ کہتے ھیں اور اُس پر ایک بڑا درخت سنبل کا تھا۔ اس کے کھولڑ میں ایک بوڑھا ضعیف گدھ برسوں سے رھا کرتا تھا۔ اس کے پر و بال میں اتنی طاقت نہ تھی جو کہیں اِدھر اُدھر کھانے پینے کے واسطے جایا کرے، لیکن اکثر پرندے جو اس درخت پر رھا کرتے تھے، ھر ایک جانور کھانے کی چیز اس کے لیے اپنی چونچ میں لایا کرتا۔ اسی صورت سے کرگس اپنی گزران ھمیشہ کیا کرتا۔

ایک دن ایک بلی اُس تاک پر وہاں آئی کہ اُن جانوروں کے بچے کھایا چاہیے۔ بچوں نے اسے دیکھ کر شور ڈالا۔ گدھ کو بڑھاپے کے آنکھوں کے سبب نہ سوجھتا تھا۔ بچوں کا غوغا سن کر اُس خوف سے سر نکالا اور کہا کہ تُو کون ھے جو یہاں چلا آتا ھے؟ بلى نے جو کرگس کو دیکھا تو ڈری کہ یہ جانور بڑا ھیبت ناک ہے۔ اپنے دل میں کہا کہ اب میں ماری گئی کیوں کہ جگہ بھاگنے کی نہ رہی۔ پس یہی بہتر ھے کہ اُس کے نزدیک جا کر کچھ بات بنائیے کہ دل اس کا فریفتہ ھو۔ آھستہ آھستہ کرگس کے پاس آ کر سلام کیا۔ اُس نے پوچھا ''تو کون ھے؟" اُس نے غریبی سے کہو "میں غریب بلى ھوں۔" کہا "اگر تو بلى ھے تو یہاں سے جلد بھاگ، نہیں تو میں ھوں بھوکھا، تیرا لہو پی جاؤں گا۔" اُن نے کہا "میں ایک بات


70

تم سے کہتی ھو۔ جو مارنے کے قابل ھوں تو مجھے مار ڈالیو اور نہیں تو چھوڑ دیجیو۔" وہ بولا "جو تیرے دل میں ھو سو ظاہر کر۔" بولی کہ سنو صاحب! آدمی بد ذات اور نیک ذات قول و فعل سے پہچانا جاتا ھے۔ اگرچہ یہ بات درست ھے جو سب کہتے ھیں کہ بلى جانور کی مارنے والی اور مانس ادھاری ھے۔ اگر یہ بات دل میں لا کر مجھے مار ڈالو تو تمھاری بزرگی معلوم ہوئی: پر شاید تم نے میرے زہد کا احوال کسو سے نہیں سنا کہ میں بغیر اشنان کچھ کام نہیں کرتی ھوں اور گوشت کھانا بالکل جانوروں کا چھوڑ دیا ھے کہ اپنی اور دوسرے کی جان برابر جانتی ھوں، خدا کی بندگی میں رہتی ھوں۔ اب یہ عاجزہ تمھاری خدمت میں آئی ھے۔ جب یہاں اکثر جانور دانہ چگنے کے واسطے گنگا کے کنارے جاتے تھے، اُن کی زبانی آپ کے اوصاف سن کر دل اس عاصی کا نہایت راغب ھوا کہ ایسے بزرگ کے قدم دیکھا چاھیے، کہ جتنے گناہ اپنے میں ھوں سو دور ھو جاویں۔ اس نیت سے آپ کے قدم آ دیکھے ھیں، اور تم میرے مارنے کا قصد رکھتے ھو۔ ایسا کسو نے نہیں کیا جیسا تم کیا چاہتے ھو۔ اگر کوئی کلھاڑی ھاتھ میں لے کر درخت کاٹنے کے واسطے آتا ھے اور وہ اُس کی چھاؤں میں بیٹھتا ھے، درخت اپنی بڑائی سے چھاؤں اُس کے سر سے دور نہیں کرتا۔ میں تیری ملاقات کے واسطے اتنی راہ طے کر کے آئی ھوں اور تو چاھتا ھے کہ مجھے مار ڈالے؟ اگر مہمان کسی کے گھر جاتا ھے، جو صاحبِ خانہ مہمانی نہیں کرتا تو تیری طرح کڑوی بات بھی نہیں کہتا۔ اگر بہت مدارات نہیں کرتا بھلا تھوڑا ٹھنڈا پانی پلاتا ھے اور میٹھی بات تو کہتا ھے۔ جہاں کہیں صاحب درد ھے، اگر اُس کے پاس کوئی ھنر مند یا بے ھنر جاتا ھے تو دونوں پر برابر نظر رکھتا ھے۔
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین

-----------81-85----------

--------
صفحہ 81
--------

چمک بادشاہی جواہرات کو جلا بخشتی - یہ بقال مال کی
مستی سے اسے اپنے نکاح میں لایا لیکن بہ نہایت بوڑھا تھا اور
وہ نوجوان نوخیز تھی ۔ اس واسطے بوڑھے خاوند کی صحبت سے
خوش نہ رہتی ۔
ایک دن اس نے ایک جوان خوب صورت بقال بچے کو
جو نام اس کا منوہر تھا) دیکھا ، دیکھتے ہی عاشق ہو گئی ۔
کہنے لگی کہ سن منوہر ! میں جوبن کے دریا میں ڈوبتی ہوں ،
میرا ہاتھ پکڑ ، اپنے عشق کی کشتی میں اٹھا سکتا ہے کہ نہیں ؟
تعشق سے بولا کہ ہان میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ تم سے کسی طرح
آشنائی پیدا کروں کیوں کہ میرا دل بھی بہت دنوں سے تمھاری
محبت کی کمند میں گرفتار ہوا ہے ۔ جب منوہر اور کیلاوتی کا عشق
غالب ہوا ، تب دونوں خلوت میں آتے ۔ ۔ ۔ ۔-1- اسی ذوق و شوق میں
یونہی ایک مدت گزری ۔
ایک دن چندرسین بے وقت اپنے گھر میں آیا ۔ اس وقت
منوہر اس کے گھر میں تھا ۔ کیلاوتی نے دیکھا کہ اب میرا بھید
ظاہر ہوتا ہے ؛ وہیں چار پائی سے اٹھ کر اپنے گھر کی دہلیز تک
دوڑی آئی اور اپنے خصم کے سر کے بال پکڑ پانچ چار چومے پیہم
اس کے منہ کے لیے اور ہاتھ پکڑ کر ایک گوشے میں لے گئی ۔
منو ہر اتنی فرصت میں اس کے خاوند کی آنکھ بچا کر گھر سے
باہر نکل گیا ۔ جب اس نے دیکھا کہ وہ جا چکا ، تب اپنے شوہر
کو دو چار لاتیں مار کر کہنے لگی کہ اے بوڑھے خبیث !
"شہوت نے مجھے اتنی مدت میں آج نہایت بے کل کیا تھا ، سو تجھ سے
کچھ بھی میرا مطلب حاصل نہ ہوا ۔ غصہ کر کے پلنگ پر آئی اور
پاؤں لگ (تک) چادر تان کے سو رہی ۔"
----
یہاں سے ایک جملہ بر بنانے کثافت حذف کر دیا گیا ہے ۔

--------
صفحہ 82
--------


تب چورا کرن بولا '' چناں چہ چومنا جوان عورت کا
بوڑھے کے منہ کو بے علت نہیں ، اسی طرح زغند چوہے کی
بے سبب نہیں ۔
الغرض دونوں جوگیوں نے اپنی جیب سے سفید مٹی نکال کے
زمین پر لکیریں نجومیوں کی طرح کھینچ کر معلوم کیا کہ اس
چوکے کے سوراخ میں خواہ مخواہ مال ہے ، نہیں تو اتنی قوت چوہے
ہیں کہاں سےسے آئی ؟ کے پاس دولت ہے اسی کو بہت زور ہے ۔
نخشبی ہے مرد دولت مند خوب
مفلسوں کا دل شکستہ ہے سدا
آدمی کی قدر و قیمت زر سے ہے
مرد جو بے مال ہے کس کام کا
جوگیوں نے کدالی سے اس بل کو کھودا اور سارا ڈھير روپیوں
کا وہاں سے نکال لیا ۔ وہ مال میرے بزرگوں کا اور میرا جمع کیا ہوا
تھا ، انھوں نے وہ سب کا سب اپنے قبضے میں کر لیا ۔ میں نے
دیکھا کہ جب میری ساری دولت اپنی کر لی ، تب تو مجھے
کچھ تاب و طاقت نہ رہی ، وہیں مبہوت سا ہوگیا ۔ لیکن چند روز
میری زندگی کے باقی تھے، اس واسطے جان عزيز قالب سے جدی نہ
ہوئی ۔ اے بادشاہ ! ایک تو میرا مال گیا ، دوسرے جوگی طعنے
مارنے لگے ؛ اس دکھ اور بری باتوں سے میرا دل جل بل کے
خاک ہو گیا ۔ سو اسی واسطے اپنی جاے جگہ چھوڑ، اب آپ کے
قدموں تلے آ پہنچا ہوں ۔ کچھوے نے پوچھا " کہو یار ! تم کو
کیا بات زبوں کہی تھی ؟" ، کہا "اگر بہ مال کسی معتبر پاس
ہوتا تو اتنی کفایت اور جز رسی نہ کرتا سر حساب رہتا . پہ چوہا
سخت نادان اور احمق تھا جس نے اپنے زور کو ظاہر کیا ۔
مثلا بزرگ کہہ گئے ہیں ، جو کسی کو مال مفت ہاتھ آوے یا
کا وہاں سے
در

--------
صفحہ 83
--------


اپنے زور بازو سے کماوے اور وہ اسے نہ کھاوے ، نہ کسی
دے ، نہ دلاوے تو اس کے جمع کرنے کی محنت ناحق اٹھاوے اور
مفت کی اذیت پاوے اور عالم میں شوم بد بخت کہلاوے ۔ بڑی
فجر اٹھ اس کا کوئی نام نہ لیوے ، بلکہ اس کے نام پر نت اٹھ
لوگ جوتیاں ماریں اور وہاں کی زمین کو سب کے سب بد کہیں ۔"
ایسی ایسی گفتگو ہے اور طعن تشنیع مجھ غریب کو ہر روز
جلاتے تھے ، سو یہ بری باتیں مجھے برداشت نہ ہوئیں ۔
کچھوا بولا ” یار ! تو اپنے دل کو رنجیدہ مت کر ۔ جیساوے
تجھے کہتے تھے کہ شوم کی موت اور حیات دونوں برابر ہیں
عقل مندوں نے بھی ایسا ہی کہا ہے ۔

کھانے کے واسطے زر ہے گا اے طفل خوشتر
رکھنے کو سنگ اور زر ہی دونوں ہیں برابر

اے بھائی ! خوب ہوا جو تمھارے ہاتھ سے مال جاتا رہا ،
میں تو تمہیں کوئی روپوں کے واسطے مار ڈالتا ۔ بارے شکر خدا کا
تم سلامت رہے ، مال بہتيرا پھر ہو رے گا ۔ جس کے يہاں دولت
جمع ہو اور وہ اس کے موافق خرچ نہ کرے ، یہی اس کے در پیش
آوے جو تیرے آگے آیا ۔ چوہے نے کہا کیا تو بھی طعنے
دیتا ہے جوگیوں کی طرح ؟ ليكن بدون مال کے آدمی ناچیز ہے ۔
اگر مال دار نا آشنا کسی کے گھر مہمانی میں جاوے تو لوگ اس کی
مدارات حد سے زیادہ کریں ۔ جو غریب مفلس دوستوں کے یہاں
جاوے تو اسے خاطر میں نہ لاویں ۔ دولت بہت اچھی چیز ہے ۔
مرد بے زر ہمیشہ رنڈی کا زیر دست ہے ۔ جب تک آدمی اپنا ہاتھ
خرچ کی طرف سے نہ سمیٹے اور پیسوں کی تھیلی پر مضبوط
گانٹھ نہ دیوے ، ہرگز دولت نہیں رہتی - اے عزیز ! دیکھا
کہ میرا مال و اسباب ظلم سے بد بخت جوگیوں کے جاتا رہا ، گھر


--------
صفحہ 84
--------


خالی ہوگیا ، ہر کسی طرح وہیں گزران کرنے لگا ۔
دنیا میں دولت کے برابر کوئی دوست نہیں ، بہ منزلہ ماں باپ
کے ہے بلکہ زیادہ ۔ کیوں کہ وہ ہر طرح سے حاجت روا ہے ،
یعنی بدون اس کے دنیا میں کوئی کام انجام نہیں پاتا ۔ میں نے
اپنے دل میں کہا اب مجھے یہاں رہنا صلاح نہیں اور یہ بات
غیر سے کہنی بھی مناسب نہیں ؛ جیسا کہ کہا ہے اگر عقل مند
ہو، ان تین چیزوں کو حتی المقدور چھپاوے : ایک تو اپنے
مال کا نقصان ، دوسرے زبونی اپنی عورت کی ، تیسرے دل کا
دکھ ۔ تم جو میرے دوست ہو ، اس واسطے اپنا احوال کہا ۔
جب کودنے کی قوت نہ رہی نا چار اپنے قدیم مكان کو
چھوڑ دیا اور جنگل میں گنگا کنارے رہنے لگا ۔
بارے میں نے
خدا کا شکر کیا کہ بالفعل آپ کے دامن دولت کے سائے میں
پہنچا ہوں ۔ سچ ہے جو کہہ گئے ہیں کہ دنیا زہر کا درخت
ہے ۔ جس پر حق تعالی کا رحم ہوتا ہے اس کو پانچ چیزیں میسر
ہوتی ہیں : اول ہر روز ترقی علم کی ، دوسرے بندگی خدا کی ،
تیسرے شناسائی دل کی ، چوتھے سچائی بات کی ، پانچویں محبت بھلے
آدمی کی ۔ اے سنگ پشت ! میں بد بخت جوگیوں کے ظلم سے
دل گیر نہیں ہوا ہوں ۔ جو جان سلامت رہی اور تم سے مربی کی
ملاقات ہوئی تو مال کیا بلا ہے ، سب شے مہیا ہو سکتی ہے ۔
دنیا کی دولت کا کچھ اعتبار نہیں کبھی آتی ہے کبھی جاتی ہے ۔"

کچھوے نے کہا " بھائی جو اپنے مال کی زکواة دیوے تو
اس کے خزانے میں کمی نہیں ہوتی اور کوئی اس میں حرکت
نہیں کر سکتا ، جیسا کہ بزرگوں نے کہا ہے " جو کوئی پانی کو
بند کرے اور اس کے نکلنے کی تھوڑی بھی راہ نہ رکھے تو جمع

ہو کر بادھ کیسا ہی مضبوط ہو ، توڑ کر سب پانی نکل

--------
صفحہ 85
--------



جاوے ۔ مال کی بھی یہی حالت ہے ؛ جو کوئی محنت سے
کرے اور اسے نہ کھاوے اور نہ کسو کو خدا کی راہ میں دیوے
تو اس کی قسمت میں یہی ہے کہ اس کا بال اور کوئی کھاوے ۔

آپ کھا ، اوروں کو دے کچھ ہاتھ اپنے سے عزیز
واسطے اوروں کے بھی کچھ رکھ لے اے صاحب تمیز

اے دوست ! دولت مند شوم ، نگاہ بان مال کا ہے ، نہ مالک اس کا
ہے ۔ بلکہ فقیر اس سے ہزار درجے بہتر ہے کہ جو کچھ تھوڑا بہت
اس کے ہاتھ آوے ، سو بے تامل خرچ کرے ، رات کو بہ فراغت
اپنے لڑکے بالوں میں سووے اور کسی طرح کا غم و غصہ دل میں
نہ لاوے ۔ غنی اور بخیل کے تئیں ہر ایک رات کو مال و جان کا
ڈر ہی رہتا ہے ؛ مبادا کوئی روپیوں کی طمع سے جان نہ مار
جاوے ۔ مگر تم نے کیا اس گیدڑ کی حکایت نہیں سنی ؟ چوہا
بولا کہو تو یار ! اس کا قصد کیوں کر ہے ؟،، کچھوا
کہنے لگا :

نقل پر مان نام حاکم اور ارتھ لوبھی گیدڑ کی

کلیان پور نام ایک شہر ہے ۔ اس میں ایک شخص حاکم
تھا ۔ نام اس کا پرمان ۔ اتفاقا ایک دن سوار ہو کر شکار کے واسطے
کسو جنگل میں گیا ؛ جانتے ہی وہاں ایک ہرن خوب صورت سا
نظر آیا ۔ جلد گھوڑے سے اتر کر اس نے اسے تیر مارا ۔ وہ اس کے
ہاتھ کا تیر کھاتے ہی تھر تھرا کر گرا ۔ اس نے اس کو اپنے
کاندھے پر اٹھایا اور گھوڑے کی طرف چلا ، وہیں ایک بڑا سا
خوک اپنے سامنے آتے دیکھا ۔ آہو تو اس نے مارے حرص کے
کاندہے سے زمین پر رکھ دیا اور ٹک ایک سامنھے (سامنے)
اس کے کترا کر اور آنکھ اس کی بچا کر پیچھے اس کے لگ گیا ۔
آخرش قابو پا کے آسے بہی تیر سے مارا ۔ سوور کے جب تیر لگا تو
---------------------
-----------81-85----------
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
صفحہ نمبر 126 سے 135

صفحہ نمبر 126

سنی تو اُس جنگل سے سیتا کو لے اُڑا لے گیا۔ رام پھر بڑی محنتوں سے اُس کو وہاں سے لایا۔ جتنی عزت اُس کی آگے تھی اُتنی ہی رہی، کچھ اُس کی آبرو میں بٹا نہ آیا اور اپنے دل کو اُس کی محبت سے ہرگز نہ پھیرا۔ اُس کی بہنیں (جو سیتا کو دیکھ نہیں سکتی تھیں) آپس میں صلاح کی، کچھ ایسی فکر کیا چاہیے کہ اُس کی محبت بھائی کے دل میں نہ رہے۔ ایک آن میں سے اُٹھ کر دوسری سے کہنے لگی کہ دیکھ ابھی میں تجھے اُس کا تماشا دکھلاتی ہوں۔ یہ کہہ کر بھائی کے گھر گئی۔ وہ اُس وقت چوپڑ کھیلتا تھا۔ یہ جاتے ہی بھاوج سے ٹھٹھا کرنے لگی اور ہنستے ہنستے اُس سے پوچھا کہ تجھے کچھ یاد ہے راون کی شکل کیسی تھی؟ سیتا بے چاری اُس کے مَکر چَکر سے واقف نہ تھی، سدھاوٹ سے بولی۔ "راون کے دس سر، بیس آنکھیں اور سو اُنگلیاں تھیں۔" پھر وہ کہنے لگی کہ اُس کی تصویر ذرا تُو کھینچ تو میں دیکھوں وہ کیسا تھا۔

اُس بدذات کے کہنے سے یہ نیک بخت بے خوف و خطرے سفید مٹی سے زمین میں اُس کی صورت کا نقشہ کھینچنے لگی۔ اس میں وہ مکارہ بولی کہ جب تک تو کھینچے، میں اپنے لڑکے کو دودھ پلا آؤں۔ یہاں سے دوڑی ہوئی جہاں رام چوپڑ کھیلتا تھا، چلی گئی۔ جاتے ہی کہا "ذرا اپنی جورو کا تماشا چل کر دیکھو۔" یہ کہہ کر بھائی کا ہاتھ پکڑ لائی، جہاں سیتا وہ نقشہ کھینچ رہی تھی۔ کہا "دیکھو جو اس نے اُس سے نہیں دیکھا اور اُس سے نہیں ملی تو اُس کی تصویر کھینچ کر کیوں دیکھتی ہے؟ "یہ دیکھ سن کر رام کو بہت غیرت آئی۔ خفا ہو کر کہنے لگا کہ سیتا! تجھے جان سے کیا ماروں تو عورت ہے اور
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
صفحہ نمبر 126 سے 135

صفحہ نمبر 127

رنڈی کا مارنا مرد ہوکر خوب نہیں لیکن بہتر یہ ہے کہ میرے گھر سے نکل جا۔

کرتک نے یہ داستان سنا کر کہا کہ عورت کی محبت میں رام نے دریا میں پل باندھ کر لنکا کو جلایا اور سونے کے کوٹ کو توڑا اور اُسے خاک سیاہ کیا اور راون کو مارا۔ لیکن اپنے گھر سے ایسی پارس اعورت کو ایک دم میں رنڈی کے بہکانے سے نکال دیا۔ دوتک نے کہا "بھائی! وہ کون سی بات ہے جو مکر و حیلے سے نہیں ہوسکتی۔ سیتا نیک بخت تھی، اپنے خاوند کی آرزو کے واسطے کچھ نہ بولی۔ اگر بدکار ہوتی تو جیسا کہ ایک مالن نے اپنے خصم کے ساتھ یہ سلوک کیا کہ اُس کے ساتھ روبرو ایک یار کو نکال دیا اور دوسرے کو نہلا دُھلا، کھِلا پِلا، اُس کے ساتھ کرکے تھوڑی دور تک بستی سے باہر پہنچوادیا، ویسا ہی وہ بھی کرتی۔ کرتک نے کہ وہ نقل کیوں کرہے۔ دوتک بولا:

نقل ایک مالن اور اُس کے یاروں اور اُس کے خصم کی

"دوار کا نگری میں ایک مالی کی رنڈی بدکار کوتوال اور اُس کے بیٹے سے رہتی تھی۔ ایک دن کو ایسا اتفاق ہوا کہ اُس کے لڑکے سے بُرے کام میں مشغول تھی کہ اتنے میں کوتوال دروازے پر آیا اور کواڑوں کو کھٹکھٹایا: تب اُس نے لڑکے کو جلدی سے کوٹھی میں چھپایا اور اُس کو دروازے پر سے اپنے پاس بُلایا اور فی الفور ہونے لگی۔

قضا کار وہ نہیں (وہیں) اُس کا خاوند بھی دروازے پر
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
صفحہ نمبر 126 سے 135

صفحہ نمبر 128

آن پہنچا۔ تب رنڈی نے کوتوال کو سکھایا کہ میں تو پٹ کھولنے جاتی ہوں، پر تم لٹھ کاندھے پر دھرے، بڑبڑاتے، غصہ کرتے باہر چلے جانا، میں پیچھے بات بنا لوں گی۔ اُس نے ویسا ہی کیا: تب مالی نے گھر میں آکر اُس سے پوچھا کہ آج ہمارے گھر میں رات کو کوتوال کیوں آیا تھا اور خفگی کس بات پر کرتا چلا گیا؟ مالن بولی کہ اُس کا بیٹا اُس سے آزردہ ہوکر میرے یہاں چھپا ہے اور وہ اُس کو ڈھونڈھتا ہوا چلا آیا تھا۔ اُس نے جو اپنا بیٹا یہاں نہ پایا تو کچھ بکتا ہوا چلا گیا۔ یہ کہہ کر اُس نوجوان کو کوٹھی سے نکالا اور نہلا دھلا، کھلا پلا، اپنے خصم کو اُس کے ساتھ کرکے تھوڑی دور اُسے پہنچوادیا، اور رخصت کے وقت کہہ دیا کہ یہ گھر اپنا ہی سمجھو۔ جب تمہارا جی چاہے، تب آیا کیجو۔"

اس لیے میں کہتا ہوں کہ کام پڑے پر جس کی عقل بحال رہے، وہی عاقل ہے۔ پھر کرتک نے کہا "بھائی! اُن دونوں میں بڑی دوستی ہے، تم کیوں کر چھڑاؤ گے؟" دوتک بولا کہ یار! جو کام تدبیر سے ہوتا ہے سو زور سے نہیں ہوتا، جیسا کہ کوے نے سانپ کو جان سے کھُوایا۔ سنجوگ کیا مال ہے کہ میں اُس کو اُس کے رُتبے سے گرا نہ سکوں گا۔ پھر کرتک نے پوچھا کہ وہ قصہ کیوں کر ہے؟ دوتک بولا:

نقل ایک کوے اور سانپ کی

"درخت پر ایک جوڑا کووں کا مدتوں سے رہتا تھا اور اُس درخت کی جڑ کے کھنڈلے میں بڑا سا کالا سانپ رہا کرتا۔ کوے کی مادہ نے اپنے گھونسلے میں انڈے دیے اور کوا سینے لگا۔ بعد میں بائیس روز کے بچے نکلے۔ جب مہینے ایک کے بچے ہوئے، تب وہ سانپ اپنی جگہ سے نکلا اور آستے آستے
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
صفحہ نمبر 126 سے 135

صفحہ نمبر 129

(آہستہ آہستہ) اُس درخت پر چڑھا۔ کوا تو اُس وقت وہاں نہ تھا، اُس کے بچوں کو کھوندے میں سے کھالیا۔ ہر چند اُس کی مادہ ایک دوسری ٹہنی پر بیٹھی ہوئی بہتیرا کاں کاں کیا کی اور بہت واویلا کررہی پر کوئی اُس کی داد کو نہ پہنچا اور کچھ فائدہ اُس کی فریاد سے نہ ہوا۔ جب کوا باہر سے پھر آیا تو مادہ نے اُس سے بچوں کی مصیبت اور اپنے کلپنے کا احوال کہا۔ یہ اُس سانپ کا ظلم سن کر دو تین دن بچوں کے سوگ میں رہا اور بہت سا رویا دھویا کیا اور دانا پانی چھوڑا۔ تب اُس گرد و نواح کے جتنے کوے تھے، اُس حادثے کی خبر سن کر سب آئے۔ اور اُسے، جو اپنے جگر گوشوں کے ماتم میں ماتمی لباس پہن کر بیٹھ رہا تھا، تسلی دی اور اُس کا ہاتھ منہ دُھلا، کھانا پینا کھلا پلا رخصت ہو کر اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ تب مادہ نے نر سے کہا "اب یہاں رہنا خوب نہیں۔ صلاح یہی ہے کہ اس جگہ کو چھوڑ دیجیے، کہیں دوسری جگہ آرام کی اچھی سی دیکھ کر جا رہیے، کیوں کہ حکماء کہتے ہیں تین چیزوں سے انسان جلد مرجاتا ہے: ایک تو یہ کہ جس کی عورت بے گانے مرد پر فریفتہ ہو، دوسرے یہ کہ رہنا اُس گھر میں جہاں سانپ رہتا ہو، تیسرے یہ کہ دوستی کرنا احمق سے۔"

کوے نے کہا "اے ناقص عقل! تو اتنی بے قرار نہ ہو، ٹُک صبر کر، دیکھ تو میں تیرے بچوں کا بدلہ کیوں کر لیتا ہوں۔" وہ بولی "تجھے میرے ساتھ اتنی جھوٹی باتیں کرنی نہ چاہئیں۔ تیری عقل کی کیا رسائی جو اُس سے کچھ کام ہوسکے۔ اور نادان میں ہزار طرح کی قوت ہو پر اُسے کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔" کوے نے اُس سے کہا "تو نے نہیں سنا جو خرگوش نے اپنی عقل کے زور سے شیر کو مارا۔" وہ بولی "یہ بھی تُو
 

سید عاطف علی

لائبریرین
-----------116-120----------
--------
صفحہ 116
--------


اور مخالف بنیں گے ۔ اس سے بہتر ہے کہ خزانہ ان کے ہاتھ
نکال لیجیے اور سنجوگ کے حوالے کیجیے ۔ صرف کام وزارت
کا ان دونوں کے ذمے رہے ۔ جیسا کہا ہے کہ تين شخص کو
خزانے کا مختار نہ کیجیے : ایک تو اپنے کو دوسرے سپاہی
کو، تیسرے جو وقت پر اپنے کام آیا ہو ۔ کیوں کہ اگر اپنے کو
سونپیں گے تو اپنائیت جان کر کھا جاوے گا اور کہے گا کہ
میرا کیا کریں گے اور مجھ سے کیا لیں گے ۔ اگر اس کو ستاویں
تو تمام خلقت اپنے ہی تئیں برا کہے گی اور لوگ ہنسیں گے کہ
واه ! اپنوں سے خوب سلوک کیا ۔ اگر پانی کے حوالے دو تو وہ
اپنی تروار(تلوار) کے زور سے سب چٹ کر جاوے ، ایک کانی کوڑی بھی
گھس لگانے کو نہ دے ، اگر ما نگو تو لڑنے کو موجود ہو ۔
تیسرے وہ جو وقت پر کام آیا ہو؛ جو اسے دیجیے تو وہ بھی ہضم
کر بیٹھے ، اس بات پر کہ جس کا مال ہے ، وہ میرا احسان مند
ہے ۔ اگر اس ليا چاہیں تو ہر ایک سے کہ میں نے اس سے
فلانی جگہ یہ سلوک کیا اور وہ مجھ سے بے مروتی کرتا ہے ۔
اے بادشاه ! سوائے ان تین شخصوں کے خزانچی گری یا
اور کام (کہ جس سے آقا کو فائده ہو) کسی کو سپرد کرے اور
اس کو بھی خوب سا دریافت کرنے اور دیکھے کہ بادشاہی
خزانے میں سے خرچ کرتا ہے یا نہیں ۔ اگر اپنے خرچ میں لاتا ہے
تو اس کو بھی کام نہ دیجیے ۔ اگر کام دیا ہے تو اسے معزول کیجیے
تا کہ اوروں کو عبرت ہو -
بادشاہ نے کہا کہ بھائی ! جو تم کہتے ہو سو سچ ہے ۔
میں بھی جانتا ہوں دو تک و کرتک نے کچھ ہاتھ پاؤں پھیلائے
ہیں اور کبھی عدول حکمی کرتے ہیں پنڈ کرن بولا
کہ بزرگوں نے کہا ہے کہ وزیر عقل مند اور مدبر چاہیے کہ
--------
صفحہ 117
--------


اسباب و اجناس ہر طرح کی مہیا رکھے تو وہ وزارت کے قابل
ہے ۔ یہ بات میں آپ کی خیر خواہی مصلحتا کہتا ہوں ، اور دانا
کو ایک اشاره بس ہے ۔ چناں چہ میں نے آگے بھی
عرض کی تھی
خزانہ سنجوگ کے حوالے کیا چاہیے ، کس واسطے کہ وه گیدڑ
گوشت کے کھانے والے ہیں اور یہ بیل گھاس چرنے والا ہے ۔
بادشاه نے يہ بات قبول کی اور اسے خلعت بخشی گری کا
دیا اور خزانہ بھی حوالے کیا ۔ جب دو تک اور کرتک نے اس
مجلس کا رنگ اور بادشاہ کی اعتراضی کی گفتگو دو چار دن کے
پیچھے کسی طرح معلوم کی، تب آپس میں کہنے لگے کہ دیکھو
ہم
نے اس بیل کو بادشاه سے ملا دیا اور وہ ہمارے ہی اکھاڑنے
کے درپے ہوا ۔ اگر اسے ہم بادشاہ کے پاس یوں نہ لے جاتے تو
اس کی نظروں کیوں گرتے اور یہ آفت ہم پر کیوں آتی ۔
ہمارا کیا ہمارے ہی آگے آیا اور اس بات کو اب کسی سے کہہ
بھی نہیں سکتے ۔ کیا کیجیے
جی ہی میں مسوس مسوس کر
رہیے - مثل مشہور ہے "چور کی ماں کوٹھی میں سر ڈال کر
روئے ۔" یہ روداد گندھرب ، کنیت اور نندو نائی اور ساد کنوار کے
قصے کی ہے کہ اپنے کیے سے ذلیل و خوار ہوئے ۔ ویسا ہی
ہم بھی نادم و پریشان ہوں گے ۔ کرتک نے کہا کہ وه قصہ
کیوں کر ہے ؟ دوتک بولا :

نقل گندهرب ، کنیت اور نندو نائی اور سادکنوار کی

" یوں سنا ہے کہ کنچن پور نام ایک شہر ہے ۔ اس میں
راجا بیربکرماجیت رہتا تھا ۔ اس کے نائب نے اپنے لوگوں کو
ایک روز حکم کیا کہ نندو حجام کو مقتل میں لے جاؤ ۔ گندهرب
ساد کنوار اور حجام کے قصے واقف تھا ، اس واسطے ان کے
تماشا دیکھنے کو ہو ليا ۔


--------
صفحہ 118
--------


جب وہ لوگ قتل گاہ میں پہنچ کے اس حجام کی گردن
مارنے لگے ، تب گندهرب نے اس کا ہاتھ پکڑ اپنے پیچھے
اور کہنے لگا کہ یہ حجام واجب القتل نہیں ہے ، کیوں کہ
احوال اس کا اور قصہ ساد کنوار کا دونوں ایک ساں ہیں اور
سے خوب واقف ہوں ۔ نائب کے آدمیوں نے پوچها کہ
وہ کیوں کر ؟ اور تو کون ہے اور کیا جانتا ہے ؟ گندھرب نے
کہا کہ میں بنارس کے راجا کا بیٹا ہوں جو سنگل دیپ کا
حا کم تھا ۔
ایک دن میں اپنے باغ کی بارہ دری میں بیٹها تھا کہ اتنے
میں ایک سوداگر بچہ کشتی سے اتر کر میرے پاس آیا میں نے
اس سے پوچھا کہ کچھ حقیقت دریا کے سفر کی بیان کر ۔ اس
نے کہا کہ میں نے جہاز پر ایک عجب تماشا دیکھا ہے ۔ اگر
میں تجھ سے کہوں ، خدا جانے تو باور کرنے یا نہ کرے ۔
میں نے کہا کہ تو کہہ ، میں یقین کروں گا ۔ سوداگر بچہ کہنے لگا
کہ دریا میں پانی کے اوپر ایک صندل کا درخت ہے اور اس درخت
کے نیچے ایک جڑاؤ پلنگ بچھا تھا اور اس پر ایک عورت
خوب صورت بیٹھی تھی کہ یک بہ یک میرے کان میں آواز آئی
کہ اس کا نام رتن منجری ہے ۔ مجھ کو دیکھ کر جو ہنسی تو
موتی سے دانتوں کی جھلک سے تمام دریا روشن ہو گیا ۔ اس سے
زیادہ اس کی تعریف کیا کیجیے ۔ جس دن سے کہ میری آنکھ
اس سے لگی ہے ، اس دن ایک پل آنکھ نہیں لگتی اور وہی
صورت میری آنکھوں میں آٹھ پہر پڑی پھرتی ہے ۔ اور دل میں ایسی
گڑی ہے کہ میرے ہوش و حواس بالکل جاتے رہے ہیں ۔ اگرچہ
فقير ہو گیا ہوں پر اس کی یاد میں خوش رہتا ہوں اور کبھی
اس کو نہیں بھولتا ، بلکہ جس طرح دیکھا ہے وہی نظر آتی ہے ۔

--------

صفحہ 119
--------


جب میں نے سوداگر بچے کی زبانی یہ احوال اور تعریف

اس کے دانتوں کی سنی ، تب ایک حالت سکتے کی سی ہو گئی ۔
پھر بعد ایک
پہر کے مجھ کو ہوش ہوا ۔ اسی گھڑی اس کے
دیکھنے کے اشتیاق میں جہاز پر سوار ہوا - جس جگہ سوداگر بچے
نے اس کا پتا دیا تھا ، ادھر ہی
گیا ۔چند روز کے بعد وہاں
جا پہنچا اور جتنی خوبیاں میں نے اس کی سنی تھیں ، اس سے
زیادہ دیکھیں ۔ اور یہ چاہا کہاس کو میں اپنے گلے سے لگا لوں
وونہیں رتن منجری چارپائی سمیت پانی میں جاتی رہی ، میں بھی
اس کے پیچھے کود پڑا ۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شہر نہایت
آباد ہے ۔ میں نے لوگوں پوچھا کہ اس کا نام کیا ہے ؟
انھوں نے کہا کہ اس کو گنگ بین کہتے ہیں ۔
یہ سن کر میں کچھ آگے بڑھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک
سونے کا محل جڑاؤ جگمگا رہا ہے اور اس کے اوپر رتن منجری
بناؤ کیے ہوئے بیٹھی ہے ۔ میں اس کو دیکھتے ہی خدا کی
درگاه میں سجدہ کر کے خوش ہوا اور دل میں کہا کہ الله نے مجھ
کو جیتے جی بہشت میں داخل کیا ۔ اور اس نے جو مجھے دیکھا تو

لونڈیوں کو بھیج کر بلوا لیا اور بہت سی تعظیم و تکریم سے
اپنے پاس بٹھلا کر پوچھا کہ اے شخص! تو کون ہے اور کہاں
سےآیا ؟ اس بات کو سن کر میں نے کها کہ میں سنگل دیپ
کے راجا کا بیٹا ہوں اور مجھے گندهرب کہتے ہیں لیکن اب تیرا
غلام ہوں ۔
رتن سنجری نے کها کہ نہیں بلکہ میں تیری لونڈی ہوں اور
تو میرا میاں ہے ، بہ شرطیکہ تو ایک بات سے باز رہے اور اس
کے سوا جو تیرا جی چاہے ، سو کرے ۔ میں نے کہا کہ کیا
کہتی ہو، کہو ۔ تمہارا کہنا بہ سر و چشم قبول کیا ۔ جس چیز


--------
صفحہ 120
--------

کو منع کرو گی سو نہ کروں گا۔ رتن منجری نے کہا کہ یہ
تصویر جو اس محل میں کھینچی ہوئی ہے ،، کبھی تو اسے ہاتھ
نہ لگانا اس نے کہا کہ ہاتھ لگانے کا تو کیا ذکر ہے بلکہ
میں اس کے پاس بھی نہ جاؤں گا۔ یہ سن کر رتن سنجری مجھ کو
دل و جان سے پیار کرنے لگی ۔
چند روز اس کے با عث سے میرے عیش و عشرت میں گزرے ۔
ایک دن میرے دل میں یہ خیال گزرا کہ ذرا اس تصویر کو
دیکھیے کہ وہ کیسی ہے ۔ غرض اس کے پاس گیا تو ایک صورت
عجیب و غریب دکھلائی دی ۔ بے قرار ہو کر اس کی چھاتی
پر ہاتھ ڈالا ۔ جوں ہی میرا ہاتھ اس کی چھاتی تك پہنچا
وونہی اس نے ایک لات ایسی ماری کہ میں کوہ قاف میں جا پڑا ،
تو کیا دیکھتا ہوں کہ نہ وه بستی ہے ، نہ مکان ، نہ رتن منجری ۔
غرض اس خرابی سے میں پھرتے پھرتے تمہارے شہر میں آ نکلا
ہوں - جب آفتاب غروب ہوا ۔ تب میں ایک اہیر کے گھر میں
اترا اور کچھ کھا پی کر سو رہا - پہر سوا پہر رات گئی ہوگی
جو میری آنکھ کھلی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک غیر شخص
اہیرنی سے مشغول ہے کہ اتنے میں اہیر شراب کے نشے میں
سرشار آ پہنچا ۔ اس نے پاؤں کی آہٹ سے معلوم کیا کہ اہير آیا
وونہی دبے پاؤں بھاگا ۔ اہير تاڑ گیا کہ کوئی امیرنی کے پاس
تھا ۔ جاتے ہی اس کے جھونٹے پکڑ کر خوب ہي لتیایا اور
سائبان کے کھنبھے سےکس کے باندھا اور آپ سو رہا ۔ گھڑی
ایک کے بعد کنیت چرنا نائن کٹنی آکر امیرنی سے کہنے
لگی کہ تیرا یار مادهو حلوائی کی دکان کے پچھواڑے کھڑا روتا
ہے اور کہتا ہے کہ اگر وہ آج میرے پاس نہ آوے گی تو اپنے
پیٹ میں چھری ماروں گا ۔ گوالن بولی "تو دیکھتی نہیں ، میں

-----------116-120----------
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
صفحہ نمبر 126 سے 135

صفحہ نمبر 130

جھوٹ کہتا ہے۔ بھلا خرگوش شیر کو کیوں کر مارسکتا ہے؟"
کوے نے کہا:

نقل ایک خرگوش اور شیر کی

"منڈ کارن ایک جنگل ہے، وہاں اکثر اقسام طرح کے جانور رہتے تھے۔ اتفاقاً دردانت نام ایک شیر کسی پہاڑ سے نکل کر اُس جنگل میں آرہا۔ ہر روز بارہ جانور وہاں سے مارتا: ایک اُن میں سے کھاتا، اور سب چھوڑ کر چلا جاتا۔ جب دو تین مہینے اسی طرح گزرے تو بہت سے جانور مارے گئے۔ جب یہ صورت وہاں کے جانوروں نے دیکھی تو سب جمع ہو کر آپس میں کہنے لگے کہ اگر اسی طرح یہ شیر ہمیں مارا کرے گا تو کئی مہینے کے عرصے میں کوئی باقی نہ رہے گا، سب کو ٹھکانے لگا دے گا۔

آکر سب نے مل کر یہ صلاح کی کہ شیر کے پاس کسی شخص دانا کو بھیجا چاہے کہ وہ جا کر یہ بات کہے کہ تمہارا پیٹ ایک جانور سے بھرتا ہے، پس اتنے جانوروں کا روز تم خون ناحق کیوں کرتے ہو؟ ایک جانور ہر روز تمہارے کھانے کے لیے پہنچا دیا کریں گے۔ یہ بات تمہارے واسطے بہت اچھی ہے اور ہمارے بھی۔

جب آپس میں ان اُن کے یہ صلاح ٹھہری کہ ایک گیدڑ کو یہاں سے یہ پیغام دے کر اُس کے پاس بھیجے۔ اس میں ایک خرگوش مجلس سے بول اُٹھا کہ یارو! یہ بات گیدڑ سے ہرگز درست نہ ہوگی بلکہ یہ وہاں جاکر ہمارے برخلاف کہے گا، کیوں کہ جب سے یہ شیر اس جنگل میں آیا ہے، تب سے ہمارے گھروں میں ماتم اور گیدڑوں کے شادی ہوئی ہے۔ وہ جھنجھلا کر بولا کہ اگر میری وکالت تجھ کو منظور نہیں اور فتنہ انگیز جانتا
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
صفحہ نمبر 126 سے 135

صفحہ نمبر 131

ہے تو تُو ہی جا اور اس معاملے کو بنا لا۔ تب خرگوش نے اُس مہم کے واسطے کمر ہمت باندھی اور شیر کے نزدیک جاکر آداب بجا لایا۔ اُس نے دیکھ کر پوچھا "تو کہاں سے آیا؟" اُس نے ہاتھ جوڑ کر عرض کی کہ خداوند! اس جنگل کے تمام رہنے والے نے مجھے بہ طور ایلچی کے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے اور یہ عرض کی ہے خود بدولت کو بہت جانوروں کو مارنے اور اذیت دینے سے کیا حاسل؟ ہم سرکار میں یہ اقرار نامہ لکھ دیتے ہیں کہ ہمیشہ ایک جانور آپ کی خوراک کے واسطے بلا ناغہ پہنچا کرے گا، اس میں ہرگز کبھی خلاف نہ ہوگا۔ شیر نے قبول کیا۔ خرگوش وہاں سے رخصت ہوا، اپنے جنگل کو پھر آیا، جو گفتگو اُس کے اور اس کے درمیان ہوئی تھی، سو جانوروں کو سب سنادی۔ ہر روز ایک گلے سے جانور شیر کے یہا ں پہنچا کرتا۔

جب نوبت خرگوش کی پہنچی، اُس نے اندیشہ کیا کہ اب کچھ ایسی تدبیر کروں کہ جس سے شیر کا لقمہ نہ ہوں۔ یہ خیال دل میں لاکر اپنے بچوں سے رخصت ہوا۔ روتا ہوا شیر کی طرف چلا۔ تھوڑی دور جا کر راہ میں بیٹھا اور اپنے دل میں یہ فکر کرنے لگا کہ لوگ مجھے دانا اور عقل مند کہتے ہیں۔ اگر میری عقل اس وقت کچھ کام نہ آوے تو جائے تعجب اور محل افسوس کا ہے۔ وہاں سے اُٹھ کر یہ خیال کرتا ہوا ہولے ہولے نزدیک شیر کے گیا۔ وہ بھوک کی جھانجھ میں بیٹھا تھا۔ اُسے دیکھتے ہی غرانے لگا کہ تو نے آج اتنی دیر کیوں لگائی؟ میرے ناشتے کا وقت ٹل گیا اور بھوک نے مجھے بے تاب کردیا۔

خرگوش ڈرتے ڈرتے کہنے لگا کہ اگر امان پاؤں تو کچھ عرض کروں۔ باگھ بولا "جو کہنا ہو سو جلد کہہ لے۔" خرگوش
 
آخری تدوین:

محمد عمر

لائبریرین
صفحات : 96-110


96

دوسرا باب


پھر دوستوں کی جدائی کا احوال بشن سرما پنڈت راجا کے بیٹوں سے کہنے لگا کہ ایک باگھ اور بیل سے آپس میں دوستی تھی۔ گیدڑوں نے اپنی دانائی اور عقل کے زور سے اُن کے بیچ میں جدائی ڈال دی۔ راجا کے لڑکوں نے کہا "کیوں کر"


داستان بھاگ بھرتا بنیے اور سنجوگ اور نندوک بیل کی


پنڈت بولا کہ چندر پور نام ایک شہر تھا۔ اس میں ایک مال دار بنیا(۱) بھاگ بھرتا نام رھتا تھا۔ جب کسی بڑے دولت مند کو دیکھتا تو اپنے تئیں فقیر جان کر دل میں یہ بات ٹھہراتا کہ تجارت کو جایا چاہیے تا کہ بال زیادہ ھووے جیسا کہ بزرگوں نے کہا ھے کہ مجہول آدمی کے ہاتھ دولت نہیں لگتی اور دنیا ایسی جگہ ھے کہ اگر مال کمینے اور کم ذات کے پاس ھووے تو لوگ اس کی تعظیم کرتے ھیں۔

یہ سوچ کر دو بیل خرید لایا۔ ایک کا نام سنجوگ اور دوسرے کا نندوک رکھا۔ موتی، لعل، ھیرا، پنا اور کچھ زری باف خرجیوں میں بھر بیلوں پر لاد کر کشمیر کی راہ لى۔ تخمیناً بیس اکیس منزل گیا ھو گا کہ سنجوگ کا ایک گڑھے میں پاؤں

---
۱- نسخہ مطبوعہ لندن میں "بنیا" کو بیشتر جگہ بنیاں، لکھا گیا ھے۔ بنیا صحیح املا ھے اسی، کو ترجیح دی گئی ھے۔


97

پڑتے ھی ایسی ضرب آئی کہ چلنے سے باز رہا؛ تب بنیا متفکر ھو کر کہنے لگا کہ یہ عبث کا دیوانہ پن ھے جو کوئی مال کے جمع کرنے کے واسطے کہیں جاوے۔ کیوں کہ جو کچھ خدا نے قسمت میں لکھا ھے، جہاں رھے مل رھتا ھے۔ پھر پہ فکر کرنے لگا کہ اس اسباب کو کس طرح لے جاوے۔ اسی تردد میں دو تین روز اُسی جنگل میں رہا-

اتفاقاً ایک قافلہ سوداگروں کا مال بیچ کر بیلوں کو خالی لیے ہوئے وھاں آ نکلا۔ بنیا اُن تاجروں کو دیکھ کر اُن کے پاؤں پڑنے لگا اور اپنا احوال کہنے۔ سوداگروں نے اُس کی بے کسی پر رحم کھا کر ایک بیل حوالے کیا۔ اُس نے اُس لنگڑے بیل کو وھیں چھوڑا اور جو بیل قافلے سے لیا تھا، اُس پر خرجی لاد کر اپنی منزل مقصود کی راہ لی۔ اور سنجوگ دو تین مہینے تک "نہ آگے ناتھ نہ پیچھے پگھا" ایسی گھاس اُس جنگل کی کہ کسی جانور نے آنکھوں نہ دیکھی ھو گی، چر چگ کر سنڈا بن گیا۔

حکایت سنجوگ اور پنگل نام شیر کی
ایک روز ندی کے کنارے وہ چرتا تھا کہ پنگل نام ایک شیر (جو اُس جنگل کی بادشاہت کرتا تھا) پانی پینے کے لیے آ نکلا۔ بیل اُس شیر کو دیکھ کر مارے مستی کے کھورو کرنے اور سینگوں سے زمین کھودنے لگا اور جیسا بادل گرجتا ھے، ویسا ہی ڈکارنے۔ شیر نے جو اُسے اس طرح دیکھا تو اُس کے ڈر کے مارے بھاگ کر اپنی آ کھر میں جا گھسا اور جی میں کہنے لگا کہ آج خدا نے میری جان بچائی۔ کئی برس سے میں اس جنگل کی

98

بادشاہت کرتا ہوں لیکن ایسی بلا اور ایسا مہیب جانور میں نے آج لگ (تک) نہیں دیکھا۔
حکایت دو گیدڑ دوتک و کرتک کی
اسی فکر میں تھا کہ دو گیدڑ دوتک و کرتک نام (جو شیر کے وزیر تھے اور اُس نے اُن کی کچھ تقصیر پا کر نکلوا دیا تھا) آس پاس اُس کے لگے رھتے تھے۔ شیر کے پانی نہ پینے کی کیفیت اور اُس کی سراسیمگی کو معلوم کر کے آپس میں کہنے لگے کہ آج کیا ھے کہ شیر نے پانی نہ پیا، پیاسا ہی چلا آیا اور نہایت غم گین ھو رھا ھے۔ چل کر مجرا کیجیے اور سبب پریشانی کا پوچھیے کہ آپ متفکر کیوں ھیں؟ اس میں وہ خوش ھو گا؛ غالب ھے کہ سرفراز بھی کرے گا۔ کرتک نے کہا کہ بھائی! اُس نے ایک مدت ھوئی کہ ھم کو اپنی خدمت سے معزول کیا ھے، ھمیں کیا غرض جو اُس کے پاس جاویں، وہ جانے اُس کا کام۔ جس روز سے کہ ھم اس سے جدا ھوئے ھیں، خدا ھم کو بے غل و غش روزی پہنچاتا ھے۔ اُس کا شکر بجا لاتے ھیں۔ سنو یار! جو خوب دیکھا تو بندگی خالق ھی کی خوب ھے، اَور کی اطاعت کرنی اچھی نہیں۔ اس واسطے بادشاہ کی نوکری کرنے کو ھمارا جی نہیں چاہتا۔ اور جو شخص کسو کی حاجت روا نہ کر سکے تو اُس کی چاکری کرنی حماقت ھے کیوں کہ خسروِ دل ھمارا جسم کے ملک میں آپ بادشاہت کرتا ھو۔ اُس کو کیا ضرور ھے کہ غیر کا فرماں بردار ھو۔ اگر کسی نوع کی کچھ احتیاج رکھتا ھو تو مضائقہ نہیں۔ اے یار! نوکری میں کچھ اختیار اپنا باقی نہیں رھتا۔ چناں چہ جاڑا، گرمی، برسات، بھوک، پیاس ، زمین پر سونا، جنگل جنگل پھرنا، یہ سب اپنے پر اٹھانا ضرور پڑتا ھے۔ اگر ایسی محنت خدا کی بندگی میں کوئی کرے تو فرشتے سے بھی فوقیت لے جاوے، اور دوسرے کی تابع داری میں جینا، مرنے

99
سے بد تر ھے کیوں کہ جب کوئی کسی کا نوکر ھو اور وہ کہے کہ تو فلانے مکان کو جا، گو کہ ھر ایک منزل اُس کی دشوار پُر خطر ھو اور وھاں جاتے ھی مارا جاوے، تو بھی خواہ مخواہ جانا ہی پڑھے۔
دوتک نے کہا "اے بھائی! جب لگ کہ کوئی کسی کی خدمت نہیں کرتا، تب لگ بڑے مرتبے کو نہیں پہنچتا اور ھاتھی گھوڑے دولت دنیا نہیں پاتا، صاحب جاہ و حشم نہیں ھوتا۔ ھم نے ایک مدت تک اُس کا نمک کھایا ھے، ضرور ھے کہ ھم اُس کے پاس جاویں اور اُس کا احوال پوچھیں۔" کرتک نے کہا کہ میں یہ صلاح نہیں دیتا کہ تو شیر کے پاس بے بلائے جاوے اور اس کے بے پوچھے کچھ بات کہے، کیوں کہ اب اُس کام کا عہدہ (کہ جس پر ھم تھے) اَوروں کے ہاتھ میں ھے۔ جو کوئی ھاتھ ڈالے تو اُس کی وہ حالت ھو جیسی بندر کی ھوئی۔ دوتک بولا کہ اُس کا قصہ کیوں کر ھے؟ کرتک نے کہا :
نقل ایک بڑھئی اور بندر کی
"یوں كہتے ھیں کہ کسی ولایت میں مدن دھرم نام ایک جنگل ھے۔ اُس میں ایک بڑھئی لٹھا آرے سے چیرتا تھا۔ جب آرا اٹکنے لگتا تو دور کی پچر اکھیڑ کر نزدیک لا لگاتا۔ بڑھئی کی یہ حرکات کسی درخت پر بیٹھا ھوا بندر دیکھتا تھا۔ جو اتنے میں اس بڑھئی کو پیاس لگی، پانی پینے کو کسی تالاب پر گیا۔ بندر درخت سے اُتر کے اُس لکڑی پر آ بیٹھا اور جس طرح بڑھئی کو پچر اکھیڑتے دیکھا تھا، یہ بھی اکھیڑنے لگا؛ پھر اکھیڑی، وھیں اُس کے فوطے لٹھے کی درز میں پھنس کر پس گئے اور فی الفور وہ مر گیا کیوں کہ بندر کا کام نجاری نہیں۔ مثل مشہور ھے کہ "جس کا کام اُسی کو چھاجے اور کرے تو ٹھینگا باجے" جو غیر کے کام

100

میں دخیل ھو گا تو ایسا ھی برا دن اُس کے آگے آوے گا۔" پھر کہا "اے یار! ان دنوں میں شیر کے پاس بہت سے مصاحب ھیں۔ تیرے جانے سے وہ کب خوش ھوں گے بلكہ تیری فکر میں رھیں گے۔" دوتک نے کہا "بھائی! شیر ھمارا قدیم خاولد (خداوند) تھا اور ھم اُس کے خدمت گاروں میں تھے۔ پس ھم کو اور تم کو لازم ھے کہ اُس کے پاس ایسے وقت میں جاویں اور جو کچھ ھم سے ھو سکے اُس میں قصور نہ کریں۔" تب کرتک بولا "اے یار! جو کوئی اپنا کام چھوڑ کر دوسرے کے کام میں دخیل ھو تو ویسا ھی انعام وہ پاوے جیسا شام بھگت گدھے نے اپنے خاوند سے پایا۔" دوتک بولا "وہ کیوں کر ھے؟" کرتک نے کہا :

نقل شام بھگت گدھے اور کنجو دھوبی کی
"یوں سنا ھے کہ گنگا کے کنارے بنارس نامی کوئی شہر ھے۔ وھاں ایک نوجوان دھوبی كنجو نام بڑا دولت مند رھتا تھا۔ ایک شب وہ اپنی جورو کے ساتھ غافل سوتا تھا کہ اُس کے گھر چور آئے۔ شام بھگت گدھا آنگن میں بندھا تھا اور اُس کی بغل میں کنیست نامی کتا بیٹھا ھوا تھا۔ گدھے نے کہا "اے کتے! گھر میں خاوند کے چور آئے ھیں، تو ذرا بھونک جو گھر کا مالک جاگے" کتا بولا "اے گدھے! میرے کام میں دخل مت کر۔ تو کیا جانے اس دھوبی کے گھر میں میری قدر کچھ نہیں۔" جب لگ کہ اس کا نقصان نہ ھو گا تب لگ بیری قدر نہ جانے گا۔" گدھے نے کہا "اے کتے! جو کوئی اپنے صاحب کی بندگی میں قصور کرے تو وہ مطعون خلائق ھوتا ھے کتا بولا "او گدھے! اگر تو میرے عہدے میں ھاتھ ڈالے گا تو تجھ پر میرا صبر پڑے گا۔"

اس نے اُس کی بات نہ مانی اور جلدی سے اپنے ھاتھ پاؤں کے

101

چھاند باندھ توڑ تاڑ جہاں دھوبی اپنی جورو کے ساتھ سوتا تھا، وھاں جا کر رینگنے لگا۔ وہ جو کچی نیند سے چونکا تو مارے غصے کے ایک سونٹا لے کر اُسے خوب سا پیٹ ڈالا۔ جو کتے کی بات نہ مانی تو اُس کے صبر میں گرفتار ھوا۔

دوتک بولا "اے کرتک! سچ ھے جو کوئی دوسرے کے کام دخل کرے تو میں اُس کی یہی سزا ھے۔ لیکن تو جانتا ھے کہ جب ھم شیر کے پیچھے پیچھے پھرتے تھے، جو کچھ اُس کا جھوٹا پاتے تھے، کھاتے تھے۔ اور بڑوں کے پاس رھنے سے کئی کام نكلتے ھیں؛ پہلے دوستوں کا بھلا ھوتا ھے، پھر دشمنوں کا بُرا اور جو اُس کے ساتھ رھتے ھیں، اُن کی پرورش بہ خوبی تمام ھوتی ھے، کرتک نے کہا "اے دوتک! برسوں سے یہ شیر ھم سے آزردہ ھے اور اُس نے در دولت سے نکال دیا ھے۔ مجھے تجھے اُس اب علاقہ نہیں۔ اگر بے بلاوے اُس کے تو جاوے گا اور بے پوچھے کچھ کہے گا تو وہ کب تیری سنے گا۔ مثل مشہور ھے "اُترا شحنہ مردک نام۔" اُس نے کہا کہ تو نہیں جانتا، خاوند کبھی خفا ھوتے ھیں اور کبھی مہربانی کرتے ھیں۔ اس بات کو اپنے جی میں لا کر اس کو تنہا مت چھوڑ۔

سنو بھائی! نیکی حاصل کرنی بے رنج و محنت ممکن نہیں، جیسا کہ ایک بھاری پتھر نیچے سے اونچے پر لے جانا، اور بدی ایسی ھے کہ اس پتھر کو نیچے گرا دینا۔ اگرچہ شیر ھم سے آزردہ ھے لیکن اب وہ حادثے میں گرفتار ھے۔ اگر اس وقت ھم نہ جاویں تو اس کو کوئی برا نہ کہے گا بلكہ ھم کو لوگ حرام خور کہیں گے۔ تھوڑے کے واسطے بد نامی اٹھانا خوب نہیں۔ اگر تو کہے تو شیر کے پاس جاؤں؟"

کرتک بولا "میں نے تیری بات مانی لیکن بادشاہ کے حضور

102

میں جا کر پہلے کیا کہے گا؟" دوتک نے کہا "یہ تمھیں معلوم ھے کہ وہ کس سے ڈرا ھے، اس لیے غم گین ھو کر بیٹھا ھے؛ جو احوال ھو سو اُس سے پوچھ لیجیے اور خلش اُس کے دل سے مٹا دیجیے۔" کرتک نے کہا "یہ اُس پر کیوں کر کھلے کہ تو اُس پر مطلع ھوا ھے اور تو نے کیوں کر جانا کہ اُس کے جی میں دھشت بیٹھی ھے؟" دو تک نے جواب دیا کہ ڈرا ھوا قرینے سے پہچانا جاتا ھے، اور وہ عاقل نہیں ھے جو پوچھ کر معلوم کرے۔ تب کرتک نے کہا ' بھلا آدمی اُسے کہتے ھیں جو نیکی کرے لیکن منہ پر نہ لاوے اور خاوند(۱) کو خوش رکھے۔ اگر چہ کتنا ھی منہ لگاوے پر اپنی حد سے قدم آگے نہ بڑھاوے اور اپنے تئیں نت نیا نوکر جانتا رھے اور اُس کے حکم کو مانتا رھے۔"

پھر دو تک نے کہا کہ مجھے مناسب نہیں جو میں گیدڑوں میں بیٹھ رھوں، بلكہ یہ چاہتا ہوں کہ اپنی خدمت کی قوت سے شیر کو اپنا کروں۔ کہتے ھیں خاوند کی مرضی کے تابع رھنا اور اپنی قدر کے موافق بات کرنا ھر ایک سے نہیں ھو سکتا، اور سب ھنروں سے میں واقف ھوں۔ کرنک نے کہا "بھائی! خدمت کرنی بہت مشکل ھے۔ جیسی چاھیے ویسی کِسو ادا نہیں ھو سکتی۔" دوتک بولا کہ نوکر پہلے اتنا دریافت کرے کہ خاوند(۱) کے سامنے جاوے، وہ اُسے دیکھ کر خوش ھو کے کچھ بات کرے اور بیٹھنے کی پروانگی دے، تب معلوم کرے کہ مجھ پر مہربان ھوا۔ اگر اُس کے دیکھنے سے وہ تیوری چڑھا کر منہ پھراوے تو برعكس سمجھے اور یقیں جانے کہ اُس کے دل میں میری طرف سے کچھ کدورت ھے۔ اُس خاوند سے کچھ نہ بولے
---
1- مالک، آقا۔


103

اور ٹل جاوے۔
کرتک نے کہا "اگر بادشاہ تجھ کو کتنا ھی سرفراز کرے، چاھیے کہ بے پوچھے اور بے محل دم نہ مارے۔" دوتک نے کہا "تو اپنے دل میں کچھ فکر مت کر کہ میں اپنے نقد سخن کو بے جا خرچ نہ کروں گا مگر دو جگہ : ایک تو جس وقت دشمن ایسی گھات میں ھو کہ آج کل میں دغا کام کو ابتر کرے اور دوسرے ایسے کام میں جس سے نقصان خاوند کا ھوتا ھو۔ اور تو اسے دیکھنا کہ میں بغیر خیر خواھی کے ایک بات بھی بادشاہ سے ھرگز نہ کروں گا۔ خدا چاھے تو تھوڑے دنوں میں اپنے ذھن کی رسائی سے وزیر کہلاؤں گا۔ اب مجھ پر مہربانی کیجیے اور خوشی سے رخصت دیجیے۔ پھر ایسا قابو نہ پاؤں گا، ھاتھ مل کر رہ جاؤں گا۔"

کرتک بولا کہ مجھے یہ معلوم ھوا کہ تو جائے بغیر نہ رھے گا۔ لے اب میں نے تجھے بہ خوشی رخصت کیا اور خدائے کریم کو سونپا۔ تب دوتک وھاں سے رخصت ھو کر بادشاہ کے پاس گیا اور آداب بجا لایا۔ شاہ نے اُس پر بہت سی مہربانی و شفقت کر کے بیٹھنے کا حکم کیا اور کہا "اے دوتک! ھم نے بہت دن پیچھے تجھ کو دیکھا، اتنے دنوں تو ہمارے پاس کیوں نہ آیا؟" بولا "اپنی کم نصیبی سے۔ لیکن اب میرے طالعوں نے جو پھر یاوری کی تو میں حضور میں حاضر ھوا اور جہاں پناہ کی خدمت میں مشرف۔" حضرت نے فرمایا "خیر آئندہ ایسا نہ ھو۔" تب وہ مؤدب ھو کہنے لگا کہ غلام کا کیا مقدور کہ خاوند کی خدمت سے ایک دم غیر حاضر رھے۔ شیر نے کہا "اے دوتک! تو تو ھمارا قدیم رفیق ھے، سچ کہ اتنے دنوں نہ آنے کا تیرے کیا سبب؟" اُس نے عرض کی :

104

میں ہوں كس لائق جو تیری دوستی کا دم بھروں
ھاں مگر ادنا ترے کوچے کے میں کُتوں میں ھوں

غلام اس واسطے حاضر نہ ھوا کہ مجھ بغیر جہاں پناہ کا کام کسی نوع سے بند نہیں۔" شیر نے کہا "اے نادان! مرد کو چاہیے کہ اپنے قدیم خاوند کی نمک حلالی میں قصور نہ کرے اور کبھی کبھی اُس کے یہاں حاضر ھوا کرے۔ اور جس کو خدا نے ھاتھ پاؤں اور دانائی، بینائی اور ھوش گوش دیا ھے، وہ کیوں کر کسی کے کام نہ آوے۔ سنا ھے اتنے دنوں جو تو ھم سے جدا رہا تو اس میں سراسر تیرا ھی نقصان ھوا۔ اب جو تو ہمارے حضورِ اعلیٰ میں حاضر ھوا ھے، تھوڑے دنوں میں اتنی دولت تیرے ھاتھ لگے گی کہ مستغنی ھو جائے گا۔"

بادشاہ کو جو اُس نے اپنے اوپر مہربان دیکھا تو عرض کی "خداوند! اگرچہ بگلا درخت کے اوپر رھتا ھے اور قاز نیچے، لیکن وہ اوپر کے بیٹھنے سے افضل نہیں ھو سکتا۔ جان پناہ نے جو اَوروں کو وزارت کا عادہ سپرد کیا ھے، کیا وے مجھ سے فہم و فراست میں زیادہ ھیں؟ بادشاہ کو چاھیے کہ بینا اور نیک نظر ھو، ہمیشہ ھنر مندوں کی جست و جو میں رھے کیوں کہ عقل مند بہت کم یاب ھیں اور نادانوں کی بیخ کنی میں۔ خداوند! اگرچہ حضور میں ھرن، پاڑھے، چکارے بہت سے جمع ھیں لیکن بے وقوفوں سے بھلائی کی کیا توقع۔ یہ اسی کام کے ھیں کہ سر پر سینگ لیے پھریں اور ایسے کام جو دشمن نہ کرے، سو کریں :

دشمنِ جاں ھووے اگر ھوشیار
اُس سے ھے بہتر جو ھو نادان یار
جہان پناہ! یہ جو اَور اُمراء حضور میں حاضر ھیں، مجھے بہ نظر حقارت

105

دیکھیں گے اور جناب عالی کی خدمت میں عرض کریں گے کہ اس بے وقوف کم اصل گیدڑ کو سردار نہ کیا چاھیے اور جو کوئی اُن اُمراؤں میں سے لائق ھو اُس پر مہربانی کر کے سرفراز کیجیے، جو ھر وقت خدمت میں حاضر رھے۔"

یہ کہہ کر کہنے لگا "پیر مُرشد! خاوندوں کو یہ لازم نہیں ھے جو ھر ایک کو منہ لگاویں اور ھر کُدام کی بات سنیں بلکہ یوں چاھیے جو جس لائق ھو اُس کی آُتنی ھی قدر کریں اور ھمیشہ احوال پُرساں رھیں۔ اگر خاوند عقل مند اور قابل رفیق کو ذلیل کر کے احمق کو عزیز رکھے اور کسی مشکل کام کرنے کے واسطے اُس کو حکم کرے تو ایسا ھے جیسے کوئی سر کی پگڑی پاؤں پر لپیٹے اور پاؤں کی جوتی سر چڑھاوے۔ لوگ جوتی اور پگڑی پر نہیں ہنستے بلکہ اُسی پر ٹھٹھے مارتے ھیں اور کہتے کہ یہ شخص دیوانہ ھوا ھے۔

پس بادشاہ کو چاہیے کہ عاقل اور ھنر مندوں کو دوست اور معزز رکھے تا کہ اچھے اچھے لوگ اُس کے یہاں جمع ھوں۔ اور جو بادشاہ اپنے یہاں اھل علم و ہنر کو خارج کرے تو یقین ھے کہ بادشاہت اُس کی قائم نہ رھے، کیوں کہ داناؤں کو نکال دینے سے فتنہ و فساد برپا ھوتا ھے اور رعیت و پرجا خود بہ خود بھاگ جاتے ھیں، ملک اُجاڑ ھو جاتا ھے، سلطنت اُس کے قبضے میں نہیں رھتی ھے۔ یہ یاد رکھو کہ ملک کی آبادی عدل و انصاف سے ھے۔ اگر انصاف نہ ھو تو ملک ویران ھو جاوے۔ اور جب تک وزیر دانش مند اور بادشاہ نیک نیت نہ ھو، تب لگ ملک میں خلل ھی پیدا ھوتا ھے .

اے خداوند! اگر اچھی بات دانائی سے لڑکا کہے تو اُس کو بھی پلے باندھیے اور بوڑھا جو بُری بات نادانی سے کہے، ھرگز اُس پر


106

كان نہ دھریے۔ جس میں عقل اور علم اور تحمل ھو، کیا چھوٹا، کیا بڑا، کیا بوڑھا، کیا بالا، وھی سب سے بہتر ھے۔"
پنگل نے کہا "اے دوتک! اگرچہ تو کئی مہینے دشمنوں کے ڈر سے میرے پاس نہ آیا، کچھ مضائقہ نہیں۔ تو بڑا نمک ھلال ھے، اس لیے میں نے تجھے اپنا وزیر کیا۔" دوتک نے عرض کی "آپ کے اقبال سے ڈر تو کسو سے نہ تھا، گر پیادہ پائی کے سبب سے حاضر نہ ھو سکا۔" شیر بولا "کیا گھوڑا چاہتا ھے؟" اُس نے التماس کیا کہ خداوند! اسی اندیشے سے آپ نے مجھ کو حضور سے دور کیا تھا۔ اُس نے مسکرا کر کہا "یہ چالاکی تو نے کس سے سیکھی۔" پھر بولا "اب تیرے افلاس کے دن گئے اور فراغت کے آئے۔ سچ ھے کہ تجھ سا عقل مند میرے نوکروں میں کوئی نہیں۔ اب میں تجھ پر مہربان ھوں، مطلب ھو سو بلا وسواس حضور میں ظاہر کر۔" وہ بولا کہ غلام کی عرض یہ ھے جو آپ اُس روز ندی پر پانی پینے گئے تھے بے پیے پھر آئے، اُس کا کیا سبب؟ اس نے کہا "تو بڑا دانا اور نہایت عقل مند ھے، اس میں ایک بات تنہائی کے کہنے کی ھے کیوں کہ اگر اُسے ھمارے مصاحب سنیں تو بھاگ جاویں۔" یہ کہہ کر اُسے خلوت میں لے جا کر کہنے لگا کہ اس جنگل میں ایک ایسا جانور آ کر رھا ھے جس کی مہیب آواز نے میرے دل کو اس قدر بے چین کیا ھے کہ کچھ کہہ نہیں سکتا ھوں۔ اسی اندیشے سے میں اپنا گھر چھوڑا چاھتا ھوں۔ بلکہ تو نے بھی اُس کی آواز سنی ھو گی۔ اُس نے کہا "خداوند! مجھے تو یہ معلوم ھوا تھا کہ شاید کہیں آسمان ٹوٹا یا بادل گرجا۔"

پھر شیر بولا کہ تو اس میں کیا صلاح دیتا ھے؟ اُس نے جواب دیا کہ یہ صلاحِ وقت نہیں کہ یکایک اپنا تھر چھوڑ دیجیے
107

یا نڑ بیٹھیے۔ اگرچہ وہ تمھارا دشمن ھے، پر اب ذرا دیکھو تو تمھارے ان نوکروں کیسی خدمت ہوتی ھے۔ نوکر اور جورو اور رفیق اُس کو کہتے ھیں جو وقت پڑنے پر کام آویں اور وے اُسی سے پہچانے جاتے ھیں۔" وہ بولا "جو تو کہتا ھے درست۔ اب کچھ ایسی تدبیر کیا چاھیے کہ اُس کی آواز سے میرے دل میں جو دھڑکا پہنچا ھے، سو نکل جاوے۔" اُس نے کہا "جہاں پناہ! جب تک میری جان میں جان ھے، مطلق کسی نوع کا خطرہ اپنے دل میں نہ لائیے اور اگر حكم ھو تو کرتک جو میرا بھائی ھے، اُس کو بھی حضور میں حاضر کروں کا آنا اُس کا بہتر ھے، کیوں کہ وہ بڑا عاقل و زور آور ھے۔ ایسے وقت میں ویسے نوکر کا بلانا مناسب ھے۔" شیر نے کہا :بہت اچھا، اُسی وقت اکثر جانور اُس کے اشارے سے کرتک کے بلانے کو دوڑے اور بادشاہ کی خدمت میں اُس کو لا حاضر کیا۔

بادشاہ نے اُس وقت دوتک کو خلعت وزارت کا دے کر بہت سی مہربانی اور شفقت اُن دونوں کے حال پر فرمائی۔ تب کرتک نے دوتک سے کہا "اے بھائی! یہ انعام اور خلعت جب نمک حلال ھو کہ ھم بھی نمک حلالی کریں۔" پھر دونوں بادشاہ کے حضور میں آداب بجا لائے۔ بادشاہ نے فرمایا کہ اب کیا کہتے ھو؟ اُنہوں نے عرض کی "اگر جی کی امان پاویں اور حکم ھو تو جست و جو سے اُس کا احوال دریافت کریں کہ وہ ایسا کون ھے جس نے خداوند کی سلطنت میں دخل کیا۔" یہ بات سن کر شاہ نے اُن کو رخصت دی۔

جب وے کھوج کو نکلے تو راہ میں کرتک نے کہا "بھائی! جس سے شیر ڈرا ھے اور تو بھی اُس کی ھیبت کا مقّر

108


ھے، اُس چیز سے جواب و سوال اور برابری کیوں کر کرے گا؟ جو چیز کہ ممکن نہ ھو، اُس کا قبول کرنا خیالِ فاسد ھے۔" دوتک نے کہا "اے نادان! بادشاہ کے رو برو جو دانا ھیں تو وے دور اندیشی سے رائی کو پربت کر دکھاتے ھیں اور اپنی داڑھی کی حُرمت رکھتے ھیں۔" کرتک نے کہا کہ جو شاھوں کی نگاہ لطف بے نہال ھوتے ھیں، سو اُس کی چشم غضب سے خرابی بھی دیکھتے ھیں۔ چاھیے یوں کہ جتنا کوئی کر سکے اُتنا ھی قبول کرے۔ دوتک بولا کہ وہ ایسا ایک جانور ھے کہ گیدڑ کو بھی نہیں مار سکتا۔ تب وہ کہنے لگا کہ بھلا کتنے روز سے بادشاہ اسی فکر میں تھا۔ تو نے پہلے ھی کیوں نہ كہا۔ دوتک بولا کہ بھائی! اگر اس کو دھشت نہ ہوتی اور میں پہلے ھی کہہ دیتا تو مجھے وزیر کیوں کرتا اور تجھے کیوں بلاتا۔ حق تعالیٰ نے یہ حیوان اس جنگل میں ہمارے نصیبوں سے بھیجا ھے اور بعض بزرگوں کی یہ خو ھے کہ بپت کے وقت خواھاں ھوتے ھیں اور نہیں تو بات بھی نہیں پوچھتے، اپنے ھی حال میں خوش رھتے ھیں۔ چناں چہ جب آدمی کو مچھر کاٹتے ھیں، تب وہ دھواں کرتا ھے تا کہ وہ اس کی کڑواھٹ سے جاتے رھیں۔ اس بات کو یقین جانو کہ بے غرض کوئی کسی کو نہیں پوچھتا۔

آخر وے دونوں بھائی سنجوگ کی طرف گئے۔ کرتک ایک درخت کے نیچے بیٹھا اور سر اٹھا کر مونچھوں کو تاؤ دینے لگا اور دوتک سنجوگ کے پاس جا کر کہنے لگا کہ اے بیل! تجھ میں کیا تاب و طاقت اور تیری کیا بساط اور مجال۔ اگر اپنی خیریت چاھتا ھے تو میرے ساتھ کرتک کے پاس چل کہ وہ بادشاہ کا خاص ملازم ھے اور نہیں تو تجھے مار ڈالیں گے۔ اس ڈر سے وہ اُس کے ساتھ ھو لیا اور کرتک کے نزدیک جا کر


109

سلام کیا۔ وہ تیوری چڑھا کر کہنے لگا "اے نادان! تو کون ھے جو اتنی دلیری کی کہ بدون حکم بادشاہ کے (کہ جس کا میں وزیر ھوں) اس جنگل میں آیا؟ ابھی حکم کروں تو تیری کھال کھینچی جاوے۔" سنجوگ ڈرا اور تھرتھرا کر کہنے لگا کہ مجھ سے بڑی خطا ھوئی۔ جو تم سے ھو سکے تو میری تقصیر معاف کرواؤ۔ کرتک نے کن انکھیوں سے دوتک کی طرف اشارہ کیا کہ اس کو میرے پاؤں پر ڈال دے۔ دوتک نے سنجوگ کا کان پکڑ کرتک کے پاؤں پر ڈالا۔ اُس نے کہا کہ اگر اپنی بھلائی چاھتا ھے تو میرے ساتھ بادشاہ کے حضور چل۔

بیل نے کہا "اگر مجھ کو حضور میں لے چلتا ھے تو میری جان بخشی کروانا۔" تب کرتک نے نہایت مہربانی سے اُس کی پیٹھ ٹھونک کر کہا کہ تو اپنے دل میں کچھ خطرا نہ کر کیوں کہ کیسی ھی سخت ھوا چلے پر کسی گھاس کو نہیں گراتی مگر بڑے درختوں کو؛ اس واسطے کہ گھاس نے جو اپنے تئیں پائے مال خلائق کا کیا ھے، اسی عاجزی اور انکساری کی برکت اسے صحیح و سلامت رھتی ھے اور درخت اپنے تئیں بڑا جانتے ھیں، اسی سبب جڑ سے اکھڑ پڑتے ھیں۔ سن اے بیل! بادشاھوں کا بھی وھی خواص ھے۔ تو بھی جو اس غریبی سے میرے ساتھ بادشاہ کے روبرو جاوے گا تو نہایت سرفراز ھو گا۔

جب بادشاہ کی ڈیوڑھی کے نزدیک پہنچے، تب اُس کو دروازے پر کھڑا کر کے وہ دونوں بھائی بادشاہ کے حضور گئے اور آداب بادشاہی بجا لائے۔ شاہ نے پوچھا کہ جس کام کے واسطے تم گئے تھے، کچھ اُسے دریافت کیا کہ نہیں؟ دوتک نے عرض کی کہ خداوند! جیسا آپ نے فرمایا تھا اُس زیادہ دیکھنے میں آیا، لیکن اُس کو ھم ایک تقریب اور فریب کی ڈوری سے باندھ


110


لائے ھیں اور وہ قدم بوسی کی آرزو میں دروازے پر کھڑا ھے۔ شیر نہایت خوش ھو کر پھول بیٹھا اور کہا "لے آؤ۔" دونوں گیدڑ گئے اور ناتھ پکڑ کر اُسے حضور میں لے آئے اور مجرا کروایا۔ بادشاہ نے اُس کو مہربانی کا خلعت دیا اور اُس کے رھنے کے واسطے ایک جگہ مقرر کروا دی۔ وہ اُس میں رھنے لگا اور دوتک و کرتک کو روپے اشرفیوں کے توڑنے کے توڑے بخشے اور خدمت خزانچی گری کی کرتک کو دی۔ اور دونوں کو پاس بٹھلا کر پوچھا کہ کہو اس کو کیوں کر لائے؟ دوتک نے عرض کی "خداوند! میں نے اس کی ناک میں عقل کے نشتر سے سوراخ کیا اور نرم باتوں کی رسی سے ناتھ کر حضور میں پہنچایا۔ اور میں ھمیشہ جہاں پناہ کا کام جان و دل سے اس واسطے کرتا ھوں کہ خداوند روز بروز میرے حال پر مہربانی زیادہ فرماویں۔ اور اگر کوئی دشمن میری طرف سے پیر مرشد کے دل میں بدی ڈالے تو اغلب کہ غلام کی طرف سے خاطر مبارک میں گرد کدورت کی نہ بیٹھے اور شفقت میں تفاوت نہ آوے۔ جیسا کہ راج کنور اور بنیے کی دوستی میں ایک بڑھیا عورت نے ادنا حرکت سے جدائی ڈالی۔ شیر نے پوچھا "اُس کا قصہ کیوں کر تھا؟" دوتک نے کہا :

نقل کرپا کنور اور دھنپت چوپڑ باز کی
"میں نے یوں سنا ھے کہ دھولا گر ایک پہاڑ ھے۔ اُس کے نیچے ایک ندی بہتی ھے۔ پانی اُس کا صاف سفید کافور سے زیادہ خوش بو ھے۔ اُس کے کنارے پر ایک بوندی نام شہر بستا ھے۔ اُس شہر میں ایک راجا تھا کہ اُس کے باورچی خانے میں ھر روز سو من نمک خرچ ھوتا تھا؛ اس سے اور جنس کا اندازہ کیا چاھیے
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
صفحہ نمبر 126 سے 135

صفحہ نمبر 132

کہنے لگا کہ میں چلا آتا تھا، راہ میں ایک شیر ملا، اُس نے میرا پیچھا کیا، میں بھاگا اور پکار کے کہا کہ تو نہیں جانتا ہے کہ بادشاہ یہاں کا دردانت ہے؟ میں اُس کی خوراک ہوں، تو کون ہے کہ مجھے کھایا چاہتا ہے؟ بادشاہ سے نہیں ڈرتا اور اس کا خوف نہیں کرتا؟ تد (تب) وہ بولا کہ دردانت کیا چیز ہے اور اس کو اتنی طاقت کہاں کہ مجھ سے لڑے اور اب اس جنگل میں رہ سکے۔ تجھے میں نے اس واسطے چھوڑ دیا کہ تو جاکر اُسے خبر کرے۔ غریب پرور! میں نے آپ کو اطلاع کردی، آگے مختار ہیں۔ شیر اتنی بات سنتے ہی غصے سے جل گیا۔ کہنے لگا کہ تو مجھے اُس کا ٹھکانا بتلا دے۔ یہ آگے آگے شیر پیچھے پیچھے جاتے جاتے ایک ایسے جنگل میں لے گیا کہ جس میں ایک بڑا کوا (کنواں) تھا۔ اُس کنویں کے لب پر کھڑا ہوکر کہنے لگا کہ آپ کا دشمن اسی میں ہے۔ جیوں شیر نے کنویں کو جھانکا، تیوں اپنا عکس پانی میں دیکھا: جانا کہ وہ یہی ہے۔ غضب ناک ہوکر بھبکنے لگا اور ویسی آواز کنویں سے نکلنے لگی۔ شیر خفگی سے بول کر اُس کنویں میں کود پڑا اور پانی میں ڈوب کر مرگیا۔

پھر کوے نے کہا کہ اے مادہ! جس طرح اُس خرگوش نے اپنی عقل کے زور سے شیر کو مار کھپایا، اُسی طرح میں بھی اس سانپ کو ماردوں گا۔ مادہ نے کہا "اگر تجھ کو کچھ عقل ہے تو دیری نہ کر۔" کوا بولا "دانش مندوں نے یوں کہا ہے کہ جلدی میں کوئی کام اچھا نہیں ہوتا ہے:

جلدی نہ کر کہ کام ہے موقوف وقت پر
سارا انار تڑکے ہے وقت آئے ہے اگر

ان شاءاللہ تعالیٰ آج تو میں اپنے دل سے مصلحت کرتا ہوں،
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
صفحہ نمبر 126 سے 135

صفحہ نمبر 133

کل اپنا کام کروں گا۔" مادہ نے کہا "اے کوے! جس کو جو کام کرنا ضرور ہوا اور اُس سے وہ ہوسکتا ہو اور وہ کہے کہ آج نہیں کل کروں گا، اُس سا دوسرا کوئی دنیا میں نادان نہیں۔ اس واسطے بہ مثل لائے ہیں "شب حاملہ فردا چہ زاید۔" کوا یہ بات سن کر چیت گیا۔ وہ بولی "مناسب یوں ہے کہ ابھی تو یہاں سے جا اور سانپ کے مارنے کی تدبیر کر کیوں کہ وہ ہمارا جانی دشمن ہے۔"

کوا جو اُڑا تو وہاں کے بادشاہ کے رنگ محل پر جا بیٹھا۔ اتفاقاً اُس وقت بادشاہ کی بیٹی غسل کرتی تھی اور اپنا نولکھا ہار موتیوں کا گلے سے اُتار کر کھونٹی پر لٹکا دیا تھا۔ کوا اُس ہار کو اپنی چونچ میں لے کر کوٹھے کی مُنڈیر پر جا بیٹھا۔ لونڈیوں نے غُل مچا کر کہا کہ شہزادی کا ہار کوا اٹھا لے گیا اور کوٹھے پر جا بیٹھا۔ اس بات کے سنتے ہی بادشاہ نے لوگوں کو دوڑایا کہ خبردار! ہار جانے نہ پاوے۔

جب کوے نے دیکھا کہ ایک خلقت میرے گرد جمع ہوئی، تب وہ وہاں سے آہستے آہستے اڑتا ہوا اپنے گھونسلے کی طرف چلا۔ جتنے آدمی جمع ہوئے تھے، سو سب اُس کے پیچھے پیچھے ھاں ھاں کرتے دوڑے۔ وہ اُس درخت پر جا بیٹھا جس میں وہ سانپ تھا اور وہ لوگ بھی اُس کے نیچے جا کھڑے ہوئے۔ اور آدمیوں کے شور و غُل سے سانپ درخت پر چڑھ گیا اور کوے کے گھونسلے میں جا چھپا۔ تب کوے نے غنیمت جان کر وہ ہار سانپ کے گلے میں ڈالا اور آپ دوسرے درخت پر جا بیٹھا۔ دو چار آدمی وہ ہار اتارنے کو آن میں درخت پر چڑھ گئے۔ وہاں جا کر کیا دیکھتے ہیں کہ ہار سانپ کے گلے میں پڑا ہے اور وہ اُن کو دیکھ کر اپنا سر اُٹھا کر چاروں طرف پھنکاری مارنے لگا۔ وے لوگ
 
آخری تدوین:

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
صفحہ نمبر 126 سے 135

صفحہ نمبر 134

اُس کے ڈر سے ہار نہ لے سکے اور نیچے اُتر آئے اور لوگوں سے کہنے لگے کہ ہار سانپ کے گلے میں پڑا ہے۔ وہ غصے سے پھنکاری مار رہا ہے، ہمارا ھسواؤ نہیں پڑتا جو اُس کے گلے سے اُتاریں۔ تب انہوں نے بڑھئی کو بلوایا اور وہ پیڑ جڑ سے کٹوایا۔ سانپ کو مارا ہار بادشاہ کے پاس لے آئے۔"

پھر دوتک نے کہا "بھائی! کوے نے سانپ مارا اور خرگوش نے شیر۔ یہ بیل کیا چیز ہے جو میں اپنی عقل سے اُس کو نہ مار سکوں گا۔" کرتک نے کہا "اے دوتک! اگر تجھ کو مارنے کی طاقت ہے تو جا اس کام میں غفلت نہ کر۔"

دوتک نے جب کرتک کی زبان پائی تو تنہا سنجوگ کو بُلا کر جھوٹ موٹ کہنے لگا کہ مجھے بادشاہ نے کہا ہے کہ تو سنجوگ کو جا کر کہہ دے کہ سرکار بادشاہی میں فوج کم ہے اور خزانہ بہت۔ تو لشکر رکھنے کی ایسی فکر کر کہ کسی کو خبر نہ ہو اور سپاہ رکھی جاوے۔ سنجوگ نے اُس کی بات پر اعتماد کرکے دروازہ خزانے کا کھولا اور سپاہ رکھنے لگا۔

جب دوتک نے دیکھا کہ سنجوگ نے فوج رکھنے کے پیچھے سارا خزانہ بادشای صرف کیا، تب شیر کے پاس جاکر آداب بجا لایا اور اپنے پائے پر کھڑا ہوکر عرض کرنے لگا کہ جہاں پناہ! ان دنوں کچھ عجائب تماشا نظر آتا ہے، ہر جناب عالی کے رُو بُرو عرض نہیں کرسکتا ہوں کیوں کہ بزرگوں نے کہا کہ جو کوئی بِن بلائے کسی کے گھر جاوے یا بِن پوچھے بات کہے تو اُس کے برابر کوئی احمق نہیں۔ لیکن میں ڈرتا ہوں کہ میرا وہ حال نہ ہو جو اُستاد سے شاگرد کا ہوا۔ شیر نے پوچھا "وہ قصہ کیوں کر ہے؟" دوتک کہنے لگا:
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
صفحہ نمبر 126 سے 135

صفحہ نمبر 135

نقل اُستاد اور شاگردی

"میں نے یوں سنا ہے کہ لکھنوتی ایک بستی ہے۔ وہاں کسی معلم سے ایک لڑکا پڑھتا تھا اور میاں جی اُس کا افیمی۔ جب افیم اُتر جاتی اُسے نیند آتی اور اونگھنے لگتا۔ اگر اُس حالت میں کوئی اُسے کچھ کہتا یا شاگرد کوئی لفظ سبق کا پوچھتا تو خفا ہوکر شاگرد کو خوب مارتا اور کہتا کہ اے بے وقوف! اول مکتب میں ادب سیکھا چاہے کہ جس کے باعث بہت سے کام نکلتے ہیں۔ غرض ہر روز شاگرد کو بھی تاکید کیا کرتا تھا کہ اگر پھر کبھی بغیر پوچھے مجھ سے کوئی بات کی یا مجھے سوتے سے جگایا تو مارتے مارتے مار ڈالوں گا۔ شاگرد نے توبہ کی کہ پھر ہرگز ایسا کام نہ کروں گا۔

ایک دن رات کو چراغ اپنے سامنے رکھ کر اُسی شاگرد کو پڑھا رہا تھا۔ اتنے میں اُسے چھینک جو آئی تو شملہ اُس کا چراغ کی ٹیم پر جا پڑا اور پگڑی جلنے لگی۔ گرمی جو اُس کو پہنچی تو چونک کر شاگرد سے کہنے لگا کہ اے بدذات! تو دیکھتا تھا کہ پگڑی میری جلتی تھی، مجھے کیوں نہ جگادیا؟ یہ کہہ کر اُس کو بہت سا مارا۔ اُس نے رو رو کر کہا کہ آپ ہی نے مجھے منع کیا تھا، سونے کے وقت مجھے مت جگائیو اور بے پوچھے بزرگوں کی بات میں نہ بولیو کہ بے ادبی ہے۔ اس واسطے میں نے آپ کو نہ جگایا۔ آخوند جی نے کہ کہا کہ لاحول ولا قوۃ۔ میں نے اس بات کو منع نہیں کیا تھا کہ کسی کا نقصان اپنے سامنے ہو، وہ اُسے خبر نہ کرے اور بیٹھا دیکھا کرے۔"

پھر دوتک نے کہا کہ خداوند! میرا اور آپ کا قصہ اُس استاد اور شاگرد کا سا ہے۔ اگر کہوں تو بے ادبی، جو نہ کہوں تو سرکار کا نقصان ہے۔ بادشاہ نے فرمایا کہ میں نے تجھے
 

الشفاء

لائبریرین
صفحہ نمبر192 سے صفحہ نمبر196۔

---------
صفحہ192
---------
اور ساری سپاہ قاز کی متفرق ھوئی؛ اب کوئی دم میں قلعہ بھی فتح ھو جاتا ھے۔
القصہ اُس کے درمیان ایسی لڑائی ھوئی کہ طرفین کے بہت سردار اور سپاھی کام آئے۔ آخر غلبہ ھُدھُد کی فوج کا ھوا اور قاز کی سپاہ ھر طرف پریشان ھوئی اور تھوڑے سے لوگ قاز کے پاس رہ گئے۔
قاز نے جانا کہ اب قدرت لڑنے کی میں اپنے میں نہیں پاتا اور فوج کا بھی رخ پھر گیا اور صدمے سے لڑائی کے کسی کو پھر حریف سے مقابلے کی تاب و طاقت باقی نہ رھی۔ ناچار ھو کر کلنگ کو بلایا اور کہا "اے کوتوال! میں نے خوب معلوم کیا ھے کہ طالع میرے پھر گئے اور مجھ کو اتنی امید نہیں کہ یہاں سے اب پھر کر سلامت جا سکوں گا۔ میں یہ چاھتا ھوں کہ تو نوکر نمک حلال ھے۔ کسی طرح خیرو عافیت سے اپنی جان لے کر نکل جا؛ لیکن یہاں سرخاب سے پہلے صلاح لے، پھر وھاں جا کر میرے بڑے بیٹے کو اس ملک کا بادشاہ کر کہ ھمارے گھر میں سلطنت قائم رھے۔ اور میں جانتا ھوں کہ سوائے تیرے اتنا بڑا کام کسو سے ھر گز نہ ھو سکے گا۔ "
کلنگ بولا " اے بادشاہ ! تم یہ بات اپنی زبان مبارک سے نہ نکالو، اس کے سننے سے میری چھاتی پھٹتی ھے۔ جب تلک جان میرے تن میں ھے، تب تک کسی کی طاقت ایسی نہیں کہ تم پر آ کر حملہ کرے۔ میں تم سے ولی نعمت کو اکیلا چھوڑ کر کدھر جاؤں۔ سرخ روئی میری اسی میں ھے کہ میرا سر آپ کے قدموں کے نیچے گرے اور یہی میری عین سعادت ھے۔" بادشاہ نے کہا " اے کلنگ! میں جو تجھ کو کہتا ھوں سو کر۔ تیرے سوائے میرا ایسا کوئی خیر خواہ اور کارگزار دوسرا نہیں۔" کلنگ
-------
صفحہ 193
-------
اپنے دل میں سمجھا کہ خداوند اپنی مہربانی سے مجھ کو لڑائی کے میدان سے نکالا چاھتے ھیں، اور یہ شرط نمک حلالی کی نہیں کہ بادشاہ کو میدان میں اکیلا چھوڑ کر میں چلا جاؤں۔ مناسب یوں ھے کہ کسی حیلے جہاں پناہ کو اس خیال سے باز رکھوں۔
یہ فکر کر کے کہا " پیرُمرشد! اگر میں اپنے لوگوں کو چھوڑ کر جاؤں تو خلق مجھ کو نامرد کہے گی کہ اس گاڑھ میں اور ایسے برے وقت میں بادشاہ اور اپنے یاروں کو جی کی نامردی سے چھوڑ کر چلا گیا، میری اس میں رسوائی ھو گی۔ جب تک جیتا ھوں کہیں نہ جاؤں گا۔ یہ بات قاز نے سن کر سرخاب سے کہا کہ کلنگ کی وہ صورت ھے جیسے پانی اور کیچڑ آپس میں بے نفاق محبت رکھتےھیں۔ جب تلک پانی کیچڑ کے اوپر ھے تب تک ھمیشہ وہ اُس کے نیچے ھے، جس وقت پانی اُس کے اوپر سے خشک ھو جاوے، تب وہ گارا اُس کی جدائی سے چھاتی پھٹ کر رہ جاتا ھے۔
اسی گفت گو میں تھے کہ ناگاہ خُروس ھُدھُد کی طرف سے بجلی کی طرح کڑک کر پہنچا اور آتے ھی قاز پر تلوار چلائی۔ کلنگ نے اُس وار کو اپنے پر لے کر نیزہ اُس کی چھاتی پر مارا۔ ان نے اُس کی انّی کی چوٹ کو رد کر کے پھر کلنگ پر حربہ کیا اور آپس میں اُن دونوں سے ایسی لڑائی ھونے لگی کہ شور زمین سے آسمان تک پہنچا۔ آخر کلنگ خروس کے ھاتھ سے مارا پڑا۔ تب بادشاہ بہت رویا اور اُس کی مغفرت خدا سے چاھی اور آپ وھاں سے کشتی میں سوار ھو بھاگ کر اپنے وطن کو صحیح سلامت پہنچا۔
اور ھُدھُد قاز کے بھاگنے کی خبر سن کر نہایت خوش ھوا اور اُس فتح کو غنیمت جان کر خدا کا شکر کیا۔ اور نقارے فتح کے اور شادیانے خوشی کے بجوائے۔ اور کہنے
-------
صفحہ 194
-------
لگا کہ جیسی مردانگی اور نمک حلالی کلنگ نے کی، ایسی کم کسو سے ھوتی ھے اور اُس کو بڑا ثواب ملے گا؛ کس واسطے کہ جو کوئی خاوند (خداوند) کے حقِ نمک پر جان اپنی فدا کرے تو رتبہ اُس کا آخرت میں غازیوں کا ھو گا اور جنت میں حورو قصور اُس کو نصیب ھوں گے۔ اور جو کوئی کلنگ کا سا کام کرے گا وھی جواں مرد اور سپہ سالار ھو گا۔"
جب یہ حکایت تمام ھوئی ، تب بشن سرما برھمن کہنے لگا " اے راجا کے بیٹو! جو کوئی اس نقل کو اپنے من کے کانوں اور ھئے کی آنکھوں سے سنے اور دیکھے تو وہ بڑا سیانا اور گنونت ھووے اور بیریوں کے سروں کو بدھ کے کھانڈے سے کاٹ گراوے۔"
اس حکایت کے سنّے (سننے) سے راجا کے بیٹے بہت خوش ھوئے اور پوچھا " اے برھمن! چوتھی حکایت ملاپ کی دشمنی سے پہلے یا لڑائی کے پیچھے ھو، کیوں کر ھے؟"
وہ کہنے لگا کہ یوں سنا ھے کہ قاز بادشاہ اور سرخاب وزیر لشکر سے اپنے پراگندہ تھے۔ قاز نے سرخاب سے پوچھا کہ تو کچھ جانتا ھے کہ قلعے سے آگ کیوں کر اُٹھی؟ سرخاب نے جواب دیا " اے بادشاہ! کوّا ھمیشہ فوج کے ساتھ رھتا تھا۔ یہ کام اُسی کا ھے، اور میں نے اس سے آگے ھی التماس کیا تھا کہ کوّے کو جگہ نہ دیا چاھیے۔" قاز نے کہا " نہ یہ خطا تیری عقل کی ھے، نہ دوس کوّے کا بلکہ قصور اپنے طالعوں کا ھے؛ جو کچھ کہ خواھش خدا ھو وھی ھوا چاھیے۔"
سرخاب نے کہا کہ جو کوئی دوست کی نصیحت نہ سنے ، اُس کی وھی حالت ھو گی جیسے کچھوے کی ھوئی۔ قاز نے پوچھا وہ قصہ کیوں کر ھے؟

-------
صفحہ195
-------
چوتھا باب
نقل دو قاز اور کچھوے اور مچھوے کی

سرخاب نے کہا " جالندھر کے دیس میں پدنام ایک ندی ھے۔ دو قاز وھاں برسوں سے رھتے تھے اور ایک کچھوا بھی اُسی ندی میں رھتا تھا اور اُس سے قازوں سے بڑی دوستی تھی۔ چاند نام ایک مچھوا اُس کے کناے یوں کہتا چلا جاتا تھا کہ کل اس میں جال ڈال کے سب مچھلیاں پکڑوں گا۔ مچھوے کی بات کچھوا اور دونوں قاز سن کر بہت ڈرے اور آپس میں صلاح کرنے لگے کہ اب کیا کیا چاھیے کہ اُس کے ھاتھوں سے کسی طرح جی بچے۔ قاز بولے کہ آج دن بھر دیکھ لو کہ ماھی گیر سچ بول گیا ھے کہ جھوٹ۔ کچھوا بولا " سنو یارو! اپنے کہے پر اگر وہ کل یہاں آن پہنچا، تم تو پرند ھو، اُڑ جاؤ گے اور میں اپنے میں اتنی طاقت نہیں دیکھتا جو اُس کے ھاتھوں سے بچوں۔ جیسا کہ بنیے کی جورو نے اپنے تئیں اور غلام کو مکر سے بچایا۔"
قازوں نے پوچھا کہ وہ قصہ کیوں کر ھے؟
نقل ایک کچھوے اور بنیائن اور غلام کی

کچھوا بولا کہ ایک کچھوے کو کوئی شکاری پکڑے لیے جاتا تھا۔ کسی بنیے کے لڑکے نے اپنے کھیلنے کے لیے اُسے مول لے لیا۔ دن کو اُس کے ساتھ کھیلا کرتا اور رات کو اُس کی ماں اُسے پانی کے گھڑے میں بند کر دیتی۔ اسی طرح جب
-------
196
-------
کئی دن گزرے ، ایک روز کیا ھوا کہ بنیے کی عورت ۔۔۔۔۔ (1) اپنے غلام کا منھ چومنے لگی۔
اتفاقاً بنیا اُس روز بے وقت دکان سے اپنے گھر میں آ نکلا اور نظر بنیے کی بنیائن پر جا پڑی۔ وہ سمجھی کہ میرا بھید اب اس پر کھل گیا۔ جلدی سے خاوند کے پاس دوڑی آئی اور غصے سے کہنے لگی کہ اس موئے غلام نے چھ ماشے کافور جو گھر میں رکھا ھوا تھا، سو چرا کر سب کھا لیا۔ اس کے منھ سے بُو آتی ھے۔ غلام رو کر کہنے لگا کہ مہاراج! اگر میں نے کھایا ھو تو مہا پاپی ھوں، پر یہ رنڈی جھوٹ موٹ مجھے دوکھ لگاتی ھے۔ جس گھر میں ایسی جھوٹی استری ھو اُس میں کوئی غریب کیوں کر رھنے پائے گا۔؛ تب بنیے نے بھی غلام کا منھ سونگھا پر اُس کی بُو باس نہ پائی، تب جھنجھلا کر عورت سے کہنے لگا کہ تونے سارا کافور اپنے پِتا کے گھر بھجوا دیا اور غلام کو طوفان لگایا۔
وہ یہ سنتے ھی چڑچڑا اٹھی۔ وہ گھڑا کہ جس میں کچھوا تھا، دریا کی طرف سر پر رکھ کر لے چلی۔ اس میں مہاجن دل میں سوچا کہ تیہے کے مارے ندی میں ڈوبنے نہ چلی ھو۔ اُس کے پیچھے یہ بھی لپکا۔ ندی کے کنارے تک پہنچتے پہنچتے جا لیا اور اس کے ھاتھ پاؤں پڑ کر منانے لگا کہ مجھ سے چوک ھوئی، جانے دے اور اُسے کھینچ کر گھر کی طرف لانے لگا۔ وہ غصے سے ھاتھ جھٹک کر اپنے تئیں چھڑانے لگی۔ اُس کھینچا کھینچی میں سر پر سے گھڑا گر کر پھوٹ گیا اور کچھوا پانی چھوٹ گیا۔

(1)۔ یہاں سےکچھ عبارت حذف کر دی گئی ھے۔

-----------------------------

صفحہ نمبر 192 سے صفحہ نمبر 196
-----------------------------
 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
صفحہ 111 سے 115
ص 111

کہ کتنی کچھ خرچ هوتی هوگی ۔ اُس کے ایک لڑکا تھا ۔ نام اُس کا کرپا کنور - نہایت شفقت سے ُس کو کبھی اپنے پاس جدا نہ کرتا ۔ جو حرکت اُس سے هوتی اس کے نزدیک خوش آیند تھی اور اُس کا دل کسی بات سے آزرده نہ کرتا۔ ایک دن اُس لڑکے نے اپنے خدمت گاروں سے پوچھا کہ کوئی اچھا چوپڑ باز اس شہر میں هے ؟ انھوں نے عرض کی کہ دهنپت نام ایک بنیے کا بیٹا خوب کھیلتا ہے ۔ اگر حكم هو تواُس کو لاویں - کہا ”جلد لاؤ۔“ تب لوگوں نے بقال کی ڈیوڑھی پر جا کر دستک دی ۔ وہ گھر میں سے

نکلا اور کنور کے لوگوں کو اپنے دروازے پر دیکھ کر ڈرا اور پوچھا کہ تم یہاں کیوں آئے هو؟ انہوں نے کہا تم هرگز اپنے دل میں چنتا نہ کرو ۔ راج کنور نے تم کو چوسر کھیلنے کو بلایا هے ۔ دھنپت جڑاؤ چوسر سونے روپے کی نردوں سمیت اور کچھ جواهر بیش قیمت اپنے

ساتھ لے کر اُس کے پاس حاضر ھوا اور اُس کی خوب صورتی دیکھ کر بہت خوش هوا اور سلام کر کے اُس جواهر میں سےکچھ اُس کو نذر گزرانا ۔ اُس نے اُس کی نذر قبول کر کے چوسر بچھوا کھیلنا شروع کیا ۔ بڑی دیر تک کھیلا کیے ، پر برابر سرابر هي رہے ۔ جب وہ رخصت هو کر جانے لگا ، تب کنور نے ایک اشرفي اُس کو بہ طور انعام دے کر کہا ہه تو هر روز همارے

یہاں آیا کر۔ وه همیشه آتا اور چوسر کھیلا کرتا اور اشرفی روزاسی صورت سے لے جاتا ۔

اسی طرح بہت سے دن گزرے ۔ اُن دونوں میں یہاں تک

اخلاص ھوا کہ کنور بھی اُس کے گھر جانے لگا ۔ چناں چہ وہ دونوں آٹھ پہرایک ساتھ هی رهنے لگے ۔ اور وہ ایسا کھیل میں غرق هوا که کھانے پینے کی سُرت بھلا دی ، بلکه خبر گیری


ص 112

ملک و لشکر کی اور دیکھنا بھالنا ھا تھی گھوڑے مال خزانے کا ایک قلم دل اٹھا دیا ۔ جب يہ اطوار اپنے لڑکے کے راجا نے دیکھے ، تب اُس نے غم گین هو کر دیوان سے يه بات کہی کہ یہ لڑکا ملک کو برباد کر دے گا۔ کوئی ایسا شخص اس شہر میں هے کہ اس میں اور اُس لڑکے میں جدائی ڈال دے؟ دیوان نے تد بیر تو بہت سی کی کہ اُن دونوں کی دوستی میں خلل پڑے پر کچھ پیش رفت نہ گئ۔


بعد دو تین برس کے ایک عورت مكاره نے راجا کو آ کر

سلام کیا اور کہا کہ اگر مہاراج کہیں تو میں اُن دونوں میں

بات کہتے دشمنی ڈال دوں ۔ يه سن کر وہ بہت خوش هوا اور کہنے لگا ” یہ کام مشکل هے ، سچ کہو که کتنے عرصے میں کتنی محنت اور کس قدر روپے خرچ کرنے سے ھو سکے گا؟ “ بولی ” مہاراج ! جو کوئی دوستی اور نیکی کیا چاهے تو وه نہایت محنت و مشقت حاصل هوتی هے لیکن دوستوں میں دشمنی اور بدی ڈالنی بہت سہج ھے ۔“ پھر اُس نے کہا کہ تو یه کام کے دن میں کرے گی؟ وہ بولی کہ ایک پَل میں ۔ يه بات سن کر دل میں متعجب هوا اور ایک بیڑا دے کر بِدا (وداع) کیا ۔

یہ یہاں سے وهاں گئی جہاں وہ دونوں بیٹھے تھے اور سامنے اُن کے کھڑی هو کر بنیے کے بیٹے کی طرف آنکھ سے اور هاتھ سے بلایا ۔ وہ کنور کا منه دیکھنے لگا ۔ اُس نے کہا ” جاؤ دیکھو تو کیا کہتی ھے ۔“ وہ اُس کے پاس آیا ۔ کٹنی نے اُس کے کان کے پاس اپنا منہ لگا جھوٹ موٹ کُھسر پُھسر کررستا پکڑا - وہ بے چارہ کنور کے نزدیک پھر آ بیٹھا ۔ اُس نے پوچھا ” کہو بڑھيا تمهارے کان میں کیا کہہ گئی ؟ “ بقال بچے نے


ص113

قسم کھا کے کہا” کچھ نہیں ۔“

اسی رد و بدل میں دو چار گھڑی کا عرصه گزرا ۔ کنور نے کہا ”کیا برا وقت هے ، جو کوئی کسی کے حق میں بھلائی کرے تو گویا اپنے واسطے بُرائی ۔ وہ عورت میرے رو برو تجھ سے کچھ کہہ گئی اور تو مکرتا ہے ۔“ یہ کہہ کر اُس نے تیوری چڑھائی اور اُس سے علیحده هو کر اپنے لوگوں سے کہا کہ اس بڑھیا کو پکڑ لاؤ ، جو کچھ کہہ گئی ھے ، اُسی سے معلوم ہوگا ۔ اتنے میں وہ کٹنی پھر اُسی کے پاس آ بیٹھی ۔ نوکر چاکر جو اُس کے دوڑے تو اُس مکاره کو اُس کے پاس پکڑ لے گئے ۔ کنور نے پوچھا ” بڑھیا ! سچ کہہ تو کون ھے ؟ اُس نے کہا ” میں اُسی کے باپ کی قدیم نوکر هوں ۔ اُس نے مجھے بھیجا تھا کہ تو دهنپت کو جا کے آهستے سے پوچھ کہ کنور کو تو نے کھلایا کہ نہیں ؟ ،، اُس نے کُٹنی سے پوچھا ” وه کیا چیز ھے ؟“ وہ بولی که میں نہیں جانتی ، وہ شرینی یا کچھ اور کھانے کی چیز ہو گی۔

یہ سن کر اُسے تو رخصت کیا ، آپ من میں سوچنے لگا

کہ اگر اُس کے باپ نے کچھ اچھی چیز میرے کھانے کے واسطے کہی هوتی تو دهنپت مجھ سے هرگز نه چھپاتا اور اتنی قسمیں نہ کھاتا ۔ اب اس قرینے سے مجھے خوب معلوم هوا که سوائے زھر کے اور کوئ چیز کھلانے کو نہ کہی ھو گی ۔ یہ گمان اپنے دل میں لا کر غصے هوا ۔ اپنے نفروں سے کہا که بقال بچے کو میدان میں لے جا کر جلد گردن مارو تا کہ ایسے بُرے کا پھر کبھی میں منہ نہ دیکھوں ۔ تب اُنھوں نے اُس غریب کو وهاں لے جا کر نا حق ذبح کیا ۔“

جہان پناه ایسی ایسی باتوں سے مجھے کمال خطره هے کہ


ص 114

مبادا کوئی میرا بد خواہ کچھ جھوٹ موٹ تہمت لگاوے تو میرا بھی حال اُسی کا سا هووے ۔ پیر مرشد ! دانا وہ شخص هے کہ دشمن کے کہنے سے اپنے دوست کی بُرائی نہ چا هے اور بد خواه کو پہچانے اور اُس کے کہنے پر ہرگز عمل نہ کرے۔ “ شیر نے ھنس کر کہا ::

خدا نے لکھا جس کا جو سِن و سال

ڈسے سانپ اُس میں نہ کھاوے ببر

نہ پانی کا خطره نہ آتش کا خوف

پھر ے گونجتا بن میں جوں شیر نر


اے دوتک ! تو اپنے دل میں ہرگز کسی چیز کا اندیشہ نہ کر، اپنے کام سے ہر وقت ہوشیار خبردار ره ۔

غرض جب دوتک اور کرتک نے بادشاہ کے یہاں خلعتِ سرفرازی اور جان کی امان پائی ، رخصت هو کر خوشی سے بغلیں بجاتے ہوئے اپنے گھر کو آئے ۔ اسی طرح ایک مدت تک دونوں بھائی وزارت اور خزانچی گری کرتے رہے اور بادشاہ کی مہرباني اُن پر روز به روز زیاده هوتی رھی۔ سنجوگ رفتہ رفتہ اپنے درجے سے یہاں تک گرا کہ خدمت گاروں میں رھنے لگا . نہ بادشاہ اُس کو بُلائے ، نہ یہ حضور میں مُجرے کو جانے پاوے ، اس لیے نہایت مغموم رها کرے ۔

ایک دن پنڈ کرن بادشاہ کے بھائی نے چاها که میں شکار

کو جاؤں ۔ اتفاقاً اُس روز سنجو گ کہیں پاس کھڑا تھا۔ یہ

سنتے هی رُو برُو بادشاہ کے عرض کی که اتنا شكار كل آیا تھا ، کیا وہ سب خرچ هو چکا ۔ بادشاه نے فرمایا که اس کو دو تک اور کرتک جانے ۔ اُس نے پھر التماس کيا کہ حضرت ! اُس کو دریافت کیجیے کہ اس میں سے کچھ باقی هے کہ نہیں ۔ تب بادشاه



ص 115

مسکرا کر کہنے لگا که کل پر کیا موقوف هے ، هم هر روز شکار لاتے هیں ۔ جو همارے دن رات کے ناشتے اور کھانے سے بچتاھے ، دوتک کر تک لے جاتے ہیں ۔ کچھ آپ کھاتے ہیں ، کچھ فقیروں کو کھلاتے هیں ۔ وہ بولا کہ خداوند ! یہ بات خیر خواھی اور عقل سے بعید ھے کہ بدون حکم آپ کے لے جاویں اور بادشاہی خزانے میں کچھ پس انداز نہ کریں ۔ پیر مرشد ! نوکر ایسا چاہیے کہ خاصیت کوٹھی کی رکھے - وہ ایک ظرف ھے ، کچی مٹی سے بناتے ھیں ، اکثر اناج رکھنے کے لیے اُس میں ایک ہی بار بہت سا غلہ اوپر سے بھر کے بند کر دیتے ھیں اور تھوڑا تھوڑا موکھے کی راہ سے موافق احتیاج کے نکال نکال خرچ کرتے ہیں ۔ اور نوکر ایسا نہ چاهیے کہ جو کوئی اُسے اپنے گھر کا مختار کرے یا کچھ اسباب بہ طور امانت کے سونپے ، وہ اسے غفلت سے برباد دیوے ، یا کھو کھنڈا بیٹھے ، یا سب کا سب کھا جاوے ۔

خداوند ! خزانے کو بادشاہ اپنی جان کے برابر سمجهتے هیں کیوں که اگر خزانہ رھے تو لشکر بھی جمع هو سکتا هے، جو پیسا نہ هو تو فوج نه رھے ، اور فوج نہ هو تو ملک هاتھ سے نکل جاوے ۔ اور یه سخت عیوب هے کہ بادشاه خزانے کی خبرنہ لے ؛ کس واسطے کہ چار چیزیں خزانے کے حق میں زبوں هیں : ایک تو تھوڑی آمد بہت خرچ ، دوسرے غافل رهنا ، تیسرے آپ سے جدا رکھنا ، چوتھے لُوٹ کا مال خزانے میں داخل کرنا ۔

یہ بات سن کر پنڈ کرن نے بادشاہ کہا که دوتک اور

کرتک کو اپنے اپنے گھر کا بالفعل یہاں تک مختار کیا هے کہ تمام خزانہ اور لشکر اُن کے قابو میں ھے ۔ جو اسی طرح سے اُن کے هاتھ میں رکھو گے تو یقین ھے ایک دن وے سر اٹھاویں گے
 
آخری تدوین:

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
صفحہ نمبر 121 سے 125

صفحہ نمبر 121

کس حالت میں گرفتار ہوں۔ بھلا اُس کے پاس کیوں کر جاؤں۔ آج میرے خاوند نے مجھے مار کر اس ستون سے باندھا ہے، جو کھُلی ہوتی تو سر کے زور جاتی۔

نائن نے کہا "میں تجھے کھول دوں؟" وہ بولی "جو اس عرصے میں میرا شوہر جاگے اور کھنبھا خالی دیکھے تو خدا جانے اس سے زیادہ مجھے کیا اذیت دے۔" اُس نے کہا "خیر جو آج تو اُس کے پاس نہ جاوے گی تو کل اُسے جیتا نہ پاوے گی۔" اھیرنی بولی "جو تیری رضا مندی اسی میں ہے تو میں نے قبول کیا لیکن تو میرے بدل بندھی رہ اور جب لگ (تک) کہ میں وہاح سے نہ پھر آؤں، تب لگ (تک) ہرگز نہ بولنا۔" نائن نے اُسے کھول دیا، اس کی جگہ اپنے تئیں بندھوا لیا، وہ اپنے یار کنے گئی"۔

جب دو چار گھڑی رات باقی رہی تب اھیر چونکا تو اُٹھ کر اُس کو کھنبھے سے کھول ساتھ سُلا کر کہا کہ میں نے تیری تقصیر معاف کی اور تو بھی قسم کھا کہ پھر ایسا بُرا کام نہ کروں گی۔ کئی بار اُس نے یہی بات کہی۔ یہ سُن کر دم کھا رہی۔ دل میں سمجھی کہ اگر بولوں گی تو یہ پہچان جائے گا۔ میں شہر میں بدنام ہوجاؤں گی۔ اسی ڈر سے اپنی آواز اُسے نہ سنائی۔ گوالے نے جب دیکھا کہ یہ سوگند نہیں کھاتی، تب جانا کہ اس کے دل میں حرام زدگی بھری ہوئی ہے، یہ اُس کام سے باز نہ رہے گی۔ خفا ہوکر پھر اُسے کھنبھے سے کس کے باندھا اور ناک اُس کی کاٹ لی۔ اب چارپائی پر سو رہا۔

کھڑی دو ایک میں اھیرنی اپنے یار کے پاس سے آئی اور آہستہ آہستہ نائن سے پوچھنے لگی "کہو بی بی! میرے پیچھے تم پر کوئی حادثہ تو نہیں پہنچا؟" وہ بولی "کیا پوچھتی ہے۔
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
صفحہ نمبر 121 سے 125

صفحہ نمبر 122

تیری خاطر میری ناک کٹ گئی۔" اُسی وقت اُسے تو کھول دیا اور اپنے تئیں بندھوا لیا۔ یہ تو نکٹی ہوکر دل میں پچھتاتی ملولے کھاتی اپنے گھر چلی گئی۔ اُس کے پیچھے اھیر کی آنکھ کھلی اور پو بھی پھٹنے لگی۔ تب یہ کہنے لگا کہ اے ناہکار! تو نے اپنی بدکاری سے توبہ نہ کی اور ناک کٹوائی۔ وہ بولی "اگرچہ تو نے مجھ بے قصور پر زور و ظلم کیا لیکن تو دیکھ جو میں بھلے آدمی کی جنی اور نیک بخت ہوں تو رام کی کی دیا سے نکٹی نہ رہوں گی۔ میری ناک جیسی کی تیسی ہوجائے گی۔ اُس کی بات سنتے ہی وہ اُٹھا۔ ناک جوں کی توں دیکھ کر حیرت میں رہا۔ جی میں کہنے لگا کہ یہ عورت نیک زنوں سے ہے جو اس کی ناک کٹی ہوئی پھر درست ہوگئی۔ یہ سمجھ کر پٹکا گلے میں ڈال، اُس کے پاؤں پر گر، منتیں کرنے لگا اور اپنی تقصیر معاف کروائے۔ اور بولا کہ میں نے ناحق تجھے نہ کیہ دیا، یہ میری خطا معاف کر، پھر کبھی تیری اذیت کا روا دار نہ ہوں گا۔

یہ کہہ کر کندھوب نے کہا "اے یار! میں اُس اھیرنی کے مکر سے تو حیران تھا ہی، پھر دل میں یہ خیال کیا کہ اس نائن کا اب تماشا دیکھیے کہ وہ اپنے خاوند سے کیا بہانہ کرے گی۔ غرض میں منہ اندھیرے اُس کے گھر کی دیوار کے کونے لگ کر کھڑا ہورہا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ وہ حجاب باہر سے اپنے گھر میں آیا، آنگن میں کھڑا ہوکے اپنی عورت سے آئینہ مانگنے لگا۔ اُس نے پٹ کی اوٹ سے نہرنی ہاتھ بڑھا کر اُس کو پکڑادی۔ اُس نے کہا "میں آئینہ مانگتا ہوں، یہ لے اُسے لادے"۔ پھر اُسترہ لا دیا۔ اُس نے وہ اُس کے ہاتھ سے لے لیا اور خفا ہوکر کہا کہ کچھ تو دیوانی ہوئی ہے یا تو نے معجون کھائی ہے۔ میں آئینہ مانگتا ہوں تو کچھ کا کچھ لے کر آتی ہے۔ یہ کہہ کے پکار پکار کر
 
Top